مولانامحمد تبریز عالم حلیمی قاسمی
استاذ دارالعلوم حیدرآباد
حدیث میں ہے: تَسْلِیْمُ الْیَھُوْدِ، الاشَارَةُ بِالأصَابِعِ، وَتَسْلِیْمُ النَّصَاریٰ الاشَارَةُ بِالأَکُفِّ، یعنی یہودیوں کا سلام کرنا، انگلیوں کے ذریعہ اشارہ کرنے اور عیسائیوں کا ہتھیلیوں کے ذریعہ اشارہ کرنے کی صورت میں ہوتا ہے۔(ترمذی: ۲۶۹۵، کراھیة إشارة الید)
حضرت جابر سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَاتُسَلِّمُوا تَسْلِیْمَ الْیَھُوْدِ، فانَّ تَسْلِیْمَھُمْ بِالرُّوٴُوْسِ وَالأَکُفِّ وَالْاشَارَةِ: یہودیوں کی طرح سلام نہ کرو، اُن کا سلام سر، ہاتھ اور اشارے سے ہوتا ہے۔(عمل الیوم واللیلة للنسائی، رقم: ۳۴۰)
ایک دوسری روایت میں ہے:
تَسْلِیْمُ الرَّجُلِ بِأُصْبُعِ وَاحِدَةٍ یُشِیْرُ بِھَا، فعلُ الیھودِ:کہ آدمی کا اشارہ کر کے ایک انگلی سے سلام کرنا، یہودی فعل ہے۔ (الترہیب: ۳/۴۳۵)
شارحینِ حدیث نے اِن جیسی احادیث سے یہ مسئلہ ثابت کیا ہے کہ سر، ہاتھ یاجسم کے دوسرے اعضاء سے ا شارہ کرکے، الفاظ بولے بغیر سلام کرنا یا جواب دینا جائز نہیں؛ بلکہ یہودیوں اور مُتکبِّر لوگوں کا کام ہے۔
”مظاہرِ حق جدید“ میں ہے:
چناں چہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو، گویا مُکَاشْفَہ ہوا کہ میری امت کے کچھ لوگ بے راہ روی کاشکار ہوکر، سلام کرنے کا وہ طریقہ اختیار کریں گے، جو یہودیوں، عیسائیوں اور دوسری غیر اقوام کا ہے، جیسے انگلیوں یا ہتھیلیوں کے ذریعہ اشارہ کرنا، ہاتھ جوڑلینا، کمر یا سر کو جھکانا اور صرف سلام کرنے پر اکتفا کرلینا وغیرہ وغیرہ؛ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری امت کو مخاطب کرتے ہوئے، اِس بارے میں تنبیہ بیان فرمائی اور یہ وعید بیان کی کہ جو شخص سلام کے اِن رسم ورواج کو اپنائے گا جو اسلامی شریعت اور ہماری سنت کے خلاف ہیں، تو اُس کو سمجھ لینا چاہیے کہ اُس کا شمار، ہماری امت کے لوگوں میں نہیں ہوگا۔(مظاہر حق:۵/۳۴۷)
حدیث کا ضُعف اور اس کا جواب
اوپر سنن ترمذی کی جو روایت ذکر کی گئی ہے، اُس کے بارے میں امام ترمذی نے کہا ہے: إسنادُہ ضعیف کہ اس حدیث کی سند ضعیف ہے، یعنی قابلِ استدلال نہیں؛ لہٰذا محض اشارے سے سلام کے عدمِ جواز پر استدلال درست نہیں، ملا علی قاری نے اِس کا جواب دیا ہے کہ محض کسی حدیث کے ضعیف ہونے کی وجہ سے حکم بھی بدل جائے، یہ ضروری نہیں ہے؛ نیز یہ حدیث دوسری صحیح سند سے مروی ہے مثلا: عمل الیوم واللیلة والی روایت، حافظ ابن حجر نے کہا ہے: وسندُہ جیّد․(فتح الباری:۱۱/۱۹)
علاوہ ازیں صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ سلام باللفظ مسنون ہے اور اِسی طرح اُس کا جواب بھی زبان سے دینا واجب ہے؛لہٰذا محض اِس حدیث کے ضعیف ہونے کی وجہ سے اشارے سے سلام کے عدمِ جواز کا حکم نہیں بدلے گا۔(مرقاة: ۹/۵۷)
تعارُض اور اُس کا حل
محض اشاروں سے سلام کے جواز کے سلسلے میں حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا کی ایک روایت پیش کی جاسکتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز مسجد سے گذرے اور وہاں عورتوں کی ایک جماعت (دینی تعلیم کے حصول کے لیے) موجود تھی، تو آں جناب نے اپنے ہاتھ کے اشارہ سے سلام کیا اور امام ترمذی نے اِس حدیث کے بارے میں ”ھذا حدیثٌ حسنٌ“ کہا ہے۔
علامہ نووی نے اِس حدیث کے بارے میں کہا ہے کہ اِس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ، اشارہ دونوں کو جمع کیا تھا، صرف اشارے سے سلام نہیں کیا تھا، اور اِس کی تائید اِس سے ہوتی ہے کہ ابوداوٴد نے بھی اِس روایت کو نقل کیا ہے اور اُس میں فَأَہْویٰ بِیَدِہ (اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا) کے بعد فَسَلّم علینا کے الفاظ زائد ہیں، اگر صرف ہاتھ سے اشارہ کیا تھا تو فَسَلَّم علینا کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا۔(فتح ا لباری:۱۱/۱۸، مرقاة: ۹/۵۷)
ملا علی قاری لکھتے ہیں کہ اگر مان لیا جائے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان سے نہیں؛ بلکہ محض اشارے سے سلام کیاتھا، تب بھی مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا؛ کیوں کہ یہ آپ کی خصوصیات میں سے ہے؛ لہٰذا آپ کو سلام کرنے، نہ کرنے اور اشارہ سے سلام کرنے نہ کرنے؛ ہرطرح کا اختیار ہے، ثانیاً کبھی اشارہ سے بغیر سلام کے قصد کے، محض تواضُع کو مراد لیا جاتا ہے، ثالثاً اشارہ سے سلام کرنا، عورتوں کے حوالے سے، بیانِ جواز پر محمول ہے، مَردوں کا یہ مسئلہ نہیں ہے۔(مرقاة المفاتیح:۹/۵۷)
فائدہ: ملا علی قاری نے مذکورہ حدیث کی جو تاویلات پیش کی ہیں، اُن سے اُن ساری روایتوں کا جواب بن جاتا ہے، جس میں کچھ صحابہٴ کرام کا اشارے سے سلام کرنا مروی ہے، ایسی روایات کے لیے دیکھیے امام بخاری کی الأدب المفرد (باب من سلم إشارة) لیکن امام بخاری نے ایسی روایتوں کو ذکر کرنے کے بعد آخری روایت عطا بن ابی رباح کی نقل کی ہے،وہ فرماتے ہیں: کَانُوْا یَکْرَھُوْنَ التسلیمَ بالید، وقال: کان یَکْرَہ التسلیمَ بالید (الأدب المفرد: رقم: ۹۴۰)
یعنی اکثر صحابہٴ کرام ہاتھ کے اشارے سے سلام کرنے کو نا پسند کرتے تھے، اور خود حضرت عطا بھی اِسے ناپسند کرتے تھے۔
راقم عرض گزار ہے کہ امام بخاری نے اس آخری روایت سے اِس جانب اشارہ کیا ہے کہ محض ہاتھوں کے اشارہ سے سلام، کچھ صحابہٴ کرامسے ثابت ہے؛ لیکن اکثر صحابہٴ کرام زبان سے سلام کرتے تھے اور یہی معمول بہاہے۔
چند مسائل
مسئلہ: سلام کے ساتھ ہاتھ اٹھانے کی بھی گنجائش ہے؛ اگر چہ ضرورت نہیں۔ (محمودیہ: ۹/۷۳)
مسئلہ: لفظ اور اشارہ کا جمع کرلینا، جیسا کہ ہمارے بلاد میں معمول ہے، اگر چہ اولیٰ نہ ہو؛ مگر جائز ہے؛ خصوصاً جب کہ یہ اشارہ علامتِ تعظیم وتوقیر، عرفاً قرار پاچکا ہے۔(فتاوی رحیمیہ: ۱۰/۱۳۱)
مسئلہ: قرآن مجید میں ہے کہ جب تم کو کوئی سلام کرے تو اُس سے اچھا جواب دو، یا ویسا ہی لوٹادو، اِس سے معلوم ہوا کہ سلا م کے جواب میں سرہلا دینا یا ہاتھ اٹھادیناکافی نہیں۔ (فروع الایمان مع اصلاحی نصاب: ۴۲۱)
معلوم ہوا کہ سلام کے موقع پر صرف ہاتھ اٹھا دینا کافی نہیں ہے، شہر حیدرآباد میں، دیکھا جاتا ہے کہ سلام کرنے والا، سلام کرتے وقت، اپناہاتھ مخصوص اندازمیں اپنے چہرے یا سینہ تک لے جاتا ہے اور بعض لوگ ہاتھ کو حرکت بھی دیتے ہیں، یہ طریقہ، اسلامی نہیں ہے، اور جواب دینے والا بھی بعض دفعہ ایسے ہی کرتا ہے،یہ بھی زائد چیز ہے۔
مسئلہ: جب بُعد (دوری) یا کسی اور وجہ سے آوازِ سلام سمجھ میں نہ آسکے تو ہاتھ سے اِعلام واِعلان مباح ہے۔(فتاوی رحیمیہ:۱۰/۱۳۱)
یعنی عام حالات میں صرف ہاتھ سے یاسر سے سلام کرنا جائز نہیں؛ بلکہ مجبوری کی حالت میں ہاتھ سے اشارہ کرسکتا ہے؛ لیکن لفظِ سلام اور جواب سلام کے الفاظ اور اشارہ دونوں کو جمع کرے، اور گونگا کا مسئلہ الگ ہے، وہ ہاتھ کے اشارے سے ہی سلام یا سلام کا جواب دے گا، اُس کے حق میں اِشارہ تلفظ کے درجہ میں ہے۔
سلام کے جواب میں صرف سر ہلانا، بد مذاقی ہے
حضرت تھانوی کے مواعظ میں ہے:
”بعض لوگ جو سلام کے جواب میں، سر ہلاتے ہیں اور زبان سے”وعلیکم السلام“ نہیں کہتے ہیں وہ بد مذاق ہیں کہ ٹکاسی زبان نہیں ہلاتے اور دھڑا سا سر ہلادیتے ہیں، ممکن ہے کوئی معقولی اِس کی توجیہ کرے کہ فعلِ بسیط، فعل مرکب سے آسان ہوتا ہے اور سر کا ہلانا اضافہ او رفعلِ بسیط ہے، اور زبان کا چَلانا فعلِ مرکب ہے؛ کیوں کہ الفاظ کو مخارج سے خاص ہیئت وترکیب کے ساتھ ادا کرنا پڑتا ہے۔
سو جواب اِس کا یہ ہے کہ اس لحاظ سے؛ اگر چہ سر ہلانا سہل ہے؛ مگر جس غرض سے سلام کرتے ہیں اُس غرض وغایت کے لحاظ سے زبان ہی کا فعل آسان ہے؛ کیوں کہ سر ہلانے سے وہ غرض حاصل نہیں ہوتی، سلام سے مقصود دعا ہے اور وہ بدونِ کلام وتکلم کے حاصل نہیں ہوتی تو جو لوگ سلام وجوابِ سلام میں سر ہلاتے ہیں، ان کو غایات ومقاصد سے دلچسپی نہیں اور یہی بد مذاقی کی علامت ہے“۔ (خطبات حکیم الامت:۲۸/۱۲۳، اصلاح ظاہر)
سلام اور جوابِ سلام میں جہر اور سنانا ضروری ہے
سلام چاہے ابتدائاً ہو یاجواباً ہو: بہر حال ایک دوسرے کو سنانا ضروری ہے، بغیر سنائے نہ تو سلام، سلام ہوگا اور نہ ہی جواب، جواب ہوگا، سلام ایک مبارک اور پاکیزہ تحفہ ہے، جہر کے بغیر اِس کا مقصد حاصل نہیں ہوگا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام کا یہی معمول تھا کہ سلام اور جوابِ سلام میں جہر کرتے تھے؛ لیکن یہ بلند آواز معتدل ہو، آواز اِتنی تیز نہ ہو کہ سننے والے کو دِقّت اور تنگی محسوس ہو اور نہ ہی آواز اتنی پست ہو کہ سلام کرنے والے یا سننے والے سن ہی نہ سکیں۔
دلائل: حافظ ابن حجرنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد أَفْشُوا السَّلاَمَ بَیْنَکُمْ (اپنے درمیان سلام کو رواج دو) کی شرح میں لکھا ہے:
۱- الإفشاءُ، الإظھارُ والمرادُ نَشْرُ السَّلامِ بینَ ا لناسِ؛ لیُحْیُوا سُنتَہ․
افشاء ،اظہار کو کہتے ہیں: اور مقصد اِس سے لوگوں کے درمیان سلام کو پھیلانا ہے؛ تاکہ لوگ آپ کی سنت کو زندہ کریں۔(فتح الباری: ۱۱/۲۰)
۲- علامہ نووی کے حوالے سے علامہ عینی نے لکھا ہے:
وأقلُّ السَّلامِ ابتداء ً ورداًّ أن یُسمِعَ صاحِبَہ، وَلاَ یُجْزِئْہُ دونَ ذلک․
سلام اور جوابِ سلام میں کم از کم درجہ یہ ہے کہ مُتَعَلِّقہ شخص کو سنایا جائے، اور اس سے کم سلام کافی نہیں۔(عمدة القاری: ۱۵/۳۴۶)
علامہ قرطبی لکھتے ہیں:
۳- فکذلک إذا أجاب بجوابٍ لم یُسمَعْ منہ، فَلَیْسَ بِجَوابٍ․ اگر کوئی جواب دے اور سنائے نہ ،تو وہ جوابِ سلام نہیں ہے۔(الجامع لأحکام القرآن:۵/۳۰۳)
ایک شبہ اور اس کا جواب
سوال (۳۵۷) سلام کا جواب اگر آہستہ دیا کہ مسلَّم (جس کو سلام کیاجارہا ہے) نے نہ سنا، تو جواب ادا ہوگا یا اِسماع بھی ضروری ہے، بعض صحابہ نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام کا جواب نہایت آہستہ سے دیا کہ بوجہ عدم سماع، تکرارِ سلام کی نوبت آئی، آخر حضور واپس ہوئے تھے؛ گو علت یہاں استماعِ کلام وتحصیل برکت ہے، مگر بہ ظاہر شبہ جواز کا معلوم ہوتا ہے۔
الجواب: اِعلام ضروری ہے، اگر قریب ہو تو اِسماع سے اور اگر بعید یا اَصَمّ(بہرہ) ہو تو اشارہ سے مع تلفُّظ بہ لسان کے اور صحابی کا یہ فعل عارض سے تھا فَلَا یُقَاسُ عَلَیْہِ غَیْرُہ․(امداد الفتاوی: ۴/۲۷۶)
ایک مبنی بر حکمت رائے
مفتی محمد تقی عثمانی زید مجدہ لکھتے ہیں: میں نے حضرت تھانوی کی کسی کتاب میں دیکھا تھا کہ سلام کا جواب دینا واجب تو ہے؛ لیکن جواب کوسنانا مستحب ہے؛ کیوں کہ ایسی صورت اُس شخص کے لیے ہے جو جواب سنا نے سے عاجز ہو یا جواب سنانا مشکل ہو تو اُسے ترک ِواجب کا گناہ نہ ہو، اُس کے لیے آسانی رہے گی؛ لیکن یہ بات فقہاء کی کتابوں میں مجھے نہیں ملی۔(تکملہ ۴/۲۴۵)
سلام کرنے کا لب ولہجہ اور انداز
حضرت تھانوی کے افادات بنام”اسلامی تہذیب“ میں ہے:
۱- شریعت نے صیغہٴ سلام یعنی ”السلام علیکم“ کے لفظ میں چھوٹے بڑے میں کچھ تفریق وتفصیل نہیں رکھی ، ہاں لہجہ میں فرق ہونا چاہیے؛ کیوں کہ یہ عظمت وادب میں داخل ہے، جس کی شریعت میں تعلیم ہے۔
۲- چھوٹے بڑوں کو نیازمندی کے لہجہ میں سلام کریں اور بڑے اُن کو حقیر نہ سمجھیں۔
۳- باپ کو بیٹا ایسے لہجہ میں سلام کرے کہ سلام کے لہجہ سے معلوم ہوجائے کہ سلام کرنے والا بیٹا ہے، اِس میں کون سا حرج اور کون سی تحقیر کی بات ہے۔
۴- بعض لوگ کچھ ایسی ادا سے اور ایسے لب ولہجہ سے سلام کرتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا محبت ٹپکی پڑتی ہے، بعض اوقات کسی کے فقط سلام کرنے سے عمر بھر کے لیے محبت ہوگئی۔ (اسلامی تہذیب: ۵۸)
گونگے کا سلام اور جوابِ سلام
(۱) اگر کسی نے گونگے کو سلام کیا تو و ہ اشارے سے جواب دے دے، فرض ساقط ہوجائے گا۔( عمدة القاری:۱۵/۳۴۶)
(۲) اگر گونگے نے اشارے سے کسی کو سلام کیا تو اُسے جواب دینا چاہیے؛ کیوں کہ اشارہ گونگے کے حق میں بہت سے احکام میں تلفظ کے قائم مقام ہے۔(ایضا)
بہرے کو سلام کرنا
اگر کوئی ایسے شخص کو سلام کرے جو بہرہ ہے تو سلام کرنے والے کو چاہیے کہ تلفظ کے ساتھ ساتھ اشارہ بھی کرے ؛تا کہ وہ سمجھ جائے کہ مجھے سلام کیا جارہا ہے، ورنہ مستحقِ جواب نہیں ہوگا اور اگر بہرے نے کسی کو سلام کیا تو جواب میں تلفظ کے ساتھ ساتھ اشارہ بھی ضروری ہے۔(ایضا)
اللہ تعالیٰ ہم سب کوسنت کے مطابق افشاء سلام کی توفیق عطا فرمائے۔
$$$
——————————————————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ1۔2، جلد:101 ، ربیع الآخر۔جمادی الاولی 1438 ہجری مطابق جنوری۔فروری 2017ء