اودھ میں افتاء كے مراكز اور ان كی خدمات

تبصرہ وتعارف

از: عبدالستار اعظمی قاسمی                

خریج: جامعہ ام القریٰ مکة المکرمہ       

میرے استاذ محترم مولانا ڈاکٹر اشتیاق احمد اعظمی صاحب مدظلہ العالی کامقالہ برائے پی ایچ، ڈی ”اودھ میں افتاء کے مراکز اور ان کی خدمات“ کے نام سے ۲۰۰۹ عیسوی میں منظر عام پر آیا۔ لکھنے والے بڑے دقیق اور نستعلیق ہیں؛ اس لیے استاذ محترم کی مذکورہ کتاب بڑی خصوصیت کی حامل ہے اور طلبہ کے لیے علمی میدان میں قابلِ استفادہ ہے۔

چناں چہ اس کتاب میں؛ حسنِ ترتیب، احاطہٴ مضامین، طرز ِاستدلال، اہتمام ِادلہ، ادبی الفاظ، علمی موشگافیاں، مقالہ نگاری کا انوکھا طریقہٴ کار، طرز تحریر میں اکابر کا حددرجہ احترام، قلم کے استعمال میں احتیاط، عربی عبارتوں کو اردو قالب میں ڈھالنے کا نرالا انداز خوب تر خوب پنہاہے۔

کتاب جاذب نظر اوربڑی اہمیت کی حامل ہے۔ کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی حکومت اترپردیش کے مالی تعاون سے طبع ہوئی۔ فہرست کتاب بھی قابلِ ستائش ہے؛ کیوں کہ ہر عنوان کو مناسب مقام پر فٹ کیاگیا ہے، نیز ہر مضمون اچھوتا اور نیا معلوم ہوتا ہے جس کی وجہ سے صاحبِ مطالعہ میں ہر عنوان کو پڑھنے کی البیلی رغبت پیدا ہوتی ہے؛ مزید برآں مولانا سعیدالرحمن اعظمی صاحب مدظلہ العالی کی تقریظ ومولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم کا پیش لفظ اس کتاب کے لیے منارہ نما ہے۔

استاذ محترم جن مسائل کو موضوع بحث بناتے ہیں اس کو بڑی سلیقہ مندی سے استدلالاً قرآن وحدیث کے ادلہ سے آراستہ کرتے ہیں۔

مثلاً باب اوّل، تمہیدی امور کے ذیلی عنوان ”مختصر تاریخ افتاء“ میں واقعہٴ سلیمان، فتوائے کلالہ، استفتاء فی النساء وغیرہ والی آیات قرآنیہ کو مناسب مقام پر استدلالاً ذکر کیا ہے۔ استاذ موضوف نے اس باب میں چند فصلیں قائم کرکے افتاء کی لغوی واصطلاحی تعریف کے ساتھ ساتھ افتاء کی مختصر تاریخ ومراحل افتاء کو جامع انداز میں بیان کیا ہے اوراس کے ہر گوشے کو اپنے مقالہ میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے؛ مراحل تاریخ افتاء کے ذیل میں آدم علیہ السلام ودیگر انبیاء کرام سے لے کر عہدِ رسالت، صحابہ رضی اللہ عنہم، تابعین، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین وسلف صالحین کو تفصیلاً بیان فرمایا۔ اوراس امر کی بھی وضاحت کی کہ ہر زمانہ میں افتاء کا بھی مرجع اورماخذ رہا ہے؛ دور رسالت میں ماخذ افتاء، صرف وحی الٰہی تھی اگرچہ کچھ اجتہادات نبویہ ثابت ہیں، عہد صحابہ کی کتاب وسنت کے ساتھ ساتھ نت نئے مسائل کے حل کے لیے کبار صحابہ کو اکٹھا کیا جاتا؛ اس بابت استاذ محترم نے چند نمونے پیش کیے ہیں، ان میں بعض صحابہ نے ماخذ افتاء میں قیاس کو بھی شامل کیاہے؛ ان بڑی شخصیتوں میں عمرالفاروق، عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہما کا نام مثالاً ذکر فرمایا ہے، الغرض دور صحابہ میں فتویٰ دینے کے لیے قابل اعتمادماخذ کتاب اللہ، سنت رسول اللہ، اجماع اور قیاس تسلیم کرلیے گئے۔ مزیدبرآں فقہ وفتویٰ میں فرق، تدوینِ فقہ کے ضمن میں مدوّنین فقہ کے نام مع تاریخ وسن میلادی وہجری کے ذکر کا خوب اہتمام ہے۔ اس باب کی آخری فصل میں ”آغاز قضاء وافتاء ہندوستان میں“ اس موضوع پر بڑی جامعیت کے ساتھ روشنی ڈالتے ہوئے باب کواختتام تک پہنچایاہے۔

باب دوم میں فتویٰ نویسی کے اصول وضوابط کے تحت مختلف فصلوں کو مرتب کیاہے، جس میں لفظ فتویٰ، اصل اور ضابطہ کی لغوی واصطلاحی بحث کی ہے، فتویٰ دینے میں احتیاط کی ضرورت اس کے ضمن میں علامہ ابن قیم کا فیصلہ نقل فرمایاہے کہ بغیر علم کے فتویٰ دینا حرام ہے، مفتی کے شرائط واوصاف اس کے ذیلی عنوان میں استاذ موصوف نے طبقات مجتہدین پر شرح وبسط کے ساتھ صفحہ کتاب کو مزین کیا؛ تاکہ قارئین کتاب اپنے حق میں خود ہی تعین کرلیں کہ وہ کس طبقہ کے مستحق ہیں، نیز اس باب میں افتاء کے اصول، ضوابط وآداب افتاء کے تحت متعدد عناوین میں ہرزاویے سے تمام مواد کا احاطہ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے اورآخری فصل میں ”تدوین کتب فتاویٰ“ کی اختصاراً تاریخ ذکر کرنے کے بعد کتب فتاویٰ کی طویل فہرست رقم فرمائی ہیں جو مقالہ لکھنے والے طلبہ اور فتویٰ نویسی کے لیے قیمتی تحفہ ہے، استاذ محترم نے بعض لائبریری کا اشارہ بھی کیا ہے جس میں فتاوے کی کچھ کتابیں دستیاب ہیں۔

باب سوم ”اودھ کا مختصر تاریخی پس منظر علمی وثقافتی تناظرمیں“ کے ضمن میں مختلف فصلیں قائم فرمائی ہیں؛ جن میں اودھ کے جغرافیائی پہلو کو ایسے اسلوب سے سنوارا کہ اگر چند شہر وقصبات پر مرکزی نقطہ لگاکر باہم لکیریں ملادیں تو اودھ کا ذہنی خاکہ؛ کاغذی خاکہ میں بدلتا ہوا صاف وشفاف صورت میں نظر آئے گا۔

پہلے یہ مثل سناکرتے کہ ”صبح بنارس، اودھ کی شام“ لیکن مولانا کے علمی مقالہ نے اودھ اور بنارس کو ایک خطہ میں پنہا کردیا اور مئو جیسے ہنرداں شہر کو بھی اس دائرے میں سمیٹ لیا؛ اس بنیاد پر ہم لوگوں کا اودھ کے اردو کلچر کے روح رواں تو نہیں؛ لیکن ان کے افراد میں شمار ہونے لگا۔ نیز اس بحث میں نوابانِ اودھ کا تاریخی حیثیت سے مختصراً تعارف پیش کرتے ہوئے اودھ کے تاریخی پس منظر میں تعلیمی مراکز کاذکر کیا ہے جس کے ضمن میں درس نظامیہ کے علم بردار؛ نظام الدین سہالوی اور علمی تبحر سے متصف، فن حدیث کے دلدادہ؛ ابوالحسنات مولانا عبدالحئی لکھنوی کی شخصیت اور ان کے علمی مشرب کا تذکرہ فرمایاہے۔

تاریخ اودھ میں ندوة العلماء جیسے عظیم ہیکل، علمی ادارہ کا ذکر نہ ہو تو اودھ کی تاریخ نامکمل اور ادھوری رہ جاتی؛ اس لیے استاذ محترم نے ندوة العلماء کے علمی واتحادی خدمات کے ساتھ ساتھ؛ درس نظامیہ میں ترمیم واصلاحات کی غرض سے علماء ندوة کے علمی وتالیفی اقدام کو بھی موضوع بحث بناکر تاریخ اودھ کو مزین فرمایا۔ اس فصل میں فرقہ شیعہ کی مختصر اور جامع تاریخ بھی پیش کی گئی ہے جس میں ان کے مدارس اور کبار علماء کی دعوتی جدوجہد مذکور ہے۔

باب چہارم کا عنوان ”موضوع کتاب“ ہے، اس باب میں مولانا نے مراکز افتاء کی دو تقسیم بیان فرمائی:

      اوّل سنی مراکز افتاء                    ثانی شیعی مراکز افتاء

      سنی مراکز افتاء کے تحت سرفہرست تین مراکز کاشمار کرایاہے۔

      فرنگی محل  ندوة العلماء               مدرسہ فرقانیہ

ہر ایک مرکز پر مستقل فصل قائم فرماکر مرکز کا تاریخی پس منظر اوراس کی خدمات؛ اس سے مربوط مفتیان کرام وعلماء عظام کے تراجم پر مکمل بحث کی ہے، شیعی مراکز افتاء کے سلسلہ میں مستقل کوئی فصل قائم نہیں کی گئی اور نہ ہی مستقلاً کسی مرکز کو موضوع بحث بنایاگیا ہے؛ بلکہ ماقبل والی فصل کے تحت (ب) کا اشارہ دیتے ہوئے شیعی مفتیان کرام کے تراجم وافرتعداد میں رقم فرمایا؛ ضمناً ان کے بعض مراکز کا تذکرہ بھی ہے۔

باب چہارم میں اخیر کی پہلی اور دوسری فصلوں میں اصحاب فقہ وفتاویٰ کے عنوان سے کثیرالتعداد شخصیات کی سوانح مدون فرمائی ہیں، جو ”اودھ ومضافات اودھ“ کے چیدہ چیدہ علماء ومفتیان کرام متوفین وموجودین کی سوانح حیات پر مبنی ایک علاقائی موسوعہ کی حیثیت رکھتی ہے؛ ایسا لگتا ہے کہ افتاء وفتویٰ کے گلشن میں عبقری شخصیتوں کے تراجم کا بڑا سا گلدستہ رکھا گیا ہو، مزید اس کے ہر پھول کی صفات ممیزہ کی نشاندہی کی گئی؛ تاکہ اس فن سے جڑے لوگ جس شگوفہ سے چاہیں بلاتامل اس کی علمی خوشبو اڑالے جائیں۔ فی الحال فصل اخیر میں کچھ شخصیتیں؛ مولانا محفوظ الرحمن مفتاحی، مولانا مفتی اخترحسن اعظمی مئوی، مولانا قاری حفیظ الرحمن اعظمی مئوی، مولانا زین العابدین معروفی داعی اجل کو لبیک کہہ کر ماقبل والی فصل میں ملحق ہوچکے ہیں۔

باب پنجم ”مسلم معاشرے کی رہنمائی“ میں مراکز افتاء کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے رائج الوقت مختلف فتاوے کا مختصر تعارف بھی پیش کیا ہے؛ اور آخری باب میں خلاصہٴ بحث کے عنوان سے مسلمانوں میں ہندو معاشرہ کا چڑھتا رنگ، غلاء مہور، بیوہ عورت سے شادی کا تنفر، نیز غیرمختون مسلمانوں کے ختنہ کا رواج، بدعت وخرافات کے قلع قمع کی فکر میں مفتیان کرام وعلماء عظام کے دفاعانہ اقدام کو ذکر کرکے مولانا نے اپنی کتاب کو زینت بخشی ہے۔

مصادر ومراجع پر ایک جھلک

ہرزمانہ میں مصادر اور مآخذ بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے، کتاب کی قدر ومنزلت کا مدار کثرت مصادر ومآخذ کے حوالہ پر مبنی ہوا کرتا ہے، خاص طور سے عرب یونیورسٹیوں میں مقالہ نگار کے لیے ممتاز پوزیشن کے حصول میں مراجع کی کثرت اہم رول ادا کرتی ہے؛ نیز مقالہ کو شرف قبولیت سے نوازا جاتا ہے، اس مطمح نظر کے تحت استاذ محترم نے مقالہ نگاری میں مصادر ومراجع کا حددرجہ اہتمام کیا ہے، اگرحوالہ کتابی شکل میں دستیاب نہ ہوسکا تو اس کی وضاحت کرتے ہیں کہ یہ معلومات فلاں شخص کے ذریعہ موصول ہوئی، مفتی عبدالباری مئوی ومفتی ظہیرالدین فیض آبادی وغیرہما کی سوانح کے قلمی نسخہ سے بھی استفادہ کیا ہے اور بعض شخصیات کی سوانح کے سلسلہ میں خود نوشتہ تحریر کو مرجع ٹھہرایا ہے، مولانا نے ہر باب کے اخیر کا اختتام حواشی وحوالہ جات پر کیا، جس میں چند امور کو قابل توجہ بنایا ہے۔

بطور مثال ملاحظہ فرمائیں:

لفظی وضاحت:– مقالہ نگاری کے مابین آنے والے مشکل الفاظ کی حاشیہ میں جگہ جگہ وضاحت کی گئی ہے، مثلاً باب اوّل حاشیہ نمبر (۴۴) میں نزول وتنزیل کے معنی مرادی حاشیہ نمبر (۵۷) میں مغافیر کی لغوی تحقیق باب دوم حاشیہ نمبر (۵۷) میں ظاہر الروایہ کے مرادی معنی کی وضاحت ہے۔

تاریخی وضاحت:– باب اوّل حاشیہ نمبر (۸۲) میں صحابہ کے دعوتی سفر کا پھیلاؤ کے تحت تفصیلی حوالہ، باب چہارم حاشیہ نمبر (۲۲) میں ارکانِ اربعہ کی وجہ تالیف کا تاریخی پس منظر بھی جامع انداز میں لکھا ہے۔

اصطلاحی وضاحت:– باب اوّل حاشیہ نمبر (۱۳۵ تا ۱۴۵،۱۵۴) میں مختلف اصطلاحات: کتاب اللہ، اجماع امت، قیاس، استحسان، عرف وعادت، مصالح مرسلہ، سدالذرائع، عمل اہل المدینہ، مراعات الخلاف، استصحاب الحال، اور باب دوم ”عنوان مسائل النوادر“ کے ذیل میں: کیسانیات، ہارونیات، جرجانیات، رقیات کو مثالوں کے ذریعہ مکمل وضاحت فرمائی ہیں۔

اختلافی وضاحت:– باب دوم فصل چہارم کے ذیلی عنوان ”صاحبین یا امام صاحب کے دیگر اصحاب کے قول پر عمل خروج عن الحنفیت نہیں ہے“ میں علامہ شامی کا قول: ”وإذا أخذ بقول واحد منہم یعلم قطعاً: أنہ یکون بہ آخذًا بقول أبی حنیفة․․․․ نقل کرتے ہوئے حاشیہ نمبر(۸۶) کے ضمن میں دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث مولانا مفتی سعیداحمد صاحب پالن پوری کی رائے مکمل طور پر نقل فرمائی؛ تاکہ قاری کتاب پر خوب واضح ہوجائے۔ مولانا عبداللہ مئوی غازیپوری صاحب کی سن ولادت کے اختلاف کو ذکر کرتے ہوئے حاشیہ نمبر(۲۵۹) پر اختلافی وضاحت کے ساتھ ساتھ دلیل کی روشنی میں راجح قول کا تعین فرمایا۔ مولانا عبدالغفار عراقی مئوی کی سن وفات میں حاشیہ نمبر(۲۶۵) پر کتابتی اختلاف کا اشارہ کیا ہے۔

تفصیلی وضاحت:– کسی عنوان کی مفصل معلومات کے لیے حواشی میں چند مراجع کا اشارہ کرتے ہیں، مثلاً باب دوم حاشیہ نمبر )۲۳) میں مفتی مستقل، مفتی غیرمستقل کی تفصیلی معلومات کے سلسلہ میں چھ بنیادی مراجع کا ذکر فرمایاہے۔

کتاب کے آخری اجزاء فہرست مآخذ ومصادر پر مشتمل ہے جس میں (۱۱۱) عربی مراجع (۱۳۱) اردو وفارسی مراجع (۵) انگلش مراجع (۲۸) مجلات و جرائد مذکور ہیں۔ بندہ خاکسار اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قوی امید کرتا ہے کہ کتاب شرف قبولیت حاصل کرے گی ان شاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ استاذ محترم کی عمر میں صحت وعافیت کے ساتھ برکت عطا فرمائے، آمین!

———————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ11، جلد: 99 ‏، محرم الحرام1437 ہجری مطابق نومبر 2015ء

Related Posts