مولانا حکیم ظہیراحمد فیض آبادیؒ: کچھ یادیں کچھ باتیں

از: مولانا محمداللہ خلیلی قاسمی

شعبہٴ انٹرنیٹ، دارالعلوم دیوبند

مولانا حکیم ظہیر احمد قاسمی فیض آبادی ، دارالعلوم دیوبند کے دارالشفاء عظمت ہسپتال میں پچھلے دو دہائیوں سے طب یونانی کے معالج تھے۔ عید الفطر کی تعطیل میں وطن گئے ہوئے تھے، وہیں ۱۵/ جولائی ۲۰۱۶ء کی شب کو ہارٹ اٹیک ہوا اور چند گھنٹے کی علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون، غفر اللہ لہ و أسکنہ فسیح جناتہ برحمتہ و فضلہ!

حکیم صاحب رحمة اللہ علیہ موضع عارب پور ضلع امبیڈ کر نگر (سابق ضلع فیض آباد) کے رہنے والے تھے جو قصبہ ہنسور سے پانچ کلومیٹر جانب مغرب اور ٹانڈہ سے دس کلومیٹر جانب مشرق منڈیرہ کے قریب واقع ہے۔ آپ کی پیدائش۱۵/جون ۱۹۵۱ء بروز جمعہ مطابق ۹/رمضان ۱۳۷۰ھ میں ہوئی۔ والد کا نام جناب محمد نصیر تھا۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ اشاعت العلوم ہنسور میں حاصل کی جو اس زمانہ میں اس علاقہ کا اہم مدرسہ تھا اور قرب و جوار سے دس دس کلومیٹر سے طلبہ روزآنہ پڑھنے آتے تھے۔ ان کی تعلیم سے دل چسپی اور سعادت مندی کی بات تھی کہ وہ پرائمری تعلیم حاصل کرنے کے لیے مسلسل پانچ سال تک روزآنہ تقریباً دس بارہ کلومیٹر کی مسافت پیدل طے کرتے۔

ہنسور میں پانچ سالہ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے ضلع فیض آباد کے معروف مدرسہ کرامتیہ دارالفیض جلال پور میں فارسی و عربی کی تعلیم کے لیے داخلہ لیا جو اس وقت شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی قدس سرہ کے شاگرد ومعتمد خاص متکلم اسلام حضرت مولانا ضمیر احمد اعظمی (متوفی ۱۹۹۰ء ) کی پرکشش شخصیت کی وجہ سے طالبانِ علوم اسلامیہ کی توجہات کا مرکز بنا ہوا تھا۔

مدرسہ کرامتیہ دارالفیض جلال پور میں تعلیم کی تکمیل کے بعد اعلی تعلیم کے حصول کے لیے دیوبند آگئے ۔ سن ۱۳۹۰ھ/ ۱۹۷۰ء میں دورہٴ حدیث سے فراغت کے بعد دارالعلوم کے جامعہ طبیہ میں داخلہ لیا اور طب یونانی کے چار سالہ کورس کی تکمیل کی۔

تعلیم سے فراغت کے بعد اپنے گاؤں سے قریب ہنسور -ٹانڈہ روڈ پر ہیرا پور بازار میں مطب کھول لیااور خدمتِ خلق میں مشغول ہوگئے۔ اللہ تعالی نے دستِ شفا اور دلِ دردمند سے نوازا تھا ، کیا ہوا، دیکھتے دیکھتے آپ قریبی دیہات و مواضعات کے جانے پہچانے معالج بن گئے۔ زیادہ تر ایلوپیتھک دواؤں کے استعمال کی وجہ سے انھیں وہاں ’ڈاکٹر‘کے لاحقہ سے جانا جاتا تھا۔ بعد میں جب دارالعلوم کے دارالشفاء میں معالج مقررہوئے تو یہاں حکیم کا لاحقہ بھی لگ گیا۔

دارالعلوم میں آپ کا تقرر ۱۹۹۵ء میں ہوا۔ تقرر کی اطلاع وطن میں جب ملی، اس وقت متأمل تھے اور اساتذہ و خیر خواہوں سے اس سلسلہ میں مشورہ بھی کیا؛ کیوں کہ وطن میں جمے جمائے کام کو چھوڑ کربیوی بچوں کے ساتھ دیوبند آکر نئی زندگی کی شروعات کرنا آسان نہیں تھا؛ لیکن دارالعلوم کی محبت غالب آئی اور آپ نے دیوبند میں پڑاؤ ڈال دیا۔ پہلے افریقی منزل قدیم کے ایک حجرے میں قیام تھا، بعد میں محلہ خانقاہ میں دارالعلوم کے ایک مکان کی بالائی منزل میں اہل خانہ کے ساتھ رہتے تھے۔

دارالشفاء ۱۹۹۵ء میں اعظمی منزل کے سامنے پرانی بلڈنگ میں واقع تھا اور اس کے سامنے جامعہ طبیہ کی عمارت ابھی ٹوٹی نہ تھی۔ ڈاکٹر سید نفیس احمد خان جہان پوری  دارالشفاء کے ناظم تھے جو جامعہ طبیہ میں ا ٓپ کے استاذ رہ چکے تھے۔ استاذ کے ساتھ آپ کو ہمیشہ موٴدب اور متواضع ہی دیکھا۔ ملازمت کے ساتھ ساتھ آپ نے اس رشتہ کو بڑے خلوص اور وفاداری کے ساتھ نبھایا۔ ڈاکٹر نفیس احمد صاحب کے اعلی اخلاق، عالی ظرفی اور شرافت نفسی کے قائل رہے اور پوری عقیدت کیشی کے ساتھ ان کی خدمت کی۔ یہ حکیم صاحب کے حسن اخلاق اور طبعی شرافت کی ایک واضح مثال ہے۔

دارالشفاء میں آپ نے مسلسل اکیس سال تک علاج و معالجہ کی خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر نفیس احمد صاحب کے مرض کے دوران اور وفات کے بعد آپ نے دارالشفاء کی ذمہ داریاں بھی اٹھائیں۔ مریضوں کے ساتھ نہایت خیر خواہی و ہمدردی کے ساتھ پیش آتے اور ان کے امراض و مسائل کو حل کرنے کی حد درجہ کوشش کرتے۔ روزآنہ سیکڑوں مریضوں کو نہایت خندہ پیشانی اور حاضر دماغی کے ساتھ دیکھتے، جن میں طلبہ کے علاوہ قریب و دور کے غریب اور دیہاتی بھی ہوتے، ہر ایک کے ساتھ آپ کا برتاوٴ یکساں تھا۔ ایلوپیتھک دوائیں ڈاکٹر نفیس احمد صاحب تجویز کرتے اور یونانی دوائیں آپ لکھتے۔ کبھی کبھی ڈاکٹر نفیس احمد صاحب کبر سنی اور پیرانہ سالی کے باعث طویل رخصت پر ہوتے تو دونوں حصوں کے مریضوں کو آپ تنہا دیکھتے۔ روزآنہ سیکڑوں مریضوں کو دیکھنا ہوتا۔ ایک بار میں نے شمار کیا تو اندازہ ہوا کہ سال بھر میں ایک لاکھ سے زائد مریضوں کا تناسب ہے، جس میں مریض دیکھنا، دوا تجویز کرنا، رجسٹر اور نسخے میں مریض کی تفصیلات کے ساتھ دواؤں کی تفصیلات درج کرنا اور دوا کی قیمت وصول کرکے روزآنہ کا حساب رکھنا، آپ کی ذمہ داریوں کا حصہ تھا۔ بلا شبہ یہ ملازمت کے ساتھ ایک عظیم الشان خدمت خلق تھی جسے آپ اسی جذبہ سے کرتے تھے۔

اپنے کام، ڈیوٹی اور وقت کے تئیں بڑے ایمان داراور جزرس واقع ہوئے تھے۔ دارالعلوم میں پابندی کے ساتھ وقت پر آنے ، دواؤں کی خرید و فروخت اور دیگر کاموں میں ایمان داری اور جائز و ناجائز کا بڑا خیال رکھتے تھے۔

جد و جہد و محنت گھٹی میں سمائی ہوئی تھی؛ اس لیے عصر کے بعد سے عشاء تک کے وقت کو ملاقاتوں اور مجالس میں صرف کرنے کے بجائے خدمتِ خلق میں لگایا۔ طبی خدمات کا جو معاوضہ وصول کرتے تھے وہ برائے نام ہی ہوتا تھا۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ مریض کا کم از کم صرفہ میں زیادہ سے زیادہ فائدہ ہوجائے۔ مشورہ اور پرچہ لکھنے کی کوئی فیس نہیں لیتے تھے۔ ہاں دوا دیتے تو اس کی واجبی قیمت ضرور لیتے؛ مگر پانچ روپئے کی دوا پانچ روپئے ہی میں دیتے، دس کی ہوتی تو دس ہی لیتے۔ کئی بار میں نے عرض کیا کہ رقم کی کوئی کم از کم متعین مقدار رکھ لیں؛مگر اس پر بالکل راضی نہ ہوتے۔ بسا اوقات واجبی قیمت اگر بہت کم ہوتی تو کچھ لینے سے یکسر منع کردیتے۔ اگر کوئی دوا بازار سے ملتی تو اس کا نسخہ لکھ کر دیتے، اگر کوئی لانے والا مل جاتا تو اپنے دواخانہ کے حوالے سے منگواتے؛ تاکہ دوا رعایتی قیمت پر ملے اور مریض کا کچھ پیسہ اور بچ جائے۔

ذاتی زندگی میں بڑے ملنسار اور مہمان نواز واقع ہوئے تھے۔ دور قریب کا جاننے والا یا وطن کے قرب و جوار کا کوئی شخص آجاتا اور آپ سے ملتا تو ایک دو وقت آپ کے دسترخوان پر کھانا کھائے بغیر واپس نہیں جاتا تھا۔ ضلع امبیڈکرنگر کے مہمانوں کے سلسلہ میں جان پہچان کی شرط مطلق نہ تھی، وطنی مناسبت دسترخوان پر بلانے کے لیے کافی تھی۔ باہر کے مہمانوں کے علاوہ دیوبند میں رہنے والے احباب و اصحاب خورد و کلاں ہر ایک کو موقع بہ موقع دعوتیں دیتے اور بڑی محبت اور چاوٴ کے ساتھ کھلاتے۔ آپ کے دسترخوان پر آئے دن مہمان ہوتے اور آپ کے اہل خانہ بھی بکمال آمادگی و مسرت آپ کے اس جذبہٴ مہمان داری کی تسکین میں معاون بنتے۔ مدرسہ کرامتیہ جلال پور سے آپ کے اساتذہ مہمان ہوتے تو بچھ سے جاتے اور دل و جان نکال کر رکھ دیتے۔ ان کے آرام کی خاطر کئی بار تو ان کو اپنے گھر میں ٹھہرایا۔

۲۰۱۳ء میں آپ اہلیہ محترمہ کے ساتھ حج کے مبارک سفر پر گئے۔ حج سے واپسی کے چند ماہ بعد آپ کا عمرہ کا پروگرام تھا۔ اسی دوران آپ پر مرض کا حملہ ہوا، سخت ہائی بلڈپریشر کے ساتھ ساتھ پاوٴں میں فالج جیسی کیفیت پیدا ہوئی۔ کچھ دن دوا علاج ہوا اور طبیعت قدرے ٹھیک ہوگئی۔ عمرہ کی تاریخ میں بس ایک ہفتہ باقی تھا۔ طبیعت کی خرابی کے باعث ہم لوگوں نے سفر کو ملتوی کرنے کی تجویز دی؛ لیکن انھوں نے مسکرا کر ٹال دیا اور کہنے لگے کہ اگر اس پاک خطہٴ ارض میں موت آنا ہے تو زہے نصیب، مجھے تو سفر میں جانا ہے۔

غالباً نومبر ۲۰۱۵ء میں آپ کو ہارٹ اٹیک کا عارضہ پیش آیا۔پہلے دیوبند اور پھر مظفر نگر میں کئی دنوں تک علاج ہوتا رہا۔ اس حملہ سے آپ جانبر تو ہوگئے؛ لیکن مرض اپنا اثر دکھا گیا۔ نقاہت و نحافت واضح طور پر محسوس ہونے لگی۔ تمام دوا و علاج اور پرہیز کے باوجود آپ کی ظاہری حالت سے صاف جھلکنے لگا کہ اب حالات اچھے نہیں ہیں۔ بالآخر پہلے حملے کے چندماہ بعد ۱۴-۱۵/ جولائی ۲۰۱۶ء کی شب میں دوبارہ حملہ ہوااور کاری ثابت ہوا۔ انا للہ واناالیہ راجعون!

حکیم صاحب اس وقت اکبر پور کے قریب اپنی بیٹی کے یہاں ایک شادی میں گئے ہوئے تھے۔ اہل وعیال اور سامان سفر کے ساتھ اپنے گھرسے پوری تیاری کرکے نکلے تھے؛ کیوں کہ ۱۵/جولائی کی رات کو لکھنوٴ ریلوے اسٹیشن سے نوچندی ایکسپریس سے آپ کا ٹکٹ بک تھا۔ رات میں گھر والوں کو کہہ رکھا تھا کہ دوپہر تین بجے تک تیار رہیں ، اس وقت نکلنا ہے؛ لیکن اوپر کچھ اور ہی فیصلہ ہوچکا تھا؛عین اسی وقت تین بجے دوپہر میں وطن عارب پور میں آپ کی نماز جنازہ پڑھی گئی اور علماء و صلحاء کی ایک بڑی تعداد نے آپ کو نہر کے کنارے واقع موضع کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا:

اکیلا  کو ن  کہتا  ہے  لحد  میں نعش  حا تم  کو

ہزاروں حسرتیں مدفون ہیں دریا کے پہلو میں

اللہ تعالی مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطافرمائے ۔ آمین!

——————————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ10، جلد:100 ‏، محرم الحرام 1438 ہجری مطابق اکتوبر 2016ء

Related Posts