از: مولانا اشرف عباس قاسمی
استاذ دارالعلوم دیوبند
استاذ عالی مرتبت، مخدوم گرامی قدر حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری کی وفات کی خبر جان کاہ نے قلب وجگر کو ہلاکر رکھ دیا، آج کئی دن کے بعد جب یہ سطریں لکھنے بیٹھا ہوں تو عجب بے کیفی اور اضطرابی کیفیت ہے۔#
آ! عندلیب مل کے کریں آہ وزاریاں
تو ہائے گل پکار میں پکاروں ہائے دل
اور یہ تنہا میرا حال نہیں؛ بلکہ حضرت والا کی جدائی سے دارالعلوم کے طلبہ واساتذہ بالخصوص آپ کے فیض یافتہ اساتذہ میں اب تک صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے، شاید ہی کسی اور حادثے پر قلب اتنا مضطرب ہواہو اور آنکھوں نے اتنے آنسو بہائے ہوں۔#
آج لیکن ہمنوا! سارا چمن ماتم میں ہے
شمعِ روشن بجھ گئی بزمِ سخن ماتم میں ہے
گزشتہ چار سالوں سے کبھی کبھار کے ناغے کے استثنا کے ساتھ مسلسل آپ کے فیض صحبت اور خاص شفقت وعنایت سے مستفید ہونے کا موقع ملتا رہا؛ لیکن میری محرومی رہی کہ اس حادثہ فاجعہ کے وقت میں دیوبند سے دور اپنے وطن دربھنگہ میں تھا اور تجہیز وتکفین میں شرکت کی حسرت بھی دل ہی میں رہ گئی، اگرچہ صرف ایک روز قبل حضرت والا نے فون کرکے خیریت دریافت کی اور ایک علمی کام کے سلسلے میں شدید تقاضا فرمایا اور میری طرف سے تکمیل کی یقین دہانی پر دعاؤں سے نوازتے ہوئے فون رکھ دیا؛ لیکن مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ سلام، سلامِ وداع ورخصت بھی ہے۔#
اب صبا سے کون پوچھے گا سکوت گل کا راز
کون سمجھے گا چمن میں نا لہ ٴ بلبل کا راز
بے مثال شخصیت
حضرت مولانا ریاست علی صاحب مردم گر اور عہد ساز شخص تھے، دارالعلوم دیوبند کے مسلک ومشرب، اس کی پاکیزہ روایات کے امین اور سلف کے بہترین جانشین تھے، علم وتقویٰ کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کے باوجود طبیعت کی سادگی، کمالِ تواضع، خردنوازی اور جذبہٴ شفقت نے آپ کو غیرمعمولی ہردل عزیزی اورمحبوبیت ومرجعیت عطا کردی تھی۔ آپ نسلوں کے مربی ومعلم رہے، دارالعلوم کی محبت آپ کے رگ وریشے میں پیوست تھی،اس کی خیرخواہی اور بقاء و استحکام کے لیے اپنی ساری صلاحیتیں اور توانائیاں وقف کررکھی تھیں، اس طرح آپ کی وفات دارالعلوم کی زریں روایات کی انتہا اور ایک عہد کا خاتمہ ہے۔
ذاتی تعلق
۱۹۹۹/ میں دارالعلوم دورہٴ حدیث شریف کے لیے حاضری ہوئی تو حدیث شریف کی مشہور کتاب سنن ابن ماجہ کی تدریس آپ سے متعلق تھی، اس طرح پہلی بار بلا واسطہ آپ سے کسبِ فیض کی سعادت حاصل ہوئی، صاف اور شستہ زبان استعمال کرتے، سوالات کے جوابات اس خوش اسلوبی کے ساتھ دیتے کہ طلبہ آپ کی حاضرجوابی اور غزارت علم سے خوب مستفید ہوتے؛ لیکن اس کے ساتھ ہی نہایت صاف گوئی سے کام لیتے اور ادعاءِ علم جیسے امراض سے کوسوں دورتھے، دورہٴ حدیث کے بعد ادب کے سال ”البلاغة الواضحہ“ پڑھنے کا موقع ملا تو ہمارے لیے علمی عملی کمالات کے مزید دریچے کھلتے اور تفہیم وتدریس کے نئے اسالیب سامنے آتے گئے، طلبہ کے ساتھ برتاؤ نہایت مشفقانہ تھا، آپ کی طرف سے درسگاہ کے تمام طلبہ کے لیے آم اور دودھ کی پرتکلف ضیافت اب تک یاد ہے۔
۲۰۰۱/ میں افتاء کی تکمیل کے بعد میں تدریس کے لیے جامعہ مظہر سعادت ہانسوٹ منتقل ہوگیا اور دس گیارہ سال وہاں مقیم رہا اس دوران ایک دو بار ہی خدمت میں حاضری ہوسکی۔
۲۰۱۳/ میں جب فضل ایزدی سے دارالعلوم دیوبند میں تدریس کے لیے انتخاب ہوا تو میں نے حاضرِ خدمت ہوکر حضرت والا کو اطلاع دی تو حضرت بے انتہا مسرور ہوئے اور دعاؤں سے نوازا اور دوسرے دن جب عصر بعد کی مجلس میں حاضر ہوا تو حضرت نے وہاں موجود اساتذہٴ دارالعلوم سے خود ہی وقیع الفاظ میں تعارف کرواکر مجھ جیسے دہقاں کی کلاہ کو آفتاب تک پہنچادیا۔ اس دوران حضرت مولانا – کشاف اصطلاحات الفنون – کی تصحیح ومراجعت کا کام جناب مولانا عارف جمیل کی معاونت سے انجام دے رہے تھے، بنیادی کام ہوچکا تھا، نظر ثانی کا کام چل رہا تھا کہ مولانا عارف جمیل صاحب پر شوریٰ کی جانب سے مجلہ” الداعی“ کی مساعدتِ تحریر کی اضافی ذمہ داری ڈال دی گئی جس کی بنا پر کشاف کے لیے وقت نکالنا دشوار ہوگیا اور ان کی جگہ حضرت نے مشورہ کرکے مجھے اس کام میں شامل فرمالیا۔ میں اسے فضلِ خداوندی اور توفیقِ ایزدی خیال کرتا ہوں کہ اس طرح مجھے اس عبقری شخصیت سے قریب رہنے اور ان کے تجربات وفیوضِ علمیہ سے مستفید ہونے کا موقع ملا، روزانہ چھٹے گھنٹے میں حضرت کی رہائش گاہ پر حاضری ہوتی، میں کشاف کے کمپوز شدہ صفحات پڑھتا اور حضرت کیسنجر کے قلمی نسخے سے جو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے آپ نے حاصل کررکھا تھا، ضروری تصحیح فرماتے اس کام کو اس قدر انہماک اور دلچسپی سے انجام دیتے کہ اس دوران کسی کا آجانا آپ کو گراں گزرتاتھا۔ اس طرح تصحیح کا یہ مرحلہ بھی بحمداللہ پورا ہوگیا۔
تصحیح کے اس کام میں ہلکی پھلکی معاونت کی وجہ سے حضرت کی خاص عنایت وشفقت حاصل رہی، کئی موقعوں پر خاص مہمانوں کے ساتھ اپنے دسترخوان پر مجھ ناچیز کو بھی مدعو فرمایا، مجھے اگر کہیں جانا ہوتا تو دارالعلوم سے اجازت لینے کے ساتھ حضرت کو بھی اطلاع کرنی ہوتی ورنہ فوراً حضرت کا فون آجاتا، حضرت زیادہ جلسے جلوس اور تقریری پروگراموں کے قائل نہیں تھے؛ اس لیے اس نسبت سے غیرحاضری کی اطلاع بہت محتاط انداز میں دیا کرتا تھا، حضرت میرے شفیق باپ کی طرح تھے اور وہ اپنی عظمتوں کے باوجود میرے نجی معاملات اور ذاتی امور میں بھی دلچسپی لیتے تھے۔
اوصاف و اخلاق
حضرت مولانا کی طبیعت میں استغناء وبے نیازی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی حتی الوسع اپنا کام خود کرنے کے عادی تھے، علالت اور پیرانہ سالی کے باوجود کسی طالب علم سے آپ نے جسمانی خدمت نہیں لی۔ ظاہری شان وشوکت کے مظاہر بھی پسند نہیں تھے، اگر کوئی آگے بڑھ کر آپ کے جوتے اٹھالیتا تو اسے فوراً آپ کی خفگی کا سامنا کرنا پڑتا، کوئی اگر مبالغہ آمیز گفتگو کرتا تو خاص انداز میں فرماتے اس میں سے کچھ فیصد کم کرلو، دارالعلوم میں عام حالات میں آپ نے صرف وہ عہدے قبول کیے جن کا تعلق تعلیم وتربیت سے بھی تھا، ورنہ عموماً عہدوں سے دور رہنے کی کوشش کرتے، ایک موقع پر جب مہتمم حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب نے جو آپ پر بہت اعتماد فرماتے اور آپ کو بھی ان سے تعلقِ خاطر تھا، نیابتِ اہتمام کا عہدہ قبول کرنے کے لیے کئی بار اصرار کیا؛ بلکہ ایک بار شوریٰ نے تجویز بھی پاس کردی؛ مگر آپ نے صاف کہہ دیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں دارالعلوم سے ہی مستعفی ہوجاؤں؟ حضرت کا یہ رنگ دیکھ کر مہتمم صاحب نے دوبارہ اس طرح پیش کش نہیں کی، عموماً طلبہ اور عام لوگوں کی طرف سے ہدایا قبول کرنے میں بڑا تأمل فرماتے، حتی الامکان اسفار سے گریز کرتے، حتی کہ بیرون ملک کے اسفار سے بھی بچنے کی کوشش کرتے ایک مرتبہ چند خاص اہلِ تعلق نے باصرار برطانیہ آنے کی دعوت دی اور سارے انتظامات مکمل کرلیے، آپ مقررہ تاریخ پر دہلی ایئرپورٹ پہنچ گئے، ایمیگریشن کا مرحلہ آیا تو وہاں تعینات افسر نے آپ سے معمول کاسوال کیا، برطانیہ کیوں جارہے ہیں؟ آپ نے نہایت سادگی اور کمالِ بے نیازی سے جواب دیا میں تو جانا ہی نہیں چاہتا دوستوں کے اصرار کی وجہ سے مجبور ہوں، آپ کوئی ایسا نشان لگادیجیے کہ مجھے بھی ایک عذر ہاتھ لگ جائے اور میں جانے سے بچ جاؤں، آپ کے اس جواب پر افسر دنگ رہ گیا اور چہرہ بغور دیکھنے کے بعد کہا، نہیں مولانا! میں آپ کو واپس نہیں کروں گا، آپ کو برطانیہ ضرور جانا ہے۔
آپ بڑے مہمان نواز تھے، دسترخوان بڑا وسیع تھا، طبیعت میں احتیاط غالب تھی، حقوق العباد کی ادائیگی کابڑا اہتمام فرماتے اور بسااوقات اپنا بڑے سے بڑا حق محض اللہ کے لیے چھوڑ دیا کرتے تھے، آبائی وطن حبیب والہ کی زمین کے ایک بڑے حصہ پر بعض لوگ ناجائز قبضہ کرکے بس گئے ہیں، ایک بار ایک بڑے وکیل صاحب نے آکر پیش کش کی کہ آپ مجھ سے پچاس لاکھ روپے لے لیں اور اس کا اختیار مجھے سونپ دیں ان کو بے دخل کرکے قبضہ کرنا میری ذمہ داری ہے، آپ نے یہ خطیر رقم قبول کرنے سے صاف منع کردیا اور وہاں موجود اپنے فرزندانِ گرامی سے فرمایا: اس فکر میں مت پڑو اور آخرت کے لیے رہنے دو۔
دارالعلوم کے طلبہ واساتذہ اور کارکنان میں آپ کو غیر معمولی عظمت حاصل تھی، آپ بھی تعلقات کو خوب نبھاتے تھے، جائز سفارش سے انکار نہیں کرتے تھے، متعلقین کے دکھ درد میں شریک ہوتے، بیماری کی اطلاع پاکر خود فون کرتے اور خیریت دریافت فرماتے تھے، کبار اساتذہٴ دارالعلوم اور حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم آپ کا بڑا لحاظ واکرام فرماتے اور اہم امور میں آپ سے مشورہ لیتے تھے۔
آپ کو اولاد واحفاد کا بھی بڑا خیال تھا، سال گزشتہ جب فرزندگرامی مولانا سعدان جامی علیل ہوئے اور ا ٓپریشن ناکام ہونے کی وجہ سے ان کی تکلیف بڑھی تو آپ کے اضطراب اور بے چینی میں بھی کافی اضافہ ہوگیا، اگرچہ اپنے آپ کو پرسکون ظاہر کرتے، پوتے مفتی عبداللہ حمدان کے بعد آپ کو دوسرے پوتے عزیزم شیبان سلّمہ کی بڑی فکر تھی، عزیزم کی تعلیم کے سلسلہ میں دسیوں بار متعلقہ اساتذہ سے ملاقات کی یا فون پر بات چیت کی۔
مجلس سونی ہوگئی
عصر کے بعد کی آپ کی مجلس ہمیشہ یاد رہے گی، موٴقر اساتذہ کا جمگھٹا ہوتا، علم ومعرفت کی باتیں ہوتیں اور لطائف وظرائف کی خوش گپیاں بھی، ملکی حالات زیربحث آتے اور دارالعلوم کے احوال وکوائف بھی، اس بزم مئے سے ہر رند کو بادہ کشی کی اجازت تھی، مجلس کو آپ گلِ گلزار بنانا بھی جانتے تھے اور اگر نامناسب رخ پر جانے لگے تو اس کو سنبھالنا بھی، آپ ہی میرِ مجلس ہوتے شرکاء مجلس کی چائے سے ضیافت فرماتے، کوئی تھوڑی دیر کے لیے آتا تو تازہ دم ہوکر واپس جاتا؛ لیکن آہ اب وہ مجلس سونی ہوگئی، علمِ بصیرت کی بساط الٹ گئی، وہ کیا گئے قیامت ڈھاگئے، اب روحانی ملاقات صرف مزارِقاسمی میں ہوسکے گی، اب وہ ہماری مجلس سے اٹھ کر اس جہاں کو آباد کرچکے، جہاں ہمارے گرم گرم آنسو بھی انھیں واپس نہیں لاسکتے اور وہ وہاں کے اعزار واکرام اور لامتناہی انعامات کو چھوڑ کر واپس بھی کیوں آنا چاہیں گے۔#
محفل سے اٹھ کے رونقِ محفل کہاں گئی
کھل ا ے ز با نِ شمع کہ ما جر ا کھلے
خدائے رحمن سدا آپ کو اپنی بے پایاں رحمتوں کی آغوش میں رکھیں۔#
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہٴ نورُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
—————————————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ8-9، جلد:101 ،ذی قعدہ-محرم 1438 ہجری مطابق اگست-ستمبر 2017ء