از: مولانا محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض
حدیث شریف میں علمائے دیوبند کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے، بخاری شریف سے متعلق خدمات کے ذکر سے پہلے امام بخاری کی مختصر سوانح حیات پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
نام ونسب:
نام: محمد بن اسماعیل اور کنیت: ابو عبداللہ ہے۔ ازبکستان کے شہر بخاریٰ میں پیدائش کی وجہ سے بخارِی کہلائے گئے۔
ولادت اور وفات:
آپ ۱۳ شوال ۱۹۴ھ بروز جمعہ پیدا ہوئے اور تقریباً ۶۲ سال کی عمر میں عید الفطر کی چاند رات کو مغرب وعشاء کے درمیان۲۵۶ھ میں آپ کی وفات ہوئی اور عید الفطر کے دن بعد نمازِ ظہر سمرقند کے قریب ”خرتنگ“ نامی جگہ میں دفن کیے گئے۔
تعلیم وتربیت:
آپ کے بچپن میں ہی والد محترم (اسماعیل) کا سایہ سر سے اٹھ گیا، آپ کی تعلیم وتربیت ماں کی گود میں ہوئی۔ صرف ۱۶ سال کی عمر میں احادیث کی بیشتر کتابیں پڑھ کر آپ نے تقریباً ستر ہزار حدیثیں زبانی یاد کرلی تھیں۔ آپ کی بینائی بچپن میں ہی چلی گئی تھی، ایک مرتبہ آپ کی والدہ نے خواب میں دیکھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام فرمارہے ہیں کہ اے عورت! اللہ تعالیٰ نے تیری دعا کی برکت سے تیرے بیٹے کی بینائی واپس کردی ہے؛ چنانچہ صبح ہوئی تو امام بخاری بالکل بینا تھے۔ آپ کے والد محترم نے وفات کے وقت فرمایا تھا کہ میرے تمام مال میں نہ کوئی درہم حرام کا ہے اور نہ مشتبہ کمائی کا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی پرورش بالکل حلال رزق سے ہوئی تھی اور آخری عمر تک امام بخاری بھی اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلے، غرض آپ نے کبھی لقمہٴ حرام نہیں کھایا۔
علم حدیث کی تحصیل:
ابتدا میں اپنے ہی علاقے کے بیشتر شیوخ سے احادیث پڑھیں۔ والدہ اور بھائی کے ساتھ حج کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ گئے،والدہ اور بھائی تو اپنے وطن واپس آگئے؛ مگر آپ حج سے فراغت کے بعد مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے شیوخ سے احادیث سنتے رہے۔ اس کے بعد حدیث کے حصول کے لیے متعدد سفر کرکے مصر ، شام، عراق ودیگر ممالک کے شیوخ سے آپ نے احادیث پڑھیں۔ اس طرح آپ کم عمری میں ہی حدیث کے امام بن کر سامنے آئے۔
قوتِ حافظہ:
اللہ تعالیٰ نے امام بخاری کو خصوصی قوتِ حافظہ عطا فرمائی تھی؛ چنانچہ وہ ایک بات سننے کے بعد ہمیشہ یاد رکھتے تھے۔ آپ کے استاذ امام محمد بن بشار فرماتے تھے کہ اس وقت دنیا میں خصوصی حافظہ رکھنے والے چار شخص ہیں: امام بخاری، امام مسلم، امام ابوزرعہ رازی اور امام عبداللہ بن عبدالرحمن سمرقندی۔ شارح صحیح بخاری علامہ ابن حجر کہتے ہیں کہ ان چاروں میں امام بخاری کو خاص فضیلت اور ترجیح حاصل تھی۔
آپ کے اساتذہٴ کرام:
علامہ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ امام بخاری کے اساتذہ کی تعداد کا کوئی اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ خود امام بخاری کا اپنا بیان ہے کہ” میں نے اسی ہزار حضرات سے روایت کی ہے جو سب بلند پایہ اصحابِ حدیث میں شمار ہوتے تھے“۔
آپ کے تلامذہ:
آپ کے تلامذہ کی کثرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ علامہ فِرَبری فرماتے ہیں کہ جب میں امام بخاری کی شہرت سن کر آپ کی شاگردی کا شرف حاصل کرنے آپ کی خدمت میں پہنچا تو اس وقت تک تقریباً نوے ہزار آدمی آپ کے شاگرد ہوچکے تھے۔ نامور شاگردوں میں امام ترمذی اور علامہ دارمی بھی شامل ہیں۔
تالیفات امام بخاری:
امام بخاری کی تصانیف میں آٹھ کتابیں زیادہ مشہور ہیں: الأدب المفرد، التاریخ الصغیر۔ الأوسط، التاریخ الکبیر، الضعفاء الصغیر، قرة العینین برفع الیدین فی الصلاة، خلق أفعال العباد، القرائة خلف الامام، اور سب سے مایہٴ ناز کتاب صحیح بخاری شریف ہے۔
صحیح بخاری کا مکمل نام:
صحیح بخاری کا مکمل نام یہ ہے: اَلْجَامِعُ الْمُسْنَدُ الصَّحِیْحُ الْمُخْتَصَرُ مِنْ اُمُورِ رَسُولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وَسُنَنِہِ وَاَیَّامِہِ۔ بعض حضرات نے الفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ اِس کا نام اس طرح تحریر کیا ہے۔ اَلْجَامِعُ الصَّحِیْحُ الْمُسْنَدُ مِنْ حَدِیْثِ رَسُولِ اللہ ﷺ وَسَلَّم وَسُنَنِہِ وَاَیَّامِہِ۔
صحیح بخاری کے لکھنے کی وجہ:
امام بخاری نے حجاز کے تیسرے سفر میں مسجد نبوی سے متصل ایک رات خواب میں دیکھا کہ میرے ہاتھ میں ایک بہت ہی خوبصورت پنکھا ہے اور میں اس کو نہایت اطمینان سے جھل رہا ہوں۔ صبح کو نماز سے فارغ ہوکر امام بخاری نے علماء کرام سے اپنے خواب کی تعبیر دریافت فرمائی۔ انھوں نے جواب دیا کہ آپ صحیح حدیثوں کو ضعیف وموضوع حدیثوں سے علیحدہ کریں گے۔ اس تعبیر نے امام بخاری کے دل میں صحیح احادیث پر مشتمل ایک کتاب کی تالیف کا احساس پیدا کیا۔ اس کے علاوہ اس ارادہ کو مزید تقویت اس بات سے پہونچی کہ آپ کے استاذ شیخ اسحاق بن راہویہ نے ایک مرتبہ آپ سے فرمایا: کیا ہی اچھا ہوتا کہ تم ایسی کتاب تالیف فرماتے جو صحیح احادیث کی جامع ہوتی۔ خواب کی تعبیر اور استاذ کے ارشاد کے بعد امام بخاری صحیح بخاری لکھنے میں ہمہ تن مشغول ہوگئے۔ صحیح بخاری تحریر کیے جانے تک حدیث کی تقریباً تمام ہی کتابوں میں صحیح ، حسن اور ضعیف تمام قسم کی احادیث جمع کی جاتی تھیں۔ نیز صحیح بخاری تحریر کیے جانے تک علم حدیث کی بہ ظاہر تدوین بھی نہیں ہوئی تھی جس کی وجہ سے اصول بھی عام طور پر سامنے نہیں آئے تھے جو صحیح اور غیر صحیح میں امتیاز پیدا کرتے۔ صحیح بخاری کی تصنیف کے بعد بھی حدیث کی اکثر کتابیں صحیح، حسن اور ضعیف پر مشتمل ہیں۔
صحیح بخاری کے لکھنے میں وقت:
امام بخاری نے سب سے پہلے تقریباً ۶ لاکھ احادیث کے مسودات ترتیب دیے۔ اس میں کئی سال لگ گئے۔ اس سے فارغ ہوکر آپ نے احادیث کی جانچ شروع کی اور اس اہم ذخیرے سے ایک ایک گوہر چن کر صحیح بخاری میں جمع کرنا شروع کردیا۔ آپ خود فرماتے ہیں کہ ہر حدیث کو صحیح بخاری میں لکھنے سے قبل غسل فرماکر دو رکعت نفل ادا کرتا ہوں۔ آپ کو جب کسی حدیث کی سند میں اطمینان نہیں ہوتا تو آپ مسجد حرام یا مسجد نبوی میں بہ نیت استخارہ دو رکعت نماز پڑھتے اور پھر قلبی اطمینان کے بعد ہی اس حدیث کو اپنی کتاب میں تحریر فرماتے۔ غرض انھوں نے ۱۶ سال دن ورات جدوجہد کرکے یہ کتاب تحریر فرمائی۔
صحیح بخاری میں احادیث کی تعداد:
صحیح بخاری میں سات ہزار سے کچھ زیادہ احادیث ہیں جو سب کی سب صحیح ہیں؛ البتہ بعض محدثین نے ۷ یا ۸/ احادیث کی سند پر کلام کیا ہے؛ مگر صحیح بات یہ ہے کہ تمام احادیث صحیح ہیں۔ متعدد احادیث مختلف ابواب میں بار بار مذکور ہوئی ہیں، مثلاً حدیث (اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیِّاتِ) مختلف ابواب کے تحت متعدد مرتبہ مذکور ہوئی ہے۔ تقریباً تین ہزار احادیث اس کتاب میں غیر مکررہ ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام ہی صحیح احادیث اس کتاب میں جمع ہوگئی ہیں؛ بلکہ صحیح احادیث کی ایک اچھی خاصی تعداد ایسی ہے جو امام بخاری کے علاوہ دیگر محدثین نے اپنی کتابوں میں ذکر کی ہے جیساکہ امام بخاری نے خود اس کا اعتراف کیا ہے۔
معلقات صحیح بخاری:
امام بخاری نے اپنی کتاب میں بعض احادیث سند کے بغیر یا ابتدائی سند میں سے کسی ایک یا چند راوی کو ذکر کیے بغیر تحریر فرمائی ہیں،ان کو ”معلقاتِ بخاری“ کہا جاتا ہے۔ سب سے پہلے امام ابوالحسن دارقطنی (متوفی ۳۸۵ھ) نے معلقات کی اصطلاح امت کے سامنے پیش کی۔ امام بخاری نے بعض معلقات کوصیغہٴ جزم (یقین کے صیغہ)کے ساتھ ذکر کیا ہے، جن کے صحیح ہونے پر امتِ مسلمہ متفق ہے؛ جبکہ بعض معلقات صیغہٴ تمریض (شک کے صیغہ ) کے ساتھ ذکر کی ہیں، جن پر بعض محدثین نے کلام کیا ہے۔ امام بخاری نے یہ معلقات عموماً دو وجہوں میں کسی ایک وجہ سے اپنی کتاب میں ذکر فرمائی ہیں:( ۱) وہ حدیث اُن شرائط پر نہ اترتی ہو جو امام بخاری نے اپنی کتاب کے لیے طے کی تھیں؛ مگر کسی خاص فائدہ کے مدِ نظر وہ حدیث معلق ذکر کردی۔
( ۲) صرف اختصار کی وجہ سے سند کے بغیر یا ابتدائی سند میں سے کسی ایک یا چند راوی کو ذکر کیے بغیر تحریر فرمادی۔
معلقات صحیح بخاری کی تعداد:
علامہ ابن حجر نے فتح الباری میں تحریر کیا ہے کہ بخاری میں معلقات کی تعداد ۱۳۴۱ ہے، جن میں سے اکثر متعدد مرتبہ ذکر کی گئی ہیں،بعض محدثین نے اس سے بھی زیادہ تعداد ذکر کی ہے؛ البتہ صحیح مسلم میں معلقات بہت کم ہیں؛ اسی وجہ سے بعض محدثین نے مسلم کو بخاری پر فوقیت دی ہے۔
ترجمة الابواب:
امام بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری کو مختلف ابواب میں مرتب کیا ہے اور ہر باب کے تحت متعدد احادیث ذکر کی ہیں۔ صحیح بخاری میں ہر باب کے تحت مذکورہ احادیث کی باب سے مناسبت عموماً مشکل سے سمجھ میں آتی ہے جس پر محدثین وعلماء بحث کرتے ہیں جو ایک مستقل علم کی حیثیت اختیار کرگئی ہے جس کو ترجمة الأبواب کہا جاتا ہے۔
کتاب کی علمی حیثیت:
امام بخاری پہلے شخص ہیں، جنہوں نے صرف احادیثِ صحیحہ پر اکتفا فرماکر صحیح بخاری تحریر فرمائی۔ اس سے قبل جو کتابیں تحریر کی گئیں وہ صحیح ، حسن اور ضعیف وغیرہ جملہ احادیث پر مشمل ہوا کرتی تھیں۔ امام بخاری کے بعد بعض محدثین، مثلاً امام مسلم نے اس سلسلہ کو جاری رکھا؛ مگر جمہور علماء امت نے صحیح بخاری کو دیگر تمام احادیث کی کتابوں پر فوقیت دی ہے۔ صحیح بخاری کے بعد بھی تحریر کردہ زیادہ تر احادیث کی مشہور ومعروف کتابیں (ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، ابوداود وغیرہ) حدیث کی تمام ہی اقسام (صحیح، حسن،ضعیف وغیرہ) پر مشتمل ہیں۔
ثلاثیاتِ امام بخاری :
صحیح بخاری میں ۲۲ حدیثیں ثلاثیات ہیں۔ثلاثیات کے معنی صرف تین واسطوں (مثلاً صحابی، تابعی اور تبع تابعی)سے محدث حدیث ذکر کرے۔ ”ثلاثی“ حدیث کی سند میں راویوں کی تعداد کے اعتبار سے اعلیٰ سند ہوتی ہے، یعنی تین واسطوں سے کم کوئی بھی حدیث کتبِ حدیث میں موجود نہیں ہے۔ ان ۲۲ احادیث ِثلاثیات میں سے ۲۰ حدیثیں امام بخاری نے امام ابو حنیفہ کے شاگردوں سے روایت کی ہیں۔ امام ابوحنیفہ کے شاگرد شیخ المکی بن ابراہیم سے ۱۱، امام ابو عاصم سے ۶ اور امام ابوحنیفہ کے شاگرد امام زفر کے شاگرد امام محمد بن عبداللہ انصاری سے ۳ روایات اپنی کتاب میں ذکر کی ہیں۔ معلوم ہوا کہ امام بخاری (۱۵۴ھ۔۲۵۶ھ) امام ابوحنیفہ (۸۰-۱۵۰ھ) کے شاگردوں کے شاگرد ہیں۔
صحیح بخاری کی شروح:
محدثین وعلماء نے صحیح بخاری کی متعدد شروح تحریر فرمائی ہیں، جن میں احادیث کی وضاحت کے ساتھ ترجمة الابواب اور راویوں پر تفصیلی بحث فرمائی ہیں، نیز احکام مستنبط کیے ہیں؛ لیکن ان تمام شروح میں علامة ابن حجر العسقلانی الشافعی(متوفی ۸۵۲ھ) کی فتح الباری سب سے زیادہ مشہور ہے جس کی ۱۴ جلدیں ہیں۔
صحیح بخاری وعلماء دیوبند کی خدمات:
درس حدیث کو غور وفکر اور تدبر ومعانی سے پڑھنے پڑھانے کا جو پودا بر صغیر میں شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے لگایا تھا، علماء دیوبند نے اس کی بھرپور آبیاری کرکے اسے تناور درخت بنادیا؛ چنانچہ برصغیر کے چپہ چپہ سے طالبان علومِ حدیث کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر امڈ پڑا اور صرف ۱۵۰ سال کی تاریخ میں دارالعلوم دیوبند اور اس طرز پر قائم ہزاروں مدارس کے لاکھوں فضلاء علوم حدیث پڑھ کر دنیا کے چپہ چپہ میں علوم نبوت کی اشاعت میں مشغول ہوگئے۔ علماء دیوبند کی حدیث کی نمایاں خدمات کا اعتراف عرب علماء نے بھی کیا ہے؛ چنانچہ کویت کے ایک وزیر ”یوسف سید ہاشم الرفاعی“ نے تحریر کیا ہے کہ حافظ ذہبی اور حافظ ابن حجر جیسے معیار کے علماء دارالعلوم دیوبند میں موجود ہیں۔ برصغیر کے علماء خاص طور پر علماء دیوبند نے صحیح بخاری کی متعدد شروح تحریر فرمائی ہیں، جن میں سے علامہ محمد انور شاہ کشمیری کی شرح ”فیض الباری“ کوبڑی شہرت حاصل ہوئی ہے۔
علماء دیوبند کی تحریر کردہ صحیح بخاری کی بعض اہم شروح:
فیض الباری: یہ محدث کبیر شیخ محمد انور شاہ کشمیری کا درس بخاری ہے جس کو ان کے شاگرد رشید شیخ بدر عالم میرٹھی مہاجر مدنی نے عربی زبان میں مرتب کیا ہے۔ سب سے پہلے یہ شرح مصر سے شائع ہوئی، اس کے بعد سے دنیا کے بے شمار ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوئی؛ چنانچہ آج عرب وعجم میں اس شرح کو صحیح بخاری کی اہم شروح میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کی چار ضخیم جلدیں ہیں، بعض ناشرین نے چھ جلدوں میں شائع کیا ہے۔ عرب وعجم میں علامہ محمد انور شاہ کشمیری کا شمار مستند ومعتبر محدثین میں کیا جاتا ہے۔ مشرق ومغرب کے تمام علمی حلقوں نے علامہ محمد انور شاہ کشمیری کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا ہے۔
تعلیقات جامعة علی صحیح البخاری (عربی): شیخ الحدیث احمد علی سہارن پوری نے بخاری کے ۲۵/ اجزاء پر تعلیقات کی، باقی پانچ حصوں پر ان کے شاگرد شیخ محمد قاسم نانوتوی نے تعلیق کی۔
الأبواب والتراجم للبخاری: اس کتاب میں بخاری شریف کے ابواب کی وضاحت کی گئی ہے۔ صحیح بخاری میں احادیث کے مجموعہ کے عنوان پر بحث ایک مستقل علم کی حیثیت رکھتی ہے، جسے ترجمة الابواب کہتے ہیں۔ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا نے اس کتاب میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور علامہ ابن حجر العسقلانی جیسے علماء کے ذریعہ بخاری کے ابواب کے بارے میں کی گئی وضاحتیں ذکر کرنے کے بعد اپنی تحقیقی رائے پیش کی ہے۔ یہ کتاب عربی زبان میں ہے اور اس کی ۶ جلدیں ہیں۔
لامع الدراری علی جامع صحیح البخاری: یہ مجموعہ دراصل شیخ رشید احمد گنگوہی کا درسِ بخاری ہے جو شیخ محمد زکریا کاندھلوی کے والد شیخ محمد یحییٰ نے اردو زبان میں قلم بند کیا تھا۔ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا نے اس کا عربی زبان میں ترجمہ کیا اور کچھ حذف واضافہ کرکے کتاب کی تعلیق اور حواشی خود تحریر فرمائے۔ اس طرح شیخ الحدیث کی ۱۲ سال کی انتہائی کوشش اور محنت کی وجہ سے یہ عظیم کتاب منظر عام پر آئی۔ اس کتاب پر شیخ الحدیث کا مقدمہ بے شمار خوبیوں کا حامل ہے۔ یہ کتاب عربی زبان میں ہے اور اس کی ۱۰ جلدیں ہیں۔
انوار الباری فی شرح صحیح البخاری: یہ محدث کبیر شیخ محمد انور شاہ کشمیری کا درس بخاری ہے ،جس کو شیخ احمد رضا بجنوری نے اردو زبان میں مرتب کیا ہے۔
ایضاح البخاری: یہ شیخ فخر الدین احمد مرادآبادی کا درس بخاری ہے جو شیخریاست علی بجنوری زیدمجدہ استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند نے اردو زبان میں مرتب کیا ہے، اس کی دس ضخیم جلدیں آچکی ہیں۔
شرح تراجم البخاری: شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی۔
شرح تراجم البخاری: شیخ مولانا محمد ادریس کاندھلوی ۔
التقریر علی صحیح البخاری: شیخ محمد زکریاکاندھلوی، شیخ محمد یونس۔
ارشاد القاری الی صحیح البخاری: شیخ مفتی رشید احمد لدھیانوی۔
تلخیص البخاری شرح صحیح البخاری: شیخ شمس الضحیٰ مظاہری۔
تحفة القاری فی حل مشکلات البخاری: شیخ محمد ادریس کاندھلوی۔
امداد الباری فی شرح البخاری: شیخ عبد الجبار اعظمی۔
جامع الدراری فی شرح البخاری: شیخ عبد الجبار اعظمی۔
التصویبات لما فی حواشی البخاری من التصحیفات: شیخ عبد الجبار اعظمی۔
الخیر الجاری علی صحیح البخاری: شیخ خیر محمد مظفر گڑھی۔
النور الساری علی صحیح البخاری: شیخ خیر محمد مظفر گڑھی۔
احسان الباری لفہم البخاری: شیخ محمد سرفراز خان صفدر۔
جواہر البخاری علی اطراف البخاری: شیخ قاضی زاہد حسینی ۔
انعام البخاری فی شرح أشعار البخاری: شیخ عاشق الٰہی بلندشہری ومہاجر مدنی۔
دروس بخاری: شیخ حسین احمد مدنی کا درس بخاری ہے جس کو حضرت مولانا نعمت اللہ اعظمی مدظلہ العالی استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند نے مرتب فرمایا ہے۔
ترجمة صحیح بخاری: شیخ شبیر احمد عثمانی ۔
فضل الباری شرح صحیح بخاری: شیخ شبیر احمد عثمانی ۔
النبراس الساری فی أطراف البخاری: یہ شیخ عبد العزیز گوجرانوالہ کی عربی زبان میں بخاری کی شرح ہے جو ۲جلدوں پر مشتمل ہے۔ ان کا حاشیہ ”مقیاس الواری علی النبراس الساری“ بھی کافی اہمیت کا حامل ہے۔
تحقیق وتعلیق لامع الدراری علی جامع البخاری: شیخ محمد زکریا کاندھلوی۔
انعام الباری شرح بخاری: شیخ محمد امین چاٹگامی۔
نصر الباری شرح البخاری: یہ صحیح بخاری کی شرح ہے جو حضرت مولانا عثمان غنی چلمل، شیخ الحدیث مظاہرعلوم وقف سہارنپور نے تالیف کی ہے جس کی ۱۴ جلدیں ہیں۔
تفہیم البخاری: یہ صحیح بخاری کا اردو ترجمہ ہے جو شیخ ظہور الباری اعظمی قاسمی نے کیا ہے، عربی متن کے ساتھ جس کی ۳جلدیں ہیں۔
حمد المتعالی علی تراجم صحیح البخاری: یہ شیخ سید بادشاہ گل کی کتاب ہے جو شیخ حسین احمد مدنی کے شاگرد ہیں۔
فضل البخاری فی فقہ البخاری: یہ شیخ عبدالروٴوف ہزراوی کی کتاب ہے جو علامہ محمدانورشاہ کشمیری کے شاگرد ہیں۔
تسہیل الباری فی حل صحیح البخاری: شیخ صدیق احمد باندوی ۔
کشف الباری فی شرح البخاری: شیخ سلیم اللہ خان صاحب۔
شرح البخاری، تجرید البخاری: شیخ محمد حیات سنبھلی۔ یہ شیخ مفتی عاشق الٰہی کے استاذ ہیں۔
انعام الباری، دروس بخاری شریف: یہ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ تعالیٰ کا درس بخاری ہے جو مولانا مفتی محمد انور حسین صاحب نے اردو زبان میں مرتب کیا ہے، اس کی ۱۶ جلدیں ہیں ،جن میں سے سات جلدیں شائع ہوچکی ہیں، دیگر جلدیں زیر طبع ہیں۔
تحفة القاری، شرح صحیح البخاری: یہ حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالنپوری حفظہ اللہ تعالیٰ شیخ الحدیث وصدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند کی شرح ہے، گیارہ جلدوں میں مکمل ہوئی ہے۔
مدرسہ شاہی مرادآباد کے استاذ حدیث مولانا مفتی شبیر احمد حفظہ اللہ نے بھی صحیح بخاری میں باب اور حدیث نمبر وغیرہ لگاکر اہم خدمات پیش فرمائی ہیں۔
بعض محدثین علماء دیوبند نام:
دارالعلوم دیوبند اور مظاہر العلوم سہارن پور کے قیام کے بعد بر صغیر میں مدارس اسلامیہ کا ایسا عظیم جال پھیلادیا گیا کہ اس سے برصغیر میں رہنے والے کروڑوں مسلمانوں کی دینی تعلیم وتربیت کا نہ صرف معقول انتظام ہوا؛ بلکہ مدارسِ اسلامیہ کے طلبہ واساتذہ نے قرآن وحدیث کی ایسی خدمات پیش کیں کہ عرب وعجم میں ان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا؛چنانچہ مصر سے شائع ہونے والے مشہور علمی رسالہ ”المنار“ کے ایڈیٹر ومعروف عالم دین”شیخ سید رشید رضا“ لکھتے ہیں : ”ہندوستانی علماء کی توجہ اِس زمانہ میں علم الحدیث کی طرف متوجہ نہ ہوتی تو مشرقی ممالک سے یہ علم ختم ہوچکا ہوتا؛ کیونکہ مصر، عراق اور حجاز میں یہ علم ضعف کی آخری منزل تک پہنچ گیا تھا“۔
ان مدارس اسلامیہ کے ذریعہ برصغیر میں ایسے باصلاحیت محدثین پیدا ہوئے جنہوں نے زندگی کا وافر حصہ حدیث خاص کر صحیح بخاری وصحیح مسلم کو پڑھنے پڑھانے یا اس کی شرح لکھنے میں صرف کیا۔ ان محدثین میں سے چند نمایاں نام حسب ذیل ہیں: مولانا محمد قاسم نانوتوی ، مولانا رشید احمد گنگوہی، شیخ الہند مولانا محمود الحسن ، مولانا خلیل احمد سہارن پوری، مولانا محمد انور شاہ کشمیری، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا فخر الدین احمد مرادآبادی، مولانا محمد ادریس کاندھلوی، مولانامحمد زکریا کاندھلوی ، ابوالمآثرمولانا حبیب الرحمن اعظمی، مولانا محمد اسماعیل سنبھلی (جو راقم الحروف کے حقیقی دادا ہیں)، مولانا عبد الجبار اعظمی، مولانا نصیر احمد خان، مولانا عثمان غنی، مولانا خورشید عالم، مولانا سید انظرشاہ کشمیری ، مولانا محمد یونس جونپوری ، مولانا محمد تقی عثمانی، مولانا نعمت اللہ اعظمی، مولانا ریاست علی بجنوری، مولانا عبدالحق اعظمی اور مولانا سعید احمد پالنپوری دامت برکاتہم ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مدارسِ اسلامیہ کی حفاظت فرمائے اور ہمیں قرآن وحدیث سمجھ کر پڑھنے والا، اس پر عمل کرنے والا اور اس کو دوسروں تک پہنچانے والا بنائے۔ آمین، ثم آمین۔
————————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ3، جلد:101 ، جمادی الاخری 1438 ہجری مطابق مارچ 2017ء