از: حضرت مولانا عبدالرزاق اسکندرمدظلہ
مہتمم جامعة العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی
معاشرہ کا سماجی ڈھانچہ پانچ چیزوں پر اُستوار ہوتا ہے۔ اگر ان میں سے کسی ایک میں خلل آجائے تو اس سے معاشرہ کی بنیادیں متزلزل ہوجاتی ہیں، اس کا امن و سکون غارت ہوجاتا ہے اور معاشرے کا ہر فرد کرب اور بے چینی کا شکار ہوجاتا ہے۔ وہ پانچ چیزیں یہ ہیں: عقیدے کا تحفظ، نسب کا تحفظ، عزت و آبرو کا تحفظ، جان کا تحفظ اور املاک کا تحفظ۔
چناں چہ ہر عقل مند انسان اپنے دین، اپنے نسب، اپنی جان، اپنی عقل اور اپنے املاک کو عزیز رکھتا ہے اور اُن کے تحفظ کا خواہاں ہے، وہ چاہتا ہے کہ اس کا دین اور عقیدہ محفوظ رہے، اس کی عزت و آبرو اور جان و مال پر کوئی آنچ نہ آئے، اس کا نسب ہر غلط آمیزش سے پاکیزہ ہو، اس کی عقل ہر قسم کے فتور سے محفوظ رہے اور وہ ہر اعتبار سے امن و سکون اور راحت کی زندگی بسر کرے اور اللہ کی ذات کے سوا اسے کسی کا خوف نہ ہو، وہ چاہتا ہے کہ جس معاشرے میں وہ زندگی بسر کررہا ہے وہ امن و سلامتی کا گہوارہ ہو۔ اس میں خیر اور عدل و انصاف کے چرچے ہوں۔ اس میں دینی اور اخلاقی اقدار کی قدر و قیمت کو ٹھیک طور سے محسوس کیا جاتا ہو اور اس سے شر و فساد کے آثار کا خاتمہ ہوجائے، وہ اپنے معاشرے کو ایک پُرامن، باوقار اور ترقی یافتہ مثالی معاشرہ دیکھنا چاہتا ہے۔ جو قوتِ حاکمہ معاشرے کو کنٹرول کررہی ہو، یہ فرض اُس پر عائد ہوتا ہے کہ وہ معاشرے کے ہر فرد کو ان پانچ بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دے اور ان سماج دُشمن عناصر کی گو شمالی کرے جو معاشرے کی بنیادوں کو منہدم کرکے پورے معاشرے کو تہ و بالا کردینا چاہتے ہیں۔ اسلامی حدود و قصاص اور شرعی تعزیرات کی مشروعیت کا ایک اہم مقصد یہی ہے۔
اِسلام نے اِنسان کو ساری مخلوق سے بلند مقام بخشا ہے اور اسے دوسری مخلوق پر عزت و فوقیت عطا کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
”وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ․“(۱)
ترجمہ:”اور ہم نے عزت دی آدم کی اولاد کو۔“(۲)
اور اس کے عقیدہ، نسب، عقل، جان اور مال کے تحفظ کی ضمانت دی ہے۔ دین اور عقیدہ کی حفاظت کے لیے جہاد کو شروع کیا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
”وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا ط اِنَّ اللہَ لَایُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ․“(۳)
ترجمہ:”اور لڑو اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جو لڑتے ہیں تم سے اور کسی پر زیادتی مت کرو بے شک اللہ ناپسند کرتا ہے زیادتی کرنے والوں کو۔“
نسب اور عزت کی حفاظت کے لیے نکاح کو مشروع کیا اور زنا اور تہمت لگانے کو حرام قرار دیا اور ان جرائم کے ارتکاب کرنے والے کے لیے حدود جاری فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:
”اَلزَّانِیَةُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَّلَا تَاْخُذْکُمْ بِھِمَا رَاْفَةٌ فِیْ دِیْنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ․ وَلْیَشْھَدْ عَذَابَھُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ․“(۴)
ترجمہ:”بدکاری کرنے والی عورت اور مرد۔ مارو ہر ایک کو دونوں میں سے سو سو دُرّے اور نہ آوے تم کو اُن پر ترس اللہ کے حکم چلانے میں اگر تم یقین رکھتے ہو۔ اللہ پر اور پچھلے دن پر۔ اور دیکھیں ان کی سزا کچھ لوگ مسلمان۔“
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
”وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُھَدَآءَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَةً وَّلَا تَقْبَلُوْا لَھُمْ شَھَادَةً اَبَدًا․ وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ․“(۵)
ترجمہ:”اور جو لوگ عیب لگاتے ہیں پاک دامنوں کو پھر نہ لائے، چار شہادتوں کو، تو مارو ا ن کو اَسی (۸۰) دُرّے اور نہ مانو ان کی کوئی گواہی کبھی اور وہی لوگ ہیں نافرمان۔“
اسلام عقل کی بھی حفاظت کرتا ہے؛ اس لیے اس نے شراب اور دیگر منشیات کو حرام قرار دیا اور اس کے پینے پر حد مقرر کی ہے، وہ ہر فرد کی جان کی بھی حفاظت کرتا ہے؛ اس لیے قتل کو جرم قرار دیا اور اس کے لیے قصاص کو مشروع کیا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
”یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی․“(۶)
ترجمہ:”اے ایمان والو! فرض ہوا تم پر قصاص مقتولوں میں۔“
اور فرمایا:
”وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوةٌ یّٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ․“(۷)
ترجمہ:اورتمہارے واسطے قصاص میں زندگی ہے اے عقل مندو!۔
وہ مال کی بھی حفاظت کرتا ہے؛ اس لیے اس نے حلال کمانے پر زور دیا ہے اور اس نے تجارت اور دیگر حلال وسائل کو مشروع کیا ہے اور ناحق دوسرے کا مال کھانے کو حرام ٹھہرایا اور چوری کی سزا مقرر کی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْٓا اَیْدِیَھُمَا جَزَآءً م بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِّنَ اللہِ ط وَاللہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ(۸)
ترجمہ:اور چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت کاٹ ڈالو ان کے ہاتھ، سزا میں ان کی کمائی کی، تنبیہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ غالب ہے حکمت والا۔
اسلام کے اقدامات سے ثابت ہوا کہ وہ ان کلیاتِ خمسہ (دِین، نسب، عقل، جان، مال) کے تحفظ کو کتنی اہمیت دیتا ہے اور ان کی حفاطت کے لیے اسلامی معاشرہ کے ہر فرد کی کیسی صحیح اور حقیقی تربیت کرتاہے۔ وہ اُن کے ضمیر کو زندہ کرتا ہے، ان کی معنوی روح کو بلند کرتا ہے۔ ان میں روحانی و اخلاقی اقدار کی عظمت پیدا کرتا ہے۔ ان میں اُلفت و محبت، اِیثار و قربانی اور باہمی اکرام و احترام کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ یہ تربیت اِسلامی تعلیمات اور صالحین کی مجالست سے حاصل ہوتی ہے اور اس تربیت کے بعد اسلامی معاشرے کا ہر فرد اپنے معاشرے کا ایک مفید رکن بن جاتا ہے۔ وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی پسند کرتا ہے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے اور جس چیز کو اپنے لیے نا پسند کرتا ہے وہ دوسرے کے لیے بھی ناپسند کرتا ہے۔ اور جیسے اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاطت کو ضروری سمجھتا ہے اسی طرح دوسرے کی جان، عزت اور مال کی بھی حفاظت کرتا ہے اور اس پر دست درازی کو ایسا ہی بُرا سمجھتا ہے جیسے اپنے اوپر دست درازی کو بُرا سمجھتا ہے۔ اس کے نفس میں ایک ایسی قوت پیدا ہوجاتی ہے جو اسے خیر پر آمادہ کرتی ہے اور شر اور دوسرے پر دست درازی سے روکتی ہے۔ حقیقت میں یہ وہ مثالی معاشرہ ہے جس میں امن و امان ہو اور عدل و انصاف کا دور دورہ ہو۔ ہماری اسلامی تاریخ کا ابتدائی دور ان مثالوں سے بھرا پڑا ہے۔ ہم پر ایسا دور بھی گزرا ہے جب قاضی صاحب مہینوں عدالت لگائے بیٹھے رہتے تھے اور ایک مقدمہ بھی ان کے یہاں پیش نہیں ہوتا تھا، عورت تنہا سفر کرتی تھی اور اسے اللہ کی ذات کے سوا کسی کا خوف نہ ہوتا تھا، کسی کی مجال نہ تھی کہ اس کی طرف آنکھ اُٹھاکر بھی دیکھے۔ یہ راحت و سکون، یہ امن اور چین، یہ عدل و انصاف کس چیز کا نتیجہ تھا؟ اسلامی تعزیرات کا، اسلامی تعلیم و تربیت کا اور اسلامی اقدار کا۔ ہر معاشرے میں کچھ مریض نفوس بھی ہوتے ہیں جن پر تربیت و نصیحت کا کچھ اثر نہیں ہوتا۔ وہ صرف سختی کی زبان جانتے ہیں اور انھیں جرائم سے صرف حدود اور عقوبات ہی روک سکتی ہیں۔ معاشرے میں ایسے افراد کی مثال جسم کے ان مریض اعضاء کی سی ہے جن کے علاج کے لیے ٹیکے لگانے اور آپریشن کرنے کی ضرورت پڑتی ہے جب کہ اس کے ٹھیک ہونے کی اُمید ہو اور بیماری اپنے ابتدائی مرحلہ میں ہو، لیکن اگر کوئی عضو گل سڑ جائے تو اسے کاٹ کر جسم سے الگ کیے بغیر چارہ نہیں رہتا؛ تاکہ اس کا زہر دوسرے اعضاء تک سرایت کرکے پورے جسم کی ہلاکت کا سبب نہ بنے۔ اسلامی حدود اور تعزیرات کا مقصد بس انہی معاشرتی مریضوں کا علاج ہے؛ تاکہ وہ صحت یاب ہوکر معاشرے کے صحت مند افراد بن سکیں اور ایک صاف ستھرا اسلامی معاشرہ قائم رہے۔
کسی فرد کے عقیدہ، اس کی عزت، اس کی جان، اس کی عقل اوراس کے مال پر کسی قسم کی دست درازی اسلام کی نظر میں بہت بڑا جرم ہے جس سے معاشرتی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے؛اس لیے اس پر سخت اقدامات تجویز کیے گئے؛ تاکہ مجرم کو اِرتکابِ جرم سے باز رکھا جائے اور معاشرے سے فساد کا مادہ ختم کردیا جائے۔ اِسلامی معاشرہ میں جب کسی شخص کو اس کا نفس اور شیطان کسی جرم کے اِرتکاب پر آمادہ کرے گا تو وہ اِرتکابِ جرم سے پہلے بار بار پاداشِ عمل کو سوچنے پر مجبور ہوگا اور ہوش میں آکر اس غلط ارادہ کو عملی جامہ پہنانے سے باز رہے گا۔
اَعداءِ اِسلام جنہیں اللہ تعالیٰ نے نورِ اِیمان سے ہی نہیں؛ بلکہ معاشرتی امن کی حقیقی بنیادوں کو سمجھنے سے بھی محروم رکھا ہے۔ وہ ان شرعی حدود پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں اور انھیں نَعُوْذُ بِاللہ”وحشیانہ سزاوٴں“ سے تعبیر کرتے ہیں؛ حالاں کہ بعض دفعہ وہ خود اپنے ملکوں میں معمولی جرائم پر اس سے بھی سخت سزائیں جاری کرتے ہیں۔ حقیقت میں یہ سب باتیں اسلام سے کینہ و عداوت اور بغض و عناد کی پر بنا پر کہی جاتی ہیں۔ ان دانش مندوں سے کوئی پوچھے کہ کیا ان سنگین جرائم کا اِرتکاب ”وحشی پن“ نہیں؟ اور جس معاشرے میں چند اِنسان نما پھیڑیئے گھناوٴنے جرائم کا اِرتکاب کر کے ”وحشی“ بن جائیں اور اَربابِ اِقتدار معاشرے کو ان ”وحشیوں“ سے نجات دلانے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام نہ کریں۔ کیا چند دنوں میں وہ پورا معاشرہ ”وحشی“ نہیں بن جائے گا؟ کوئی عقل مند انسان ان گھناوٴنے جرائم کی سنگینی اور وحشی پن سے اِنکار نہیں کرسکتا جس کا اِرتکاب یہ مجرم کرتا ہے اور جس کا دِفاع یہ اَعداءِ اِسلام کررہے ہیں۔
ذرا سوچیے کیا بلاوجہ کسی بے گناہ کی جان تلف کردینا ”وحشی پن“ نہیں؟ جسے ایک مجرم معمولی اسباب کی بنا پر قتل کرکے اس کی بیوی کو بیوہ اور اس کے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو یتیم بنادیتا ہے اور انھیں اپنے والد کے سایہٴ عاطفت سے محروم کردیتا ہے؟
کیا یہ وحشیانہ حرکت نہیں کہ ایک مجرم پل بھر میں ایک مزدور یا ملازم کی مہینوں اور سالوں کی خون پسینے کی کمائی اُڑَا لے جاتا ہے اور اسے اور اس کے اہل و عیال کو ضروریاتِ زِندگی تک سے محروم کردیتا ہے؟
ایک شہر یا ایک محلہ کے باشندے نہایت امن و امان کی زندگی بسر کررہے ہیں، انہیں اپنی عزت، جان اور مال کا کوئی خطرہ نہیں، یکایک ایک مجرم آکر ان سب کی زندگی مکدر کردیتاہے، اور ان کے امن اور سلامتی کو خوف اور پریشانی سے بدل دیتا ہے کیا یہ وحشی پن نہیں ہے؟ اور پھر جو شخص ایسے مجرم کی پشت پناہی کرتاہے اور اس سے تعاون کرتا ہے یا اس پر رحم کھاتا ہے جسے بے گناہ مخلوق کمزوروں اور یتیموں اور بیواوٴں پر ترس نہیں آتا کیا یہ شخص اس مجرم کی مانند ان وحشی جرائم کا اِرتکاب نہیں کررہا؟
”فَاِنَّھَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ․“(۹)
ترجمہ:”بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں، بلکہ سینوں کے اندر دل اندھے ہیں۔“
نیز یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اَعداءِ اِسلام کے یہ اعتراضات کوئی نئی چیز نہیں جوان کے اذہان کی اختراع ہو بلکہ قدیم زمانے سے اہلِ باطل اس قسم کی باتیں کہتے رہے ہیں اور ہمیشہ اہل حق نے واضح اور مسکت جواب دے کر ان کو خاموش کیا ہے؛ چناں چہ ان ہی اہلِ باطل میں سے ایک نے سرقہ کی سزا قطع ید کے بارے میں اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا:
”ید بخمس مئین عسجد ودیت مابالھا قطعت فی ربع دینار․“
”وہ ہاتھ جس کی دیت پانچ سو دینار ادا کی گئی۔ کیا وجہ ہے کہ اسے ربع دینار کے بدلے کاٹ دیا گیا۔“
اعتراض کا حاصل یہ ہے کہ اگر کسی کا ہاتھ غلطی سے کسی نے کاٹ دیا تو اس کی دیت پانچ سو دینار ادا کی جاتی ہے؛ لیکن عجیب بات ہے کہ یہی ہاتھ اگر چوتھائی دینار چوری کرے تو اس کے بدلے میں کاٹ دیا جاتا ہے۔ ایک عالم نے اس کا جواب یوں دیا:
”عزّالامانة اغلاھا وارخصھا۔ ذلّ الخیانة فافھم حکمة الباری․“
”امانت کے اعزاز نے اسے قیمتی بنادیا تھا اور خیانت کی ذلت نے اسے بے قیمت بنادیا۔ اللہ کی حکمت کو سمجھ لو۔“
جس کا حاصل یہ ہے کہ جب یہ ہاتھ امانت دار تھا کسی کے مال میں تعدی نہیں کرتا تھا تو یہ قیمتی تھا اور جب اس نے دوسرے کے مال پر تعدی کرکے خیانت کی تو بے قیمت اور ذلیل ہوگیا۔
ان اَعداءِ اِسلام کی بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ شرعی حدود پر اعتراض کرتے ہوئے انہیں انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین پر قیاس کرتے ہیں۔ ایسے انسان جو نورِ اِیمان سے محروم ہیں، جو صرف مادی عقل سے سوچتے ہیں اور جنہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کل کے حالات کیسے ہوں گے، وہ اپنے موجودہ ماحول کے حالات کو دیکھ کر ان ہی کی روشنی میں قوانین وضع کرتے ہیں، اس لیے کل جب حالات بدل جاتے ہیں تو مجبوراً انہیں وہ قوانین بدلنے پڑتے ہیں۔ اَعداءِ اِسلام اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ شرعی حدود انسان کی وضع کردہ حدود نہیں؛ بلکہ وہ آسمانی حدود ہیں، جن کو ایک ایسی ذات نے اُتارا ہے جو خالق بشر ہے اور جو انسان کی خصلت و جبلت اور اس کی طبیعت و مزاج سے واقف ہے جو قیامت تک کے آنے والے حالات سے واقف ہے، جو یہ جانتا ہے کہ فلاں جرم کتنا سنگین ہے، اس کی ٹھیک ٹھیک سزا جو عدل کی ترازو میں تول کردی جائے کتنی ہونی چاہیے اور جسے یہ خبر ہے کہ فلاں جُرم کا اِرتکاب معاشرے پر کیا تباہی لاسکتا ہے اور اس کی روک تھام کیسے ہوسکتی ہے، اس نے جب یہ حدود اُتاری ہیں تو انہیں انسان کی اصلاح کے لیے اتارا ہے اور اس نے انسانی معاشرے کو امن اور چین مہیا کرنے کے لیے یہ تریاق نازل کیا ہے۔
حاصل یہ کہ حق تعالیٰ نے حدود و قصاص کے جو قوانین عطا کیے ہیں وہ انسانی ذہن کی اپج نہیں، جو آئے دن انسانی معاشرے پر قانونِ سزا نافذ کرنے کی مشق کرتے رہتے ہیں اور عطائی کی طرح جب ایک نسخہ فٹ نہیں آتا تو دوسرا بدل دیتے ہیں۔ نہیں! بلکہ یہ خدائی قوانین ہیں، جنہیں اس کے علم محیط اور حکمت کاملہ نے جرائم کی ٹھیک ٹھیک تشخیص کرنے کے بعد تجویز فرمایا ہے اور انہی کے نفاذ میں باعزت اور پُرامن زندگی کی ضمانت ہے لیکن جو عقول کہ حق کو سمجھنے سے قاصر ہیں یا جو مادیت اور شہوات میں گرفتار ہوکر فاسد ہوچکی ہیں وہ اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکتیں، لہٰذا انھیں اسلام کے بجائے اپنے آپ کو ملامت کرنا چاہیے اگر چمگادڑ سورج کو نہیں دیکھ سکتا تو سورج کا اس میں کیا قصور ہے۔
آخر میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک شبہ کا اِزالہ کیا جائے جو اَعداءِ اِسلام عامة المسلمین میں پھیلاکر حدود کے بارے میں غلط تاثر پیدا کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ وہ تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ اگر شرعی حدود جاری ہوں تو ہر طرف ہاتھ کٹے نظر آئیں گے۔ جگہ جگہ سنگساری ہورہی ہوگی۔ کوڑوں کے لیے ٹکٹکی بندھی ہوئی ہوگی۔ گویا یہ لوگ پہلے سے فرض کرلیتے ہیں کہ اسلامی معاشرہ کی اکثریت ایسی ہے، (حالاں کہ یہ بات مغربی معاشرہ کے بارے میں کہنا صحیح ہوگی۔) اور اَعداءِ اِسلام نے اپنے معاشروں کو دیکھ کر اِسلامی معاشرہ کو بھی اسی پر قیاس کرلیا ہو مگر ہم کہتے ہیں کہ یہ اسلامی معاشرے کے بارے میں صرف بدگمانی نہیں بلکہ تہمت ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی نے پھل توڑ لیا یا لکڑی کاٹ دی یا کوئی اور معمولی چیز چُرالی تو فوراً ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ اس کے بارے میں اتنا سمجھ لیا جائے کہ اسلام نے جہاں جرائم پر حدود جاری کرنے کا حکم دیا وہاں اس کے ساتھ ساتھ قیود اور شرائط بھی لگائے ہیں۔ جب تک وہ سب شروط نہ پائی جائیں گی، اُس وقت تک شرعی حد جاری نہیں ہوتی۔ اور اگر تمام شروط موجود ہوں ایک شرط کی کمی ہو تب بھی حد ساقط ہوجاتی ہے۔ اگر اس میں کسی قسم کا معقول شبہ پیدا ہوجائے تب بھی حد ساقط ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر چوری کی سزا کو لے لیجیے، اس کے ثبوت کے لیے کچھ شرائط ایسی ہیں جن کا تعلق مسروقہ مال سے ہے اور مسروقہ مال کی بھی ایک قیمت مقرر ہے اس سے کم نہ ہو۔ ان تمام شرائط کے پائے جانے اور شرعی شہادت کے بعد حد جاری ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ شریعت نے اس کی بھی اجازت دی ہے کہ صاحب حق اگر چاہے تو سارق کا معاملہ عدالت تک پہنچنے سے پہلے اسے معاف بھی کرسکتا ہے۔ اس کی تفصیل اسلامی قانون (فقہ) میں موجود ہے۔
لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اگر کسی شرط کی کمی یا شبہ کی بناء پر حد ساقط ہوجائے تو مجرم بالکل چھوٹ جائے گا یا وہ اس کو بہانہ بناکر دوبارہ اس جرم کا اِرتکاب کرنے لگے۔ ایسی صورت میں عدالت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس مجرم کو مناسب سزا دے تاکہ جرائم کا انسداد ہو اور معاشرہ ہر قسم کے فساد سے پاک ہوجائے۔
$$$
حواشی و حوالہ جات
(۱) اسراء :۴۰ (۲) ترجمہ شیخ الہند (۳) البقرة:۱۹۰ (۴) النور: ۲ (۵) النور:۴
(۶) البقرة: ۱۷۸ (۷)البقرة:۱۷۹ (۸) المائدة:۳۸ (۹) الحج:۴۶
———————————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ7-8، جلد:100 ، شوال-ذيقعده 1437 ہجری مطابق جولائی-اگست 2016ء