از: مولانا محمداللہ قاسمی، شعبہٴ انٹرنیٹ دارالعلوم دیوبند
حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری کا سانحہٴ ارتحال
۲۰/مئی ۲۰۱۷/ کی صبح دارالعلوم دیوبند کے مایہٴ ناز استاذ حدیث اور سابق ناظم تعلیمات حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری انتقال فرماگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!
حضرت کے انتقال کی خبر سے رنج وغم کی لہر دوڑ گئی۔ دارالعلوم میں ملک وبیرون ملک سے حضرت کی وفات پر تعزیت کا سلسلہ جاری رہا۔ بعد نماز ظہر تقریباً ساڑھے تین بجے احاطہٴ مولسری میں حضرت مولانا قاری محمد عثمان صاحب منصورپوری کی امامت میں نماز جنازہ ادا کی گئی اور قاسمی قبرستان میں سپردِ خاک کیاگیا۔ نزدیک ودور سے ایک بڑی تعداد نے جنازہ میں شرکت کی۔ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے اہل خانہ کو صبرجمیل عطا کرے۔ آمین!
حضرت مولانا کے انتقال پر دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے اسے دارالعلوم اور ملتِ اسلامیہ کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان قرار دیا۔ مہتمم صاحب نے فرمایا کہ حضرت مولانا کے انتقال سے دارالعلوم دیوبند اپنے ایک عظیم سپوت، مقبول محدث اور معاملہ فہم مشیر سے محروم ہوگیا۔ اس موقع پر مہتمم دارالعلوم، نائب مہتمم حضرت مولانا عبدالخالق مدراسی وغیرہ اساتذہ وکارکنانِ دارالعلوم نے حضرت مولانا مرحوم کے اہلِ خانہ کو تعزیت پیش کی اور دارالعلوم میں مولانا کے لیے ایصال ثواب اور دعائے مغفرت کا اہتمام کیاگیا۔
حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری ایک جید عالم دین، نکتہ رس محدث، باصلاحیت استاذ، بے مثال ادیب وشاعر اور گوناگوں خوبیوں کے مالک تھے۔ تقویٰ ودیانت داری، رافت ورحمت، ذکاوت وذہانت، اصابتِ رائے ومعاملہ فہمی اور حسنِ اخلاق وتواضع آپ کی نمایاں خصوصیات تھیں۔
۹/مارچ ۱۹۴۰/ کو علی گڈھ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا آبائی وطن موضع حبیب والا ضلع بجنور ہے۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرکے اپنے پھوپھا مولانا سلطان الحق بجنوری (سابق ناظم کتب خانہ دارالعلوم دیوبند) کے ہم راہ ۱۹۵۱/ میں دارالعلوم دیوبند آئے اور داخلہ لیا۔ ۱۹۵۸/ میں دورہٴ حدیث سے فراغت حاصل کی۔ فراغت کے بعد بھی حضرت مولانا فخرالدین مرادآبادی صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند کے دامنِ علم سے وابستہ ہوکر برسوں استفادہ کرتے رہے اور اپنے استاذ محترم کے درس بخاری کی تقریروں کو مرتب کرکے ایضاح البخاری کے نام سے شائع کرنا شروع کیا۔
۱۳۹۱ھ/۱۹۷۲/ میں دارالعلوم دیوبند میں مدرس مقرر ہوئے۔ کچھ برسوں تک تدریس کے ساتھ ساتھ ماہنامہ دارالعلوم کی ادارت کی ذمہ داری بھی انجام دی۔ ۱۴۰۵ھ/۱۹۸۵/میں مجلس شوریٰ نے آپ کو مجلس تعلیمی کا ناظم مقرر کیا۔ ۱۴۰۸ھ/۱۹۸۸/ میں آپ کو شیخ الہند اکیڈمی کا ناظم اعلیٰ (ڈائرکٹر) مقرر کیاگیا۔ دارالعلوم میں آپ کا دورِ نظامت بہت مثالی تھا۔ نازک حالات میں دارالعلوم کے تعلیمی نظام کو سنبھالادینا اور اسے ترقی کی بلندیوں پر پہنچانا آپ کا تاریخی کارنامہ ہے۔ آپ کا درس بہت مربوط، عام فہم، سبک رفتار اور مقبول ہوتا تھا۔ مشکوٰة، ابن ماجہ اور ترمذی وغیرہ کتابیں آپ کے زیردرس رہی ہیں۔
”ایضاح البخاری“ آپ کے اعلیٰ علمی وادبی ذوق کا شاہ کار ہے اور اردو کی شروحِ بخاری میں ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ آپ کی ایک دوسری اہم تصنیف ”شوریٰ کی شرعی حیثیت“ ہے۔ علم وعمل میں بلند مقام پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ شعر وادب میں اعلیٰ ذوق کے حامل ہیں جس کا زندہ ثبوت دارالعلوم دیوبند کا شہرئہ آفاق ”ترانہ“ ہے جو ایک لازوال ادبی شہ پارہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کا مجموعہٴ کلام ”نغمہٴ سحر“ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ اسی طرح اصول فقہ کے موضوع پر حضرت مولانا نعمت اللہ اعظمی کے ساتھ مشترکہ طور پر ”تسہیل الاصول“ لکھی جو دارالعلوم میں سال چہارم میں داخلِ درس ہے۔ اسی طرح ”مقدمہٴ تفہیم القرآن کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ“ مکتبہ دارالعلوم سے شائع ہوچکی ہے۔ اخیر زمانے میں ”کشاف اصطلاحات الفنون“ پر تحقیقی کام بھی کیا جو پایہٴ تکمیل کو پہنچ چکا ہے اور عن قریب شائع ہونے والا ہے۔
قاری سیّد فخرالدین صاحب ناظمِ شعبہٴ تنظیم وترقی کا انتقالِ پُرملال
قبل ازیں ۱۵/مئی ۲۰۱۷/ کی رات شعبہٴ تنظیم وترقی دارالعلوم دیوبند کے ناظم قاری سیّد فخرالدین صاحب کا مختصر علالت کے بعد انتقال ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون! قاری صاحب مرحوم کی عمر تہتر (۷۳) برس تھی۔
قاری سید فخرالدین صاحب اجراڑہ ضلع میرٹھ کے رہنے والے تھے۔ آپ دارالعلوم دیوبند کے ایک قدیم کارکن تھے اور ۱۹۸۲/ میں شعبہٴ تنظیم وترقی کے نائب ناظم کے طور پر ان کا تقرر عمل میں آیا تھا اور پھر ۱۹۸۵/ میں ترقی کرتے ہوئے ناظمِ شعبہ بنائے گئے۔ اس وقت سے اس اہم عہدہ پر نہایت محنت ولگن اور فعالیت کے ساتھ کام کرتے رہے۔ تنظیم وترقی دارالعلوم دیوبند کا اہم شعبہ ہے جو ادارہ کے مالیات اور غلہ جات وغیرہ کی فراہمی کے لیے متحرک رہتا ہے۔ قاری صاحب بہت متواضع، بااخلاق اور فعّال شخصیت کے مالک تھے۔
۱۶/مئی کو ساڑھے گیارہ بجے دوپہر احاطہٴ مولسری میں حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی کی امامت میں نمازِ جنازہ ادا کی گئی اور قاسمی قبرستان میں سپردِ خاک کیاگیا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے اہل خانہ کو صبرجمیل عطا کرے۔ آمین!
————————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ7، جلد:101 ،شوال 1438 ہجری مطابق جولائی 2017ء