دارالعلوم دیوبند کے عظیم فرزند شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خاں رحمہ اللہ

از: مولانا ندیم الواجدی

یادگارِ اکابر، استاذ الاساتذہ، رئیس المحدثین حضرت مولانا سلیم اللہ خاں صاحب اب اس دنیائے فانی میں نہیں رہے، یہ خبر وحشت اثر ۱۶/ جنوری کی شب ۱۰ بجے کے قریب پاکستان سے آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں پھیل گئی، جو لوگ بھی سلسلہٴ دیوبند سے وابستہ ہیں اور جن لوگوں کو مدارس اسلامیہ اور علوم دینیہ سے ذرا بھی تعلق ہے وہ اس خبر سے بے چین ہو اٹھے، حالاں کہ نہ یہ خبر غیر متوقع تھی اور نہ تعجب خیز، ایک نہ ایک دن تو یہ ہونا ہی تھا کیوں کہ موت ہر ذی نفس کو آنی ہے اور حضرت تو عمر کی اس منزل پر پہنچ چکے تھے جہاں ہر دم جدائی کا دھڑکا لگا رہتا ہے ، اس کے باوجود لوگوں کو اس خبر سے ایسا لگا کہ جیسے ان پر کوئی اچانک افتاد آپڑی ہو اور وہ کسی ناگہانی حادثے کا شکار ہوگئے ہوں، در اصل بزرگوں کی وفات کا غم ہوتا ہی ہے بے حد تکلیف دہ اور اذیت ناک، اس یقین کے باوجود کہ ہمارے بڑوں اور بزرگوں کو بھی بالآخر اس دنیا سے رخصت ہونا ہے ان کی وفات غم واندوہ کا کوہ گراں ثابت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ حضرت کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے، ان کی وفات سے امت اسلامیہ کو بالخصوص مدارس عربیہ کو جو نقصان پہنچا ہے اس کی تلافی فرمائے۔

شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خاں کا تعلق آفریدی پٹھانوں کے خاندان ملک دین خیل سے ہے جو غیر منقسم ہندوستان کے آزاد قبائلی علاقے میں سکونت پذیر تھا، آج کل یہ علاقہ پاکستان میں ہے اور حضرت کا قبیلہ اس علاقے کے” خیبر ایجنسی“ میں واقع چورا میں رہتا تھا، کسی وقت اس قبیلے کے کچھ افراد مظفرنگر یوپی کے قصبہ حسن پور لوہاری میں آبسے تھے، حضرت ۲۵ دسمبر ۱۹۲۶ء کو اسی قصبے میں پیدا ہوئے، حسن پور لوہاری جماعت دیوبند کے سرخیل سید الطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے پیرو مرشد حضرت شیخ میاں جی نور محمد جھنجھانوی کا مسکن رہا ہے، اس لحاظ سے یہ قصبہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے، مولانا سلیم اللہ خاں صاحب نے ابتدائی تعلیم اسی قصبے کے دو استاذوں سے حاصل کی جن میں سے ایک کا نام منشی اللہ بندہ ہے، ان سے حضرت نے قرآن کریم ناظرہ پڑھا ، مغرب کے بعد گھر پر پڑھانے کے لیے تشریف لاتے تھے، حافظ نہیں تھے، اس کے باوجود روز انہ ایک قرآن کریم ختم کرنے کا معمول تھا، قناعت پسندی اور دنیا سے بے رغبتی میں اپنی مثال آپ تھے، دوسرے استاذ منشی بندہ حسن تھے جن سے اُردو اور فارسی کی تعلیم حاصل کی، یہ بھی پرہیز گار اور متقی انسان تھے، اکثر وبیشتر ذکر واذکار اور نوافل میں مشغول رہتے تھے۔

قرآن کریم اور اُردو فارسی کی تعلیم سے فراغت کے بعد مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد کے مہتمم حضرت مولانا مسیح اللہ خاں صاحب کی خدمت میں بھیج دئے گئے، جلال آباد تھانہ بھون اور حسن پور لوہاری سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے اس قصبے میں ایک مدرسہ قائم کیا تھا اور اس کی ذمہ داری اپنے ممتاز خلیفہ حضرت مولانا مسیح اللہ خاں شیروانی کو سونپ دی تھی، مولانا سلیم اللہ خاں نے دو سال چھ ماہ کی مدت میں چار سال کا عربی نصاب یہاں رہ کر مکمل کیا، اکثر کتابیں حضرت مولانا مسیح اللہ خاں سے پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔

جلال آباد کے بعد راہ علم کے اس مسافر کی اگلی منزل دیوبند تھی جہاں انھوں نے پانچ سال گزارے اور دار العلوم دیوبند کے رائج نصاب کے مطابق جملہ فنون؛ منطق، فلسفہ، ادب، اصول، ریاضی، فقہ، کلام، تفسیر اور حدیث کی کتابیں متعدد اساتذہٴ فن سے پڑھیں فراغت کے وقت حضرت کی عمر بیس سال تھی۔

حصول علم کا شوق بچپن ہی سے تھا، محنتی بھی تھے اور ذہین بھی، اس پر جلال آباد میں حضرت مولانا مسیح اللہ خاں صاحب کی نگرانی اور توجہ، دار العلوم دیوبند کا صاف ستھرا علمی ماحول اور شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی اور شیخ الادب والفقہ حضرت مولانا اعزاز علی امروہوی جیسے حضرات کی موجودگی، ان سب اسباب نے مل کر علم وعمل، تقوی اور بزرگی کا جو پیکر تراشا وہ حضرت مولانا سلیم اللہ خاں کی صورت میں جلوہ گر ہوا۔

مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد میں ایک مرتبہ سالانہ امتحان کے لیے مظاہر علوم سہارن پور کے ناظم ،حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفہ حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب تشریف لائے، انھوں نے دس بارہ طلبہ کی جماعت کا امتحان لیا، دو طالب علموں کے متعلق وہ یہ لکھ کر گئے کہ ”یہ دو بچے بڑے باصلاحیت ہیں، اللہ تعالیٰ ان سے دین کی خدمت لے گا“ ان میں سے ایک بچّے کا نام سلیم اللہ تھا جو آگے چل کر اپنے وقت کا عظیم محدث بنا، اور دوسرے بچّے کا نام رفیق احمد تھا، جو بعد میں علامہ رفیق احمد کہلائے اور مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد کے شیخ الحدیث بنے۔

یہ دونوں ساتھی جلال آباد سے دیوبند بھی ساتھ ہی آئے، یہ واقعہ ۱۹۴۲ء کا ہے، دونوں نے ساتھ ہی پڑھا، ایک دوسرے کے ساتھ دوستی بھی رہی اور پڑھنے میں منافست اور مسابقت کا سلسلہ بھی رہا، دونوں ایک دوسرے سے چھپ کر پڑھتے اور ایک دوسرے کے سامنے اس طرح کا مظاہرہ کرتے گویا وہ آج کل پڑھ ہی نہیں رہے ہیں، دونوں ساتھی ایک دوسرے سے نظر بچا کر جنگل کا رخ کرتے اور گھنے درختوں کی شاخوں پر کتابیں لے کر بیٹھ جاتے، دونوں یہ کوشش کرتے کہ اس کے ساتھی کو اس کے مطالعے اور محنت کی خبر نہ ہو۔

مولانا سلیم اللہ خاں بچپن ہی سے نہایت ذہین تھے، اس پرشوق اور محنت ، ان تینوں چیزوں نے ان کی علمی شخصیت کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کیا ہے، قدرت نے ان کو بے نظیر حافظہ عطا کیا تھا، ان کی قوت حفظ کے واقعات پڑھ کر اور سن کر قرون اولیٰ کے محدثین کے حافظے کے واقعات تازہ ہوجاتے ہیں، ان کے شاگرد رشید مولانا ابو الحسن عباسی نے ایسے ہی دو واقعات لکھے ہیں ۔

طالب علمی کے زمانے میں رمضان کی تعطیلات گزارنے کے لیے دار العلوم دیوبند سے اپنے گھر آئے، خیال ہوا کہ چھٹیوں کے اس وقفے میں قرآن کریم کے کچھ پارے حفظ کرلوں، رمضان سر پر تھا، مشورہ ہوا کہ روز انہ چوتھائی پارہ یاد کرلیا کرو اور تراویح میں سنادیا کرو، اس طرح تراویح بھی ہوجائے گی اور رمضان میں تمہیں سات آٹھ پارے بھی یاد ہوجائیں گے، اب جو یاد کرنے بیٹھے تو چوتھائی کے بجائے پورا پارہ یاد ہوگیا، اور اس شان سے یاد ہوا کہ اسی رات تراویح میں سنا بھی دیا، کبھی کبھی سوا پارہ یا ڈیڑھ پارہ بھی یاد کرلیتے، رمضان کی ستائیسویں شب میں قرآن کریم کی تکمیل ہوگئی، جس نے سنا حیرت میں رہ گیا، علاقے کے لوگوں کو بالخصوص حفاظ کو جب اس واقعے کا علم ہوا تو انہیں یقین ہی نہ آیا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے، مگر انکار ممکن نہ تھا کیوں کہ یہ واقعہ ظہور میں آچکا تھا، (متاع وقت کاروان علم، ص: ۲۵۸)۔

ایسا ہی ایک واقعہ حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کا بھی ہے، سفر حج کے دوران جب بادبانی جہاز میں رمضان کا چاند نظر آیا تو حضرت نے اپنے رفقاء سفر سے فرمایا کہ آج سے تراویح شروع ہوگی، چناں چہ حضرت روز انہ ایک سوا پارہ یاد کرتے اور رات کو تراویح میں سنا دیتے، قدرتی طور پر حضرت نانوتوی کو اس واقعے سے دلی مسرت ہوئی، جب جہاز مکہ پہنچا تو حضرت نے مسقط کا حلوی خرید کر حاضرین میں تقسیم کیا اور اس طرح اپنی اس دلی مسرت کا اظہار فرمایا جو حفظ قرآن کی دولت ملنے پر حاصل ہوئی تھی۔

اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز واقعہ درس نظامی میں شامل منطق کی مشہور کتاب ”سلم العلوم“ کو دس دن میں حفظ کرنے اور بغیر پڑھے اس کا تکرار کرانے اور امتحان دینے کا ہے، دار العلوم دیوبند میں جب مولانا سلیم اللہ خاں داخل ہوئے تو اس سال فن منطق کی کتاب ”میر قطبی“ پڑھی، جلال آباد میں آپ ”قطبی“ پڑھ کر آئے تھے، خواہش یہ تھی کہ اس سال ”سلم العلوم“ بھی پڑھ لیں، لیکن گھنٹوں کی ترتیب اس کی اجازت نہ دیتی تھی، سلم العلوم اپنی پیچیدہ عبارت اور مشکل مباحث کے باعث ہمیشہ طلبہٴ مدارس کے لیے درد سر بنی رہی ہے، اس وقت بھی یہی حال تھا، بہت سے طلبہ اس میں فیل ہوجاتے تھے، ایسے تمام طلبہ کو سالانہ امتحانات کے موقع پر دوبارہ امتحان دینے کا موقع دیا جاتا تھا، بہت سے طلبہ جو کسی دوسرے مدرسے سے سلم العلوم پڑھ کر آتے وہ بھی امتحان میں شریک ہوجاتے تاکہ اگلے سال انہیں وہ کتاب پڑھنی نہ پڑھے، مولانا سلیم اللہ خاں صاحب نے بھی سلم العلوم کا امتحان دینے کی درخواست دی، امتحان میں صرف دس دن باقی تھے، ان دس دنوں میں آپ نے سلم العلوم حفظ کی اور اس کے مباحث اس طرح یاد کیے کہ پورے سال سلم العلوم پڑھنے والے طلبہ کو تکرار بھی کرایا، بلکہ ان طلبہ کو بھی تکرار کرایا جو اس کتاب میں فیل ہوگئے تھے اور اب وہ سند فضیلت حاصل کرنے کے لیے اس کتاب کے امتحان میں شرکت کی غرض سے آئے تھے، نتیجہ نکلا تو جن دو طالب علموں نے اس کتاب میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کیے ا ن میں ایک مولانا سلیم اللہ خاں تھے۔

حضرت مولانا سلیم اللہ خاں کی ذہانت کا حال یہ تھا کہ انھوں نے درس نظامی کا آٹھ سالہ نصاب ساڑھے چھ سال میں پورا کرلیا، اور دار العلوم میں اس شان سے پڑھا کہ ہر سال انہیں خصوصی انعامات سے نوازا جاتا تھا۔ (متاع وقت کاروان علم، ص: ۲۶۹)

حضرت مولانا سلیم اللہ خاں نے ۱۹۴۷ء میں دار العلوم دیوبند سے سند فراغت حاصل کی، فراغت کے بعد مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد میں خدمت تدریس پر مامور ہوئے جو آپ کا اولین مادر علمی بھی تھا، اس مدرسے میں حضرت مولانا مسیح اللہ خاں کی زیر نگرانی تدریسی سفر شروع کیا جو تا دم واپسیں جاری رہا، جلال آباد میں آپ نے آٹھ سال تک تدریسی خدمات انجام دیں۔

تقسیم ہند کے بعد ۱۹۵۵ ء میں پاکستان تشریف لے گئے، وہاں تین سال دار العلوم الاسلامیہ اشرف آباد ٹنڈوالہ یار سندھ میں درس وتدریس میں مشغول رہے، یہ ادارہ شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی کا قائم کیا ہوا تھا، یہاں سے حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب کے قائم کردہ مدرسے دار العلوم کو رنگی ٹاوٴن کراچی تشریف لے گئے اور مسلسل دس سال تک وہاں مختلف علوم وفنون کی کتابیں پڑھائیں، ایک سال حضرت مولانا یوسف بنوری کے جامعہ الاسلامیہ میں رہے، جہاں بھی رہے درس نظامی کے ہر فن کی بڑی اور اہم کتابیں پڑھائیں، ۱۹۶۷ء میں اپنے ادارے دار العلوم فاروقیہ کراچی کی بنیاد رکھی، جو آج پاکستان کے بڑے تعلیمی اداروں میں سے ایک ہے، اور بیرون ملک تک اس کی شہرت ہے، پاکستان کا یہ واحد مدرسہ ہے جہاں سے عربی، اُردو اور انگلش تینوں زبانوں میں ماہانہ رسائل شائع ہوتے ہیں، فیصل کالونی میں اس کی پرشکوہ عمارت دعوت نظارہ دیتی ہے۔

بلاشبہ حضرت مولانا میدانِ تدریس کے شہسوار تھے، جہاں بھی رہے انھوں نے اس فن کا حق ادا کیا، یہاں تک کہ تعطیلات میں بھی مشتاقان علم کی ایک جماعت کسب فیض کے لیے ان کے ارد گرد اس طرح موجود رہتی تھی جس طرح پروانے شمع کے گرد چکر لگاتے رہتے ہیں، درس نظامی میں داخل کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جو ان کے زیر درس نہ رہی ہو، ایک زمانے تک انھوں نے مکمل صحاح ستہ اور مشکوة شریف کی دونوں جلدیں خود پڑھائی ہیں، آج پورے پاکستان میں اور پاکستان سے باہر، ناروے، جرمنی، ساوٴتھ افریقہ، سعودی عرب، کویت، قطر، عرب امارات، عمان، انگلینڈ، امریکہ، کناڈا، کوریا، افریقہ، فرانس، ملائیشیا، رنگون ہندوستان، بنگلہ دیش، ایران اور افغانستان میں بھی ان کے ہزاروں شاگرد موجود ہیں، پاکستان میں تو ان کا دائرہ بے حد وسیع ہے، مولانا مفتی رفیع عثمانی، مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا شمس الحق، مفتی نظام الدین شامزئی، مولانا حبیب اللہ مختار اور مولانا عنایت اللہ ، مولانا سید حمید الرحمن، مولانا احمد الرحمن، مولانا جمشید علی خاں جیسے مشاہیر علماء آپ کے ممتاز تلامذہ میں شامل ہیں۔

دار العلوم دیوبند کے تعلیمی اور تدریسی مزاج کی ان پر گہری چھاپ تھی، اکابرین دیوبند سے ان کو بڑا تعلق تھا جس کا اظہار وہ اپنی درسی اور غیر درسی تقریروں میں کرتے رہتے تھے، دار العلوم میں ان کے قیام کی مدت اگرچہ ساڑھے چار سال ہے، مگر اس کم مدت میں بھی انھوں نے یہاں کے اساتذہ سے بھرپور استفادہ کیا، خود فرماتے ہیں ”میرے محسن استاذ جن کے تلمذ کے طفیل مجھے حدیث شریف سے مناسبت ہوئی اور اس سے تعلق ہوا وہ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ ہیں، حضرت کا ترمذی شریف کا درس روزانہ دو دو اور ڈھائی ڈھائی گھنٹے اس شان سے ہوتا تھا کہ یہاں نظروں کو پھر وہ خوش گوار منظر کہیں دیکھنا نصیب ہی نہیں ہوا، حضرت کے درس ترمذی میں حدیث کے فنی مباحث پر سیر حاصل بحث ہوتی تھی، اسناد، جرح وتعدیل اور تطبیق وترجیح کی بحثیں، فقہی کلامی، تاریخی مسائل اور اخلاقی واصلاحی گفتگو بڑے بسط وتفصیل سے فرمایا کرتے تھے، صحاح ستہ اور دیگر کتب برابر میں رکھی رہتی تھیں، حوالے کی ہربات کو کتاب کھول کر اور اس کی عبارت پڑھ کر بیان فرماتے تھے، طلبہ کے ہر قسم کے سوالات کا نہایت خندہ پیشانی سے تفصیلی جواب عنایت فرماتے، یہی درس ترمذی احقر کی اس فن سے مناسبت کی بنیاد ہے۔ (کشف الباری: ۱/۸۵)۔

دار العلوم دیوبند کی ایک اور رجال ساز شخصیت استاذ الاساتذہ شیخ الادب والفقہ حضرت مولانا اعزاز علی امروہوی کے متعلق فرماتے ہیں کہ ”شیخ الادب والفقہ کا ابوداوٴد کا درس بھی معاون بنا، اور ان کے درس سے بھی احقر نے بہت کچھ سیکھا، ترمذی شریف کتاب السیر سے آخر تک مع شمائل ترمذی بھی احقر نے حضرت شیخ الادب ہی سے پڑھی“ (حوالہٴ سابق)۔

یہ تو ان کی تدریسی زندگی کی تشکیل وتعمیر اور فن حدیث سے مناسبت کا پہلو ہے، لیکن نو عمری میں ان کی شخصیت جن مقدس اور مبارک ہاتھوں سے بنی سنوری وہ مسیح الامت حضرت مولانا مسیح اللہ خاں شیروانی ہیں، اپنے اس عظیم محسن کے متعلق شیخ سلیم اللہ خاں فرماتے ہیں: ”میری زندگی میں سب سے زیادہ تبدیلی، دینی جذبات کی پرورش، اخلاق واعمال کے حسن وقبح کا احساس، ان کی اصلاح کی طرف توجہ اور ہمیشہ کے لیے اپنے آپ کو رجال دین میں شامل کرنے کا شوق اور جذبہ حضرت مولانا مسیح اللہ خاں صاحب کی خدمت میں رہ کر پیدا ہوا“۔ (حوالہ سابق)

حضرت مولانا سلیم اللہ خاں صاحب کی زندگی کا ایک اہم پہلو وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے ان کی وابستگی ہے، اس وفاق کی بنیاد ۱۹۵۹ء میں رکھی گئی ۱۹۸۰ء میں آپ کو اس کا ناظم اعلیٰ بنایا گیا، اور مولانا محمد ادریس میرٹھی کی وفات کے بعد ۱۹۸۹ء میں آپ کو اس کا صدر منتخب کیا گیا، اس منصب پر وہ آخر تک فائز رہے، وفاق المدارس العربیہ دیوبند کے طرز پر چلنے والے مدارس کا پاکستان میں سب سے بڑا تعلیمی بورڈ ہے جو خود مختار ادارے کی حیثیت سے کام کرتا ہے، اس وقت اس وفاق سے دیوبند مکتب فکر کے انیس ہزار پانچ سو چار مدارس اور جامعات منسلک ہیں، ان مدارس میں ایک لاکھ چودہ ہزار چار سو چالیس اساتذہ خدمت تدریس پر مامور ہیں اور تین لاکھ چھ ہزار دو سو اناسی طلبہ وطالبات زیر تعلیم ہیں، وفاق المدارس سے اب تک فارغ التحصیل ہونے والے علماء کی تعداد ایک لاکھ انیس ہزار آٹھ سو بانوے اور عالمات کی تعداد ایک لاکھ پچاس ہزار اٹھائیس اور حفاظ کی تعداد نولاکھ پچیس ہزار ایک سو بانوے ہے۔

مولانا سلیم اللہ خاں کے دور صدارت میں وفاق المدارس کا دائرہٴ عمل وسعت اختیار کرگیا ہے، ملحقہ مدارس کی تعداد میں قابل قدر اضافہ ہوا، نصاب کی پابندی ہوئی، مدارس میں درجہ بندی لازمی ہوئی، پہلے صرف مرحلہٴ عالیہ (دورہٴ حدیث) کا امتحان وفاق کے تحت ہوتا تھا، اب تمام مراحل کے امتحانات ہونے لگے، وفاق کے انتظامی امور میں بھی مثبت تبدیلیاں آئیں، اس کی کارکردگی بہت بہتر ہوگئی اور اس کی سندیں جامعات کی اعلیٰ سندوں کے مساوی قرار پائیں۔

پاکستان میں مولانا سلیم اللہ خاں جرأت وشجاعت، بے باکی اور حق گوئی کی علامت سمجھے جاتے تھے، حالات کتنے ہی حوصلہ شکن کیوں نہ ہوں مگر وہ پیش آنے والے حالات وواقعات کے سامنے چٹان بن کر کھڑے ہوجاتے تھے۔ مدارس عربیہ کو بارہا مشکل حالات سے گزرنا پڑا مگر وہ اپنی دوراندیشی، تدبر اور حوصلہ مندی سے ان مشکل حالات کی دلدل سے مدارس کو نکال کر لے گئے، نائن الیون کے بعد حالات بڑے سخت اور صبر آ زما تھے، حکومت پاکستان پر غیر ملکی دباوٴ تھا، ذرائع ابلاغ مخالفت میں کھڑے ہوئے تھے، لال مسجد جیسا واقعہ پیش آچکا تھا، سب کی انگلیاں مدرسوں کے نصاب اور نظام پر اٹھ رہی تھیں، ایسے میں مولانا سلیم اللہ خاں نے وفاق کے اسٹیج سے قائدانہ رول ادا کیا، اور حسن تدبر کے ساتھ مدارس کو اس کٹھن دور سے نکالا۔

بعض اوقات ان کے طول طویل تعلیمی اور اصلاحی دورے ہوتے، رات دن جلسوں میں شرکت کرتے، تقریریں کرتے، کانفرنسوں اور سمیناروں کی صدارت کرتے اور جامعہ فاروقیہ پہنچتے ہی بخاری شریف پڑھانے بیٹھ جاتے، جہد مسلسل کا یہ انداز انھوں نے اپنے استاذ گرامی قدر شیخ الاسلام حضرت مدنی سے سیکھا تھا، لوگ انہیں پاکستان میں حضرت مدنی کا عکس جمیل کہا کرتے تھے۔

حضرت مولانا سلیم اللہ خاں تصنیف وتالیف کے میدان کے آدمی نہیں تھے، ان کی تصانیف وتالیفات ان کے وہ ہزاروں تلامذہ ہیں جو درس وتدریس کے ساتھ تصنیف وتالیف میں بھی لگے ہوئے ہیں، ایسے ہی ان کے دو ممتاز شاگردوں نے ان کی تقریر بخاری کو محقق اور مرتب ومدون کرکے ایسا کام کیا ہے جو رہتی دنیا تک خود اُن کا اور ان کے شیخ کا نام زندہ رکھے گا۔

حضرت نے سالہا سال تک بخاری شریف کا درس دیا ہے، پچیس سال کے مسلسل درس کے بعد یہ درسی تقریریں ٹیپ کی گئیں، تمام اسباق چار سو کیسٹوں میں محفوظ کیے گئے، پھر ان کیسٹوں کو حضرت نے خود سنا، اس کے بعد یہ اسباق تحریر میں لائے گئے، جلد اول کی تحقیق اور مراجعت کا کام مولانا نور البشر صاحب اور جلد ثانی کی مراجعت اور تحقیق کا کام مولانا ابن الحسن عباسی کے سپرد کیا گیا، ان دونوں حضرات نے تقریر کے ہر ہر جزء کی مراجعت کی، حوالے تلاش کیے، عنوانات لگائے، اور اب درسی تقریر بائیس جلدوں میں ”کشف الباری“ کے نام سے پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی چھپ چکی ہے، ہندوستان میں اس کی طباعت کا شرف دار الکتاب دیوبند کو حاصل ہوا ہے، یہ کتاب اپنی گوناگوں خصوصیات کی وجہ سے علمی حلقوں میں بے حد مقبول ہے، حضرت مولانا محمد تقی عثمانی نے ”کشف الباری“ کے متعلق لکھا ہے ”جب میں نے پہلی جلد سرسری مطالعے کی نیت سے اٹھائی تو اس نے مجھے خود مستقل طور پر اپنا قاری بنا لیا، اپنے درس بخاری کے دوران جب فتح الباری، عمدة القاری، شرح ابن بطال، فیض الباری، لامع الدراری اور فضل الباری کا مطالعہ کرنے کے بعد کشف الباری کا مطالعہ کرتا تو ظاہر ہوتا کہ اس کتاب میں مذکورہ تمام کتابوں کے مباحث دل نشیں تفہیم کے ساتھ اس طرح یک جا ہوگئے ہیں جیسے ان کتابوں کا لب لباب سمٹ آیا ہو اور اس کے علاوہ بھی بہت سے مسائل اور مباحث اس پر مستزاد ہیں“ ۔(کشف الباری: ۱/۲۷)

یہ محض ایک شاگرد کا اپنے استاذ کی کتاب کو خراج تحسین نہیں ہے بل کہ ایک بلند پایہ محقق اور محدث کا دوسرے بلند پایہٴ محقق اور محدث کی کاوشوں کی تحسین وستائش ہے۔

جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا گیا کہ مولانا سلیم اللہ خاں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے ارشد تلامذہ میں سے ہیں، انہوں نے دار العلوم دیوبند میں حضرت مدنی کے درس حدیث سے پورا پورا استفادہ کیا ہے اور ان کے خوان علم سے بھرپور طریقے پر خوشہ چینی کی ہے، کشف الباری در اصل حضرت مدنی کی درسی خصوصیات کو سمیٹنے اور پھیلانے کی ایک علمی کوشش ہے جسے پاک وہند سمیت دنیا بھر کے حلقوں میں پذیرائی ملی ہے۔

حضرت مولانا سلیم اللہ خاں نے حضرت مدنی کے درس بخاری کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے ”کہ حضرت کی تقریر نہایت سلیس، شستہ اور اس کی رفتار بہت دھیمی ہوتی تھی، ایک ایک لفظ واضح بآواز بلند زبان مبارک سے نکلتا تھا، مشکل مقامات نہایت سادہ طرز میں مثالیں دے کر حل فرماتے تھے، جب کسی مسئلے میں حدیث کی توجیہ بیان فرماتے اور توجیہات متعدد ہوتیں تو ہر ایک توجیہ کو الگ الگ شمار کرتے تھے، کتب حدیث کا مکمل سیٹ آپ کے پاس رکھا ہوتا تھا، تمام فقہاء کے دلائل کو کتاب کھول کر سناتے، کسی امام کی دلیل کو حوالہٴ کتب کے بغیر نہ چھوڑتے تھے، سند پر حسب ضرورت بحث فرماتے اور علماء کے جرح وتعدیل کے اقوال نقل فرماتے تھے، حدیث کا مفہوم وضاحت کے ساتھ اس طرح سمجھاتے کہ وہ طلبہ کے ذہن نشین ہوجاتا تھا، اگر حدیث پر کوئی اعتراض وارد ہوتا تو اعتراض کی تشریح فرما کر مستند قوی جوابات بیان فرماتے، مشکل مقامات پر اگر ضرورت ہوتی نحوی ترکیب ذکر کرتے تھے اور مشکل الفاظ کے ضمن میں شعراء عرب کا کلام تائید میں پیش کرتے تھے، فرضیت احکام کی تاریخ بیان فرماتے تھے، فرق حقہ اور فرق باطلہ کے عقائد کی دل نشیں تشریح فرماتے اور پھر احقاق حق اور ابطال باطل میں کوئی کسر نہ چھوڑتے تھے، اختلافی مسائل میں ہر امام کے دلائل بیان فرماکر آخر میں مذہب احناف کی حدیث کے ساتھ مطابقت اس طرح بیان کرتے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ حنفی مذہب احادیث نبویہ کے بالکل مطابق ہے اور امام اعظم کو تفقہ فی الدین میں وہ کامل دست گاہ حاصل ہے جو کسی امام فقہ کو حاصل نہیں ہے، بخاری شریف کے درس میں عقائد وایمان کے مباحث بسط وتفصیل کے ساتھ ارشاد فرماتے تھے، مغازی کے درس کا لطف یہ تھا کہ حضرت عرب کے جغرافیہ سے واقف تھے اس لیے مقامات جہاد کا جغرافیہ بڑی وضاحت سے بیان فرماتے تھے، احادیث متعارضہ میں تطبیق کا پورا پورا اہتمام ہوتا تھا، خواہ تعارض روایت کرنے والوں کی وجہ سے پیش آیا ہو، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل کا اختلاف ہو، پہلے تطبیق دی جاتی، وہ نہ ہو تو دلائل سے ترجیح کا طریقہ اختیار کیا جاتا، کتاب التفسیر میں مختصر آیت پوری تلاوت فرماتے ، (ملخصاً کشف الباری: ۱/۹۴، ۹۵)۔

”کشف الباری“ میں صاحب افادات نے حضرت مدنی کے اسلوب درس کی مکمل اتباع کی ہے اور ساتھ ہی اپنے سالہا سال کے مطالعے سے اس اسلوب کو نئی جہتیں دینے کی کوشش بھی کی ہے، پوری کتاب کا کوئی ایک صفحہ کھول لیجئے، علم کا بہتا ہوا دریا نظر آتا ہے، اس میں ترجمة الباب کی مفصل تشریح کے ساتھ ساتھ ترجمة الباب اور احادیث کے درمیان مطابقت کی نفیس توجیہات بھی ہیں، ماقبل اور مابعد کے تراجم کے ساتھ پیش نظر ترجمة الباب کا کیا ربط ہے، متشابہ تراجم میں کیا فرق ہے، اس کتاب میں ان سوالوں کا اور اسی طرح کے دوسرے سوالوں کا جواب بھی ملتا ہے، ساتھ ہی وہ راویوں کا بہ قدر ضرورت تعارف بھی کراتے ہیں، جن راویوں کے ناموں میں اشتباہ پیش آتا ہے اس کی نشاندہی بھی کرتے ہیں، جن راویوں سے بخاری شریف میں صرف ایک یا دو روایات ہیں ان کے نام بھی بتلاتے ہیں اور ان کی روایات کا حوالہ بھی دیتے ہیں، رجال بخاری میں جن حضرات پر محدثین نے کلام کیا ہے اس کا علمی طور پر منصفانہ جائزہ بھی لیتے ہیں، مکرر روایات میں یہ بتلاتے ہیں کہ تکرار سند ومتن کے اتحاد کے ساتھ ہوا ہے یا ان دونوں میں سے کسی اختلاف کے ساتھ، مذاہب فقہاء کے استقصاء کا اہتمام اور ان کی تنقیح، فقہی مذاہب کے بیان کے لیے اصل ماخذ کے حوالے کا اہتمام، مسائل فقہیہ کی آسان طریقے پر تفہیم وتشریح، فقہاء ومحدثین کے اقوال مختلفہ کے درمیان محاکمہ، معلقات کے باب میں یہ بتلانے کا اہتمام کہ مصنف یا کسی دوسرے محدث نے ان کو موصولاً کہاں روایت کیا ہے،آثار موصولہ میں اس بات کی نشاندہی کہ کس محدث نے ان کو موصولاً ذکر کیا ہے، حسب موقع امام بخاری کے اوہام پر تنبیہ، بعض تراجم اور دیگر مواقع پر موجود ابہام کی وضاحت، قال بعض الناس کا مالہ وماعلیہ کے ساتھ ذکر، صحیح بخاری میں کہیں باب ہے ترجمہ نہیں، کہیں ترجمہ ہے حدیث نہیں بلکہ آیت مذکور ہے، کہیں نہ حدیث ہے اور نہ آیت بلکہ صرف ترجمہ مذکور ہے، ایسے مواقع پر تشفی بخش کلام، سند میں تحویل آجانے کی صورت میں یہ اہتمام کہ یہاں جو حدیث مذکور ہے وہ سند اول کی روایت ہے یا سند ثانی کی، نیز اس بات کی تصریح کہ دوسری سند جس کی روایت یہاں مذکور نہیں اس کو مصنف نے کہاں بیان کیا ہے؟

یہ وہ خصوصیات ہیں جو مولانا سلیم اللہ خاں کے درس بخاری کو دوسری شروح سے ممتاز کرتی ہیں، اور اس سے حضرت مولانا تقی عثمانی کے اس قول کی تائید ہوتی ہے ”اس وقت صحیح بخاری کی جتنی تقاریر اُردو میں دستیاب ہیں ان میں یہ تقریر اپنی نافعیت اور جامعیت کے لحاظ سے سب پر فائق ہے“۔

حضرت کی تقریر کے تحقیقی معیار کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ کہیں کوئی بات بلا حوالہ نہیں کی گئی ہے، کتاب کے آخر میں مآخذ ومراجع کی جو فہرست دی گئی ہیں اس میں ہر فن کی دو سو اکتیس کتابوں کے نام شامل ہیں ان میں بخاری اور دوسری کتب حدیث کی شروح بھی ہیں، فقہاء مذاہب کی کتابیں بھی ہیں، تفسیری ذخیرہ بھی ہے، اسماء رجال کی کتب بھی ہیں، عقائد، سیرت اور تاریخ، اسرار وحکم کون سا فن ایسا ہے جس کی بنیادی کتابیں مراجع ومآخذ کی اس فہرست میں موجود نہیں ہیں۔

مشکوة شریف کی درسی تقریر بھی ”نفحات التنقیح“ کے نام سے تین جلدوں میں چھپ چکی ہے اور اس خبر سے حدیث کے طلبہ کو یقینا خوشی ہوگی کہ ان کی تقریر ترمذی بھی دس جلدوں میں تیار ہے، صرف طباعت باقی ہے، اس ضعیفی اور کبر سنی میں بھی وہ ذہنی طور پر پوری طرح مستعد اور چاق چوبند تھے، حالاں کہ جسمانی طور پر معذور ہوچکے تھے، حال ہی میں انھوں نے بیماری اور ضعف کے باوجود تبلیغی جماعت کے قضیے میں جس بیدار مغزی کا ثبوت دیا ہے، اور مولانا سعد سمیت تمام اکابرین دیوبند کو جس کرب اور دلسوزی کے ساتھ خطوط لکھے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ امت مسلمہ کے احوال سے پوری طرح باخبر رہتے تھے اور پیش آنے والے مسائل کو حل کرنے میں پوری دل چسپی بھی لیتے تھے۔

بچپن ہی سے مولانا سلیم اللہ خاں کا نام سنتے آرہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دیوبند کے پڑھے ہوئے تھے، دیوبند کے قریب ایک بستی کے رہنے والے تھے، جلال آباد میں استاذ تھے، جہاں میرے والد اور دادا دونوں عرصہٴ دراز تک مدرس رہے، یہ رشتہ ہمارے والد محترم حضرت مولانا واجد حسین شیخ الحدیث تعلیم الدین ڈابھیل گجرات اور حضرت مولانا سلیم اللہ خاں کی دوستی اور باہمی تعلق کا سبب بنا، دار العلوم دیوبند کے اجلاس صد سالہ کے موقع پر مولانا سلیم اللہ خاں اپنے قافلے کے ہمراہ ہمارے گھر پر ہی ٹھہرے، ان دنوں ان کو قریب سے دیکھنے اور ان کی خدمت کرنے کا کچھ موقع میسر آیا، حضرت اپنے ساتھ پاکستان سے فتاوی عالمگیری، فتاوی شامی، بدائع الصنائع، البحر الرائق وغیرہ کے کچھ سیٹ لے کر آئے تھے، جو میں نے اجلاس صد سالہ کے دوران اپنے بک اسٹال پر رکھے، کچھ کتابیں اس وقت فروخت ہوئیں اور کچھ بعد میں، لوہاری کے قاری عزیز الرحمن اس تجارت میں ہمارے درمیان واسطے کا کام کررہے تھے، ان کے انتقال کی خبر سن کر وہ تمام مناظر نگاہوں کے سامنے آگئے، کتنی سادگی تھی اور کس قدر منکسر المزاج تھے، اس کا اندازہ ان چند ملاقاتوں میں ہوا۔

ابھی حال ہی میں حضرت کی ایک کتاب نظر سے گزری جو ”تسہیل الادب“ کے نام سے پاکستان میں چھپی ہے، اس کے پیش لفظ میں حضرت نے اس حقیر کا ذکر خیر کیا ہے اور میری تالیف کردہ کتاب ”معلم العربیہ“ کا حوالہ دیا ہے جو میرے لیے بڑی سعادت کی بات ہے۔

حضرت مولانا کا انتقال پاکستان ہی کے لیے نہیں ہندوستان کے اہل علم اور مدارس کے لیے بھی بڑا تکلیف دہ حادثہ ہے، جس کا اظہار علمی اور دینی حلقوں کی طرف سے مسلسل ہورہا ہے، بلاشبہ حضرت کے اٹھ جانے سے دینی اور علمی حلقوں میں جو خلاء پیدا ہوا ہے وہ آسانی سے پُر ہونے والا نہیں ہے۔

——————————————————————

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ1۔2، جلد:101 ‏، ربیع الآخر۔جمادی الاولی 1438 ہجری مطابق جنوری۔فروری 2017ء

Related Posts