از: مفتی محمد مجیب الرحمن دیودرگی
خادم دارالعلوم دیودرگ
دینی مدارس کے سال کا آغازہے، ایسے میں ملک وبیرون ملک کے دینی مدارس میں ہزاروں طلبہ امام بخاری کی صحیح بخاری شریف پڑھیں گے، احادیث مبارکہ کے ورد کے ساتھ، سند اور متن پر کلام سماعت کریں گے، ہزاروں دفعہ امام بخاری کا تذکرہ آئے گا، ان کے اقوال ان کے ابواب پر بحث ومباحثہ ہوگا، مناسب محسوس ہوا کہ امام بخاری کی کچھ خصوصیات کا تذکرہ کیا جائے تاکہ فارغین مدارس ان کی ان قابل تقلید پہلووٴں کو اپنی زندگی میں اپنائیں۔جس کتاب کو پڑھ کر عالم کہلائیں گے اس کتاب کے مصنف کی زندگی بھی ہمارے سامنے رہے ، تاکہ خارجی زندگی میں انھیں اپنائیں اور اپنے لیے مشعل راہ بنائیں۔
حرام مال سے پرہیز
امام بخاری (متوفی ۲۵۶ھ)کے زمانے میں احادیث مبارکہ کی سیکڑوں کتابیں لکھی گئیں، کئی مصنفین ومحدثین کا اس زمانے میں دور دورہ تھا، ایک ایک محدث کے سیکڑوں شاگر ہوا کرتے تھے، ان سب کے باوجود جو قبولیت اللہ تعالیٰ نے امام بخاری اور ان کی کتاب کو نصیب فرمائی وہ دوسروں کے حصے میں نہیں آئی، اس کے اسباب ووجوہات پر نظر کرتے ہوئے علماء نے ارشاد فرمایا کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے والد بزرگوار نے اپنے بچے کے لیے حلال اور پاکیزہ غذا کا اہتمام کیا تھا، حرام اور مشتبہ مال سے اپنے اہل وعیال کی حفاظت فرمائی تھی، جس حلال کی برکت اتنے بڑے علمی کارنامے کے ذریعہ ظاہر ہوئی، بخاری شریف کو اصح الکتب بعد کتاب اللہ (قرآن کریم کے بعد صحیح ترین کتاب) کا درجہ حاصل ہوا ہے، انسان کے کارنامے کو یہ درجہ حاصل ہونا کوئی معمولی بات نہیں، علماء نے ارشاد فرمایا کہ اس درجے کے حاصل ہونے میں ان کے والد کا کھانے کے سلسلہ میں کمال احتیاط کو بڑا دخل ہے، جب کہ ان کے والد نے انتقال کے موقع پر اپنے کثیر مال کے تعلق سے ارشاد فرمایا تھا کہ ”لاأعلم من مالي درھما من حرام ولا درھما من شبھة“ (فتح الباری۱/۴۷۹) میرے مال میں کوئی درہم حرام تو درکنار شبہ کا بھی نہیں ہے، اسی لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر ایک اپنی آمدنی کے ذرائع پر نظر رکھے پاکیزہ اور طیب کی تلاش میں رہے اور حرام وناپاک مال سے اجتناب کرے۔
غیبت سے اجتناب
حدیث مبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی جو تعریف کی ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ وزبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں(مشکوة،ص:۱۲) اس لحاظ سے دوسرے مسلمان کو ہاتھ سے اذیت پہونچانا تو دشوار ہے؛ لیکن زبان سے اذیت دی جاسکتی ہے اور اس سے بچنا نہایت دشوار کُن مرحلہ ہے، اس میں بھی غیبت سے بچنا بہت ہی مشکل ہے، نیز ایسے موقع پر جب کہ مخالفین کی جانب سے زبان وقلم کے نشتر چلائے جارہے ہوں اور مخالفین نیچا دکھانے کے لیے ہر جانب سے کوشاں ہوں، اس کے باوجودحق پر زبان کی استقامت میں ذرہ برابر فرق نہ آنا یہ امام بخاری کی کرامت سے بڑھ کر ہے، امام بخاری نے فرمایا: ما اغتبت أحدا منذ علمت أن الغیبة حرام، وفي روایة لأرجو أن ألقی اللہ ولا یحاسبني أني اغتبت أحدا (فتح الباری۱/۴۸۰) جب سے مجھے غیبت کے حرام ہونے کا پتہ چلا تب سے میں نے کسی کی غیبت نہیں کی، ایک اور روایت میں یوں ہے کہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ سے میں اس حالت میں ملوں گا کہ اللہ تعالیٰ غیبت کے سلسلہ میں مجھ سے حساب نہیں لیں گے؛ کیوں کہ میں نے کسی کی غیبت نہیں کی، یہی وہ خصوصیت ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انھیں مقبولیت کا یہ مقام ومرتبہ نصیب فرمایا، غیبت کے سلسلہ میں جس قدر سخت وعیدیں قرآن وسنت میں وارد ہوئی ہیں اسی قدر اس میں ابتلاء بھی عام ہے، ایسے میں اپنی زبان پر قابو رکھنا اور مخالفین کے سلسلہ میں زبان کو ساکت رکھنا، اور دوسروں کا تذکرہ برائی سے نہ کرنا، یہ ایسی خصوصیت ہے کہ جس کی آج ہر عام وخاص، عالم وجاہل کو ضرورت ہے ۔
علمی وقار کی حفاظت
ایک مرتبہ امام بخاری دریائی سفر کررہے تھے کہ ایک ہزار اشرفیاں ان کے ساتھ تھیں، ایک شخص نے کمال نیاز مندی کا طریقہ اختیار کیا، اور امام بخاری کو اس پر اعتماد ہوگیا، اپنے احوال سے اس کو مطلع کیا، یہ بھی بتادیا کہ میرے پاس ایک ہزار اشرفیاں ہیں، ایک صبح کو جب وہ شخص اٹھا تو اس نے چیخنا شروع کیا اور کہنے لگا کہ میری ایک ہزار اشرفی کی تھیلی غائب ہے؛ چنانچہ جہاز والوں کی تلاشی شروع ہوئی، امام بخاری نے موقع پاکر چپکے سے وہ تھیلی دریا میں ڈال دیا، تلاشی کے باوجود وہ تھیلی دستیاب نہ ہوسکی تو لوگوں نے اسی کو ملامت کی، سفر کے اختتام پر وہ شخص امام بخاری سے پوچھتا ہے کہ آپ کی وہ اشرفیاں کہاں گئیں؟ امام صاحب نے فرمایا: میں نے ان کو دریا میں ڈال دیا، کہنے لگا اتنی بڑی رقم کو آپ نے ضائع کردیا؟ فرمایا کہ میری زندگی کی اصل کمائی تو ثقاہت کی دولت ہے چند اشرفیوں کے عوض میں اس کو کیسے تباہ کرسکتا تھا(مقدمہ کشف الباری، ص: ۱۳۲ بحوالہ آفتاب بخارا ۱۱۸)
غور کیجیے! امام بخاری نے علمی وقار کی حفاظت کی خاطر اپنے کثیر مال کو ضائع کرنا پسند کیا، ثقاہت پر ادنیٰ آنچ آئے اور ان کی ثقاہت پر حرف گیری کی جائے، اسے برداشت نہیں کیا، آج اللہ نے ہمیں بھی علم کی دولت سے نوازا ہے، علم کے نور سے منور فرمایا ہے اسی علم کی دستار ہمارے سرپر لپیٹی گئی ہے، انھیں کی کتاب پڑھ کر ہم فارغ ہورہے ہیں تو مال کی خاطر دولت کی لالچ میں علمی وقار کا سودا نہ کریں، فانی دولت کے لیے مال داروں کے سامنے اپنے آپ کو رسوا وذلیل نہ کریں جس سے ہمارا علمی وقار مجروح ہوجائے، نیز طلبائے کرام کے ساتھ شفقت کا یہ عالم ہوتا کہ امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں: وکان قلیلَ الأکلِ جدًا، کثیرَ الاحسان إلی الطلبةِ مُفْرِطَ الکرم (فتح الباری ۱/۴۸۱) آپ کی غذا بہت کم تھی اور طلبہ پر بہت زیادہ احسان وکرم فرماتے تھے، یہ امام بخاری کی خاص صفت بخاری پڑھے ہوئے اساتذہ کرام کو اپنانا چاہیے اور طلبہ کو اپنا غلام یا نوکر سمجھنے کے بجائے ان پر احسان وکرم کا معاملہ کریں؛ اس لیے یہ طلبہ اساتذہ کے لیے دو طرح سے محسن ہیں، ایک تو یہ کہ انھیں کے طفیل دنیا میں روزی ملتی ہے اور انھیں کے ذریعہ آخرت کی سرخروئی نصیب ہوگی، یہ طلبہ ہمارے علوم کے محافظ اور ناشر بنیں گے، انھیں کے واسطے سے ہمارا فیض عالم میں پہونچے گا، طلبہ کے ساتھ ترش روئی ونازیبارویہ خود اپنے ہی پیر پر کلہاڑی مارلینے کے مترادف ہے، غور کیجیے! امیر الموٴمنین فی الحدیث جب طلبہ کے ساتھ احسان وشفقت کا معاملہ کرسکتے ہیں جن کے شاگردون کی تعداد ہزاروں میں ہے تو ہمیں تو ضرور کرنا چاہیے!
امام بخاری کی نماز
نماز بندہٴ مومن کی معرا ج ہے، اللہ تعالیٰ سے قرب الٰہی کا ذریعہ ہے، صحابہٴ کرام کی حالت، نماز میں ایسی ہوتی کہ گویا کہ وہ خشک لکڑی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز سے اتنا لگاوٴ تھا کہ عبادت کرتے ہوے پائے مبارک پر ورم آجاتا؛ بلکہ پھٹ جاتا، کوئی ادنیٰ سا معاملہ پیش آتا تو نماز کی طرف متوجہ ہوجاتے، اسی نماز کے تعلق سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث جبرئیل میں تعلیم دی کہ أن تعبد اللہ کأنک تراہ فإن لم تکن تراہ فإنہ یراک (مشکوة، ص:۱۱) نماز میں اتنا استحضار پیدا کرو کہ نماز میں یہ تصور قائم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کو تم دیکھ رہے ہو، اگر یہ نہ ہو توکم ازکم یہ تصور تو قائم کرو کہ اللہ تعالیٰ تم کو دیکھ رہے ہیں، اس سے تمہاری عبادتوں میں احسانی کیفیت حاصل ہوگی، امام بخاری کی نماز کیسی احسانی کیفیت سے معمور تھی ، آپ اس واقعہ سے اندازہ لگایئے کہ ایک دفعہ آپ نماز پڑھ رہے تھے بھڑنے آپ کے جسم پر سترہ دفع کاٹا، جب آپ نے نماز پوری کی تو کہا کہ دیکھو کونسی چیز ہے جس نے مجھے نماز میں تکلیف دی ہے، شاگردوں نے دیکھا تو بھڑ تھی جس کے کاٹنے سے ورم آگیا تھا، آپ سے جلدی نماز ختم کرنے کی بات کہی گئی تو فرمایا کہ میں جس سورت کی تلاوت کررہا تھا اس کے ختم کرنے سے قبل نماز ختم کرنا نہیں چاہ رہا تھا۔(فتح الباری ۱/۴۸۱)
امام بخاری کا مجاہدہ
شاعر کہتا ہے :
بِقَدْرِ الکَدِّ تُکْتَسَبُ المعالي – فَمَنْ طَلَبَ العُلٰی سَھِرَ اللَّیَالِيْ
محنت کے بقدر بلند یاں نصیب ہوتی ہیں، نیز جو بلندیاں چاہے وہ راتوں کو جاگا کرے، محنت کی جو بھی شکل ہو امام بخاری اسے اپنانے سے ہرگز گریز نہیں کرتے تھے، علم کے لیے مجاہدہ کی بابت امام محمد بن ابی حاتم ور ا ق بیان کرتے ہیں کہ بسا ا وقات دورانِ سفر امام بخاری کے ساتھ ایک ہی کمرہ میں رات گذرتی تھی، میں دیکھتا ہوں کہ رات کو پندرہ بیس دفعہ اٹھتے ہیں، ہر دفعہ چراغ جلا کر حدیث پر نشان لگاتے ہیں، پھر نماز تہجد ادا کرتے ہیں اور مجھے کبھی نہیں اٹھاتے ، میں نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ آپ اس قدر مشقت برداشت کرتے ہیں آپ مجھے اٹھالیا کریں، امام صاحب نے فرمایا: تم جوان آدمی ہو میں تمھاری نیند خراب کرنا نہیں چاہتا۔ (سیر اعلام النبلاء ۱۲/۴۰۴ بحوالہ آفتاب بخارا ۱۲۰)
آپ کے طعام کا تذکرہ کرتے ہوئے ابن حجر عسقلانی نے فرمایا، وکان قلیل الأکل جدا، آپ کی خوراک بہت ہی کم تھی، بہت زیادہ مجاہدہ کھانے کے اعتبار سے برداشت کرتے تھے، امام بخاری کا قارورہ جب معائنے کے لیے اطباء کے پاس پیش کیا گیا تو اطباء نے دیکھ کر کہا کہ یہ ان لوگوں کے قارورے کی طرح ہے جو سالن کا استعمال نہیں کرتے، امام بخاری نے فرمایا: ہاں بات صحیح ہے، میں نے چالیس سال سے شوربا استعمال نہیں کیا، اس کے علاج کے بارے میں پوچھا گیا تو اطباء نے کہا کہ اس کا علاج شوربا استعمال کرنا ہے، امام بخاری نے انکار کیا حتی کہ مشائخ واہل علم نے بہت ہی زیادہ التجا کی تو رو ٹی کے ساتھ شکر استعمال کرنے لگے(فتح الباری ۱/۴۸۱) یہی وہ مجاہدات ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے امام بخاری کو قابلِ رشک بلندیاں نصیب فرمائیں۔
امام بخاری کا رمضان
رمضان کی پہلی رات میں اپنے ساتھیوں کو جمع کرتے ان کی امامت فرماتے، ہر رکعت میں بیس آیتوں کی تلاوت کرتے، نیز اسی ترتیب پر قرآن ختم فرماتے، ہر دن سحری تک قرآن کریم کا ایک تہائی حصہ تلاوت فرماتے، اس طرح تین رات میں تلاوت کرتے ہوئے قرآن ختم فرماتے، نیز رمضان کے ہر دن میں ایک دفعہ قرآن کریم ختم فرماتے، اور ہر مرتبہ ختم کرتے ہوئے دعا کا اہتمام کرتے (فتح الباری ۱/۴۸۱) گویا رمضان کا مہینہ امام بخاری کے یہاں تلاوت کا مہینہ ہوا کرتا، صبح وشام رات بھر تلاوت کا خا ص شغف واہتمام ہوا کرتا۔
نیز ابتلاء آزمائش، تکالیف، مصیبتیں، امتحانات، انبیاء کرام علیہم الصلاة کو زیادہ پیش آئے ہیں، پھر جو شخص ان کے زیادہ قریب ہوتا ہے اسے بھی ابتلاء وآزمائش میں ڈالا جاتا ہے، امام بخاری کو بھی اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے امتحانات میں ڈالا، کئی مرتبہ آپ کو جلا وطنی کی زندگی گذارنی پڑی، معاصر علماء کرام میں سے کئی ایک نے موقع بموقع آپ پر اعتراضات کیے اور آپ کے خلاف زبان درازی کا طویل سلسلہ جاری رکھا، امیروں اور حاکموں نے الگ طوفان کھڑا کیا، ان سب کے باوجود آپ نے اپنی زیان پر شکایت کے حروف نہیں لائے، اخیر میں سمرقند جانے کا ارادہ کیا تو روک دیا گیا، خرتنگ نامی چھوٹی سی جگہ میں امیر الموٴمنین فی الحدیث ابدی نیند سوگئے؛ لیکن ان تکالیف ومصیبتوں کو جھیل کر کسی کی بھی غیبت میں اپنی زبان کو ملوث نہیں کیا، علوم دینیہ کے حصول میں مشغول رہنے والوں کے لیے ایک بہترین سبق ہے کہ وہ امام بخاری کے تحمل اور دوسرے اوصاف کو ا پنی زندگی کا جزولا ینفک بنالیں تب ہی جاکر کوئی بڑا علمی معرکہ سر کیا جاسکتا ہے اور ان صفات سے مزین ہو کر اپنی دنیوی واخروی زندگی کو سنوارے۔
————————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ7، جلد:101 ،شوال 1438 ہجری مطابق جولائی 2017ء