از: مولانا اشرف عباس قاسمی
استاذ دارالعلوم دیوبند
عادة اللہ یہ جاری ہے اور تاریخ عروج وزوال شاہد ہے کہ قوموں کی زندگیوں میں ایسے سخت حالات آتے ہیں، جہاں انھیں اپنا وجود بھی خطرے میں نظر آنے لگتا ہے۔ بالخصوص مسلمان، جو روئے زمین پر خالق کائنات کی مرضیات کے نمائندے اور اس کے احکام تشریعیہ کے پابند ہیں، جب وہ اپنی منصبی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کرتے اور بے اعتدالیوں کے شکار ہوکر جادہٴ حق سے ہٹنے لگتے ہیں تو ان کے ارد گرد حالات کا گھیرا تنگ کردیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی بے راہ روی کو چھوڑ کر مرضیِ حق کے تابیع ہوجائیں۔
اور کبھی یہ نامساعد حالات اس لیے بھی آتے ہیں تاکہ آزمائش کی بھٹی میں ڈال کر یہ دیکھا جائے کہ آیا وہ صبر و ثبات قدمی کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں یا ان کے پائے استقامت میں لغزش آجاتی ہے، ارشاد باری ہے:
”وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الأمْوَالِ وَالأنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِینَ الَّذِینَ إِذَا أَصَابَتْھُمْ مُصِیبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ“ (البقرہ: ۱۵۵-۱۵۶)
ترجمہ: ”اور ہم تمہارا امتحان کریں گے کسی قدر خوف سے اور فاقہ سے اور مال اور جان اور پھلوں کی کمی سے اورآپ ایسے صابرین کو بشارت سنادیجیے کہ ان پر جب کوئی مصیبت پڑتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اللہ تعالیٰ کی ہی مِلک ہیں اور ہم سب اللہ تعالیٰ ہی کے پاس جانے والے ہیں۔“
اس طرح یہ حالات باعث رحمت بھی ہوتے ہیں اور غضب الٰہی کا مظہر اور رحمت بھی۔ یہ زحمت اس وقت قرار پاتے ہیں جب ان حالات کے نتیجے میں انسان کو توبہ، استغفار اور رجوع الی اللہ کی توفیق نصیب ہو؛ لیکن اگر ان حالات کے باوجود بھی ہم غفلت کے شکار اپنی دنیا میں مست اور احکام الٰہیہ سے دور رہتے ہیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ حالات قہر الٰہی کا مظہر تھے۔
اس وقت مسلمان، انفرادی واجتماعی اعتبار سے جن مسائل کے شکار ہیں اور بالخصوص یوپی الیکشن کے بعد ہمارے ملک کی جو مجموعی صورت حال ہے یہ ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم ان حالات کو صرف ظاہری اسباب سے جوڑ کر نہ دیکھیں؛ بلکہ عملی اعتبار سے اپنا محاسبہ بھی کریں۔
آئندہ سطروں میں یوپی الیکشن کے نتائج کا معروضی مطالعہ اور ظاہری ومعنوی خامیوں کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس سے واضح ہوگا کہ کوئی پارٹی ہماری تقدیر بنا یا بگاڑ نہیں سکتی ہے؛ بلکہ ہمیں خود اپنی بنیادوں سے مضبوط وابستگی، انابت الیٰ اللہ، جذبہٴ ایمانی اور حکمت وبصیرت سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ملکی سیاست میں کلیدی اہمیت کی حامل سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے حالیہ انتخابی نتائج نے ملک کے انصاف پسند عوام اور مسلمانوں کوکئی طرح کی تشویش میں مبتلا کردیا ہے؛ حالاں کہ ۲۰۱۴/ کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی نے اس سے بہتر مظاہرہ کیا تھا اور اس کا ووٹ فیصد بھی زیادہ تھا؛ چنانچہ گزشتہ الیکشن کے ۴۱ فیصد کے بالمقابل اس الیکشن میں اسے صرف ۳۹ فی صد ووٹ ہی حاصل ہوئے؛ لیکن پارلیمانی الیکشن کی کامیابی کو کانگریس کی کمزور پالیسیوں، حکومت کی گرتی ساکھ، بدعنوانی کے بڑھتے واقعات اور اقتدار مخالف لہر کا شاخسانہ قرار دے کر ہضم کرلیاگیا تھا، تاہم حالیہ غیرمتوقع کامیابی نے کئی طرح کے خدشات کو جنم دیا ہے، جو یقینا ملک وملت کے لیے خوش آئند نہیں ہے۔
لیکن ان غیرمعمولی حالات اور غیرمتوقع نتائج کے باوجود ہمیں مایوسی کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ قوموں کی زندگیوں میں انھیں جھنجھوڑنے اور خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے اس طرح کے حالات آتے ہیں؛ البتہ اب وقت آگیا ہے کہ حالات کا صحیح تجزیہ کرکے مستقبل کا لائحہٴ عمل طے کریں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان نتائج کے ذمہ دار عوام کے علاوہ وہ سارے لیڈران ہیں جو سیکولرازم کا دم بھرتے ہیں؛ لیکن اجتماعی مفادات کا خون کرکے اس کو نقصان پہنچانے میں پیش پیش رہتے ہیں، لنگڑے لولے اتحاد کے بجائے بہار کے طرز پر اگر وسیع تر اتحاد قائم ہوتا جس میں بی ایس پی بھی شامل ہوتی تو شاید یہ گت نہ بنتی؛ کیوں کہ ان پارٹیوں کو ملنے والے ووٹ کا تناسب بی جے پی سے کہیں زیادہ ہے؛ لیکن سیکولر پارٹیوں کے امیدواروں کے درمیان ووٹوں کی بندربانٹ نے بی جے پی کو اقتدار تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ دیوبند جیسی سیٹوں پر ایک سے زائد مسلمان ٹکرا گئے اور ووٹ بھی بی جے پی امیدوار سے زیادہ بٹورے؛ لیکن تقسیم کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ اس قدر واضح شکست کے باوجود اگر ۲۰۱۹/ میں بھی یہ پارٹیاں ایک پلیٹ فارم پر نہیں آسکیں تو فرقہ پرستی اور شدت پسندی کے بے لگام رتھ کو روکنا محض سراب ثابت ہوگا۔ بعض سیاسی وملی قائدین جو بی ایس پی کو ووٹ دینے کی اپیل کرکے مسلمانوں میں مایاوتی کی حمایت کا ماحول بنارہے تھے؛ انھیں اپنی توانائیاں مایاوتی کو بھی اتحاد کا حصہ بنانے پر صرف کرنی چاہیے تھی اور بتانا چاہیے تھا کہ ملک میں سیکولرازم کے تحفظ کی ذمہ داری تنہا مسلمانوں پر نہیں ہے۔ آخر سیاسی پارٹیاں اس حوالے سے کب ہوش کے ناخن لیں گی؟
بہ ہرحال سردست تو یہی ثابت ہوچکا ہے کہ ان سیاسی پارٹیوں کے سیاسی بازی گروں کے پاس مسلمانوں کے درد کا کوئی درماں نہیں ہے، اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت مسلم دشمنی کے رتھ پر سوار ہوکر ہی اقتدار تک پہنچی ہے اورآئندہ اپنے خاص ایجنڈے کے تحت اس سمت میں مزید کوشش کرے گی اور یوگی کو وزیراعلیٰ بناکے حکومت نے اپنی منشا واضح کردی ہے، لیکن سابقہ حکومتیں بھی تو مسلمانوں کے تئیں مخلص نہیں رہی ہیں اور ہندوشدت پسندی کے ناگ کو دودھ پلاتی رہی ہیں، اس لیے ہمیں خوف کی نفسیات سے باہر نکل کر مستقبل کا لائحہٴ عمل طے کرنا چاہیے۔
ان حالات میں سب سے پہلے ہمیں رجوع الیٰ اللہ کی ضرورت ہے؛ کیوں کہ ہم مسلمانوں پر جو نامساعد حالات آتے ہیں ان میں ہماری بے راہ روی اور خدا کی نافرمانی کو بڑا دخل ہے، سورہٴ شوریٰ میں ارشاد ربانی ہے:
”وَمَا أصابکم من مصیبة فبما کسبت أیدیکم ویعفو عن کثیر“
ترجمہ: ”اور تم کو جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے ہی ہاتھوں کے کیے ہوئے کاموں سے پہنچتی ہے اور بہت سے تو اللہ درگزر ہی کردیتا ہے۔“
اس کے علاوہ بھی متعدد آیات واحادیث میں اس حقیقت سے نقاب کشائی کی گئی ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے آپ کے احتساب اور انفرادی گناہوں سے بھی توبہ کی ضرورت ہے اوراجتماعی جرائم سے بھی۔ آپسی اختلاف، برداری واد، چھوٹے موٹے ذاتی مفادات کے لیے اجتماعی مصالح کو بھینٹ چڑھادینا بھی اجتماعی جرائم میں شامل ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ایسے مخالف ماحول میں اپنے آپ کوحالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دینا ہمارے شعور ایمانی کے خلاف ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ اس امر کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ماحول اور ذہن بناکر نفرت وعداوت کی جو کھائیاں پیداکردی گئی ہیں انھیں پاٹ کر برادران وطن تک محبت وانسانیت کا پیام پہنچایا جائے، بہ حیثیت ”خیرامت“ ہماری دینی ذمہ داری ہے کہ ہم برادران وطن سے اپنے فاصلے کم کریں، خواہ وہ آر ایس ایس اور شدت پسند ہندو تنظیموں کے کارکنان کیوں نہ ہوں، ہم ایک مستقل لائحہٴ عمل کے ساتھ ان سے ملیں، بہ راہ راست ایک ایک فرد تک پہنچنے کی کوشش کریں، یہ ہمارا کتنا بڑا اجتماعی جرم ہے کہ کائنات کی سب سے بڑی صداقت ”اسلام“ جس کے ہم امین ہیں، ملک کے اسّی کروڑ عوام تک اسے پہنچانے کے حوالے سے اب تک ہم کوئی لائحہٴ عمل بھی تیار نہ کرسکے۔ اب وقت آگیا ہے کہ کانگریس یا بی جے پی کی تفریق کے بغیر خدا کے کنبے کافرد اور برادروطن ہونے کے ناطے ہر ایک سے ملیں۔ اسلامی اخلاق اور اسلامی تعلیمات پیش کرکے ان کے ذہن ودماغ کو کفر ونفرت کی خباثتوں سے پاک کرکے دین و صداقت کی روشنی سے منور کرنے کی کوشش کریں، یہ بہت نازک اور اہم معاملہ ہے؛ لیکن ہماری ملی قیادتیں اور دینی مدارس اگر اس پر سنجیدگی سے غور کریں اور مشترکہ لائحہٴ عمل طے کریں تو ایک ایسے وقت میں جب کہ پوری دنیا اسلام کی آہٹ محسوس کررہی ہے کوئی وجہ نہیں کہ ہندوستان اس عظیم نعمت سے محروم رہے۔ دعوتی کام کے لیے یہ ماحول انتہائی سازگار اور موزوں ہے، یورپ اور امریکہ میں مسلمانوں پر شکنجہ کسنے اوراسلام کے خلاف پروپیگنڈوں کے بعد ہی ہدایت کی روشنی کی طرف آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، اس کے لیے طویل المیعاد منصوبہ بنانا ہوگا اور نتائج کے لیے صبر و اخلاص کے ساتھ کام میں لگے رہنا ہوگا۔
—————————————————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ5-6، جلد:101 ،شعبان۔رمضان 1438 ہجری مطابق مئی۔جون 2017ء