از: مفتی محمد راشد ڈَسکوی
رفیق شعبہٴ تصنیف وتالیف، واستاذ جامعہ فاروقیہ، کراچی
سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی جماعت کے ہر ہر پھول کی خوش بو اور صفات ایک دوسرے سے جدا جدا ہیں، ہر ہر صحابی اپنی مخصوص صفت کی وجہ سے اپنا ایک مخصوص امتیاز اور پہچان رکھتے تھے، اسی گل دستے کے ایک پھول کا نام ”حکیم بن حزام“بھی ہے، ان صاحب کی ایک پہچان اور خصوصیت ایسی ہے ، جس سے کوئی اور متصف نہیں ہے؛ اور وہ ہے ”ان کا بیت اللہ کے اندر پیدا ہونا“۔
کعبہ میں پیدائش کا قصہ
قصہ کچھ اس طرح ہوا کہ واقعہٴ فیل سے تیرہ سال قبل کا دور تھا، ان کی والدہ حاملہ تھیں، وقتِ ولادت قریب تھا،زیارتِ کعبہ کے لیے تشریف لے گئیں تو حصولِ برکت کی نیت سے اندر داخل ہو گئیں، وہاں دردِ زہ شروع ہوگیا اوراندر ہی ایک چمڑے پرحضرت حکیم پیدا ہوگئے۔
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں کہ جب نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبد المطلب نے اپنی نذر ومَنَّت کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ”عبد اللہ“ کو قربان کرنا چاہا تو اس وقت میں سمجھ بوجھ رکھنے والا بچہ تھا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نبوت کا دعوی کرنے سے پہلے ہی یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست تھے اور دعویٰ نبوت کے بعد بھی انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی سابقہ دوستی اور محبت میں کوئی کمی نہیں آنے دی، بعثت کے دعویٰ کے بعد جب قریش مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پورے خاندان (بنو ہاشم اور بنو مطلب) سے بائیکاٹ کیا اور ان کو شعب ابی طالب میں محصور کر دیا اور ان سے ہر طرح کے لین دین کی مقاطعت کر لی ؛تو اس وقت بھی حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ ملکِ شام کی طرف سے آنے والے تجارتی قافلوں سے خاموشی کے ساتھ سامان خرید کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنی پھوپی حضرت خدیجة الکبری رضی اللہ عنہا کے اکرام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلماور آپ کے پورے قبیلے والوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔
حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو آپ نے ہی خریدا ہوا تھا، آپ سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے خریدا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ دے دیااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں آزاد کردیا۔
آپ کے اسلام لانے کا زمانہ
لیکن انہوں نے اسلام بہت تاخیر سے قبول کیا، حتی کہ فتحِ مکہ کے موقعہ پر اسلام میں داخل ہوئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے لیے نکلے تو یہ اور ابو سفیان سردارانِ مکہ کی طرف سے بطور ِ جاسوس مسلمانوں کے لشکر کی طرف نکلے تھے، اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے سفیان کے لیے امان حاصل کر لی، اسی سبب سے حضرت سفیان مسلمان بھی ہوگئے۔ پھر دوسرے دن صبح کے وقت حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بھی خدمتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہو کر مشرف بہ اسلام ہو ے۔اس وقت جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تالیف ِقلب میں یہ اعلان کروایا کہ جو شخص بھی ”حکیم بن حزام “کے گھر داخل ہو گیا، اسے بھی امان ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوئہ حنین میں شرکت
اس کے بعد انہوں نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہو کر غزوہٴ حنین میں حصہ لیا۔ جب کہ اسلام لانے سے قبل یہ کفار کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف غزوئہ بدر میں بھی شریک ہوئے تھے، اس غزوہ میں یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں قتل ہونے سے بمشکل بچ پائے تھے، مسلمان ہو جانے کے بعد اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جب بھی قسم کھاتے تو اس طرح کہتے: ”اس ذات کی قسم ! جس نے مجھے بدر کے دن قتل ہونے سے بچا لیا تھا“۔
آپ کا استغناء نفس
اسی غزوہٴ حنین کا قصہ ہے کہ جب مال غنیمت تقسیم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں تالیفِ قلب کے لیے ایک سو اونٹ عطا فرمائے، انہوں نے مزید کا مطالبہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور عطا فرما دیے، انہوں نے مزید اور کا بھی مطالبہ کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے حکیم! یہ مال بظاہر شیریں چیز ہے؛ لیکن جس نے اسے دل کی بے نیازی کے ساتھ لیا، اس شخص کو اس مال میں برکت دی جائے گی اور جس نے اسے نفسانی خواہش کے ساتھ لیا تو اس کے لیے اس میں برکت نہیں ہو گی اور وہ شخص اس طرح ہو گا کہ اسے استعمال کرے گا؛ لیکن وہ سیر نہیں ہوگا“۔اس پر انہوں نے قسم کھا لی کہ قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا، میں آپ کے بعد کسی کا بھی احسان قبول نہیں کروں گا؛ چناں چہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کبھی کسی کا احسان قبول نہیں کیا، آپ علیہ الصلاة والسلام کے دور کے بعد خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے دور گذرے ، وہ حضرات فتوحات کے مواقع پر آپ کو کوئی پیش کش کرتے تو آپ انکار فرما دیا کرتے تھے؛ لیکن اس کے باوجود آپ بڑے مال دار تھے، جس دن حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا اور انہوں نے اپنے بیٹے کو اپنے قرضوں کی ادائیگی کی وصیت کی تو ایک لاکھ درہم کا قرضہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کا نکلا۔
آپ کی مالی ثروت اور عزت وجاہ
”دار الندوہ“ (قریش کے لیے یہ گھر قائم مقام عدالت کے تھا، یہاں سردارانِ قریش کی مجالس ومحافل جما کرتی تھیں، اس جگہ کی خصوصیت یہ تھی کہ اس مکان میں کوئی ایسا شخص داخل نہیں ہو سکتا تھا، جس کی عمر چالیس سال سے کم ہو، سوائے حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کے کہ ان کی عمر اس وقت پندرہ سال تھی، وہ اس گھر میں کفار ومشرکین کی مجالس میں شریک ہوا کرتے تھے،) انھیں کی ملکیت تھا، جو آپ علیہ الصلاة والسلام اور خلفائے راشدین کے زمانے میں آپ کے پاس ہی رہا، بعد ازاں! انہوں نے وہ ”دارالندوہ “ایک لاکھ دراہم (اور ایک روایت کے مطابق چالیس ہزار دراہم)کے بدلے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ فروخت کر دیا، اس موقعے پر حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے ان سے کہا کہ آپ نے تو قریش کی عزت (والی جگہ) فروخت کر دی، انہوں نے جواب میں فرمایا: بھتیجے! تقوی کے سوا تمام کے تمام کام ختم ہو گئے اور ہو جائیں گے، صرف تقوی ہی باقی رہے گا، اے بھتیجے! میں نے یہ مکان شراب کے ایک مشکیزے کے بدلے خریدا تھا، اب میں اس کے بدلے جنت میں گھر خریدوں گا، اے بھتیجے! تم گواہ رہو، میں نے اس گھر کے بدل میں ملنے والی رقم کو اللہ کی راہ میں دے دیا۔
آپ کی سخاوت
آپ سخاوت میں بھی کسی سے پیچھے نہیں تھے، حضرت زبیر بن بکار کا بیان ہے کہ ایک سال حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے حج کیا، ان کے ساتھ سو اونٹ اور سو بکریاں اور سو خدمت گزار تھے، جن کی گردنوں میں چاندی کے ہار تھے، جن پر لکھا ہوا تھاکہ یہ حکیم بن حزام کی طرف سے اللہ کی راہ میں آزاد کردہ غلام ہیں، پس آپ نے انھیں آزاد کر دیا اور تمام جانور انھیں ہدیہ دے دیے۔
آپ کا نام ونسب
آپ کا پورا نام و نسب : ”حکیم بن حزام بن خولید بن اسد“ ہے، آپ کے بیٹے کا نام ”خالد“ ہونے کی وجہ سے آپ کی کنیت ”ابو خالد مکی“ تھی۔خاندانِ نبوی کے ساتھ بھی ان کا ایک رشتہ ہے کہ آپ علیہ الصلاة والسلام کی سب سے پہلی زوجہٴ مطہرہ حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا ان کی پھوپی تھیں۔
آپ کی عمراور وفات
آپ نے ایک سو بیس سال کی عمر پائی اور عجیب بات یہ کہ آپ کی زندگی کے ساٹھ سال کفر کی حالت میں گذرے اور ساٹھ سال اسلام کی حالت میں۔آپ کی وفات کس سال میں ہوئی؟ اس بارے میں چار اقوال ملتے ہیں، ۵۰ ہجری، ۵۴ ہجری، ۵۸ ہجری اور ۶۰ ہجری۔رضی اللہ عنہ وارضاہ۔ (البدایة والنھایة، سنة أربع وخمسین، حکیم بن حزام: ۸/۶۸،دارالفکر․ الإصابة في تمییز الصحابة، ذکر من اسمہ حکیم: ۲/۱۱۲، دار الجیل، بیروت)
بیت اللہ میں کس کس شخص کی پیدائش ہوئی؟
جیسا کہ ان صحابی رسول حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کے بارے میں ذکر ہواکہ ان کی پیدائش بیت اللہ کے اندر ہوئی تھی، تو اسی طرح کوئی اور بھی شخص بیت اللہ کے اندر پیدا ہوا یا نہیں؟ اس بارے میں تتبع کتب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ راجح قول کے مطابق بیت اللہ کے اندر ان کے علاوہ کسی اور شخص کی ولادت نہیں ہوئی۔ملاحظہ ہو:
”المستدرک علی الصحیحین“ میں مذکور ایک روایت کے راوی ”حضرت مصعب بن عبد اللہ رحمہ اللہ “ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کے بیت اللہ کے اندر پیدا ہونے کا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ”ولم یُولَد قبلَہ ولا بعدَہ في الکعبة أحدٌ“․ کہ ان سے پہلے اور نہ ہی ان کے بعد کوئی بھی کعبہ میں پیدا نہیں ہوا۔ (المستدرک علی الصحیحین، ذکر مناقب حکیم بن حزام القرشی رضی اللہ عنہ، رقم الحدیث: ۶۰۴۴، ۳/۵۵۰، دارالکتب العلمیہ)
اس کے علاوہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کے بیت اللہ کے اندر پیدا ہونے کا ذکر امام مسلم نے ”صحیح مسلم“(رقم الحدیث: ۱۵۳۲، کتاب البیوع، باب: الصدق في البیع والبیان) میں۔علامہ مناوی نے ”فیض القدیر“ (رقم :۱۲۶۰، ۲/۳۷) میں۔ علامہ ذہبی نے ”سیر اعلام لنبلاء“ (رقم الترجمة:۱۲، حکیم بن حزام: ۳/۴۶)میں۔ علامہ ابن حبان نے ”الثقات“ (رقم الترجمہ: ۲۲۵، ۳/۷۱) میں کیا ہے۔
نیز! کتب الرجال میں جہاں بھی حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کا ترجمہ موجود ہے، وہاں ان کے بارے میں یہ بات موجود ہے کہ وہ بیت اللہ کے اندر پیدا ہوئے۔
سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی بیت اللہ میں ولادت کی تحقیق
بعض حضرات نے خلیفہ رابع، امیر الموٴمنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ذکر کیا ہے کہ ان کی پیدائش بھی بیت اللہ کے اندر ہوئی تھی،ملاحظہ ہو:
”امام حاکم رحمہ اللہ نے المستدرک میں ایک روایت ذکر کی ہے، جس میں راوی حدیث مصعب بن عبد اللہ رحمہ اللہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کے بیت اللہ کے اندر پیدا ہونے کا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ”ولم یولد قبلہ ولا بعدہ في الکعبة أحد“․ کہ نہ ان سے پہلے اور نہ ہی انکے بعد کوئی بھی کعبہ میں پیدا ہوا۔ لیکن اس پر امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”وَھِمَ مصعبٌ في الحرف الأخیر، فقد تواترت الأخبار أن فاطمة بنت أسد ولدت أمیر الموٴمنین علي بن أبي طالب کرم اللہ وجھہ في جوف الکعبة“․کہ اس آخری بات میں ”مصعب“ کو وہم ہو گیا ہے، اس لیے کہ یہ بات تواتر سے ثابت ہے کہ فاطمہ بنت اسد نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بیت اللہ کے اندر جنم دیا ہے۔ (المستدرک علی الصحیحین، ذکر مناقب حکیم بن حزام القرشی رضی اللہ عنہ، رقم الحدیث: ۶۰۴۴، ۳/۵۵۰، دارالکتب العلمیہ)
شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”واز مناقب علي رضی اللہ عنہ کہ در حین ولادت او ظاہر شد یکی آن است کہ در جوف کعبہ معظمہ تولد یافت․ قال الحاکم في ترجمة حکیم بن حزام قول مصعب؛ فیہ: ”ولم یولد قبلہ ولا بعدہ في الکعبة أحد“ مانصہ: ”وھم مصعب في الحرف الأخیر، فقد تواترت الأخبار أن فاطمة بنت أسد ولدت أمیر الموٴمنین علي بن أبي طالب کرم اللہ وجہہ في جوف الکعبة“․(ازالة الخفاء عن خلافة الخلفاء: ۶/۳۵۹)
لیکن یہ بات دعوی بلا دلیل کی قبیل سے ہے؛ اس لیے کہ کتبِ احادیث یا کتبِ رجال میں حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی بھی شخص کے بیت اللہ میں پیدا ہونے کا ذکر موجود نہیں ہے، چہ جائیکہ اس بارے میں روایات یا آثار واخبار تواتر تک پہنچی ہوئی ہوں، حدِ تواتر تک پہنچ جانے والی روایات کو نہ تو امام حاکم نے ذکر کیا اور نہ ہی کسی اور کتاب میں وہ ملتی ہیں۔
رہ گئی قائلین کی بات؛ تو وہ محض انہی قائلین کی بات ہے، جو بلا کسی سند کے ذکر کی گئی ہے۔ نیز قائلین میں سے تقریباً سب نے امام حاکم رحمہ اللہ کے قول کو بنیاد بناتے ہوئے اس بات کا ذکر کیا ہے، جب کہ علامہ سیوطی اور علامہ نووی رحمہما اللہ نے بالتصریح ان حضرات کی تردید فرمائی ہے۔
علامہ سیوطی نے امام حاکم رحمہ اللہ کے قول کو ضعیف قرار دیا ہے۔
قال شیخ الإسلام: ولا یعرف ذٰلک لغیرہ، وما وقع في ”مستدرک الحاکم“ – من أن علیا وُلِدَ فیھا – ضعیفٌ․(تدریب الراوي، النوع الستون: التواریخ والوفیات، فرع الثاني: صحابیان عاشا ستین سنة في الجاھلیة: ۲/۴۸۲، دار العاصمة)
اور علامہ نووی نے بھی امام حاکم رحمہ اللہ کے قول کو ضعیف قرار دیا ہے۔
”قالوا: ولد حکیم (بن حزام) في جوف الکعبة، ولا یعرف أحد ولد فیھا غیرہ، وأما ما روي أن علي ابن أبي طالب رضي اللہ عنہ ولد فیھا؛ فضعیف عند العلماء“․ (تھذیب الأسماء واللغات للنووي، حرف الحاء، حکیم بن حزام: ۱/۱۶۶، دارالکتب العلمیة)
اس کے علاوہ علامہ حسین بن محمد الدِّیار البَکْري (المتوفی: ۹۶۶ھ)نے تاریخ الخمیس میں ذکر کیا کہ کہا جاتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کعبہ میں پیدا ہوئے؛ لیکن یہ بات ثابت نہیں ہے۔ ملاحظہ ہو: ”ویقال: ولادتہ في داخل الکعبة، ولم یثبت“․ (تاریخ الخمیس في أحوال أنفس النفیس، ذکر علي بن أبي طالب: ۲/۲۷۵، دار صادر)
اسی طرح شرح نہج البلاغہ لابن عبد الحمید بن ھبة اللہ (المتوفی: ۶۵۶)میں مذکور ہے: ”واختلف في مولد علي (رضي اللہ عنہ) أین کان؟ فکثیر من الشیعة یزعمون أنہ ولد في الکعبة، والمحدثون لا یعترفون بذٰلک، ویزعمون أن المولود في الکعبة حکیم بن حزام بن خویلد بن أسد بن عبد العزی بن قصي“․ (شرح نھج البلاغة، القول في نسب أمیر الموٴمنین علي بن أبي طالب وذکر لمع بسیرة من فضائلہ: ۱/۱۴، دار الجیل)
اسی طرح السیرة الحلبیة لعلي بن إبراھیم الحلبي (المتوفی: ۱۰۴۴ھ) میں مذکور ہے: ” وکون علي صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم ولد في الکعبة صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم قیل الذي ولد في الکعبة حکیم بن حزام، قال بعضھم : لا مانع من ولادة کلیھما في الکعبة، لٰکن في النور: حکیم بن حزام ولد في جوف الکعبة، ولا یعرف ذٰلک لغیرہ، وأما ما روي أن علیاً ولد فیھا، فضعیف عند العلماء“․ (السیرة الحلبیة، باب تزوجہ صلی اللہ علیہ وسلم خدیجة بنت خویلد: ۱/۲۰۲)
—————————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ3، جلد:100 ، جمادی الاولی1437 ہجری مطابق مارچ 2016ء