از: خورشید عالم داؤد قاسمی
مون ریز ٹرسٹ اسکول ، زامبیا
حج کی فرضیت
حج اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک ہے جن پر اسلام کی بنیاد ہے۔ حج کی فرضیت قرآن کریم، حدیث شریف اور اجماع امت سے ایسے ہی ثابت ہے، جیسا کہ نماز، روزہ اور زکاة کی فرضیت ثابت ہے؛ اس لیے جو شخص حج کی فرضیت کا انکار کرے، وہ کافر ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ”وَلِلہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیلًا وَمَنْ کَفَرَ فَإِنَّ اللہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعَالَمِینَ“ (سورہ آل عمران، آیت:۹۷) ترجمہ: ”اور اللہ کے واسطے لوگوں کے ذمہ اس مکان کا حج کرنا ہے، یعنی اس شخص کے جو کہ طاقت رکھے وہاں تک کی سبیل کی اور جو شخص منکر ہو؛ تو اللہ تعالی تمام جہاں والوں سے غنی ہیں“۔ یہ آیت کریمہ حج کی فرضیت کے حوالے سے نصّ قطعی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پانچوں ارکان کو ایک حدیث شریف میں بیان فرمایا ہے۔ ”بُنِیَ الإِسْلاَمُ عَلَی خَمْسٍ: شَھَادَةِ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِیتَاء ِ الزَّکَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ“․(بخاری شریف، حدیث نمبر:۸) ترجمہ: ”اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا ، زکاة دینا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا“۔
ایک عاشقانہ سفر
انسانی طبیعت یہ تقاضہ کرتی ہے کہ انسان اپنے وطن، اہل و عیال ، دوست و رشتہ داراور مال و دولت سے انسیت ومحبت رکھے اور ان کے قریب رہے۔ جب آدمی حج کے لیے جاتا ہے؛ تو اسے اپنے وطن اور بیوی و بچے اور رشتے دار و اقارب کو چھوڑ کر اور مال و دولت خرچ کرکے جانا پڑتا ہے۔ یہ سب اس لیے کرنا پڑتا ہے کہ حج کی ادائیگی شریعت کا حکم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت نے حج کے حوالے سے بہت ہی رغبت دلائی ہے، انسان کوکعبہ مشرفہ کے حج و زیارت پر ابھارا، مہبط وحی و رسالت کے دیدار کا شوق بھی دلایا ہے اورسب سے بڑھ کر شریعت نے حج کا اتنا اجر و ثواب متعین فرمایا ہے کہ سفر حج ایک عاشقانہ سفر بن جاتا ہے۔ ذیل کے سطور میں، حج کا اجر و ثواب احادیث شریفہ کی روشنی میں، ملاحظہ فرمائے!
حج انتہائی نیک عمل ہے
حضرت ابو ہریرہ -رضی اللہ تعالی عنہ- بیان کرتے ہیں: ”سُئِلَ النَّبِیُّ – صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ- أَیُّ الأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: ”إِیمَانٌ بِاللہِ وَرَسُولِہِ“ قِیلَ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: ”جِھَادٌ فِی سَبِیلِ اللہِ“ قِیلَ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: حَجٌّ مَبْرُورٌ“․(بخاری شریف، حدیث نمبر:۹۱۵۱) ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کون سے اعمال اچھے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا“ ۔ پوچھا گیا پھر کون؟ فرمایا: ”اللہ کے راستے میں جہاد کرنا“۔ پوچھا گیاپھر کون ؟ ارشاد فرمایا: ”حج مبرور“۔
حج مبرور کیا ہے؟
$ وہ حج جس کے دوران کوئی گناہ کا ارتکاب نہیں ہوا ہو۔
$ وہ حج جو اللہ کے یہاں مقبول ہو۔
$ وہ حج جس میں کوئی ریا اور شہرت مقصود نہ ہو اور جس میں کوئی فسق و فجور نہ ہو۔
$ وہ حج جس سے لوٹنے کے بعدگناہ کی تکرار نہ ہو اور نیکی کا رجحان بڑھ جائے ۔
$ وہ حج جس کے بعد آدمی دنیا سے بے رغبت ہوجائے اور آخرت کے سلسلہ میں دلچسپی دکھا ئے ۔
حج مبرور کی فضیلت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”العُمْرَةُ إِلَی العُمْرَةِ کَفَّارَةٌ لِمَا بَیْنَھُمَا، وَالحَجُّ المَبْرُورُ لَیْسَ لَہُ جَزَاء ٌ إِلَّا الجَنَّةُ“․ (بخاری شریف، حدیث:۱۷۷۳، مسلم شریف، حدیث(۱۳۴۹)-۴۳۷) ترجمہ: ”ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ان(گناہوں)کا کفارہ ہے،جو ان دونوں کے درمیان ہوئے ہوں، اور حج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہے“۔
حج پچھلے سارے گناہوں کو مٹادیتا ہے
ابن شِماسہ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، جب کہ وہ قریب المرگ تھے۔ وہ کافی دیر تک روئے، پھر انھوں نے اپنا چہرہ دیوار کی طرف کرلیا۔ اس پر ان کے صاحبزادے نے چند سوالات کیے۔ پھر انھوں نے (اپنے اسلام قبول کرنے کی کہانی سناتے ہوئے) فرمایا: جب اللہ نے میرے قلب کو نور ایمان سے منور کرنا چاہا؛ تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا اورعرض کیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا داہنا دست مبارک پھیلائیں؛ تاکہ میں بیعت کروں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھیلایا۔ پھر میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے عمرو!تجھے کیا ہوا؟ میں نے کہا: میری ایک شرط ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری کیا شرط ہے؟ میں نے کہا: میری مغفرت کردی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الإِسْلَامَ یَھْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہُ؟ وَأَنَّ الْھِجْرَةَ تَھْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَھَا؟ وَأَنَّ الْحَجَّ یَھْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہُ“؟ (مسلم شریف، حدیث: ۱۲۱- ۱۹۲) ترجمہ: ”کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اسلام (قبول کرنا) پہلے (کے تمام گناہوں)کو مٹا دیتا ہے؟ ہجرت گزشتہ گناہوں کو مٹادیتی ہے اور حج پہلے(کے کیے ہوئے گناہوں)کو مٹا دیتا ہے “۔
ایک حدیث میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مَنْ حَجَّ لِلہِ فَلَمْ یَرْفُثْ، وَلَمْ یَفْسُقْ، رَجَعَ کَیَوْمِ وَلَدَتْہُ أُمُّہ․“ (بخاری شریف، حدیث نمبر:۱۵۲۱) ترجمہ: ”جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اور اس نے (اس دوران) فحش کلامی یا جماع اور گناہ نہیں کیا ؛ تو وہ (حج کے بعد گناہوں سے پاک ہوکر اپنے گھراس طرح) لوٹا، جیسا کہ اس کی ماں نے اسے آج ہی جنا ہو“۔
”رفَث“کا معنی جماع، ہم بستری اور جو کچھ بھی شوہر و بیوی کے درمیان حالت جماع میں ہوتا ہے، جیسے بوس وکنار وغیرہ کے ہیں۔ ابو عبیدہ نے فرمایا: ”رفَث“کا مطلب ”فحش کلامی“ ہے۔ پھر کنایة جماع اور متعلقات جماع کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ (الموسوعہ الفقہیہ الکویتیہ۲۲/۲۷۵)
مسئلہ: حالت احرام میں جماع کرنا فقہاء کرام کے نزدیک بالاتفاق حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”فَمَنْ فَرَضَ فِیھِنَّ الْحَجَّ فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوقَ وَلاَ جِدَال فِی الْحَجِّ“۔ (سورہ بقرہ، آیت:۱۹۷) ترجمہ: ”سو جو شخص ان میں حج مقرر کرے، تو پھر نہ کوئی فحش بات ہے اور نہ کوئی بے حکمی ہے اور نہ کسی قسم کا نزاع زیبا ہے“۔
مسئلہ:اگر کسی نے حالت احرام میں عمدا (جان بوجھ کر) جماع کیا ہو؛ تو اس کا حج فاسد ہوجائے گا اور قضاء و کفارہ لازم ہوگا۔ اگر کسی نے حالت نسیان(بھول ) میں جماع کیا ہو؛ تو حنفیہ، مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک اس صورت میں بھی حج فاسد ہوجائے گا اور قضاء و کفارہ لازم ہوگا؛ لیکن شافعیہ کے نزدیک حج فاسد نہیں ہوگا؛ بل کہ صرف کفارہ لازم ہوگا۔ (الموسوعہ الفقہیہ الکویتیہ:۲۲/۲۷۶-۲۷۷)
” فِسْق“سے مراد معاصی و گناہ ہے۔ ”کَیَوْمِ وَلَدَتْہُ أُمُّہُ“ کی شرح کرتے ہوئے علامہ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”کسی گناہ کے بغیر، اس کا ظاہری مطلب صغائر و کبائر (چھوٹے اور بڑے): سارے گناہوں کا معاف کیا جانا ہے“۔ (فتح الباری۳/۳۸۲-۳۸۳)
بوڑھے، کمزور اور عورت کا جہاد
حضرت ابوہریرة رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جِھَادُ الْکَبِیرِ وَالضَّعِیفِ وَالْمَرْأَةِ الْحَجُّ وَالْعُمْرَةُ“ (السنن الکبری للنسائی، حدیث:۳۵۹۲، مسند احمد، حدیث:۹۴۵۹، السنن الکبری للبیہقی، حدیث:۸۷۵۹) ترجمہ: ”بڑی عمر والے، کمزور شخص اور عورت کا جہاد:حج اور عمرہ ہے“ ۔
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ”قُلْتُ یَا رَسُولَ اللہِ! أَلاَ نَغْزُو وَنُجَاھِدُ مَعَکُمْ؟ فَقَالَ: ”لَکِنَّ أَحْسَنَ الجِھَادِ وَأَجْمَلَہُ الحَجُّ، حَجٌّ مَبْرُورٌ“․ فَقَالَتْ عَائِشَةُ ”فَلاَ أَدَعُ الحَجَّ بَعْدَ إِذْ سَمِعْتُ ھَذَا مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ“․(بخاری شریف، حدیث:۱۸۶۱) ترجمہ: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کیا ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد اور غزوہ میں شریک نہ ہوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لیکن سب سے بہتر اور اچھا جہاد حج:حج مبرور ہے“۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ”جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے؛ تو اس کے بعد سے میں حج نہیں چھوڑتی ہوں“ ۔
حج افضل جہاد ہے
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہانقل کرتی ہیں کہ انھوں نے کہا: ”یَا رَسُولَ اللہِ! نَرَی الجِھَادَ أَفْضَلَ العَمَلِ، أَفَلاَ نُجَاھِدُ؟ قَالَ: ”لاَ، لَکِنَّ أَفْضَلَ الجِھَادِ حَجٌّ مَبْرُورٌ“․ (بخاری شریف، حدیث:۱۵۲۰، السنن الکبری للبیہقی، حدیث:۱۷۸۰۵) ترجمہ: اے اللہ کے رسول! ہم جہاد کو افضل العمل سمجھتے ہیں، تو کیا ہم جہاد نہ کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، لیکن بہترین جہاد حج مبرور ہے“۔
فقرا ور گناہ کو مٹانے والے اعمال
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”أَدِیمُوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ، فَإِنَّھُمَا یَنْفِیَانِ الْفَقْرَ وَالذَّنُوبَ کَمَا یَنْفِی الْکِیرُ خَبَثَ الْحَدِیدِ“․ (المعجم الاوسط، حدیث:۳۸۱۴) ترجمہ: ”حج اور عمرہ پر دوام برتو؛ کیوں کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو ختم کرتے ہیں ، جیسا کہ دھونکنی لوہا سے زنگ کو دور کردیتی ہے“۔
ایک دوسری حدیث ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تَابِعُوا بَیْنَ الحَجِّ وَالعُمْرَةِ، فَإِنَّھُمَا یَنْفِیَانِ الفَقْرَ وَالذُّنُوبَ کَمَا یَنْفِی الکِیرُ خَبَثَ الحَدِیدِ، وَالذَّھَبِ، وَالفِضَّةِ، وَلَیْسَ لِلْحَجَّةِ المَبْرُورَةِ ثَوَابٌ إِلَّا الجَنَّةُ“․ (ترمذی شریف، حدیث نمبر: ۸۱۰) ترجمہ: ”حج اور عمرہ ایک ساتھ کیا کرو؛ کیوں کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو مٹاتے ہیں جیسا کہ بھٹی لوہا ، سونا اور چاندی سے زنگ ختم کردیتی ہے اور حج مبرور کا ثواب جنت ہی ہے“۔
برائے حج خرچ کرنے کی فضیلت
ابو زہیر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”النَّفَقَةُ فِی الْحَجِّ کَالنَّفَقَةِ فِی سَبِیلِ اللہِ بِسَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ“․ (مسند احمد، حدیث:۲۳۰۰۰، شعب الایمان، حدیث:۳۸۲۹) ترجمہ: ”حج میں خرچ کرنا اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی طرح، (جس کا ثواب)سات سو گنا تک ہے“۔
حاجیوں کی دعائیں
ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ”الْحَاجُّ وَالْمُعْتَمِرُ وَفْدُ اللہِ تَعَالَی یُعْطِیھِمْ مَسْأَلَتَھُمْ، وَیَسْتَجِیبُ دُعَاء َھُمْ، وَیَقْبَلُ شَفَاعَتَھُمْ، وَیُضَاعِفُ لَھُمْ أَلْفَ أَلْفَ ضِعْفٍ“․ (اخبار مکة للفاکہی، حدیث:۹۰۲) ترجمہ: ”حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالی کے مہمان ہیں، اللہ تعالی ان کی مانگ ان کو عطا فرماتے ہیں، ان کی دعاؤں کو قبول کرتے ہیں، ان کی شفارش قبول کرتے ہیں اور ان کے لیے ہزار ہزار گنا تک ثواب بڑھایا جاتا ہے“۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ”الْغَازِی فِی سَبِیلِ اللہِ، وَالْحَاجُّ وَالْمُعْتَمِرُ وَفْدُ اللہِ، دَعَاھُمْ، فَأَجَابُوہُ، وَسَأَلُوہُ، فَأَعْطَاھُمْ“․ (ابن ماجہ، حدیث:۲۸۹۳) ترجمہ: اللہ کے راستے کا مجاہد اورحج و عمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہیں۔ اللہ نے انھیں بلایا؛ لہٰذا انھوں نے اس پر لبیک کہا اور انھوں نے اللہ تعالیٰ سے مانگا ہے؛ تو اللہ نے ان کو نوازا ہے“۔
حج کرنے میں جلدی کیجیے
ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تَعَجَّلُوا إِلَی الْحَجِّ – یَعْنِی: الْفَرِیضَةَ – فَإِنَّ أَحَدَکُمْ لَا یَدْرِی مَا یَعْرِضُ لَہُ“․ (مسنداحمد، حدیث:۲۸۶۷) ترجمہ: ”حج یعنی فرض حج میں جلدی کرو ؛ کیوں کہ تم میں کوئی یہ نہیں جانتا کہ اسے کیا عذر پیش آنے والاہے“۔
حج نہ کرنے پر وعید
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مَنْ مَلَکَ زَادًا وَرَاحِلَةً تُبَلِّغُہُ إِلَی بَیْتِ اللہِ وَلَمْ یَحُجَّ فَلَا عَلَیْہِ أَنْ یَمُوتَ یَھُودِیًّا، أَوْ نَصْرَانِیًّا، وَذَلِکَ أَنَّ اللہَ یَقُولُ فِی کِتَابِہِ: ”وَلِلہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ البَیْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیلًا“․ (آل عمران:۹۷) (ترمذی شریف، حدیث نمبر:۸۱۲) ترجمہ: ”جو شخص اتنے توشہ اور سواری کا مالک ہو جائے، جو اسے بیت اللہ تک پہنچادے، اس کے باوجود وہ حج نہ کرے ؛ تو اس کے لیے کوئی ذمے داری نہیں ہے کہ وہ یہودی ہونے کی حالت میں مرے یا نصرانی ، اور یہ اس وجہ سے کہ اللہ تعالی اپنی کتاب میں فرماتا ہے: ”اور اللہ کا حق ہے لوگوں پر حج کرنا، اس گھر کا جو شخص قدرت رکھتا ہو اس کی طرف راہ چلنے کی“۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”لَقَدْ ھَمَمْتُ أَنْ أَبْعَثَ رَجُلًا إِلَی ھَذِہِ الْأَمْصَارِ، فَلْیَنْظُرُوا إِلَی کُلِّ رَجُلٍ ذِی جَدَةٍ لَمْ یَحُجَّ، فَیَضْرِبُوا عَلَیْھِمُ الْجِزْیَةَ، مَا ھُمْ مُسْلِمِینَ، مَا ھُمْ مُسْلِمِینَ“․ (السنة لابی بکر بن الخلال۵/۴۴) ترجمہ: ”میں نے ارادہ کیا کہ کچھ لوگوں کوان شہروں میں بھیجوں، پھر وہ ان لوگوں کی تحقیق کریں کہ جنھوں نے استطاعت کے باوجود حج نہیں کیا، پھر وہ ان لوگوں پر ٹیکس لاگو کریں؛ (کیوں کہ) وہ مسلمان نہیں ہیں، وہ مسلمان نہیں ہیں“۔
حرف آخر
حج کے اجر و ثواب جو احادیث مبارکہ کی روشنی میں لکھے گئے ہیں، وہ کسی بھی مسلمان کو حج و عمرہ کا شوق دلانے کے لیے کافی ہیں۔ جن مسلمانوں کو اللہ تعالی نے مال و دولت سے نوازا ہے، ان کو چاہیے کہ خود کو حج و عمرہ کے عظیم ثواب سے محروم نہ کریں؛ کیوں کہ ہم ہمہ دم نیکیوں کے حصول اور گناہوں وسیئات سے مغفرت کے سخت محتاج ہیں ۔ یہ بھی ہم جانتے ہیں کہ ہماری زندگی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ یہ کاغذ کی ایک ناؤ ہے، جہاں تک پہنچ جائے غنیمت ہے۔ آپ کی یہ ڈیڑھ دن کی زندگی چلی گئی؛ تو پھر کبھی واپس نہیں آئے گی۔ پھر حج کرنے میں کیوں تاخیر!
————————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ10، جلد: 99 ، ذی الحجہ1436 ہجری مطابق اکتوبر 2015ء