از:مولوی ذوہیب یونس
متعلّم جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی
جاہلیت میں عورت کی حیثیت:
اسلام سے پہلے عورت کومعاشرے میں جوحیثیت دی جاتی تھی اورجن مشکلات کاسامنا کرناپڑتاتھا وہ کسی سے مخفی نہیں اورنہ ہی تعریف کامحتاج ہے ،یہ طبقہ ان طبقات میں سے تھا جوانتہائی مظلوم اورستم رسیدہ تھا انکو ظلم وستم سے نجات دلانے کی کوئی سعی نہ کی جاتی تھی۔
قرآن کریم میں ہے :
”وَلَاتُکْرِھُوْا فَتَیَاتِکُمْ عَلَی الْبِغَاءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنَا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَیَوَةِ الدُّنْیَا“ (النور:۳۳)
ترجمہ:اوراپنی(مملوکہ)لومڈیوں کوزناکرانے پرمجبورمت کرو (اوربالخصوص)جب وہ پاک دامن رہناچاہیں محض اس لیے کہ دنیوی زندگی کاکچھ فائدہ (یعنی مال)تم کوحاصل ہوجائے (بیان القرآن)
اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ عورت کی حیثیت ان کی نظروں میں کیا تھی اورکیسے افعال پر اس کومجبورکیاجاتاتھا،صحیح بخاری کی ایک حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ جاہلیت کی عورتیں رہن بھی رکھی جاتی تھیں جیساکہ محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں کعب بن اشرف کے پاس گیا اورغلہ قرض دینے کی درخواست کی تواس نے کہا :
ارھنونی نسائکم، قالواکیف نرھنک نساء ناوأنت أجمل العرب․(۱)
ترجمہ :یعنی اپنی عورتوں کومیرے پاس رہن رکھ دو،انہوں نے کہا ہم اپنی عورتوں کوآپ کے پاس کس طرح رھن رکھ سکتے ہیں، آپ توعرب کے حسین ترین آدمی ہیں․
اس واقعہ سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عورت کتنی مظلوم تھی اوراس کی عصمت کس قدر پامال کی جاتی تھی۔(۲)
اسلام میں عورت کامقام :
ان ہی ظلم آفریں اورظلم زدہ گھٹاؤں میں جب اسلام کاآفتاب طلوع ہواتوعورتوں کوان کے حقوق دئیے گئے،افراط وتفریط ختم ہوئی اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کوظلم سے نکالنے کی خصوصی جدوجہدفرمائی ،حجة الوداع کے موقع پرجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری خطاب فرمایا اس وقت بھی اس طرف خاص توجہ دلائی بلکہ اخیر وقت تک اس سلسلے میں فکرمند رہے اس لیے یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام نے سماج میں عورت کوعزت واحترام کامقام دیا ہے۔اسکو خاندان کی ملکہ بنایا،اس کی مستقل شخصیت کو تسلیم کیااورانسانی حقوق میں مرد کے برابر درجہ دیا(۳)اورپہلا قرآنی مشورہ نسوانی حقوق کے سلسلے میں جس کاعلان کیا گیا وہ یہ تھا:
یَأیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَبَثّ مِنْھُمَا رِجَالاً کَثِیراً وَّنِسَاءً․(النساء:۱)
ترجمہ:اے لوگو:اپنے پروردگارسے ڈرو جس نے تم کوایک جاندار سے پیداکیا اوراس سے اس کاجوڑپیداکیا اوران دونوں سے بہت سے مرد اورعورتیں پھیلائیں․(بیان القرآن)
اسلام میں عفت کاتصور:
اللہ پاک کے احسانات میں سے ایک عظیم احسان یہ ہے کہ شہوت کے استعمال کا جائز طریقہ نکاح بتایاتاکہ اس کے ذریعہ شہوت کی آگ کوٹھنڈاکیاجاسکے، اس کے شعلوں کو بجھایا جاسکے ،بلاشبہ نکاح سے ہی انسان شہوت کو جائز طریقے سے پوراکرسکتاہے اورعفت جیسی صفت سے متصف ہوسکتا ہے اسی عفت کی اہمیت کا احساس دلانے کے لیے ان الفاظ کوقرآن میں محفوظ کردیا جن الفاظ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں سے بیعت لیتے تھے کہ وہ بدکاری نہ کریں گی چناچہ فرمایا :
”وَلَایَزْنِیْنَ وَلَایَقْتُلْنَ أوْلَادَھُنَّ ولَایَاْتِیْنَ بَبُھْتَانٍ“(ممتحنہ:۱۲)
ترجمہ:اورنہ بدکاری کریں گے اورنہ اپنے بچوں کو کوقتل کریں گی اورنہ بہتان کی (اولاد) لاویں گی۔ (بیان القرآن)
اسی طرح حضور علیہ السلام نے بھی احادیث طیبہ میں عفت و عصمت سے متعلق اسلام کے نقطہ نظرکوبیان فرمایا اوربدکاری کے نقصانات سے امت کو آگاہ فرمایا اورکثرتِ اموات کاسبب زناکوبتایاچنانچہ ایک لمبی حدیث میں منجملہ اورباتوں کے یہ بھی فرمایا:
”ولافشا الزنا فی قوم قط الا کثرفیھم الموت“(۴)
ترجمہ:یعنی کسی قوم میں زنا کے عام ہونے کی وجہ سے موت کی ہی کثرت ہوجاتی ہے․
اسی طرح برائی کے پھیلنے کوطاعون اورمختلف بیماریوں کاباعث بتلایاچناچہ سنن ابن ماجہ میں ہے:
”لم تظھر الفاحشة فی قوم قط حتی یعلنوا بھا الافشا فیھم الطاعون والاوجاع التی لم تکن مضت فی اسلافھم الذین مضوا“(۵)
ترجمہ :یعنی جس قوم میں زناکاری پھیل جاتی ہے اوربلاروک ٹوک ہونے لگتی ہے تواللہ تعالی ان لوگوں کوطاعون کی مصیبت میں مبتلا کردیتاہے اورایسے دکھ درد میں مبتلا کردیتاہے جس سے ان کے اسلاف نا آشناتھے۔
اسی بدکاری کوروکنے کے لیے شریعت مطہرہ نے حدود بھی مقرر فرمادیں اور ساتھ میں بدکاری کرنے والے کے بارے میں شفقت و مہربانی نہ کرنے کی بھی تلقین فرمادی چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے :
”وَلَاتَاْخُذْکُمْ بِھِمَا رَاْفَةٌ فِیْ دِیْنِ اللہِ“(النور:۲)
ترجمہ:اورتم لوگوں کو ان دونوں پر اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں ذرا رحم نہ آنا چاہئے۔ (بیان القرآن)
قرآن پاک نے انسانیت کوپاکدامنی کاراستہ بھی دکھادیااوراپنے دل کو پاکیزہ رکھنے کا طریقہ بھی بیان فرمایاکہ اگرتم ازواج مطہرات سے کوئی چیز طلب کرو توپس پردہ کرو چناچہ فرمایا :
”واذا سئلتموھن متاعاً فاسئلوھن من وراء حجاب ذلکم أطھر لقلوبکم وقلوبھن“(احزاب:۵۳)
ترجمہ: اورجب تم ان سے کوئی چیز مانگو توپردے کے باہرسے مانگاکرویہ بات (ہمیشہ کے لیے) تمہارے دلوں اوران کے دلوں کے پاک رہنے کاعمدہ ذریعہ ہے․ (بیان القرآن)
اگرچہ یہ آیت ازواج مطہرات کے حق میں نازل ہوئی لیکن علت کے عموم سے پتا چلتاہے کہ یہی طریقہ ہی انسانیت کے لیے ذریعہ نجات ہے اورنفسانی وسوسوں اورخطروں سے حفاظت کاذریعہ حجاب ہی ہے اوربے پردگی قلب کی نجاست اورگندگی کاذریعہ ہے۔(۶)
اسی طرح امام غزالی رحمة اللہ علیہ نے احیاء العلوم میں نکاح کے فوائد بیان کرتے ہوئے شیطان سے حفاظت اورپاکدامنی کوہی سرفہرست گنوایا چناچہ فرمایا:
”التحصن من الشیطان وکسر التوقان ودفع غوائل الشھوة وغص البصر وحفظ الفرج“
ترجمہ: یعنی (نکاح کے فوائد میں سے) شیطان سے بچاؤ شہوت کاتوڑ اوراس کے خطرے کادورہونا اورنظروں کاپست ہونا اورشرمگاہ کی حفاظت ہے۔
گویاعفت کانظام برقراررکھنے کے لیے نکاح مشروع کیاگیا ۔
پردہ کی اہمیت:
عورتوں کے پردے کابیان سات آیات میں آیا ہے اورستر سے زیادہ احادیث میں قولاً وعملاً پردے کے احکام بتائے گئے ہیں ،اتنی کثرت سے پردہ کے بارے میں احادیث کاوارد ہونا اس کی اہمیت پر بین دلیل ہے پھر صحابیات کے نزدیک پردے کی اس قدر اہمیت تھی کہ کسی موقع پربے پردہ رہنا گوارہ نہ کرتی تھیں۔ جیسے ایک صحابیہ کاواقعہ ہے کہ راستہ سے جارہی تھیں،پردے کے حکم کی خبرسنی تو وہیں ایک کنارے میں بیٹھ گئیں اورچادر منگوائی پھر چادراورڑھ کراپنی منزل کی طرف روانہ ہوئیں۔ اسی طرح ایک دفعہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کہیں جارہے تھے، آپ علیہ السلام کے ساتھ اونٹنی پر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں اچانک اونٹ کاپاؤں پھنسل گیااورآپ دونوں زمین پرگرپڑے ،ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے آپ علیہ السلام سے آکرپوچھا: ”چوٹ تونہیں لگی”؟ فرمایا:”نہیں!تم پہلے صفیہ کودیکھو”،یہ سن کر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے پہلے تواپنے چہرے پرکپڑاڈالاپھر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے اورقریب پہنچ کر ان کے اوپر کپڑاڈال کر ان کوچھپاکرپوچھا اس کے بعد وہ کھڑی ہو ئیں اورپھر ان کو سوارکیا۔ (۸)
اس حدیث سے پردہ کی اہمیت کااندازہ لگایاجاسکتاہے کہ پردہ اتناضروری ہے کہ ایسی حالت میں بھی حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے پردہ کااہتمام فرمایا۔(۹)
ابوداؤدکی ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کوایک کنارے میں چلنے کاحکم فرمایااورایک مرد کودوعورتوں کے درمیان چلنے سے بھی منع فرمایا معلوم ہو اکہ پردہ شریعت میں انتہائی اہمیت کاحامل ہے ۔(۱۰)
پردہ کاحکم:
پردے سے متعلق قرآن وحدیث میں تفصیل سے احکام بیان فرمائے گئے ہیں چناچہ پردہ سے متعلق سب سے پہلی آیت ۵ ھ میں نازل ہوئی جس میں غیرمحرم عورت کی طرف بری نیت سے دیکھنا تحریماًاوربغیرکسی نیت کے دیکھنا کراھةًداخل ہے ،اللہ تعالی کارشاد ہے :
”قل للمومنین یغصوامن ابصارھم“(النور۳۰)
ترجمہ:آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں․(بیان القرآن)
اوراحادیث میں بھی اس موضوع سے متعلق تفصیلی احکام موجودہیں کہ اگر بلاارادہ اچانک کسی غیر محرم پر نظر پڑجائے تو اپنی نظر کو پھیرنے کا حکم دیا گیا اوریہ بھی بتایاگیاکہ پہلی نظرجوبلاارادہ اچانک پڑجائے وہ توغیر اختیاری ہونے کے سبب معاف ہے ورنہ بالقصدپہلی نظر بھی معاف نہیں۔
پردہ کے احکام ذکر فرماتے ہوئے مولاناادریس کاندھلوی صاحب رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ عورت کا تمام بدن ستر ہے اپنے گھر میں بھی اسکومستوراورپوشیدہ رکھنا فرض اورلازم ہے مگر چہرہ اوردونوں ہاتھ کہ ہروقت ان کوچھپائے رکھنا بہت دشوارہے اس لیے یہ اعضاء ستر سے خارج ہیں،اپنے گھر میں ان اعضاء کاکھلا رکھنا جائز ہے اورفرمایا کہ یہ مطلب ہرگزنہیں کہ عورت کو اپنے چہرہ کے حسن وجمال کونامحرم مردوں کے سامنے کھلا رکھنے کی اجازت ہے کہ وہ عورتوں کے حسن وجمال کانظارہ کیاکریں۔(۱۱)
وقرن فی بیوتکن کے تحت فرمایا کہ عورت کو اپنی یہ زینت ظاہرہ (چہرہ اوردونوں ہاتھ ) صرف محارم کے سامنے کھلارکھنے کی اجازت ہے، نامحرموں کے سامنے کھولنے کی اجازت نہیں، عورتوں کواس بات کی ہرگز ہرگزاجازت نہیں کہ وہ سرِبازار چہرہ کھول کر اپنا حسن وجمال دکھلاتی پھریں․حسن وجمال کاتمام دارومدار چہرہ پرہے اوراصل فریفتگی چہرے پرہی ختم ہے اس لیے شریعت مطہرہ نے زنا کادروازہ بندکرنے کے لیے نامحرم کے سامنے چہرہ کھولنا حرام قراردیا۔(۱۲)
اسی طرح احکام القران کے حوالہ سے فتاوی رحیمیہ میں نقل کیا گیا ہے کہ حدیث میں ہے کہ جوعورت عطر اورخوشبولگاکر نکلتی ہے وہ زانیہ ہے ۔
پردہ کے درجات:
۱- شرعی حجاب یعنی عورتیں اپنے گھروں میں ہی رہیں اس کی دلیل یہ ہے:
”وقرن فی بیوتکن“(احزاب:۳۳)
ترجمہ: اورتم اپنے گھروں میں رہو۔
۲- ضرورت کے تحت جب عورت کوگھر سے باہر جانا پڑے تواس وقت کسی برقع یالمبی چادر کو سر سے پیرتک اوڑھ کر نکلے جس کاحکم”یدنین علیھن من جلابیبھن“(احزاب:۵۹)
ترجمہ: (کہہ دیجیے کہ) سر سے نیچے کرلیاکریں اپنی چادریں۔ (بیان القرآن)
میں دیاگیا ہے، مطلب یہ کہ سرسے پاؤں تک عورت اس میں لپٹی ہواورچہرہ اورناک بھی اس میں مستور ہو،صرف ایک آنکھ راستے دیکھنے کے لیے کھلی ہو۔
۳- پوراجسم تومستور ہومگر چہرہ ہتھیلیاں کھلی ہوں ،أئمہ اربعہ میں سے امام شافعی ،امام مالک ،اما م احمد رحمہم اللہ نے توچہرہ اور ہتھیلیاں کھولنے کی مطلقاًاجازت نہیں دی خواہ فتنہ کاخوف ہویانہ ہو البتہ امام اعظم رحمہ للہ نے فرمایا کہ اگرفتنہ کاخوف ہوتوکھولنامنع ہے لیکن اس زمانہ میں خوف فتنہ نہ ہونے کااحتمال شاذونادرہے اور نادر معدوم کے حکم میں ہوتاہے اس لیے متأخرین فقہاء احناف نے بھی وہی فتوی دے دیا جوأئمہ ثلاثہ نے دیاتھا کہ جوان عورتوں کے لیے چہرے یاہتھیلیوں کاکھولنا ناجائز اورپردہ کرنا ضروری ہے ۔(۱۳)
پردہ فطری ضرورت :
فطرت کاتقاضایہ ہے کہ جوچیز قیمتی ہوتی ہے اس کوخفیہ اورپوشیدہ جگہ رکھاجاتاہے کہ جس طرح پیسہ قیمتی چیز ہے توانسان اس کوچھپاکر رکھتا ہے اسی طرح عورت بھی قیمتی ہونے کے باعث اسی بات کی حقدار ہے کہ اس کو پردے میں رکھاجائے چناچہ مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمة اللہ علیہ نے اپنے ملفوظات میں پردہ کی فطری ضرورت کو اسی ندازمیں سمجھایا کہ ریل میں انسان اپنے پیسوں کوظاہر نہیں کرتا بلکہ اندر کی بھی اندروالی جیب میں رکھتا ہے اسی طرح عورت کوبھی پردہ میں رکھنا چائیے ،اورغیرت کاتقاضا بھی یہی ہے کہ عورت پردہ میں رہے۔(۱۴)
ایمان کے بعد جوسب سے پہلافرض ہے وہ ستر عورت ہے ،تمام انبیاء علیہم السلام کی شریعتوں میں فرض رہا ہے بلکہ شرائع کے وجود سے پہلے جب جنت میں شجر ممنوعہ کھالینے کے سبب حضرت آدم علیہ السلام کاجنتی لباس اترگیا تووہاں بھی انہوں نے سترکھلارکھنے کو جائز نہیں سمجھا اس لیے آدم وحواء علیھماالسلام دونوں نے جنت کے پتے اپنے ستر پر باندھ لیے جس کو قرآن نے یوں تعبیر فرمایا:
”طفقا یخصفان علیھما من و رق الجنة“(اعراف:۲۲)
ترجمہ:اوردونوں اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑجوڑ رکھتے گئے․(بیان القرآن)
حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹیوں کے واقعہ سے بھی یہ ہی معلوم ہوتاہے کہ اتنی بات تو صلحاء وشرفاء میں ہمیشہ رہی ہے کہ اجنبی مردوں کے ساتھ عورتوں کااختلاط نہ ہوکہ جب وہ دولڑکیاں اپنی بکریوں کوپانی پلانے کے لیے گئیں توہجوم کی وجہ سے ایک طرف الگ کھڑی ہوگئیں اورپوچھنے پر وجہ یہ ہی بتائی کہ مردوں کاہجوم ہے ،ہم اپنے جانوروں کوپانی اسی وقت پلائیں گے جب یہ لوگ فارغ ہوکر چلے جائیں گے ۔
بے پردہ رہنے کے نقصانات :
شریعت مطہرہ نے خواتین کو باپردہ رہنے کاحکم دیا اورباپردہ زندگی گزار نے سے ہی معاشرہ میں امن وسکون باقی رہتا ہے اوراچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اوربے پردگی سے جتنے مفاسد اوربرائیاں معاشرہ میں جنم لیتی ہیں ان کو شمار میں لانا مشکل ہے ،عورتوں کابے پردہ رہنا ہی مردوں کی بدنظری کاباعث بنتاہے جس سے گناہوں کاسلسلہ شروع ہوجاتا ہے چنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام نے بھی بدنظری کومہلک بیماری اورفتنہ بتایا:
”ایاکم والنظرة فانھا تزرع فی القلب شھوة وکفی بھافتنة“
ترجمہ:یعنی (اجنبی عورتوں کو)تاک جھانک کرنے سے اپنے کوبچاؤ اس سے دلوں میں شہوت کابیچ پیدہوتاہے اورفتنہ پیداہونے کے لیے یہ ہی کافی ہے۔
اسی طرح حضرت داود علیہ السلام نے بھی اپنے بیٹے کونصیحت فرماتے ہوئے عورتوں سے دور رہنے کی تلقین فرمائی:
”قال لابنہ یابنی امش خلف الأسد والاسود ولاتمش خلف المرأة“(۱۵)
ترجمہ:فرمایا:اے بیٹا!شیراورسانپ کے پیچھے جانامگر(اجنبی)عورت کے پیچھے نہ جانا۔
یحییٰ علیہ السلام نے بھی بدنظری اورحرص ولالچ کوزنا کاباعث بتایا:
”قیل لحییٰ: مابدء الزنا؟ قال: النظروالتمنی“․(۱۶)
ترجمہ:حضرت یحییٰ علیہ السلام سے کسی نے پوچھا کہ زنا کاآغاز کہاں سے ہوتا ہے ؟آپ نے فرمایا: نامحرم کودیکھنے اورحرص کرنے سے۔
بعض صحابہ سے روایت ہے کہ آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں اوران کا زنا غیر محرم کودیکھنا ہے اورزنا میں چھ خرابیاں ہیں،تین کا تعلق دنیا سے ہے اورتین کاتعلق آخرت سے ہے ۔
دنیامیں تویہ ہیں :
۱- رزق میں کمی وبے برکتی۔
۲- نیکی کی توفیق سے محرومی۔
۳- لوگوں کے دلوں میں اس سے نفرت ۔
اورآخرت کی تین یہ ہیں:
۱- اللہ کاغضب۔ ۲- عذاب کی سختی ۔ ۳- دوزخ میں داخلہ۔(۱۷)
اس دورمیں نکاح کرنا مشکل اورگناہ میں پڑنا آسان ہوگیا ہے جب کہ صحابہ وسلف کے دور میں عفیف رہنا آسان تھا کیونکہ ان کانکاح کرناآسان تھا ،اس وقت ہمیں بے پردگی نے اس قدر جکڑلیا ہے کہ ہر وقت بازاروں میں بدنظری کاگناہ جاری ہے اس لیے ضرورت ہے کہ قرآن وسنت کی تعلیمات کوعام کیا جائے اورعفت کے تحفظ کے لیے قرآن وسنت کی ہدایات کومشعل راہ بنایاجائے اورہمہ وقت اللہ پاک سے پاکدامنی کی دعا کی جائے۔
”اللّٰھم انی اسئلک الھدی والتقی والعفاف والغنیٰ“(۱۸) آمین
$$$
حوالہ جات
(۱) بخاری ، کتاب المغازی، (۵/۹۰)باب قتل کعب الاشرف۔
(۲) اسلام کانظام عفت وعصمت ، ص۱۰۲
(۳) قاموس الفقہ ،فی النساء
(۴) موٴطاامام مالک ،کتاب الجہاد،باب ماجاء فی الغلول ص۶۵۴
(۵) سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن ،باب العقوبات (۲/۱۳۳)
(۶) معارف القرآن ،مولاناادریس کاندھلوی صاحب رحمةاللہ علیہ (۵/۵۳۷)
(۷) احیاء العلوم (۲/۳۶)للاِمام غزالی رحمہ اللہ
(۸) بخاری جلد: ۲، ص۹ ۲۱
(۹) پردہ اورحقوق زوجین ،ص۵۳ ،مولاناکمال الدین
(۱۰) ابوداؤد،جلد: ۲ ،ص۳۷۵
(۱۱) معارف القرآن مولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ، ص۱۱۷،
(۱۲) معارف القرآن مولانا ادریس کاندھلوی رحمة اللہ علیہ،ص۴۸۹
(۱۳) معارف القرآن ،مفتی شفیع صاحب رحمةاللہ علیہ،جلد:۷،ص۲۱۳
(۱۴) ملفوظات حکیم الامت ، جلد: ۱ ، ص۱۱۵
(۱۵) احیاء العلوم ، جلد: ۳ ص۹۸
(۱۶) فتاویٰ رحیمیہ ، جلد: ۹ ، ص۳۶
(۱۷) تنبیہ الغافلین ، ص۳۷۶ ،حقانیہ
(۱۸) صحیح مسلم باب فی الادعیة ، ج: ۴،ص۲۰۸۷
—————————————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ7-8، جلد:100 ، شوال-ذيقعده 1437 ہجری مطابق جولائی-اگست 2016ء