زیراہتمام مجلس تحفظ ختم نبوت ٹرسٹ تلنگانہ وآندھرا پردیش

مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی زیدمجدہ اور مولانا شاہ عالم گورکھپوری مدظلہ مہمانِ خصوصی

از: مولانا محمد ارشد علی قاسمی

سکریٹری مجلس تحفظ ختم نبوت، حیدرآباد

کسی بھی اہم عنوان اور ضروری موضوع کو سمجھانے اور اُس سے متعلق تمام جزئیات وتفصیلات سے واقف کرنے والے کے لیے تربیتی کیمپ/ ورک شاپ کا انعقاد، ایک مفید اور موثر ذریعہ ہے، تربیتی کیمپ کی اسی ضرورت واہمیت کے پیش نظر مجلس تحفظ ختم نبوت ٹرسٹ تلنگانہ وآندھرا پردیش کے زیراہتمام اس طرح کے کیمپس اور اجتماعات رکھے جاتے ہیں، ان اجتماعات میں موضوع سے متعلق وسیع اور گہری معلومات رکھنے والے عالم دین کو ”مربیّ خصوصی“ کی حیثیت سے مدعو کیا جاتا ہے۔

اسی سلسلہ کا ایک اہم دو روزہ تربیتی اجتماع برائے علماء وائمہ مساجد موٴرخہ ۲۵-۲۶/جمادی الثانی ۱۴۳۸ھ مطابق ۲۵-۲۶/مارچ ۲۰۱۷ء کو مجلس تحفظ ختم نبوت ٹرسٹ تلنگانہ وآندھرا پردیش کے زیراہتمام، مجلس تحفظ ختم نبوت حلقہ ٹولی چوکی کے تعاون واشتراک سے مدرسہ اسلامیہ گلزار مدینہ (شاخ جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد) میں منعقد ہوا، حضرت مولانا شاہ جمال الرحمن مفتاحی صدر مجلس تحفظ ختم نبوت نے صدارت فرمائی، جب کہ حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے مہمان خصوصی اور مولانا شاہ عالم گورکھپوری نائب ناظم کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند نے مربیّ خصوصی کی حیثیت سے شرکت فرمائی، ہفتہ کے دن صبح دس بجے مولانا قاری محمد طفیل ندوی استاذ مدرسہ گلزار مدینہ کی تلاوت سے اجتماع کا آغاز ہوا، مولانا پیرعبدالوہاب قاسمی نے ہدیہٴ نعت پیش کی، مولانا سید مصباح الدین حسامی نائب ناظم مدرسہ اسلامیہ گلزار مدینہ وصدر مجلس تحفظ ختم نبوت حلقہ ٹولی چوکی نے خطبہٴ استقبالیہ پیش کیا، خطبہ استقبالیہ میں انھوں نے مہمان علماء کرام کا خیرمقدم کرنے کے علاوہ اس بات کی وضاحت کی کہ فتنوں کے سدباب کے لیے مدارس اور اہل مدارس کا اہم اور بنیادی کردار ہے اور اُس کی ایک شاندار تاریخ ہے، آج کا یہ دوروزہ تربیتی اجتماع بھی مدسہ میں منعقد ہورہا ہے؛ اس لیے اس کو فتنوں کے سدباب کے سلسلہ میں مدارس کی تابناک تاریخ کا ایک تسلسل سمجھا جاسکتا ہے، اس کے بعد مولانا مفتی عبدالمغنی مظاہری نائب صدر مجلس تحفظ ختم نبوت نے تمہیدی کلمات کے عنوان سے خطاب فرمایا، مولانا نے کہا: فتنوں کے سدباب اور تعاقب کے لیے علماء کو بے چین وبے قرار رہنا چاہیے، اس سلسلہ میں اکابر وبزرگوں کے واقعات ہمارے سامنے ہیں، انھوں نے کہا: علماء فتنوں کی تردید میں لکھی گئی کتابوں کا مطالعہ کریں اور اُس کی ایک ترتیب بنائیں، اس کے بعد تربیتی اجتماع کے مربیّ خصوصی حضرت مولانا شاہ عالم صاحب گورکھپوری نائب ناظم کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند کے تربیتی خطاب کا آغاز ہوا، اس میں مولانا محترم نے عمل کے مقابلہ میں عقیدہ کی اہمیت ونزاکت کو واضح فرمایا اور اس بات کی وضاحت کی کہ اسلام میں فتنوں کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟ پھر آپ نے اسلامی تاریخ میں اٹھنے والے مختلف فتنوں کی تاریخ پر مختصر روشنی ڈالی، اس کے بعد مولانا محمد عبدالقوی خازن مجلس تحفظ ختم نبوت نے مہدوی فرقہ کی تاریخ اور اس کے بنیادی عقائد وحقائق پر بہت ہی پرمغز انداز میں روشنی ڈالی اور اس کی وضاحت فرمائی کہ سید محمد جونپوری صاحب کی طرف دعویٰ مہدویت کی نسبت کیسے گئی؟ اور کس طرح اس کو ایک باضابطہ فرقہ کی شکل دی گئی؟ انھوں نے بتایا کہ خود بعض مہدوی حضرات کی تحقیق کے مطابق سیدمحمد جونپوری صاحب نے آخری زندگی میں دعویٰ مہدویت سے رجوع کرلیا تھا، مولانا محترم کے خطاب کے بعد تربیتی اجتماع کی پہلی نشست ختم ہوئی۔

بعد نماز ظہر تربیتی اجتماع کی دوسری نشست کا آغاز ہوا (مولانا) محمد ارشد علی قاسمی (سکریٹری مجلس تحفظ ختم نبوت) نے ارتدادی فتنوں کی صورت حال پر روشنی ڈالی، انھوں نے کہا: شہر میں ارتدادی فتنوں سے وہ نوجوان زیادہ متاثر ہورہے ہیں جو عصری تعلیم یافتہ ہیں، جو ملٹی نیشنل کمپنیوں میں ملازم ہیں؛ لیکن اسلام کے بنیادی عقائد وتعلیمات انھیں معلوم نہیں، اس کے علاوہ دیہاتوں میں ارتدادی فتنے پھیلنے اور پنپنے کی وجوہات دوسری ہیں، وہاں جہالت کے علاوہ غربت ایک بڑا مسئلہ ہے اور دیہات کے مسلمانوں سے ہمارا رابطہ نہیں ہوپاتا، اس کے بعد مجلس تحفظ ختم نبوت کے صدر محترم حضرت مولانا شاہ محمد جمال الرحمن صاحب مفتاحی نے اپنے صدارتی خطاب میں علماء کرام وائمہ مساجد پر زور دیا کہ وہ فتنوں کے تعاقب وسدباب کے لیے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں، اس کے لیے اپنی معاشی ضرورتوں کی تکمیل کے سلسلہ میں اندیشوں کا شکار نہ ہوں؛ بلکہ یوں سمجھیں کہ تحفظ دین کا کام ہم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ ذمہ داری ہے، جب ہم اس فرض منصبی کی ادائیگی میں لگے رہیں گے تو اللہ تعالیٰ ہماری ضرورتوں کی بھی تکمیل فرمائیں گے، کام کیے بغیر ہم کو اپنی ضرورتوں کے بارے میں فکرمند ہونا گویا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص کسی کے یہاں ملازم ہو اور وہ اپنے مفوضہ ذمہ داری کو پورا کرنے سے پہلے ہی یہ سوچنے لگے کہ میری تنخواہ کا انتظام کیا ہوگا؟ صدر محترم کی دعاء پر دوسری نشست کا اختتام ہوا۔

بعد نماز مغرب تربیتی اجتماع کی تیسری نشست کا آغاز ہوا، مولانا سید ایوب قاسمی ناظم مجلس تحفظ ختم نبوت ضلع ورنگل نے ”قادیانیوں کے سوالات اور ہمارے جوابات“ کے عنوان پر خطاب کیا اور کہا: قادیانی عام طور پر حضرت عیسیٰ کی وفات اور حیات کا سوال اٹھاتے ہیں، ایسے موقع پر ہمیں اُن کے سوال کی شرارت کو سمجھنا ہوگا اور وفات مسیح حیات مسیح کے مسئلہ پر الجھنے اور دفاعی موقف اختیار کرنے کے بجائے مرزاغلام قادیانی کی زندگی کے حالات کو موضوع بحث بنانا چاہیے۔ اس کے بعد حضرت مولانا شاہ عالم صاحب گورکھپوری کا دوسرا تربیتی خطاب ہوا، اس خطاب میں آپ نے پروجیکٹر کے ذریعہ ظہور مہدی سے متعلق احادیث کی وضاحت فرمائی، آپ نے کہا: اسلام میں ”مہدویت“ نبوت ورسالت کی طرح کوئی عہدہ اور منصب نہیں ہے جس پر کسی کو براجمان ہونے یا کرنے کی ضرورت پیش آئے، یہ تو صرف ایک لقب ہے، جس طرح خلفاء راشدین کو ”المہدیین“ کے لقب سے یاد کیاگیا، اسی طرح قیامت کے بالکل قریب زمانہ میں حضرت محمد بن عبداللہ بھی مسلمانوں کے آخری خلیفہ راشد ہوں گے، احادیث میں ”المہدی“ کے لقب سے ان کا تذکرہ کیاگیا، مولانا محترم کے خطاب کے بعد پہلے دن کی نشستوں کا اختتام ہوا۔

دوسرے دن تربیتی اجتماع کی چوتھی نشست کا آغاز ہوا، اس میں حضرت مولانا شاہ عالم صاحب گورکھپوری کا تیسرا تربیتی خطاب ہوا، اس میں آپ نے حضرت عیسیٰ کے نزول سے متعلق احادیث کی وضاحت فرمائی، آپ نے کہا: ہم جب اسلام کے کسی بھی بنیادی عقیدہ کو مانتے ہیں تو ہمارے ذہن میں یہ بات ہونی چاہیے کہ یہ عقیدہ ہم تک علماً بھی، قولاً بھی، تفہیماً بھی اور تحریراً بھی پہونچا ہے، مولانا محترم نے دوران خطاب اس پر زور دیا کہ مدارس میں عقائد کی تعلیم پر خصوصی توجہ ہونی چاہیے اور ہر علاقہ میں تحفظ ختم نبوت کے کام کرنے والے احباب کی ایک ٹیم ہونی چاہیے؛ تاکہ مختلف فتنوں کے سرغنوں کو یہ احساس رہے کہ کوئی ان کے مقابلہ کے لیے موجود ہے۔

دوسرے دن حضرت مولانا شاہ عالم صاحب گورکھپوری کے خطاب کے بعد تربیتی اجتماع کے معزز مہمان خصوصی حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند وصدر کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کا اہم اور کلیدی خطاب ہوا، حضرت مہتمم صاحب نے اپنے خطاب میں عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت کو واضح فرمایا اور فتنوں کے سد باب کے لیے علماء کرام کو اُن کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا، آپ نے فرمایا: اسلام کے دور اوّل میں اس عقیدہ پر شب خوں مارنے کی کوشش کی گئی، خلیفہ اوّل سیدنا حضرت ابوبکر صدیق کے زمانہٴ خلافت میں اس عقیدہ کا انکار کرنے والوں سے مقابلہ کیاگیا، آپ نے کہا: نبوت،مسیحیت اور مہدویت کے جھوٹے دعویدار پیدا ہوتے رہے اورآئندہ بھی ہوتے رہیں گے یہاں تک کہ حقیقی مہدی اور حقیقی مسیح کا ظہور نہ ہوجائے، مولانا نعمانی نے علماء پر زور دیا کہ وہ فتنوں کے سد باب کے لیے اپنی ذمہ داریاں محسوس کریں، مسجدوں اور عوامی جلسوں میں ان فتنوں کے بارے میں عوام کو سمجھائیں، مولانا نے کہا پڑھنے پڑھانے سے زیادہ اہم مقصدِ دین کا تحفظ ہے، جب دین ہی باقی نہ رہے تو ہمارا پڑھنا پڑھانا کس کام کا؟ دوران خطاب مولانا محترم نے مجلس تحفظ ختم نبوت کی خدمات کو خاص طو رپر سراہا اور فرمایا: کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کے تحت مختلف صوبوں میں کام ہورہا ہے؛ لیکن ماشاء اللہ آپ کے صوبہ تلنگانہ میں اس کام کے لیے مستقل دفتر موجود ہے اوراس کا ایک الگ انتظام ہے اپنی اس کارکردگی کی وجہ سے یہ صوبہ اوّل نمبر پر ہے، خطاب کے آخر میں مہتمم صاحب نے علماء سے عہد لیا کہ وہ تحفظ ختم نبوت کے کام کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہیں گے۔

اس کے بعد مکاتب کے قیام کی اہمیت پر حضرت مولانا احمد عبیدالرحمن اطہر صاحب ندوی قاسمی کا خطاب ہوا، آپ نے کہا: تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کی ذہن سازی بھی نہایت ضروری ہے، انھیں صرف کوئی چیز رٹادینا کافی نہیں اور نصاب میں نیک صالح لوگوں کی کتابیں ہونی چاہیے؛ اس لیے کہ کتاب لکھنے والوں کے افکار کے اثرات بھی پڑھنے والوں پر مرتب ہوتے ہیں، مولانا نے اس پر زور دیا کہ دینی خدمات وسرگرمیوں سے وابستہ احباب کو خالص اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کے لیے کام کرنا چاہیے، نام ونمود اور عہدہ ومنصب کی خواہش سے بلند ہوکر خاموش اور ٹھوس انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔

بعد نماز ظہر کیمپ کی آخری نشست کا آغاز ہوا، اس نشست میں مولانا مفتی صدیق صاحب مظاہری جنرل سکریٹری مجلس تحفظ ختم نبوت نلگنڈہ کا تفصیلی خطاب ہوا، اس میں آپ نے اپنے طویل تجربات کی روشنی میں فتنوں کے سدباب کے لیے عملی تدابیر کی وضاحت فرمائی، آپ نے کہا: فتنوں کے سدباب کے سلسلہ میں سب سے پہلے باری تعالیٰ سے ہمارا قلبی تعلق مضبوط ہونا چاہیے، ہماری ایمانی حس بیدار رہے اور غیرت ایمانی کے جذبہ سے ہم سرشار رہیں، پھر یہ کہ فتنوں کے سدباب کے لیے ہماری کوششیں صرف مخالفانہ جوش وجذبہ کی بنیاد پر نہ ہو اور نہ ہماری معلومات سطحی اور سرسری ہو؛ بلکہ فتنوں کے خلاف ہمارا کام علیٰ وجہ البصیرت ہونا چاہیے، مولانا محترم نے کہا: دیہاتوں میں فتنوں کی جڑ پکڑنے کی وجوہات میں غربت وجہالت کے علاوہ ایک اہم اور بنیادی وجہ دیہات کے مسلمانوں میں ایک دوسرے کے ساتھ امتیازی سلوک ہے، مثلاً بعض مرتبہ ”لداف“ کہے جانے والے مسلمان بھائیوں کے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے، مولانا محترم نے ایک اہم بات کی طرف توجہ دلائی کہ ہم مخالفین کی قابل گرفت تحریروں کو ہوبہو نقل کریں، اُس کو مفہوم بناکر پیش کرنے کی کوشش ہرگز نہ کریں۔

مولانا محترم کے خطاب کے بعد بہت مختصر وقت کے لیے شرکاء کیمپ کے تاثرات کا سلسلہ رہا، اس میں شرکاء نے کیمپ کے انعقاد کو خوش آئند قرار دیا اور کہا: اس کیمپ میں شرکت کے بعد ہمیں موجودہ دور کے فتنوں کی حقیقت معلوم ہوئی، فتنوں کے سدباب اور تعاقب کے لیے کام کرنے کا حوصلہ ملا اور کام کرنے سے متعلق طریقہٴ کار کیا ہونا چاہیے؟ اس کی بھی رہنمائی ملی، مولانا مفتی عبدالقدوس صاحب ظہیرآباد، مولانا مفتی غیاث محی الدین صاحب کریم نگر، مولانا حسان الحق مظاہری صاحب استاذ المعہد العالی الاسلامی، مولانا مفتی حشمت علی صاحب حسامی پٹن چیرو اور مولانا مفتی عبداللہ حامد رشادی صاحب محبوب نگر نے تاثرات پیش کیے، کیمپ کے مربی خصوصی حضرت مولانا شاہ عالم صاحب گورکھپوری کی دعاء پر دوروزہ کیمپ اختتام کو پہنچا۔

دوروزہ تربیتی کیمپ میں مہمانان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کرنے والوں میں حضرت مولانا قاضی سمیع الدین صاحب رکن تاسیسی مجلس علمیہ، مولانا مفتی غلام صمدانی صاحب قاسمی نائب صدر شریعہ بورڈ امریکہ، مولانا حسام الدین ثانی: جعفر پاشا صاحب امیر ملت اسلامیہ، مولانا قاضی عبدالرحمن صاحب قاسمی خطیب مسجد سرائے سداسیوپیٹ، مولانا احمد عبداللہ طیب صاحب ناظم مدرسہ اشاعت الخیر اور مولانا محمدبانعیم مظاہری صاحب جدہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ گنٹور، نیلور، کریم نگر، ورنگل، کھمم، ظہیرآباد، نلگنڈہ، کرشنا ، شہر حیدرآباد اور اس کے مضافات سے علماء وائمہ کی قابل ذکر تعداد شریک تھی، نیز المعہد العالی الاسلامی کے شعبہٴ تخصصات کے طلبہ نے بھی شرکت کی، محترم جناب رحیم الدین انصاری صاحب ناظم دارالعلوم حیدرآباد نے دو روزہ کیمپ کی نگرانی کی، مولانا سید مصباح الدین حسامی نائب ناظم مدرسہ اسلامیہ گلزار مدینہ، مولانا سید امجد محی الدین ندوی صدر مدرس مدرسہ گلزار مدینہ اور دیگر اساتذہ نے کیمپ کے انتظامات میں حصہ لیا، مولانا محمد ارشد علی قاسمی سکریٹری مجلس تحفظ ختم نبوت، مولانا وجیہ الدین قاسمی، مولانا صلاح الدین قاسمی اور مولانا مفتی احمد قاسمی (ناظرین مجلس تحفظ ختم نبوت) نے کیمپ میں تشریف لانے والے معزز علماء اورائمہ کرام کا استقبال کیا، مولانا محمد انصار اللہ قاسمی آرگنائزر مجلس تحفظ ختم نبوت نے دوروزہ کیمپ کی کارروائی چلائی۔

کیمپ کے اختتام کے بعد اُسی دن (۲۶/مارچ ۲۰۱۷ء) بعد نماز عشاء میجسٹک گارڈن ٹولی چوکی میں مجلس تحفظ ختم نبوت حلقہ ٹولی چوکی کے زیراہتمام جلسہٴ عام بہ عنوان ”جان سے پیارا ایمان ہمارا“ منعقد ہوا، حضرت مولانا صلاح الدین سیفی نقشبندی صاحب خلیفہ ومجاز حضرت مولانا پیر ذوالفقار نقشبندی نے صدارت فرمائی، صدارتی خطاب میں آپ نے عوام کو غیبت سے دور رہنے کی تلقین کی اور کہا کہ اپنی بیٹھکوں میں یہ جملہ لکھ کر آویزاں کردیا جائے کہ ”جو موجود نہیں اُس کی بات نہیں“ اس کے علاوہ آپ نے اس پر بھی زور دیا کہ نرمی اور محبت کے ساتھ اصلاح کی جائے، تب ہی کوئی شخص اصلاح کی راہ پر آسکتا ہے،جلسہٴ عام میں صدارتی خطاب سے پہلے حضرت مولانا شاہ عالم صاحب گورکھپوری نائب ناظم کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت اور مولانا محمد ارشد علی قاسمی سکریٹری مجلس تحفظ ختم نبوت کے بھی خطابات ہوئے، مولانا محمد احمد علی حسامی کی تلاوت سے جلسہ کا آغاز ہوا، مولانا پیر عبدالوہاب قاسمی نے ہدیہٴ نعت پیش کی اور مولانا محبوب الٰہی نے ختم نبوت کے عنوان پر نظم سنائی، مولانا موسیٰ خان ندوی امام وخطیب مسجد بلال ٹولی چوکی واستاذ حدیث دارالعلوم رحمانیہ نے جلسہ عام کی کارروائی چلائی، رات دیر گئے اجلاس کے صدر محترم کی دعاء پر جلسہ ختم ہوا، مردو خواتین کی کثیر تعداد شریک تھی۔

————————————————————-

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ5-6، جلد:101 ‏،شعبان۔رمضان 1438 ہجری مطابق مئی۔جون 2017ء

Related Posts