از: عبیداختررحمانی
نگراں :شعبہٴ تحقیق،المعہد العالی الاسلامی،حیدرآباد
نام ونسب
نام عیسیٰ والد کانام ابان اورداداکانام صدقہ ہے،پورانسب نامہ یہ ہے۔عیسیٰ بن ابان بن صدقة بن عدی بن مرادن شاہ۔کنیت ابوموسی ہے۔ (الفہرست لابن الندیم۱/۲۵۵، دارالمعرفة بیروت،لبنان) کنیت کے سلسلہ میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تقریباًسارے ترجمہ نگاروں نے جن میں قاضی وکیع،قاضی صیمری ،خطیب بغدادی، ابن جوزی ،حافظ ذہبی ،حافظ عبدالقادر قرشی،حافظ قاسم بن قطلوبغا وغیرہ شامل ہیں، سبھی نے آپ کی کنیت ابوموسیٰ ذکر کی ہے، محض حافظ ابن حجر نے آپ کی کنیت ابومحمد ذکر کی ہے (لسان المیزان ۶/۲۵۶) اورکسی بھی تذکرہ نگار نے اس کی بھی صراحت نہیں کی ہے کہ آپ کی دوکنیت تھی ،ہرایک نے آپ کی محض ایک ہی کنیت ابوموسیٰ کا ذکر کیاہے،بادی النظر میں ایسامحسوس ہوتاہے کہ شاید اس بارے میں حافظ ابن حجر سے کسی قسم کاذہول ہواہے۔
خاندان
عیسیٰ بن ابان کے خاندان کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں چلتاکہ ان کے بیٹے بیٹیاں کتنے تھے،اوردیگر رشتہ دار کون کون تھے،ایسا صرف عیسیٰ بن ابان کے ساتھ نہیں؛بلکہ دیگر اکابرین کے ساتھ بھی ہوا ہے، عیسیٰ بن ابان کے حالات کی تلاش وتحقیق کے بعد ان کے دورشتہ داروں کا پتہ چلتاہے۔
ابوحمزہ بغدادی
آپ کانام محمد،والد کانام ابراہیم اور کنیت ابوحمزہ ہے، آپ کا شمار کبارصوفیاء میں ہوتاہے، آپ نے اپنے عہد کے جلیل القدر محدثین سے علم حاصل کیاتھا ،علم قرآت بالخصوص ابوعمرو کی قرأت میں آپ ممتاز مقام کے مالک تھے،دنیا جہان کا سفر کیاتھا ،آپ کا حلقہ ارادت ومحبت کافی وسیع تھا، ایک جانب جہاں آپ جنید بغدادی ،سری سقطی اوربشرحافی جیسے اکابر صوفیاء کے ہم نشیں تھے تو دوسری جانب امام احمد بن حنبل کے مجلس کے بھی حاضرباش تھے اوربعض مسائل میں امام احمد بن حنبل بھی آپ کی رائے دریافت کرتے تھے،تذکرہ نگاروں میں سے بعض نے آپ کو عیسیٰ بن ابان کا مولیٰ قراردیاہے ؛جب کہ بعض نے آپ کو عیسیٰ بن ابان کی اولاد میں شمار کیاہے،اس بارے میں شاید قول فیصل ابن الاعرابی کا قول ہے ،وہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ کے بارے میں عیسیٰ بن ابان کی اولاد سے دریافت کیاتوانھوں نے اعتراف کیاکہ آپ کا سلسلہ نسب عیسیٰ بن ابان سے ہی ملتاہے۔ (سیر اعلام النبلاء ۱۳/۱۶۵،،تاریخ دمشق۵۱/۲۵۲،ترجمہ نمبر۶۰۶۲)آپ کا انتقال ۲۷۰ہجری مطابق ۸۸۳ء میں ہواہے(الاعلام للزرکلی۵/۲۹۴)
نائل بن نجیح: نام اورکنیت ابوسہل ہے،نائل بن نجیح کو متعدد تذکرہ نگاروں نے عیسیٰ بن ابان کا ماموں قراردیاہے؛ لیکن مجھ کو اس وجہ سے توقف تھاکہ عیسیٰ بن ابان کے نام سے ایک اور راوی ہیں جورقاشی ہیں ،بظاہربصرہ کا ہونے کی وجہ سے زیادہ احتمال یہی تھا کہ نائل عیسیٰ بن ابان حنفی کے ہی ماموں ہیں، لیکن کہیں اور اس کی وضاحت نہیں مل رہی تھی،تفتیش کے بعد یہ بات ملی کہ حافظ ابن کثیر نے وضاحت کی ہے کہ نائل بن نجیح ،ابوسہل بصری اورجن کو بغدادی بھی کہاجاتاہے، عیسیٰ بن ابان القاضی کے ماموں ہیں، قاضی کی وضاحت سے اس کی تعیین ہوگئی کہ نائل بن نجیح عیسیٰ صاحب تذکرہ عیسیٰ بن ابان کے ہی ماموں ہیں (التَّکْمیل فی الجَرْح والتَّعْدِیل ومَعْرِفة الثِّقَات والضُّعفاء والمجَاہِیل ۱/۳۳۰)
اساتذہ ومشائخ
آپ نے ابتدائی زندگی میں کس سے تعلیم حاصل کی اورکن شیوخ واساتذہ سے علم حاصل کیا، اس بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔صرف اتناتذکرہ ملتاہے کہ ابتداء میں اصحاب حدیث میں تھے اور انھیں کے مسلک پر عمل پیراتھے، بعد میں امام محمد سے رابطہ میں آنے پر حنفی فکر وفقہ سے متاثرہوکر حنفی ہوگئے۔
ومنھم أبو موسی عیسیٰ بن أبان بن صدقة: وکان من أصحاب الحدیث ثم غلب علیہ الرأی (طبقات الفقہاء لابی اسحاق الشیرازی صفحہ۵۰، من مکتبہ مشکاة)
اوران میں سے (فقہاء حنفیہ)ایک عیسیٰ بن ابان بن صدقہ بھی ہیں وہ اصحاب حدیث میں تھے پھر ان پرفقہ غالب آگیا۔ علم حدیث کی تحصیل انھوں نے اپنے عہد کے جلیل القدر محدثین سے کی، حافظ ذہبی اس بارے میں لکھتے ہیں:
وحدّث عن: ھشیم، وإسماعیل بن جعفر، ویحییٰ بن أبی زائدة (تاریخ الإسلام للذہبی ۱۶/۳۱۲)ہشیم، اسماعیل بن جعفر اوریحییٰ بن ابی زائدہ سے انھوں نے روایت کی ہے۔
امام عیسیٰ بن ابان کس طرح محدثین کی صف سے نکل کراہل فقہ کی جماعت مین شامل ہوئے، اس تعلق سے ایک دلچسپ واقعہ خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں نقل کیاہے۔
محدثین کی صف سے نکل کر فقیہہ بننے کا دلچسپ واقعہ
خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں عیسیٰ بن ابان کے ترجمہ میں محمد بن سماعہ سے نقل کیاہے:
”عیسیٰ بن ابان ہمارے ساتھ اسی مسجد میں نماز پڑھاکرتے تھے جس میں امام محمد بن حسن الشیبانی نماز پڑھتے تھے اورفقہ کی تدریس کے لیے بیٹھاکرتے تھے۔میں (محمد بن سماعہ)عیسیٰ بن ابان کو محمد بن حسن الشیبانی کی مجلس فقہ میں شرکت کے لیے بلاتارہتاتھا؛ لیکن وہ کہتے تھے کہ یہ وہ لوگ ہیں جواحادیث کی مخالفت کرتے ہیں۔اصل الفاظ ہیں۔ ھولاء قوم یخالفون الحدیث عیسیٰ بن ابان کو خاصی احادیث یاد تھیں،ایک دن ایساہوا کہ فجر کی نماز ہم نے ساتھ پڑھی،اس کے بعد میں نے عیسیٰ بن ابان کو اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک کہ امام محمد بن حسن کی مجلس فقہ نہ لگ گئی، پھر میں ان کے قریب ہوا اورکہایہ آپ کے بھانجے ہیں،یہ ذہین ہیں اوران کو حدیث کی معرفت بھی ہے، میں ان کو جب بھی آپ کی مجلس فقہ میں شرکت کی دعوت دیتاہوں تویہ کہتے ہیں کہ آپ حضرات حدیث کی مخالفت کرتے ہیں۔امام محمد ان کی جانب متوجہ ہوئے اورفرمایا :اے میرے بیٹے تم نے کس بنا پر یہ خیال کیاکہ ہم حدیث کی مخالف کرتے ہیں(یعنی ہمارے کونسے ایسے مسائل اورفتاوی ہیں جس میں حدیث کی مخالفت کی جاتی ہے)پھراسی کے ساتھ امام محمد نے نصیحت بھی فرمائی لاتشھد علینا حتی تسمع منا ہمارے بارے میں کوئی رائے تب تک قائم مت کرو جب تک ہماراموقف نہ سن لو،عیسیٰ بن ابان نے امام محمد سے حدیث کے پچیس ابواب کے متعلق سوال کیا(جن کے بارے میں ان کو شبہ تھا کہ ائمہ احناف کے مسائل اس کے خلاف ہیں)امام محمد نے ان تمام پچیس ابواب حدیث کے متعلق جواب دیا اوران احادیث میں سے جومنسوخ تھیں، اس کو بتایااوراس پر دلائل اورشواہد پیش کیے۔عیسیٰ بن ابان نے باہر نکلنے کے بعد مجھ سے کہاکہ میرے اورروشنی کے درمیان ایک پردہ حائل تھاجو اٹھ گیا، میرانہیں خیال ہے کہ اللہ کی زمین میں اس جیسا(صاحب فضل وکمال)کوئی دوسرابھی ہے،اس کے بعد انھوں نے امام محمد کی شاگردی اختیار کی۔(تاریخ بغداد۔جلد۱۲، صفحہ۴۸۰،تحقیق دکتوربشارعواد معروف۔مطبع دارالغرب الاسلامی)
نوٹ:اس سند کے ایک راوی احمد بن مغلس الحمانی ہیں جن کی محدثین نے تضعیف اور تکذیب کی ہے؛ لیکن تاریخی شخصیات اورروایات کے بارے میں وہی شدت پسندی برقراررکھنا جو کہ حدیث کے بارے میں ہے ،ایک غلط خیال اورنظریہ ہے۔یہ بات تقریباًان کے بیشترترجمہ نگاران نے بیان کی ہے کہ وہ اصحاب حدیث میں سے تھے ،بعد میں انھوں نے فقہ کی جانب رخ کیا،خطیب بغدادی کا بیان کردہ واقعہ ہمیں صرف یہ بتاتاہے کہ محدثین کی جماعت میں سے نکل کر فقہاء کی جماعت میں وہ کیسے داخل ہوگئے،اس کاپس منظرکیاتھا اوربس،ظاہر ہے کہ اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے اس واقعہ کو قبول نہ کیاجائے،آخر کوئی تو وجہہ ہوگی جس کی وجہ سے امام عیسیٰ بن ابان محدثین کی صف سے نکل کر فقہاء کی صف میں اوربہ طور خاص فقہاء احناف کی صف میں شامل ہوئے ،جن کے خلاف ایک عام پروپگنڈہ کیاگیاتھاکہ وہ رائے کو حدیث پرترجیح دیتے ہیں اورحدیث کی مخالفت کرتے ہیں، اسی پس منظر اوروجہ کو احمد بن مغلس الحمانی نے بیان کیاہے اور اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس کی وجہ سے اس واقعے کو قبول نہ کیاجائے۔
امام محمد سے تحصیل فقہ
اوپر تاریخ بغداد کے حوالہ سے پیش کردہ واقعہ،اس کے علاوہ حافظ ذہبی نے بھی سیر اعلام النبلاء میں اس کی وضاحت کی ہے کہ امام عیسیٰ بن ابان نے امام محمد سے تحصیل فقہ کیاتھا۔ چنانچہ وہ سیر اعلام النبلاء جلد10،صفحہ 440میں لکھتے ہیں۔فقیہ العراق، تلمیذ محمد بن الحسن:( وہ عراق کے فقیہ اورامام محمد کے شاگرد تھے)۔حافظ ابن حجر لسان المیزان میں لکھتے ہیں وتفقہ علیہ یعنی عیسیٰ بن ابان کے فقہ میں خصوصی استاد محمد بن الحسن ہیں۔(لسان المیزان ۶/۲۵۶)
عیسیٰ بن ابان نے کتنی مدت تک امام محمد سے تحصیل علم کیا، ابن ندیم نے الفہرست میں ذکر کیاہے کہ انھوں نے امام محمدرحمة اللہ علیہ سے بہت کم مدت تک تحصیل علم کیا۔ویقال انہ کان قلیل الأخذ عن محمد بن الحسن(الفہرست لابن الندیم ۱/۲۵۴)،یہی بات وکیع نے بھی اخبارالقضاة میں لکھی ہے کہ ان کا امام محمد سے تحریری طورپر استفادہ کا تعلق کم رہا۔ کان عیسیٰ ابن أبان قلیل الکتاب عَن مُحَمَّد بْن الْحَسَن(اخبارالقضاة۲/۱۷۱) الجواہرالمضیئة فی طبقات الحنیفہ میں اس مدت کی تفصیل بیان کی گئی ہے کہ وہ مدت چھ مہینے کی تھی؛ چنانچہ صاحب طبقات الحنفیہ ابن ابی الوفاء ذکرکرتے ہیں۔
تفقہ علی محمد بن الحسن قیل أنہ لزمہ ستة أشھر.(الجواہر المضیئة فی طبقات الحنفیہ ص۲۷۲، مکتبہ مشکاة)لیکن مشکل یہ ہے کہ دونوں جگہ یعنی ابن ندیم کی الفہرست اورالجواہرالمضیئة میں اس قول کو ”قیل“سے نقل کیاگیاہے جوکہ کمزور اقوال کے نقل کے لیے خاص ہے؛جب کہ دوسری جانب ان کے ترجمہ نگاروں نے ان کے فقہ کے اساتذہ میں امام محمد کاخاص طورسے نام لیاہے اس سے اس قیاس کی تائید ہوتی ہے کہ امام عیسیٰ بن ابان کی امام محمد کی شاگردی کی مدت خاصی طویل ہوگی۔چھ مہینے کی مختصر مدت نہیں ہوگی،مشہور حنفی فقیہ قاضی صیمری امام طحاوی کے واسطہ سے ابوخازم سے نقل کرتے ہیں:
أخبرنَا عبد اللہ بن مُحَمَّد الْأَسدی قَالَ أنبأ أَبُو بکر الدَّامغَانِی الْفَقِیہ قَالَ ثَنَا أَحْمد ابْن مُحَمَّد بن سَلمَة بن سَلامَة قَالَ سَمِعت أَبَا خازم یَقُول إِنَّمَا لزم عِیسَی بن أبان مُحَمَّدَ بنَ الْحسن سِتَّةَ أشھر ثمَّ کَانَ یکاتبہ إِلَی الرقة (أخبار أبی حنیفة وأصحابہ ۱/۱۶۷، أبو عبد اللہ الصَّیْمَری الحنفی (المتوفی:436ہ) عالم الکتب بیروت)
ابوخازم کہتے ہیں کہ عیسیٰ بن ابان نے امام محمد سے چھ مہینے براہ راست استفادہ کیا، بعد میں جب امام محمدکو ہارون رشید اپنے ساتھ رقہ لے گئے تو عیسیٰ بن ابان نے امام محمد سے خط وکتابت کے ذریعہ استفادہ کیا۔
صیمری کی نقل کردہ روایت تسلیم کرنے سے یہ تومعلوم ہوتاہے کہ عیسیٰ بن ابان امام محمد کے ”رقہ“ چلے جانے کے بعد بھی خط وکتابت کے ذریعہ مستفید ہوتے رہے ،ابن ابی العوام کی تصنیف ’فضائل ابی حنیفہ‘ سے معلوم ہوتاہے کہ امام محمد سے براہ راست استفادہ کی مدت مہینے تھی؛ چنانچہ وہ ابوخازم سے ہی روایت نقل کرتے ہیں کہ امام محمد سے عیسیٰ بن ابان کے استفادہ یاشاگردی کی کل مدت گیارہ مہینے ہے۔
أبا خازم القاضی یقول: قال لی عبد الرحمن بن نابل: ما جالس عیسیٰ بن أبان محمد بن الحسن إلا أحد عشر شھراً، وتوفی عیسیٰ بن أبان سنة عشرین ومائتین. (فضائل أبی حنیفة وأخبارہ ومناقبہ۱/۳۶۰، الناشر: المکتبة الإمدادیة- مکة المکرمة)
ابوخازم قاضی کہتے ہیں کہ مجھ سے عبدالرحمن بن نابل نے کہا:عیسیٰ بن ابان کے امام محمد سے استفادہ کی کل مدت گیارہ مہینے ہے اور عیسیٰ بن ابان کاانتقال ۲۲۰ہجری میں ہوا۔
حقیقت یہ ہے کہ ماقبل میں جوکچھ عرض کیاگیا،یہ تمام ہی باتیں تحقیق کے معیارپر پوری نہیں اترتیں، امام محمد کا رقہ جاناان کے انتقال سے کئی برس قبل کا واقعہ ہے، آپ رقہ میں کتنی مدت رہے،اس کے بارے میں بروکلمان نے لکھاہے کہ کئی سال رہے،پھر رقہ کے قضا سے آپ کو معزول کردیاگیاہے،اس درمیان آپ بغداد میں رہے،پھر قاضی القضاة بنائے گئے اورپھر ہارون رشید کے ساتھ ”رے“ گئے تھے کہ وہیں انتقال ہوگیا۔(تفصیل کے لیے دیکھیے :امام محمد بن الحسن شیبانی اوران کی فقہی خدمات،ص:۱۱۳تا۱۲۵) اس سے واضح رہے کہ عیسیٰ بن ابان نے آپ سے کئی سال تک استفادہ کیاہے ؛کیوں کہ رقہ کا واقعہ امام محمد کی وفات سے کئی سال قبل کا ہے اور یہ بالکل غیرفطری ہے کہ رقہ میں جب تک امام محمد رہیں تو عیسیٰ بن ابان ان سے خط وکتابت کے ذریعہ استفادہ کریں لیکن جب امام محمد معزول ہوکر بغداد میں تشریف فرماہوں تو عیسیٰ بن ابان استفادہ نہ کریں اورجب ”رے“ چلے جائیں تو وہاں جاکر استفادہ نہ کریں، ماقبل میں جتنے اقوال امام محمد سے استفادہ کے سلسلے میں گزرے ہیں، ان کے بارے میں ہماراخیال یہ ہے کہ یہ ابتداء کی مدت بتائی جارہی ہے کہ عیسیٰ بن ابان کو ابتداء میں کس قدر استفادہ کا براہ راست موقع ملا۔
امام محمد علیہ الرحمہ سے طویل استفادہ کا ہی فیض تھاکہ عیسیٰ بن ابان کی امام محمد کے اقوال وعلوم پر گہری نگاہ تھی،جوبات دوسروں کو بھی معلوم نہیں ہوتی تھی وہ عیسیٰ بن ابان کے علم میں ہوتی تھی، چنانچہ ایک واقعہ میں انھوں نے وراثت کے مسئلہ میں نواسوں اورپوتوں کے درمیان فرق کرتے ہوئے فیصلہ صادر کیا توبعض فقہاء احناف نے ان پر ائمہ احناف کے قول سے باہر نکل کر فیصلہ کرنے کی بات کہی، عیسیٰ بن ابان نے کہا:میں نے جو فیصلہ کیاہے وہ امام محمد کا بھی قول ہے، اس کو بکار بن قتیبہ،ہلال بن یحییٰ اورامام محمد کے د وسرے شاگرد جان نہ سکے؛ لیکن ابوخازم نے اعتراف کیاکہ یہ امام محمد بن حسن کا ہی قول ہے اور عیسیٰ بن ابان سچ کہتے ہیں(اخبار ابی حنیفة ۱/۱۵۲)
امام محمد نے امام ابویوسف سے کوئی استفادہ کیایانہیں کیا،اس بارے میں عیسیٰ بن ابان کے تمام سوانح نگار خاموش ہیں، قاضی وکیع لکھتے ہیں: ولم یخبرنی إنسان أنہ رآہ عند أبی یوسف (أخبار القضاة۲/۱۷۱)مجھے کسی بھی شخص نے یہ نہیں بتایاکہ اس نے عیسیٰ بن ابان کو ابویوسف کے پاس دیکھاہے،اس سے اندازہ ہوتاہے کہ عیسیٰ بن ابان نے امام ابویوسف سے استفادہ نہیں کیاہے، امام ابویوسف سے استفادہ نہ کرنے کی وجہ شاید یہ ہوگی کہ آپ نے امام محمد کا دامن ان کے انتقال سے محض گیارہ مہینے قبل تھاما اور امام محمد کے انتقال سے کئی برس قبل امام ابویوسف کا انتقال ہوچکاتھایعنی جس وقت وہ امام محمد سے وابستہ ہوئے،اس سے پہلے امام ابویوسف کاانتقال ہوچکاتھا اورجب امام ابویوسف باحیات تھے ان سے مکتب فکر کے اختلاف کی بنا پر استفادہ نہیں کیاہوگا۔
تلامذہ
مختلف ذمہ داریوں بالخصوص کارقضاکے نازک فریضہ کی ادائیگی کے ساتھ عیسیٰ بن ابان نے درس وتدریس کا فریضہ بھی انجام دیا، عیسیٰ بن ابان کی بہتر تعلیم وتربیت کا نتیجہ تھاکہ آپ کے شاگرد آگے چل کر آسمان علم وفضل کے آفتاب وماہتاب ہوئے، عیسیٰ بن ابان کے چند ممتاز شاگردوں کا یہاں ذکر کیاجاتاہے۔
ہلال بن یحییٰ الرائے (۰۰۰-۲۴۵ھ = ۰۰۰-۸۵۹م)آپ کاشمار فقہ حنفی کے ممتاز ترین فقہاء میں ہوتاہے،بصرہ کے قاضی رہے،آپ عیسیٰ بن ابان کے شاگرد ہیں، اورآپ نے ہی اولاًعلم شروط وسجلات میں تصنیف کی۔
ابوخازم(۰۰۰-۲۹۲ھ=۰۰۰-۹۰۵م)آپ کا نام عبدالحمید اوروالد کانام عبدالعزیز ہے، ابوخازم کنیت ہے، آپ بصرہ کے رہنے والے تھے،شام کوفہ کرخ بغداد وغیرہ میں آپ نے قضاکی ذمہ داریاں انجام دی ،علم وعمل اور زہد ورورع میں آپ کا مقام بہت بلند ہے، امام طحاوی آپ کے شاگرد ہیں۔
بکاربن قتیبہ (۱۸۲-۲۷۰ھ=۷۹۸-۸۸۴م)آپ کے علمی کمال بالخصوص فقہ وحدیث کی جامعیت پرمحدثین کااتفاق ہے، سنہ ہجری میں آپ مصر کے قاضی بنے؛لیکن ابن طولون کے ایک حکم کی تعمیل اپنی اصول پرستی کی بناپر نہ کرسکنے کی وجہ سے قید کردیئے گئے، قید میں بھی حدیث وفقہ کا درس جاری رہا، لوگ مسائل پوچھنے کے لیے آیاکرتے تھے، امام طحاوی آپ کے خاص شاگرد ہیں، دورانِ قید ہی آپ کا انتقال ہوا، رحمہ اللہ رحمة واسعة(الاعلام للزرکلی۲/۶۱)
حسن بن سلام السواق:آپ کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ملتی ہیں، آپ نے اپنے دور کے جلیل القدر محدثین سے حدیث کا علم حاصل کیا، آپ حدیث کے معتبر راوی ہیں،حافظ ذہبی نے آپ کو الامام،الثقة،المحدث کے گراں قدر الفاظ سے یاد کیاہے،سنہ ۲۷۷ھ میں آپ کا انتقال ہوا۔(سیراعلام النبلاء )
صورت وسیرت
امام عیسیٰ بن ابان کو اللہ تعالیٰ نے حسن سیرت کے ساتھ ساتھ حسن صورت سے بھی نوازاتھا،آپ بڑے حسین وجمیل تھے،ابن سماعہ جوان کے رفیق بھی تھے وہ کہتے ہیں کان عیسیٰ حسن الوجہ(الجواہر المضیئة فی طبقات الحنفیہ)عیسیٰ بن ابان خوبصورت شخص تھے،آپ صرف حسین ہی نہیں تھے؛ بلکہ عفیف بھی تھے ، دوسرے لفظوں میں کہیں تو حسن صورت کے ساتھ حسن سیرت سے بھی پورے طورپر متصف تھے،ابن ندیم الفہرست میں لکھتے ہیں ”وہ پاک دامن شخص تھے“ وکان عیسیٰ شیخا عفیفا (الفہرست لابن الندیم)
ذہانت وفطانت
ابوحازم جواپنے دور کے انتہائی نامورقاضی وفقیہ تھے، ان کا قول ہے،میں نے اہل بصرہ کے نوجوانوں میں عیسیٰ بن ابان اوربشربن الولید سے زیادہ ذہین کسی کو نہیں دیکھا،اس سے پتہ چلتاہے کہ وہ ابتداء سے ہی بہت ذہین وفطین تھے،حافظ ذہبی نے بھی ان کے ترجمہ میں ایک جگہ ان کو وکان معدودًا من الاذکیاء کے الفاظ سے یاد کیاہے یعنی وہ منتخب ترین ذہین لوگوں میں سے ایک تھے۔(تاریخ الاسلام للذہبی،جلد16،صفحہ312)حافظ ذہبی نے ہی دوسری جگہ ان کوبڑا ذہین وفطین بتایاہے۔ چنانچہ وہ سیر اعلام النبلاء میں ان کی اس خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
وَلَہُ تَصَانِیْفُ وَذَکَاء ٌ مُفْرِطٌ،(سیراعلام النبلاء۱۰/۴۴۰)
فقہ وحدیث میں مقام ومرتبہ
عیسیٰ بن ابان کا دور علم حدیث وفقہ کا زریں دور ہے، آپ نے اپنے عہد کے مشہور اورجلیل القدر محدثین سے حدیث کا علم حاصل کیاتھا اورخاصی بڑی عمر تک آپ کا تعلق محدثین کے گروہ کیساتھ تھا،اورامام محمد سے رابطہ سے قبل آپ کی دلچسپی کا محور فقط علم حدیث ہی تھا، آپ کو اللہ نے جس ذہانت وفطانت سے نوازاتھا، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ آپ کا علم حدیث میں بھی ممتاز مقام تھا،یہی وجہ ہے کہ ا بن سماعہ جیسے مشہورمحدث اورفقیہ کا آپ کا متعلق تاثریہ وکان عیسیٰ حسن الحفظ للحدیث (اخبارابی حنیفة واصحابہ۱/۱۳۲)عیسیٰ بن ابان حدیث کو اچھی طرح یاد رکھنے والے تھے،ابن سماعہ نے جب عیسیٰ بن ابان کاامام محمد سے تعارف کرایاتو یہ کہا: ”ھَذَا ابْنُ أَخِیکَ أبانُ بنُ صَدَقَةَ الْکَاتِبُ وَمَعَہُ ذکاءٌ وَمَعْرِفَةٌ بِالْحَدِیثِ“ (اخبارابی حنیفة واصحابہ۱/۱۳۲)یہ آپ کے بھتیجے ابان بن صدقہ ہیں ،یہ ذہین ہیں اور علم حدیث سے گہری واقفیت رکھتے ہیں،پھر اسی واقعہ میں یہ بھی اعتراف ہے کہ امام محمد سے انھوں نے حدیث کے پچیس ابواب کے متعلق اپنے اشکالات دوہرائے،جس سے پتہ چلتاہے کہ ان کو علم حدیث میں کتنا ممتاز مقام حاصل تھا، اگریہ سب اعتراف نہ بھی ہوتا ،تب بھی ان کی کتاب الحجج الصغیر کا جوخلاصہ امام جصاص رازی نے الفصول فی الاصول میں پیش کیاہے،اس کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کا علم حدیث میں مقام کتنا بلند اور حدیث وآثار سے اصول وفروع کے استنباط میں آپ کو کتنی مہارت اور کتنا رسوخ تھا، احادیث وآثار سے آپ نے احناف کے اصول فقہ پر جودادتحقیق دی ہے،اس کو دیکھ کر بے ساختہ یہ کہنا پڑتاہے کہ امام شافعی کے بعد اصول فقہ پر اس طرح سے مجتہدانہ کلام کی نظیر نہیں ملتی ۔
امام محمدکی شاگردی میں آکر ان کی خفتہ صلاحیتوں کو جلاملی اورجلد ہی انھوں نے فقہ میں درک اورمہارت حاصل کرلیاوررفتہ رفتہ فقہ کے فن میں اتنی مہارت حاصل کرلی کہ اس دور کے اوربعد کے اجلہ علماء فقہ آپ کی معرفتِ تامہ اوررسوخِ کامل کے معترف ہوگئے؛ بلکہ بعض جلیل القدر علماء نے توان کی تعریف یہاں تک کہہ دیاکہ بصرہ میں ابتداء اسلام سے لے کرعیسیٰ بن ابان کے قاضی ہونے تک ان سے زیادہ بڑافقیہ بصرہ میں کوئی قاضی نہیں ہوا۔
جلیل القدر علماء کے اعترافات
امام طحاوی فرماتے ہیں کہ میں نے بکار بن قتیبہ کو کہتے سناوہ ہلال بن یحییٰ کا قول نقل کررہے تھے کہ (اس دور میں)مسلمانوں میں عیسیٰ بن ابان سے فقاہت میں بڑھاہوا قاضی کوئی اورنہیں ہے۔ "قال الطحاوی سمعت بکار بن قتیبة یقول سمعت ھلال بن یحییٰ یقول ما فی الإسلام قاض أفقہ منہ یعنی عیسیٰ بن أبان فی وقتہ”․ (أخبار أبی حنیفة وأصحابہ ۱/۱۵۰) جب کہ قاضی بکار بن قتیبہ خود کہتے ہیں۔”قال الطحاوی وسمعت بکار بن قتیبة یقول کان لنا قاضیان لا مثل لھما إسماعیل بن حماد وعیسیٰ بن أبان”۔امام طحاوی کہتے ہیں کہ میں بکار بن قتیبہ سے سناہے کہ ہمارے (فقہاء حنفیہ) دوقاضی ایسے ہیں جن کی کوئی مثال نہیں، ایک اسماعیل بن حماد اوردوسرے عیسیٰ بن ابان۔ (الجواہر المضئیة۱/۴۰۱)خود حافظ ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں ان کے فضل وکمال کااعتراف ”فقیہ العراق“ کے الفاظ سے کیاہے۔(سیر اعلام النبلاء ۱۰/۴۴۰) اورتاریخ اسلام میں نام کے ساتھ ”الفقیہ“ کا لاحقہ لگایاہے (تاریخ الاسلام ۵/۶۵۱) مشہور شافعی عالم ابواسحاق الشیرازی نے طبقات الفقہاء میں ان کو احناف کاممتاز فقیہ تسلیم کیاہے۔حافظ عبدالقادر القرشی نے ”الامام الکبیر“کے گراں قدر لقب سے متصف کیاہے (الجواہرالمضئیة۱/۴۰۱)تو حافظ قاسم بن قطلوبغا نے ”أحد الأئمة الأعلام“ کاگراں قدر لقب تحریر کیاہے۔(تاج التراجم ۱/۲۲۷) اوراسی کے ساتھ ان کے ”وسعتِ علم“ کا بھی اعتراف کیاہے(ایضاً)مشہورحنفی مورخ ابوالمحاسن یوسف بن تغری بردی لکھتے ہیں: وکان مع کرمہ من أعیان الفقھاء (النجوم الزاہرة فی ملوک مصر والقاہرة ۲/۲۳۴)سخاوت کے ساتھ ساتھ آپ ممتاز فقہاء میں سے ایک تھے،مشہور حنفی امام وعلامہ زاہد الکوثری آپ کے علم وفضل کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
حاصل کلام یہ کہ عیسیٰ بن ابان علم فقہ کے پہاڑ تھے جس کی بلندی اور عظمت کے سامنے سب سرجھکانے لگے۔ (سیرت امام محمدبن الحسن الشیبانی، ص۲۰۷)
قضاء
قضاء کی ذمہ داری بہت بھاری اورگرانقدر ذمہ داری ہے، اس میں مسائل واحکام کی واقفیت کے ساتھ ساتھ مردم شناسی اورلوگوں کے مزاج سے واقفیت،بیداری مغزی اورکسی کی ظاہری صورت سے متاثرنہ ہونے کی شرطیں شامل ہیں۔عیسیٰ بن ابان ان اوصاف سے متصف تھے لہٰذاان کی انھیں خوبیوں کودیکھتے ہوئے عباسی خلافت میں مامون الرشید کے دور میں قاضی القضاة یحییٰ بن اکثم نے ان کواپنانائب بنایا اور پھر واپسی پران کو مستقل طورپر بصرہ کاقاضی بنادیا۔ خطیب بغدادی نے بیان کیاہے کہ ان کو211ہجری میں اسماعیل بن حماد کی معزولی کے بعد بصرہ کاقاضی بنایاگیاتھااورانتقال تک وہ بصرہ کے قاضی رہے۔اس زمانہ میں بصرہ علمی لحاظ سے عالم اسلام کے گنے چنے شہروں میں شمار ہوتاتھا،ایسے میں ان کوبصرہ کاقاضی بنانایہ بتاتاہے کہ قاضی یحییٰ بن اکثم ان کے علم وفضل سے کتنے متاثر تھے۔
قضاکے باب میں ان کی خاص صفت یہ تھی کہ وہ اپنے حکموں کا اجراء اورفیصلوں کانفاذ بہت جلد کرایاکرتے تھے؛چنانچہ ابن ندیم ان کی اس خصوصیت کاذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔”کان فقیھا سریع الانفاذ للحکم”وہ فقیہ تھے اورحکم کو جلد نافذ کرتے تھے۔(الفہرست لابن الندیم) یہی بات قاضی وکیع نے بھی لکھاہے ”وکان عیسیٰ سھلاً فقیھاً سریع الانفاذ للأحکام“ (اخبارالقضاة۲/۱۷۰)عیسیٰ نرم رو،فقیہ تھے اوراپنے احکام جلد جاری کرایاکرتے تھے۔قاضی وکیع نے لکھاہے کہ بسااوقات وہ فیصلوں کے اجراء میں اس تیزی سے کام لیتے تھے جس سے بعض حضرات کوشبہ ہوتاتھاکہ احکام کا اتنا تیز اجراقاضیوں کے لیے مناسب ہے یانہیں ہے،قضاکے باب میں آپ کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ جب تک آپ کو اپنے زیر بحث معاملہ کے فیصلہ پرپورا اطمینان نہ ہوجاتا،فیصلہ صادر نہ کرتے، چاہے اس میں کتنی ہی تاخیر کیوں نہ ہوجائے اوراگرکوئی اصرار کرتا توصاف فرمادیتے کہ قاضی کو تمہارے مسئلہ کے بارے میں علم نہیں ہے،اگرتم چاہو تو انتظار کرو یاپھر چاہو تو کسی دوسرے کے پاس جاؤ(اخبار ابی حنیفة واصحابہ۱/۱۵۰)
جودوسخا
آپ نے مال دار گھرانے میں آنکھیں کھولی تھیں،یہی وجہ ہے کہ آپ کی پوری زندگی مال داروں کی سی گزری اوراس مال داری کے ساتھ اللہ نے آپ کی فطرت میں سخاوت کا مادہ بدرجہٴ اتم رکھاتھا،بسااوقات ایسابھی ہے کہ قرض دار قرض ادانہ کرسکا اورقرض خواہ قرض دار کو جیل میں بند کرانے کے لیے لایا اورآپ نے قرض خواہ کو اس کی رقم اپنی جیب سے اداکردی۔
خطیب بغدادی نے تاریخ بغدادمیں یہ واقعہ نقل کیاہے کہ ایک شخص نے ان کی عدالت میں محمد بن عبادالمھلبی پر چارسو دینار کادعوی کیا، عیسیٰ بن ابان نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انھوں نے مقروض ہونے کااعتراف کیا، اس شخص نے قاضی عیسیٰ ابن ابان سے کہاکہ آپ اس کو میرے حق کی وجہ سے قید کردیجیے۔ عیسیٰ بن ابان نے کہاکہ تمہاراحق اس پر واجب ہے؛ لیکن ان کو قید کرنا مناسب نہیں ہے ، اورجہاں تک بات تمہارے چار سو دینارکی ہے تو وہ میں تمہیں اپنی جانب سے ان کے بدلے میں دے دیتاہوں۔(تاریخ بغداد۱۱/۴۸۰)
حساب اورفلکیات میں مہارت
فقہاء احناف کاامام محمد کے دور سے ایک خاص وصف یہ رہاہے جس میں وہ دیگر مسالک کے فقہاء سے ممتاز رہے ہیں کہ ان کو علم حساب سے بڑی اچھی اور گہری واقفیت رہی ہے۔امام محمد کو حساب کے فن میں گہرا رسوخ تھا اورانھوں نے حساب دانی کے اس فن کو اصول سے فروع کی تفریع میں بہ طور خاص استعمال کیا،دکتور دسوقی اس ضمن میں لکھتے ہیں:
امام محمد جس طرح عربی زبان میں امام تھے،اسی طرح حساب میں بھی آگے تھے، اصول سے فروع اخذکرنے میں ماہر تھے، قاری کے لیے آپ کی کتاب الاصل یاالجامع الکبیر کا مطالعہ کرلینا یہ جاننے کے لیے کافی ہوگا کہ امام محمد کو مسائل پیش کرنے اوران کے احکام بیان کرنے میں گہری مہارت حاصل تھی،آپ کوحسابی حصوں اوران کی مقداروں پرعلمی قدرت تھی۔(امام محمدبن الحسن الشیبانی اوران کی فقہی خدمات ،ص۱۸۶)
امام محمد کی فقہی تفریعات کی انھیں باریکیوں اور دقائق سے امام احمد بن حنبل نے بھی فائدہ اٹھایا، چنانچہ جب ان سے ابراہیم حربی نے سوال کیاکہ یہ باریک اوردقیق مسائل آپ نے کہاں سے حاصل کیے، توانھوں نے امام محمد کی خدمات کا پورا اعتراف کرتے ہوئے فرمایا: امام محمد کی کتابوں سے (مناقب الإمام أبی حنیفة وصاحبیہ،ص۸۴)
امام محمدسے حساب کا یہ فن ان کے شاگردوں نے بھی سیکھا اوراس میں کمال پیداکیا؛ چنانچہ عیسیٰ بن ابان کے تذکرہ میں متعدد ان کے معاصرین اورشاگردوں نے اعتراف کیاکہ آپ کو حساب کے فن میں کامل دستگاہ تھی اورنہ صرف حساب کے فن میں؛ بلکہ آپ کو فلکیات میں بھی مہارت حاصل تھی، چنانچہ اسی اعتبار سے آپ اپنے کام کو ترتیب دیاکرتے تھے،آپ کے شاگرد ہلال بن یحییٰ الرائے کہتے ہیں:
ھلال الرأی یقول: لقد کتب عیسیٰ بْن أبان سجلات لآل جعفر بْن سلیمان، مواریث مناسخة، وحسب حسابھا وکتب ذلک فی الکتب بأمر یصیر بہ المفتی فصلاً عَن القضاة قَالَ: ھلال: ھَلْ واللہ لو سکت عَن ذلک التفصیل لضقت ذرعاً بہ. (أخبار القضاة،۲/۱۷۲)
ہلال الرائے کہتے ہیں کہ عیسیٰ بن ابان نے جعفر بن سلیمان کے لیے دستاویزات لکھیں، جس میں وراثت کے احکام اور وراثت کی تقسیم کا پورا حساب تھا اوراس کے ساتھ ایسے قواعد وضوابط بھی بیان کیے تھے جس کی ضرورت مفتی اور قاضی دونوں کو پڑتی ہے ،ہلال کہتے ہیں :خدا کی قسم اگر وہ اتنی تفصیل سے یہ سب نہ لکھتے تو مجھے بڑی پریشانی ہوتی۔
عباس بن میمون آپ کی فلکیات دانی کے بارے میں لکھتے ہیں:
عباس بْن میمون سمعت أھل المسجد والأجریاء یقولون: أحدث عیسیٰ فی القضاء شیئاً لم یحدثہ أحد لعلمہ بحساب الدور. (أخبار القضاة،۲/۱۷۲)
عباس بن میمون کہتے ہیں کہ میں نے مسجد والوں اورپڑوسیوں کو کہتے سناکہ عیسیٰ بن ابان نے قضا میں حساب دور کے جاننے کی وجہ سے ایک نئی چیز ایجاد کی ہے جو ان سے پہلے کسی نے نہیں کی تھی۔
(باقی آئندہ)
—————————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ7، جلد:101 ،شوال 1438 ہجری مطابق جولائی 2017ء