از:مفتی محمد مجیب الرحمن دیودرگی
نام انسان کے تعارف کا ذریعہ ہے ، اسی کے ذریعہ وہ مخا طب کیا جاتاہے ،اسی سے وہ معاشرہ میں متعارف ہوتا ہے ،نام کے ساتھ ایک جز ء لقب بھی مستعمل ہے ،بعض دفعہ القاب کسی خاص پیشہ یا وطن یا کسی اور خصوصیت کی جانب مشیر ہوتے ہیں ،آ ج کل معاشرہ میں مذہبی القاب کے استعمال میں بڑی بے اعتدالیاں دیکھی جارہی ہیں، نام کے آگے القاب جڑدئیے جاتے ہیں چاہے ان القاب کی صلاحیت آدمی میں ہو یا نہ ہو۔ ،بعض دفعہ القاب سے محض ریاکاری کا جذبہ بھی ظاہر ہونے لگتا ہے، کبھی کسی کے لیے شیخ الاسلام ،اور کسی کے لیے شیخ الفقہ ،کسی کے لیے شیخ الحدیث ،کسی کے لیے مفتی اعظم ،کسی لیے خطیب ِبے بدل ، خطیب ِزماں زبان زد خاص وعام ہیں، اس کے تئیں شرعی حدود کیا ہیں؟
تزکیہ کی ممانعت
سورہٴ نجم آیت نمبر۳۲ میں اللہ تعالیٰ نے اپناتزکیہ (خودکو پاک قراردینے اور اپنی خوبیاں بیان)کرنے کی ممانعت فرمائی ہے ،اپنے آپ کو عیوب سے بالکل منز ہ او رروحانی ترقی یافتہ مت قرار دو؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ سب کو جانتے ہیں کہ کون کس درجہ پرہے۔ ایک مقام پر تزکیہ کو یہودیوں کا طرز ِعمل قراردیا گیا ہے کہ وہ اپنے آ پ کو اللہ کامحبوب وپسندیدہ قراردیتے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک صحابی کے سامنے ایک لڑکی کا نام برّہ ذکرکیا گیا تو انہوں نے تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنے آپ کو پاکیزہ مت قراردو ؛بلکہ لڑکی کا نام زینب رکھو ،اسی طرح اپنے آپ کو علمی کمالات سے آراستہ قراردینا خود ہی ”علامة الدھر “،”فھامة العصر “کے القاب سے خوش ہونا ناپسندیدہ عمل ہے، اگرچہ خودسے اس کااظہا ر نہیں ہوتا لیکن جب اشتہار چھپ جاتا ہے ،او راشتہار میں القاب سے نواز اجاتا ہے ،اسے دیکھ کر بھی نکیر نہیں کی جاتی،نیز بعض افراد تو اپنے متوسلین کو اس طرح کے القاب استعمال کرنے کی ترغیب بھی دیتے ہیں ،اورتو اور بعض دفعہ القاب کے بغیر پکارے جانے پر بے التفاتی کا مظاہرہ ہوتا ہے او رداعی سے خفگی وناراضگی کا اظہارکیا جاتاہے ،علامہ ابوعبداللہ قرطبی نے اسماء اللہ الحسنیٰ کی شرح میں لکھا ہے کہ قرآن وحدیث سے اپنا تزکیہ کرنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے ، ہمارے علماء نے فرمایا کہ مصر کے علاقہ میں اوردیگر بلاد ِعرب وعجم میں جورواج ہوگیا ہے کہ اپنے لیے ایسی صفات استعمال کی جاتی ہے جو تزکیہ پر دلالت کرتی ہیں وہ بھی اسی ممانعت میں داخل ہیں ۔(آپ فتویٰ کیسے دیں ؟:۵۰)
القاب ؛ تعریف ونقصان
حضرت ابو ہریرہسے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ ہمیں آپ ا نے تعریف کنندہ کے منہ پر مٹی ڈالنے کاحکم دیا ہے۔ (سنن الترمذی:۲۳۱۷)اسی طرح ابو معمر ناقل ہیں کہ کوئی شخص ایک دفعہ اٹھ کر کسی امیر کی تعریف کرنے لگا،حضرت مقداد اس کے چہرے پر مٹی ڈالنے لگے ،نیز یہ فرمایا کہ آپ ا نے ہمیں اسی طرح کرنے کا حکم دیا ہے کہ تعریف کرنے والے کے چہرے پر مٹی ڈالدیا کریں۔(سنن الترمذی ۸/۴۰۹)ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت عمر کے روبرو ان کی تعریف کی تو حضرت عمر نے فرمایا :کیا تو مجھے ہلاکت میں ڈال دے گا؟عموما جلسوں میں مقرربھی اسٹیج پر براجمان ،اور ادھر اناوٴنسر مقررکاتعارف کرواتے ہوئے زمین وآسمان کے قلابے ملاتے نظر آتے ہیں ،عموما ناظم ِجلسہ کامشغلہ ہی تعریفوں کے پل باندھنا ہوتا ہے ،امام ِغزالی (متوفی ۵۰۵)نے کسی کی تعریف میں چھ نقصانات کو شمار کیا ہے ، چار نقصانات تعریف کرنے والے میں اوردوممدوح میں ۔
(۱) اگرتعریف میں مبالغہ آمیزی کیا ہے تو یہ مبالغہ کذب بیانی پرختم ہوگا ،اسی لیے خالدبن معدان نے کہا کہ جس نے کسی اما م یا کسی اور کی ایسی تعریف کی جو ا س میں موجود نہیں تو ایسا شخص روزِمحشر سب کے روبرو اپنی زبان کھینچتا ہوا حاضر ہوگا ۔
(۲)ریاکاری :اس تعریف کے ذریعہ وہ ممدوح سے محبت کا اظہار کررہا ہے ،اورکبھی دل میں اس کی محبت نہیں ہوتی؛ بلکہ یہ تمام دکھلاوے کے لیے ہوتا ہے ،ایسی صورت میں وہ ریاکار شمار ہوگا ۔
(۳)ایسی چیزیں بیان کرے جو ممدوح میں نہیں ،نیز اس کی اطلاع کی بھی کوئی سبیل نہیں، آپ ا کی موجودگی میں ایک شخص کی تعریف کی گئی آپ ا نے فرمایا :اس نے تو اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی ،اگر وہ اس کو سن لے تو کامیا ب نہ ہوگا،پھر آپ نے فرمایا :اگر کسی کی تعریف کرنی ہی ہے تو یہ کہے کہ میں فلاں کو ایسا سمجھتا ہوں ایسا گمان کرتا ہوں ۔ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت عمر کے روبرو کسی کی تعریف کی ، حضرت عمر نے اس سے سوال کیا کہ تم نے اس کے ساتھ سفرکیا ہے ؟انہوں نے نفی میں جواب دیا ،پھر حضرت عمر نے سوال کیاکہ کیا تم نے اس کے ساتھ خریدوفروخت کامعاملہ کیا ہے ؟پھر ا س نے نفی میں جوا ب دیا ،پھر سوال کیا کہ کیا تم ا س کے پڑوسی ہو؟پھر انہوں نے نفی میں جواب دیا ،حضرت عمر نے فرمایا :اس ذات ِباری کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں تم اس شخص کو نہیں پہنچانتے ۔
(۴)کبھی ممدوح اس تعریف سے خوش ہوجاتا جب کہ وہ ظالم یا فاسق ہوتا ہے اوریہ درست نہیں؛ اس لیے کہ آپ نے فرمایا :جب فاسق کی تعریف کی جائے تو اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں، حضرت حسن نے فرمایا : جس نے ظالم کے لیے طویل عمر کی دعاء کی ا س نے اس بات کو پسند کیاکہ زمین میں اللہ کی نافرمانی ہوتی رہے ، ظالم وفاسق تو قابل ِمذمت ہے تاکہ حسرت وافسوس کرے، تعریف نہ کی جائے کہ وہ خوش ہو۔
ممدوح کے لیے نقصاندہ چیزیں دوہیں۔
(۵)اس تعریف سے ممدوح میں عجب وکبر پیدا ہوگا اوریہ دونوں مہلکات میں سے ہیں ۔
(۶)تعریف پر ممدوح خوش ہوجائے گویا اس تعریف سے خود بھی راضی ہے ،اس سے اپنے آپ کوکامل سمجھے گا ،جو خو دکو کامل سمجھے وہ عمل میں کوتا ہ ہوگا ،چونکہ جب تعریف میں زبانیں چلتی ہیں تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ واقعتا قابل تعریف ہے، اس لیے آپ ا نے فرمایا :تونے اپنے ساتھی کی گردن پر تیز استراچلایا۔ (احیاء علوم الدین ۲/۳۵۲) امام غزالی نے جو نقصانات بیان کئے ہیں اس پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ تعریف میں مبالغہ آمیزی سے واقعتاً اس قسم کے نقصانات رونما ہورہے ہیں، اگر کسی مقرر کو کسی موقعہ پر بڑے القاب سے نوازا گیا تو وہ ان کے دھوکے میں مخالفین پر سب وشتم کی بوچھار کردیتے ہیں، اورپھولے نہ سما کر اوروں کو بھی ان القاب کے استعمال کی ترغیب دیتے ہیں، حالانکہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ وہ چند رٹے رٹائے جملوں کے سوا شریعت سے بے بہرہ ہیں، اور دین کی بنیادی معلومات سے بھی نابلد ہیں۔
القاب اوراکابر
درحقیقت اکابر کی خدمات کاتنوع او راس کی وسعت وہمہ گیری کابنیادی سبب ان کاخلوص وللہیت کا خوگر ہونا ا ورریاکاری سے دوری تھی ،ا ن کے نزدیک کام اہم ہوتانام کی ضرورت نہ ہوتی، علامہ نووی مشہور شافعی عالم دین ہے ا ن کی مشہورکتا ب شرح مجموع مہذب کئی جلدوں میں ہے، مسلم شریف کی بھی انہوں نے بہترین شرح لکھی ہے ،اس کے علاوہ بھی کئی کتابوں کے مصنف ہیں ،ابن حجر عسقلانی جیسی نابغہ ٴروزگار شخصیت نے بھی اپنی کتابوں میں جابجاعلامہ نووی کی کتابوں سے استفادہ کیا ہے ،اس کے باوجود ان کے روبرو ایک شخص نے انہیں محی الدین کے لقب سے موسوم کیاتو علامہ نووی بگڑگئے او ریہ کہا کہ میں نے کسی کو اپنے لیے محی الدین نام رکھنے کی اجازت نہیں دی ۔(المدخل لابن امیر الحاج بحوالہ الشریعہ )یہ اس لقب کے حقدار بھی تھے ،ملت نے انہیں انتقال کے بعد بھی اسی لقب سے موسوم کیا؛ لیکن انہوں نے اپنی زندگی میں اس پر خوش ہونے کے بجائے بڑے سخت لہجے میں اس کی تردید کی ۔ا سی طرح عراق کے فقہا ء میں عام طور پر سادگی تھی، وہ کاروبار ، محلہ ،قبیلہ ،یاگاوٴں کی طرف نسبت کرتے تھے، جیسے جصاص (گچ والا) قدوری (ہانڈی والا ) طحاوی (طحا گاوٴں کاباشندہ )کرخی (مقام کرخ کا رہنے والا )البتہ ماوراء النہر کے علماء میں عام طورپر القاب میں مبالغہ کیاجاتا تھا او ردوسروں پر ترفع ظاہر کیاجاتا ،جیسے شمس الاسلام، فخرالاسلام ،صدراالاسلام ،صدر جہاں ، صدر الشریعہ وغیرہ ،اوریہ صورت زمانہ مابعد میں پیدا ہوگئی تھی ،پہلے زمانے کے لوگ اس قسم کی باتوں سے پاک تھے ۔
محی الدین نحاس کی تنبیہ الغافلین میں جہاں منکرات کا ذکر ہے لکھا گیا ہے کہ منکرا ت میں سے وہ بھی ہے جو آج وبا کی طرح پھیل گیا ہے ،یعنی وہ جھوٹ جو زبانوں پر رائج ہوگیا ،یہ خود ساختہ القاب ہیں ،جیسے محی الدین ،نورالدین ، عضدالدین وغیرہ ،یہ وہ جھوٹ ہے جو پکارتے وقت تعریف کرتے وقت واقعہ بیان کرتے وقت بار بار زبانوں پر آتا ہے ،یہ سب دین میں امر منکر اور بدعت ہیں۔ مذکورہ بالااقتباس نقل کرنے کے بعد مولانا لکھنوینے لکھا ہے کہ یہ بات یعنی مذکورہ بالا القاب کا منکر وبدعت ہونا اس صورت میں ہے جب کہ صاحب ِلقب اس کا اہل نہ ہو، یااہل ہو مگر اس نے اپنالقب بطور ِتزکیہ کے رکھا ہو ۔(فوائد البھیہ : ۱۰۰بحوالہ آپ فتویٰ کیسے دیں: ۵۰) نیز مفتی صاحب نے وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہمارے عرف میں یہ القاب محی الدین، ناصرالدین ،وغیرہ بطور ِنا م کے استعمال ہوتے ہیں اس لیے ممنوع نہیں ہیں، ہمارے محاورات میں القاب ِعالیہ کی مثالیں مفتی ِاعظم ،محقق ِبے بدل ،خطیب ِعصر ،علامہٴ زمان وغیر ہ ہیں۔ (ایضا) ایک دفعہ ایک جلسہ میں حضرت شیخ الہند کو بڑے القابا ت سے نوزا گیا ،ان کی بڑی تعریفیں کی گئی ، جب آپ نے تقریر شروع کی تو بذات ِخو داپنی اتنی مذمت کی کہ مجمع سن کر پانی پانی ہوگیا ،ایک دفعہ حضرت مولانا حسین احمد مدنی نے اناوٴنسر کی مبالغہ آمیز ی پرانتہائی سخت رویہ اپنایا تھا ،بڑے بڑے اکابر تو صرف اپنے لیے مولوی کا لفظ استعمال کیاکرتے تھے ، دیگر کئی اکابر کے سلسلہ میں معروف ہے کہ ادھر اناوٴنسر نے تعریف کرنی شروع کی تو مقرر نے مائیک چھین کر تقریر شروع کردی، آج شیخ الاسلام ،شیخ الفقہ ،شیخ الحدیث کے القا ب استعمال کرتے ہوئے زبانیں نہیں تھکتیں۔
اسی لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام میں بے محل القاب کے نقصانات بیان کیے جائیں کہ عوام خو د کذب بیانی وغیرہ کے خو ف سے اس سے پرہیز کرنے لگیں،مدارس ِدینیہ میں ابتدا ء ہی ایسی تربیت کی جائے کہ طلبہ اپنے لیے القاب کے بجائے نام ہی زیادہ پسند کرنے لگیں۔ اللہ تعالیٰ القاب کے سلسلہ میں صحیح طرز ِعمل اپنا نے کی توفیق نصیب فرمائے ۔
———————————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ7-8، جلد:100 ، شوال-ذيقعده 1437 ہجری مطابق جولائی-اگست 2016ء