از قلم: مولاناخورشید عالم داؤد قاسمی
مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ
۳۰/دسمبر کو جہاں سن ۲۰۱۶/اپنا آخری سانس لے رہا تھا اور وہ صرف ایک دن کا مہمان تھا کہ مغرب وعشاء کے درمیان، محمد رسول اللہ- صلی اللہ علیہ وسلم -کی احادیث شریفہ کے عظیم خادم، علوم نبویّہ کے حقیقی وارث اور ایشیاء کی ممتاز دینی درس گاہ، دارالعلوم، دیوبند کے محدّث جلیل، حضرت الاستاذ شیخ عبد الحق صاحب اعظمی نور اللہ مرقدہ ایک تھکے ماندے مسافر کی طرح خاموشی سے دائمی نیند سوگئے۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔ موت ایک ایسی حقیقت جسے قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں؛”مرضی مولیٰ از ہمہ اولیٰ“۔ یہ خبر منٹوں میں،دنیا کے گوشے گوشے میں، جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ ہر شخص نے بڑے افسوس کے ساتھ اس خبر کو پڑھا اور سنا اور دوسروں کو بتایا۔
موت کا کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ موت ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے کسی کو بھی مفر نہیں۔ جب پیارے نبی محمد- صلی اللہ علیہ وسلم -کو موت آکر رہی؛تو پھر دوسرے کی کیا بات! موت تو مہربان رب کے دیدار کا ایک ذریعہ ہے؛اگر آدمی کا انتقال نہ ہو؛تو اپنے رحیم وکریم رب کا دیدار کیسے کرے گا! یہی تو وجہ تھی کہ نبی اکرم – صلی اللہ علیہ وسلم -نے اپنے لیے موت کو پسند فرماکر، اپنے منبر سے اپنی موت کا یوں اشارہ دیا: ”إِنَّ عَبْدًا خَیَّرَہُ اللہُ بَیْنَ أَنْ یُؤْتِیَہُ مِنْ زَھْرَةِ الدُّنْیَا مَا شَاءَ، وَبَیْنَ مَا عِنْدَہُ، فَاخْتَارَ مَا عِنْدَہُ“․ فَبَکَی أَبُو بَکْرٍ وَقَالَ:فَدَیْنَاکَ بِآبَائِنَا وَأُمَّھَاتِنَا․(بخاری شریف، حدیث:۳۹۰۴) ترجمہ:اللہ تعالی نے ایک بندے کو اس کے درمیان اختیار دیا ہے کہ اللہ تعالی ان کو دنیا کی رونق دیں، جتنی وہ چاہے اوران (نعمتوں )کے درمیان جو اللہ تعالی کے پاس ہے؛لہٰذا اس بندے نے ان (نعمتوں)کو اختیار کیا جو اللہ تعالی کے پاس۔ ابوبکر -رضی اللہ عنہ- (سمجھ گئے کہ نبی – صلی اللہ علیہ وسلم -نے اپنے لیے موت کو پسند کیا؛لہٰذا ) رونے لگے اور فرمایا:آپ پر ہم اپنے ماں باپ قربان کرتے ہیں۔
موت نے کسی کو نہیں چھوڑا۔ چاہے انسان ہویا حیوان یا پھر چرند وپرند ہو، سب جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ یہ نظام اس دنیا کے پیدا کرنے والے کا ہی بنایا ہوا ہے۔ سچے مالک نے قرآن کریم میں فرمایا ہے: ”کُلّ نَفْس ذَائِقَة الْمَوْت“ (سورہ آل عمران، آیت:۱۸۵) ترجمہ:(تم میں) ہرجان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے؛ چناں چہ سب کے سب انبیاء ورسل، صحابہ وتابعین اوراولیاء وصلحا کو اس جہان سے کوچ کرنا پڑا۔ ہم سب کو بھی ایک دن جانا ہوگا۔ حضرت شیخ صاحب نور اللہ مرقدہ بھی اپنے مقررہ وقت پر، پاک پروردگار کے حکم کا اتباع کرتے ہوئے اس جہاں سے کوچ کرگئے۔ اللہ تعالی حضرت الاستاذ کو جنّت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے،آمین!
آئے عشّاق، گئے وعدہٴ فرد ا لے کر
اب انھیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر
حضرت شیخ صاحب نور اللہ مرقدہ کی ولادت بہ روز:پیر۶/رجب المرجب۱۳۴۷ھ (۱۹۲۸/)کو اترپردیش کے معروف ضلع: ”اعظم گڑھ“کے ایک گاؤں: ”جگدیش پور“ میں ہوئی۔ آپ چھ سال کے تھے کہ آپ کے والدماجدجناب عمر صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے۔ آپ کی کفالت وتربیت مشہور عالم دین، شیخ محمد مسلم صاحب جونپوری قدس سرہ نے کی۔ پھر ایک گاؤں میں پرورش پانے والے یتیم کو، اللہ تعالی نے ایک نیّر تاباں بنایا۔ پھر آپ سے کیا ایشیا، کیا افریقہ، کیا یورپ اور کیا امریکہ، ہر جگہ کے لوگوں نے کسب فیض کیا۔ اللہ تعالی آپ کی خدمات کو قبول فرمائے اور اس کا اپنے شایان شان بدلہ عطا فرمائے! آمین!
حضرت شیخ صاحب قدس سرہ نے ابتدائی تعلیم، حضرت مولانا عبد الغنی صاحب پھولپوری(۱۸۷۶-۱۹۶۳ء) رحمہ اللہ، خلیفہ حضرت تھانوی (۱۸۶۳-۱۹۴۳ء) کے قائم کردہ ادارہ: ”مدرسہ بیت العلوم“، سرائے میر، اعظم گڑھ میں حاصل کی۔ بیت العلوم میں آپ نے صرف ونحو، عربی اور فقہ اسلامی کی کچھ کتابیں پڑھی۔ بیت العلوم میں آپ نے درس نظامی کی مشہور کتاب: ”شرح وقایہ“ تک کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد، آپ نے دارالعلوم، مئو ناتھ بھنجن میں داخلہ لیا اور ”مشکاة المصابیح“تک کی تعلیم مکمل کی۔ پھر آپ نے دارالعلوم ،دیوبند کا رخ، جس کے جوار میں، آپ کی آخری آرام گاہ منجاب اللہ مقدر تھی۔
شیخ نے ایشیاء کی عظیم دینی واسلامی یونیورسیٹی دارالعلوم، دیوبندمیں تکمیل فضیلت کے لیے داخلہ لیا۔ آپ نے دارالعلوم میں شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی (۱۸۷۹-۱۹۵۷ء)، علامہ محمدابراہیم بلیاوی (متوفی:۱۹۶۷ء)، شیخ الادب شیخ محمد اعزاز علی امروہوی (۱۳۰۰-۱۳۷۳ھ)، شیخ فخرالحسن مرادآبادی اور مولانا ظہور احمد دیوبندی نور اللہ مرقدہم وغیرہم سے اکتساب فیض کیا۔ حضرت شیخ ثانی صاحب نے بخاری شریف مکمل اور ترمذی ،جلد:اوّل، شیخ الاسلام حضرت مدنی -قدس سرہ – سے پڑھی۔ آپ نے ۱۳۶۸ھ/۱۹۴۹ء میں رسمی تعلیم سے فراغت حاصل کی۔ حضرت شیخ ثانی کو اجازت حدیث، ان کے مذکورہ بالاشیوخ عظام کے ساتھ ساتھ، حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمی (۱۸۹۷-۱۹۸۳ء)، سابق مہتمم:دارالعلوم، دیوبند، محدث کبیرحضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی(۱۹۰۰-۱۹۹۲ء)، حضرت مولانا عبد الغنی پھولپوری (۱۸۷۶-۱۹۶۳ء) اور برکة العصر حضرت شیخ الحدیث محمد زکریا صاحب (۱۸۹۸-۱۹۸۲ء) رحمہم اللہ سے بھی حاصل تھی۔ آپ حضرت شیخ الحدیث کی مبارک سند سے احادیث مسلسلہ کی اجازت دیتے تھے۔ الحمد للہ، آپ نے ان عظیم المرتبت اساتذہ وشیوخ سے قرآن وحدیث کی تعلیم حاصل کی، جن میں سے ہر ایک آفتاب وماہتاب کی حیثیت رکھتے ہیں۔
نہ تخت وتاج میں، نے لشکر وسپاہ میں ہے
جو بات مردِ قلندر کی با رگاہ میں ہے
حضرت الاستاذ نے اپنی تدریسی زندگی کا آغاز ”مدرسہ مطلع العلوم“، بنارس، یوپی سے کیا۔ اس ادارہ میں آپ نے تقریباً ۱۶/سال تک تدریسی خدمات انجام دی۔ پھر ”مدرسہ حسینیہ“، کولڈیہا، گریڈیہہ( جھارکھنڈ)میں تقریبا۹/مہینے تدریسی خدمات انجام دی۔ حضرت اس مدرسہ کا ذکر کرتے ہوئے کبھی کبھی فرماتے تھے کہ بقدر مدت حمل بہار میں رہ چکا ہوں۔ بہار کے لوگ بہت ہی ادب واحترام سے پیش آتے تھے۔ اس کے بعد، ”دارالعلوم“، مئوناتھ بھنجن میں بھی حدیث کی کتابیں آپ کے زیر درس رہی۔ جہاں بھی آپ نے تدریسی خدمات انجام دی، عام طور پر حدیث کی کتابیں آپ سے متعلق رہیں۔
۱۹۸۲عیسوی میں،آپ کو امّ المدارس دارالعلوم، دیوبند میں علیاء کے استاذ کی حیثیت سے منتخب کیاگیا ۔ آپ اس وقت سے اپنی زندگی کے اخیر لمحہ تک اس عظیم ادارے میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ صحیح بخاری، جلد:ثانی اور مشکاة شریف کے اسباق آپ سے متعلق تھے۔ آپ بخاری جلد ثانی پڑھانے کی ہی وجہ سے، طلبہ واساتذہ دارالعلوم، دیوبند کے درمیان ”شیخ ثانی“ سے معروف تھے۔ آپ نے تقریبا ۳۴سال تک دارالعلوم میں، بخاری جیسی حدیث کی عظیم کتاب کا درس دیا۔ اس طرح کل ملا کر ، آپ تقریبا۶۰سالوں تک قرآن وحدیث کی خدمت میں مصروف رہے۔ اس دوران ہزاروں طلبہ نے آپ سے پڑھا اور استفادہ کیا۔ آپ کے شاگردوں میں ہزاروں علماء اور فقہاء ومحدثین شامل ہیں؛جن کو بجا طور پر آپ کا شاگرد ہونے پر فخر ہے۔
آپ کا بخاری شریف کا درس بعد نمازِعشاء ہوتا تھا۔ ترجمان کے ساتھ کچھ طلبہ آپ کو ”مسجد چھتہ“ سے لانے جاتے تھے۔ چھتہ مسجدکی ہی چھت پر بنے گھر میں، آپ رہتے تھے۔ طلبہ آپ کے اردگرد ہوتے اور آپ ایک ہاتھ میں عصا لیے،دارالحدیث تک بڑے ہی سکون واطمینان سے آتے۔ جو طلبہ آپ کے آتے وقت، آپ کے پیچھے چلتے تھے، ان کو کبھی کبھی منع کرتے کہ آپ میرے پیچھے اس طرح نہ چلیں، یہ سنت نبوی کے خلاف ہے۔ سنا ہے کہ ان دنوں، کمزوری اور ضعف کے سبب حضرت وِیل چیئر (Wheelchair) سے اسباق پڑھانے آتے تھے۔ آپ اسباق کے بڑے پابند تھے۔ دیوبند کا موسم سرما ہویا موسم گرما، آپ کو درس گاہ آنا تھا اور سبق پڑھانا تھا۔ یہ ناممکن تھا کہ آپ دیوبند میں ہوں اور سبق نہ پڑھائیں۔ آپ کا بخاری شریف کا سبق عام طور پر تقریبا دو ڈھائی گھنٹے کا ہوتا تھا؛ مگر تعب وتھکان کا احساس تک نہ ہونے دیتے۔
ہاں دکھا دے، اے تصوّر! پھر وہ صبحُ وشام تو
د و ڑ پیچھے کی طرف ا ے گردشِ ایّام تو
بندہ راقم الحروف کو شیخ ثانی صاحب کی سب سے پہلی زیارت سن۱۹۹۷ء یا۱۹۹۸ء میں اس وقت ہوئی، جب نیپال کی مرکزی درس گاہ:فیض الاسلام، پَرسا،نیپال کے ایک پروگرام میں شرکت کے لیے تشریف لے جارہے تھے اور راستہ سے گزرتے ہوئے، آپ نے مدرسہ اشرف العلوم، کنہواں، سیتامڑھی کے سابق ناظم:قاری محمد طیّب صاحب رحمہ اللہ کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لیے تشریف لے گئے۔ اس وقت راقم الحروف اشرف العلوم میں عربی دوم یا عربی سوم کا طالب علم تھا۔ ”پرسا“ نیپال میں واقع ہے اور کنہواں ہندوستان میں واقع ہے؛ مگر ان دونوں جگہوں کے درمیان صرف چند کلو میٹرس کا ہی فاصلہ ہے؛لہٰذا حضرت شیخ صاحب کی زیارت اور ان کی تقریر سننے کے لیے اشرف العلوم کے طلبہ ”پرسا“جارہے تھے؛چناں چہ میں بھی سب کے ساتھ گیا اور شیخ صاحب کی تقریر سے پہلے، ہم سب نے جاکر حضرت سے سلام ومصافحہ کیا۔
جب سن۲۰۰۰ عیسوی میں دارالعلوم، دیوبند میں داخلہ لیا؛تو پھر اس کے بعد تو حضرت کی زیارت ہوتی ہی رہتی تھی۔ جب بندہ نے ششم سے ترقی کرکے عربی ہفتم میں قدم رکھا؛تو حضرت سے مشکاة شریف پڑھنے کا موقع نصیب ہوا۔ پھر”دورہ حدیث شریف“ کے سال، سن۲۰۰۳ء میں،بخاری شریف ، جلد:ثانی، حضرت شیخ صاحب قدس سرہ سے پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔
کہاں میں اور کہاں یہ نکہت گل
نسیمِ صبح تیر ی مہر با نی
حضرت شیخ تک رسائی حاصل کرنے اور آپ سے ملنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی تھی۔ کوئی بھی شخص کبھی بھی جاکر مل سکتا تھا اور اپنی بات پیش کرسکتا تھا۔ آپ کسی بھی آنے والے کو مایوس نہیں کرتے تھے۔ جب بھی کوئی شخص آپ کے پاس دعوتی واصلاحی پرگرام میں شرکت کی دعوت لے کر آتا، چاہے وہ پروگرام دیہات میں ہورہا ہو یا شہرمیں،اندرون ملک کا پروگرام ہویا بیرون ملک کا،آپ اس کی دعوت قبول کرتے۔ اسی طرح اگر کسی دینی ادارے میں کوئی تقریب ہو، اجلاس ہو، آپ کو دعوت ملتی؛تو اسے قبول فرماتے اور اپنی شرکت سے نوازتے۔ عام طورپر دوسرے مدارس وجامعات کے ذمے داران حضرات آپ کو افتتاح بخاری شریف اور ختم بخاری شریف کے لیے مدعو کرتے تھے۔ اس طرح آپ نے ہندوستان کے سیکڑوں شہروں اور دیہاتوں اور کئی بیرونی ممالک کا اصلاحی ودعوتی دورہ کیا۔ اللہ تعالی نے آپ کی زبان میں بڑا اثردے رکھا تھا۔ آپ نہایت ہی متواضع ومنکسرالمزاج تھے۔آپ مستجاب الدعوات تھے۔ اللہ تعالی اس امت کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے! آمین!
وہ فاقہ مست ہوں جس راہ سے گزرتا ہوں
سلا م کر تا ہے آشوب ر و زگا ر مجھے
حضرت شیخ صاحب نے یکے بعد دیگرے تین نکاح کیے۔ پہلی اہلیہ سے ایک لڑکا، جناب عبدالحکیم صاحب اور دو لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ پہلی اہلیہ کی وفات کے بعد،آپ نے دوسری شادی کی۔ دوسری بیوی سے ایک بیٹا، جو بچپن میں ہی انتقال کرگیا اور دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ دوسری بیوی کی وفات کے بعد، تیسرا نکاح کیا۔ تیسری زوجہ سے پانچ لڑکے اور ایک لڑکی پیدا ہوئی جو سب کے سب حیات ہیں۔ اللہ تعالی ان سب کو خوش وخرم رکھے اور ان کو حضرت شیخ صاحب -قدس سرہ-کے لیے صدقہ جاریہ بنائے! آمین!
حضرت شیخ صاحب -نور اللہ مرقدہ- عمرکی ۸۸بہاریں دیکھ چکے تھے۔ آپ پیرانہ سالی کی وجہ سے کمزور ہوگئے تھے۔ بہ شب:جمعہ۳۰/دسمبر۲۰۱۶ء کو قے کا عارضہ پیش آیا۔ جمعہ کی نماز کے بعد آپ کو دیوبند کے ہی ایک ہسپتال میں لے جایا گیا۔ آپ نے ہسپتال میں ہی مغرب وعشاء کے درمیان آخری سانس لی اور اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
مو ت تجد یدِ مذ ا قِ ز ند گی کا نا م ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا ایک پیغام ہے
حضرت شیخ کی نماز جنازہ۳۱/دسمبر۲۰۱۶ء کو، شام ساڑھے تین بجے دارالعلوم کے احاطہ دارِجدیدمیں، استاذ محترم حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم استاذ حدیث وسابق ناظم تعلیمات دارالعلوم دیوبند کی امامت میں ادا کی گئی۔ عوام وخواص کی ایک بڑی تعدادنے آپ کے جنازہ میں شرکت کی۔ پھر ہزاروں طلبہ اور علماء نے اپنے کندھوں پر اٹھا کر ، ”قبرستان قاسمی“ میں ، اللہ تعالی کی امانت، اللہ کے سپرد کردی۔اللہ تعالی آپ کی قبر کو نور سے بھردے! آمین!
آسماں تیری لحد پرشبنم افشانی کرے
سبزہٴ نورُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
$$$
————————————————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ1۔2، جلد:101 ، ربیع الآخر۔جمادی الاولی 1438 ہجری مطابق جنوری۔فروری 2017ء