حرفِ آغاز
مولانا محمد سلمان بجنوری
ماہ جنوری کا شمارہ تیاری کے مراحل میں تھا کہ استاذ محترم حضرت مولانا عبدالحق اعظمی رحمہ اللہ کا سانحہٴ وفات پیش آگیا، اس لیے طے کیاگیا کہ اس شمارے میں حضرت مرحوم پر کچھ مضامین شامل کرکے دوماہ کا مشترکہ شمارہ شائع کیا جائے، چنانچہ یہ ماہ جنوری وفروری ۲۰۱۷/ کا شمارہ پیش کیا جارہا ہے جس کی ضخامت پورے دوشماروں کے برابر (ایک سو بارہ صفحات) ہے۔ |
۲۰۱۷ء کا آخری دن، برصغیر کے علمی ودینی حلقوں اور مدارس اسلامیہ، بالخصوص ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے لیے غم کا دن بن گیا کہ اس کی شب میں دارالعلوم کے قدیم، موقر، مقبول وممدوح استاذ حدیث حضرت مولانا شیخ عبدالحق اعظمی رحلت فرماگئے۔ انّا للّٰہ وانّا الیہ راجعون․ اللہ رب العزت حضرت کی مغفرت فرماکر ان کو اپنے قرب خاص سے نوازے، آمین!
موت تو کسی بھی شخص کی غیرمتوقع نہیں اور حضرت الاستاذ تو عمر کی نویں دہائی پوری کررہے تھے پھر بھی ان کی وفات کی خبرسُن کر ایک جھٹکا لگا اور ان کا حادثہٴ وفات اچانک سا محسوس ہوا، شاید اس کی یہ وجہ ہو کہ وہ تدریسی خدمت انجام دیتے دیتے ہی چلے گئے؛ کیوں کہ امتحان ششماہی سے پہلے تک انھوں نے اسباق پڑھائے تھے اور امتحان کی مختصر سی تعطیل کے آخری دن وہ راہ گذار آخرت ہوگئے، اس طرح اُن پر یہ شعر پورے طور پر صادق آتا ہے۔
زمانہ بڑے غور سے سن رہا تھا
ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے
حضرت الاستاذ رحمہ اللہ کا تعلق علماء کی اس خوش بخت نسل سے تھا جس کو، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمدمدنی نوراللہ مرقدہ کے چشمہٴ فیض سے سیراب ہونے کا موقع عطا ہوا تھا اور جس نے شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی اور علامہ محمد ابراہیم بلیاوی جیسے اساطین علم سے اپنی علمی پیاس بجھائی تھی، اس لیے ان کے علم میں پختگی اور نورانیت کا امتزاج تھا، پھر ان کو فراغت کے فوراً بعد ہی تدریس سے وابستگی کی توفیق ملی جو زندگی کے آخری سانس تک جاری رہی۔ اس لیے ان کی نظر میں وسعت اور گہرائی بھی پائی جاتی تھی، ان کی تدریسی خدمات کی مدت تقریباً ۶۵ سال ہے، اس قدر طویل تدریسی تجربہ نے ان کی شخصیت کو کندن بنادیا تھا۔ نیز اس کے نتیجہ میں ان کے تلامذہ کا حلقہ بے حد وسیع ہوچکا تھا، صرف دارالعلوم دیوبند کی ۳۵ سالہ مدت تدریس میں ان سے پڑھنے والوں کی تعداد ایک اندازہ کے مطابق تیس ہزار سے زائد ہے۔ اس سے پہلے انھوں نے جن مدارس میں پڑھایا وہاں کے تلامذہ بھی ہزاروں میں ہیں، جن میں سے اکثر دینی خدمات میں مصروف ہیں۔ خود دارالعلوم کے اساتذہ میں ان کے شاگرد پچیس تیس سے کم نہیں ہوں گے۔
تلامذہ کی شکل میں اس علمی فیضان کے علاوہ ان کی خوش بختی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان کو شروع ہی سے حدیث نبوی کی تدریس کے مواقع حاصل ہوئے، جس کے نتیجہ میں وہ اس وقت تقریباً پورے ہندوستان میں تدریس حدیث کا سب سے طویل تجربہ رکھنے والی شخصیت کی حیثیت اختیار کرگئے تھے۔ یہ بلاشبہ ایک عظیم امتیاز ہے، پھر حدیث نبوی کی خدمت بجائے خود جس درجہ کی سعادت ہے وہ اس پر مستزاد۔
تدریس کے ساتھ حضرت الاستاذ میدان خطابت میں بھی امتیاز رکھتے تھے۔ انداز بیان سادہ مگر موٴثر تھا، بیان میں روانی اور مواد کی فراوانی ہوتی تھی، آواز بلند اور صاف تھی، پورے ملک میں ان کا خطاب مقبول تھا، جلسوں کے سلسلے میں قریب و دور کے اسفار فرماتے تھے۔ اس کے باوجود سبق پر قابو رہتا تھا۔ ان کا درس بھی مقبول تھا اور طلبہٴ حدیث اس میں دلچسپی سے شریک ہوتے تھے۔
تدریس وخطابت کے ان امتیازات کے ساتھ ان کی ایک اور علمی خدمت، ہمارے علم میں بھی وفات کے بعد آئی کہ انھوں نے مئو میں تدریسی خدمات کے علاوہ سالہا سال فتویٰ نویسی کا کام بھی کیا اور ان کے تحریر کردہ ہزاروں فتاویٰ وہاں محفوظ ہیں، ضرورت ہے کہ ان کو مرتب کرکے شائع کیا جائے۔
ان تمام علمی خصوصیات وخدمات کے ساتھ وہ دل روشن کی دولت سے بھی بہرہ ور تھے متعدد مشائخ سلوک سے اُن کاتعلق رہا، جس کی تفصیلات اسی شمارے کے مختلف مضامین میں سامنے آرہی ہے۔ ان کے قلبی گداز کا یہ نمونہ تو دارالعلوم کے سبھی طلبہ وفضلاء نے دیکھا ہوگا کہ اکثر دارالعلوم کے پروگراموں میں اختتامی دعاء کے لیے ان سے کہا جاتا تھا اور ہاتھ اٹھاتے ہی ان پر رقت طاری ہوجاتی تھی۔ اسی طرح اسباق کی تکمیل کے مواقع ان کی دعاء بڑی موٴثر اور سوز وگداز سے بھرپور ہوتی تھی۔
راقم سطور کو اپنے دیگر معاصرین اور بعد کے فضلاء کی طرح ان سے بخاری شریف جلد ثانی پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی اور اس کے بعد گذشتہ تیئس سال کے عرصہ میں تدریسی خدمت کے دوران، ان کو دیکھنے اور برتنے کا موقع ملا، ہمیشہ ان کی شفقت کا تجربہ ہوا، وہ اساتذہٴ دارالعلوم کے ساتھ، خواہ وہ ان کے شاگرد ہی ہوں، احترام کا معاملہ فرماتے تھے، حاضری پر ہمیشہ ضیافت کا اہتمام فرماتے تھے۔ ایک آدھ بار ان کے وطن کے اطراف میں ان کے ساتھ جانا ہوا تو ان کی مہمان نوازی کا مزاج بھرپور شکل میں سامنے آیا۔
بلاشبہ حضرت الاستاذ رحمہ اللہ، ایک کامل ومکمل اور جامع شخصیت اور نہایت بافیض استاذ تھے جن کی زندگی علماء کے لیے قابل رشک نمونہ کی حیثیت رکھتی ہے، اللہ رب العزت ان کے ساتھ اپنی خاص رحمت ومغفرت کا معاملہ فرمائے، آمین!
جس وقت حضرت کی وفات ہوئی اس وقت احقر، عمرے کے مبارک سفر تھا، وہیں ذہن میں یہ بات آئی کہ ماہ نامہ دارالعلوم میں حضرت پر کچھ وقیع مضامین آجائیں تو بہتر ہے، اس لیے حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم کے مشورے سے طے کیاگیا کہ آنے والا شمارہ دو ماہ کا مشترک شمارہ بنادیا جائے الحمد اللہ بہت سے معیاری مضامین حاصل ہوگئے، جو گوشہٴ مولانا شیخ عبدالحق اعظمی کے عنوان سے شامل اشاعت ہیں۔
حضرت مولانا سلیم اللہ خاں رحمہ اللہ تعالیٰ
استاذ محترم حضرت مولانا شیخ عبدالحق کا غم ابھی تازہ ہی تھا کہ جماعت دیوبند کی ایک اہم ترین شخصیت، شیخ الاسلام حضرت مدنی قدس سرہ کے ممتاز شاگرد اور برصغیر کے بے شمار اکابر علماء کے جلیل القدر استاذ، وفاق المدارس جیسی عظیم وہمہ گیر تنظیم کے صدر، جامعہ فاروقیہ جیسے عظیم ادارہ کے بانی اور بے شمار مدارس کے سرپرست، موجودہ دور کے عظیم ترین محدث حضرت مولانا سلیم اللہ خاں صاحب جوار رحمت حق میں چلے گئے۔ انّا للّٰہ وانّا الیہ راجعون․ اس پرفتن دور میں ایسی بابرکت اور صاحب فیض شخصیت کا اٹھ جانا بلاشبہ پوری ملت کے لیے سخت حادثہ ہے۔ اللہ رب العزت حضرت کی مغفرت فرمائے اور ان کی خدمات کو حسن قبول سے نوازے اور ان کو اپنے قرب خاص کا مقام عطا فرمائے، آمین!
اس شمارے میں حضرت مولانا کی شخصیت پر بھی ایک وقیع مضمون پیش کیاجارہا ہے، جو آپ آئندہ صفحات میں ملاحظہ فرمائیں گے۔
حضرت مولانا عبدالحفیظ مکی رحمہ اللہ
حضرت مولانا سلیم اللہ خاں صاحب رحمہ اللہ کی وفات کے اگلے ہی دن، ایک اور اہم شخصیت سے یہ ملت محروم ہوگئی۔ یعنی شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی قدس اللہ سرہ کے منظور نظر خلیفہ ومعتمد خاص، انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے مرکزی امیر، بے شمار علمی خدمات کے روح رواں، انتہائی مخلص اور بافیض شخصیت حضرت مولانا عبدالحفیظ مکی نے ایک سفر کے دوران داعی اجل کو لبیک کہا اور جنت البقیع میں تدفین کی سعادت حاصل کی۔ اللہ رب العزت حضرت مرحوم کے ساتھ اپنے خاص رحمت ومغفرت کا معاملہ فرمائے اور ان کی خدمات کو قبول فرمائے۔
$$$
———————————————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ1۔2، جلد:101 ، ربیع الآخر۔جمادی الاولی 1438 ہجری مطابق جنوری۔فروری 2017ء