از: مولانا محبوب فروغ احمد قاسمی
استاذ حدیث مدرسہ حسینیہ کایم کولم، کیرلا
مذہبِ اسلام مکمل دستورِ زندگی اور کامل نظامِ حیات کا ضامن ہے، قیامت تک آنے والے انسانوں کی رہبری کا سامان مہیا کرتا ہے، اس کے بنیادی اصول وضوابط اٹل ضرور ہیں؛ مگر تغیر پذیر دنیا میں ہر انقلاب سے نمٹنے کی صلاحیت بھرپور رکھتا ہے، یہی تو اس کا امتیاز ہے کہ زمان ومکان سے ماوراء ہوکر بھی ممکن حد تک سہولت پر مبنی قانون کی لافانی قوت سے ہر موڑ پر دست گیری کرتا رہتا ہے، اس دین کا خاص لقب ہی اَلْحَنِیْفِیَّةُ السَّمْحَةْ (یعنی سیدھا اور آسان مذہب) ہے جو معتدل مزاج بناکر زندگی کے ہر گوشہ کو سیراب رکھتا ہے۔ ظاہرِ اسلام سے وابستہ ہوکر زندگی کا ایک خاص رخ متعین ہوتا ہے جو ”من چاہی“ کے بجائے ”رب چاہی“ پر مرکوز ہوتا ہے، قانونِ الٰہی ہر موڑ پر اپنی بالادستی باقی رکھتا ہے، جس پر عمل پیرا ہونا عموماً نفس انسانی پر شاق گزرتا ہے، اور ایسا بوجھ جو بشری وسعت سے باہر ہو، اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر ڈالا ہی نہیں، قرآنِ کریم نے صاف لفظوں میں اعلان کردیا:
لاَیُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا الاَّ وُسْعَھَا (بقرہ:۲۸۶)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی سکت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا۔
”وسع“ کی تفسیر امام رازی (محمد فخرالدین بن علامہ ضیاء الدین متوفی ۶۰۴ھ) اور علامہ زمخشری (جار اللہ محمود بن عمر متوفی ۵۳۸ھ) وغیرہ نے بڑی وضاحت سے کی ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ: ”وسع“ کا مطلب ہے جسے انسان وسعت وسہولت کے ساتھ کرسکے، جسے کرنے میں اسے تنگی اور گھٹن پیش نہ آئے، اللہ تعالیٰ انسان کو اسی چیز کا مکلف بناتا ہے جسے انسان پوری توانائی صرف کیے بغیر آسانی سے کرسکتا ہے۔ (تفسیر رازی:۴/۱۵۱، مطبوعہ: دارالفکر بیروت، تفسیر کشاف ۱/۴۰۸ مطبوعہ: مطبع مصطفی البانی، مصر ۱۹۷۲/)
اسی طرح متعدد آیات ہیں جن میں ”حرج و تنگی“ کو اس امت سے اٹھالینے کا مژدہ سنایاگیا ہے، مثال کے طور پر قرآن وضو کی تعلیم کے بعد کہتا ہے:
مَا یُرِیْدُ اللہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِنْ حَرَجٍ وَّلٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَھِّرَکُمْ لِیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْن (مائدہ:۶)
ترجمہ: اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر تنگی کرے؛ لیکن چاہتا ہے کہ تم کو پاک کرے اور پورا کرے اپنے احسان تم پر؛ تاکہ تم احسان مانو۔
ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے:
وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِي الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ (حج:۷۸)
ترجمہ: تمہارے اوپر دین میں تنگی کو مسلط نہیں کیا۔
اس قسم کی متعدد آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی بنیادی خوبی سہولت و آسانی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر اپنے ماننے والوں کو سمجھایا: انَّمَا بُعِثْتُمْ مُیَسِّرِیْنَ وَلَمْ تُبْعَثُوْا مُعَسِّرِیْنَ․ (بخاری:۱/۳۵ ”کتاب الوضو“ باب صب الماء علی البول فی المسجد)
(تم آسانی پیدا کرنے والے بناکر بھیجے گئے ہو، دشواری میں ڈالنے والے بناکر نہیں بھیجے گئے) آپ کا طریقہٴ کار بھی کچھ اسی طرح تھا روایت ہے:
مَا خُیِّرَ رَسُوْلُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم بَیْنَ الأَمْرَیْنِ الاّ اخْتَارَ أیْسَرَھُمَا مَالَمْ یَکُنْ اثْمًا، فَانْ کَانَ اثْمًا کَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْہُ (ابوداؤد:۲/۶۶۰، کتاب الأدب، باب في العفو والتجاوز)
(جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو چیزوں کے مابین اختیار دیاگیا تو آپ نے سہولت والے امر کو اختیار کیا، اِلاّ یہ کہ وہ گناہ کا کام ہو (بایں طور کہ گناہ کا ذریعہ بن رہا ہو) تو ایسے موقع پر بہت دور بھاگنے والے تھے)
ذخیرہٴ حدیث میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں کہ آپ علیہ الصلاة والسلام نے محض اس وجہ سے خفگی کا اظہار فرمایا کہ سہولت سے اعراض کرکے پُرمشقت عمل کو اختیار کیاگیا، حضرت مُعاذ بن جبل اور حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہما جلیل القدر صحابہ میں ہونے کے باوجود جب ایک موقع پر سہولت کو چھوڑ کر ایسے عمل کو اختیار کرتے ہیں جس میں بظاہر عند اللہ محبوبیت بھی ہوتی ہے؛ مگر عام لوگوں کے لیے شاق ہوتا ہے، تو فوراً دربارِ رسالت سے ڈانٹ پڑتی ہے۔
حدیث کی متداول کتابوں میں مذکور ہے: حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عشاء کی نماز میں ایک مرتبہ لمبی سورت شروع کردی، ایک صاحب جو دن بھر کام کرکے چور ہوگئے تھے، محض اس خیال سے کہ نماز لمبی ہوجائے گی، اپنی نماز پڑھ کر مسجد سے نکل گئے، لوگوں نے چہ می گوئی کی ، تو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی جس پر ڈانٹ کے الفاظ تھے:
یَا مُعَاذُ! أَفَتَّانٌ أَنْتَ، (بخاری: ۱/۹۸، کتاب الصلاة، باب: من شکا امامہ ایٴا طوّل) (اے معاذ! کیا فتنے میں مبتلا کرنے والے ہو)
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا قصہ فجر کا ہے، راوی کا بیان ملاحظہ فرمائیں:
مَا رَأیْتُہ غَضِبَ فِيْ مَوْعِظَةٍ کَانَ أَشَدَّ غَضَباً مِنْہُ یَوْمَئِذٍ․ (بخاری: ۱/۹۸، کتاب الصلاة، باب: من شکا امامہ اذا طوّل) (میں نے نصیحت کرنے میں اس موقع سے زیادہ حالتِ غضب میں کبھی نہیں دیکھا)
ایک دوسری روایت میں سہولت سے اعراض کرنے کے عواقب کو بیان کرتے ہوئے تنبیہ فرمائی: انَّ الدِّیْنَ یُسْرٌ، وَلَنْ یُشَادَ الدِّیْنَ أَحَدٌ الاّ غَلَبَہ (بخاری: ۱/۱۰، کتاب الایمان، باب: الدین یسر) (دین کی بنیادی خوبی تو آسانی میں ہے، جو بھی دین میں شدت اختیار کرتا ہے تو مغلوب ہوجاتا ہے۔ پھر کیا ہوتا ہے کہ نتیجتاً چھوڑ دیتا ہے)
اور ارشاد ہے: عَلَیْکُمْ مِنَ الأعْمَالِ مَا تُطِیْقُوْنَ فانَّ اللہَ لاَ یَمُلُّ حَتّٰی تَمُلُّوْا (بخاری:۱/۱۱، کتاب الایمان، باب: احب الدین الی اللہ عز وجل أدومہ) (تم ایسے اعمال اختیار کرو جو تمہارے بس میں ہوں؛ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک ثواب دینا بند نہیں کرتا؛ جب تک کہ تم بھاری سمجھ کر چھوڑ نہ دو)
انھیں آیات و احادیث کو بنیاد بناکر فقہاء نے ”اَلْمَشَقَّةُ تَجْلِبُ التَّیْسِیْرَ“ (مشقت آسانی پیدا کرتی ہے) جیسے مختلف اصول بھی متعین کیے ہیں، جن کو ان آیات واحادیث کے بھرپور ترجمان بھی کہہ سکتے ہیں۔
نیز اسی زریں قانونِ یسر وسہولت پر کاربند رہتے ہوئے الٰہی قانون پر عمل کرکے اللہ کے ماننے والوں نے دنیا کے اسلام مخالف طاقتوں کو چنے چبوائے، اور ہر میدانِ عمل میں سرخروئی، ہر کارزار میں فتح مندی، اور زندگی سے وابستہ سماجی، اقتصادی ومعاشی ہر شعبے میں اپنے وپرائے کی دل پذیری سمیٹ کر دنیا پر راج کیا، معاشرت کی بکھری اور منتشر زلفوں کو سنوار کر دنیا کو ایک محکم نظام عطا کیا جس پر آج بھی بڑی حد تک عمل ہورہا ہے۔
تقریباً دو صدی قبل سے مسلمانوں کا سیاسی زوال شروع ہوا، دیکھتے دیکھتے زمامِ اقتدار غیروں کے ہاتھ چلا گیا، اقتصادی ومعاشی دنیا پر یہودی ایجنٹوں کا کنٹرول ہوا، رفتہ رفتہ مسلمانوں کامزاج اسلامی شریعت سے ہٹ کر یورپ کے نظام پر مرکوز ہوکر رہ گیا، اب ماحول کی تبدیلی، سوسائٹی کے بگاڑ، افکار وخیالات کے عدمِ توازن اور غیرقوموں کی مداخلت یا بے جا رواداری سے بہت سے اسلامی احکام پر عمل کرنا بظاہر ناممکن یا تنگی ودشواری کا باعث بن گیا، اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مخالف حالات، شدید تر ضرورت اور حرج وتنگی کی وجہ سے شرعی احکام میں کچھ تغیر ہوتا ہے یا نہیں، گنجائش کا پہلو نکلتا ہے یا نہیں، اگر گنجائش کا پہلو ہے تو وہ کون سے احکام ہیں جو یسر و تخفیف کو قبول کرتے ہیں، اور کون سے احکام ہیں جو تخفیف کو قبول نہیں کرتے، ظاہر ہے نہ تو لوگوں کو آزاد چھوڑا جاسکتا ہے کہ من مانی کرکے اپنی خواہشاتِ نفس اور محض سہولت پسندی کا نام ضرورت وحاجت رکھ لیں اور نہ ہی غیر معمولی تنگی ودشواری میں ہی مبتلا کرکے اسلام بیزاری میں مبتلا کریں؛ اس لیے ضرورت ہے کہ اصولی طور پر لوگوں کے احوال اور درپیش حالات کے لیے ”ضرورت وحاجت“ کا سانچہ تیار کیا جائے؛ تاکہ بروقت ناپ تول کر شریعت کے مزاج ومذاق سے ہم آہنگ خطوط متعین کیے جاسکیں۔ مندرجہ ذیل سطور میں کوشش کی جائے گی کہ ”ضرورت وحاجت“ سے متعلق ضروری مباحث اختصار کے ساتھ آجائیں۔
”ضرورت وحاجت“ فقہ اسلامی کا وسیع باب ہے، عبادات سے لے کر معاملات تک میں ان کی تاثیر نمایاں ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے اس کے لغوی واصطلاحی معنی پر غور کرلیا جائے۔
”ضرورت“ لغت میں
”ضرورت“ ضرر سے نکلا ہے، یہ لفظ ”نقصان“ کے ہم معنی نفع کی ضد ہے۔ اس مادہ سے نکلنے والے تقریباً تمام ہی الفاظ میں نقصان کا معنی ملحوظ ہے۔ ”ضریرالبصر“ ایسے شخص کو کہا جاتا ہے، جس کی بینائی ناقص یعنی کمزور ہو، قرآنِ پاک میں ”ضراء“ کا لفظ اسی مادہ سے ”سراء“ کے بالمقابل استعمال ہوا ہے، ”ضراء“ جانی ومالی نقصان مراد ہے، ابوالدُقَیس کے حوالہ سے علامہ زبیدی حنفی (محب الدین ابی فیض محمد مرتضیٰ) نے تاج العروس میں اور ابن منظور (محمد بن مکرد بن علی انصاری الرویفعی ۷۱۱ھ) نے لسان العرب میں یہ معنی بیان کیا ہے:
مَا کَانَ مِنْ سُوْءِ حَالٍ أَوْ فَقْرٍ أَوْ شِدَّةٍ فِيْ بَدَنٍ فَھُوَ ضَرٌ (تاج العروس: ۳/۳۴۸، لسان العرب: ۹/۳۲، مادہ: ضرر)
(ہرقسم کی بدحالی، وفقر، یا جسمانی مشقت ضرر ہے)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لغت کے لحاظ سے ضرورت کسی بھی ”قابلِ لحاظ نقصان“ کو کہا جاتا ہے، خواہ جسم سے متعلق ہو یا دوسرے انسانی احوال سے۔ صاحب لغة الفقہاء نے شدید حاجت اور لاعلاج مشقت کا نام ضرورت رکھا ہے۔ اَلضَّرُوْرَةُ: اَلْحَاجَةُ الشَّدِیْدَةُ وَالْمَشَقَّةُ الشَّدِیْدَةُ الَّتِيْ لاَ مَدْفَعَ لَھَا․ (لغة الفقھاء: ۲۸۳) (ضرورت نام ہے حاجتِ شدیدہ کا اور ایسی مشقت کا جس کے دفعیہ کے لیے کوئی چیز موجود نہ ہو)
ویسے لغت میں ”ضرورت“ اضطرار کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ ابن منظور (محمد بن مکرد ابن علی انصاری الرویفعی متوفی ۷۱۱ھ) لیث کے حوالہ سے لکھتے ہیں: اَلضَّرُوْرَةُ اسْمٌ لِمَصْدَرٍ: الاِضْطِرَارُ تَقُوْلُ حملتنی الضرورة علی کذا وکذا (لسان العرب: ۹/۳۳)
(ضرورت، اضطرار کا اسم ہے تم کہتے ہو ضرورت نے مجھے اس پر مجبور کیا)
اسی طرح ضرورت کا معنی لغت میں مطلقاً حاجت کے بھی کیاگیا ہے، علامہ فیروز آبادی (مجدالدین محمد بن یعقوب) لکھتے ہیں: اَلضَّرُوْرَةُ: اَلْحَاجَةُ (القاموس المحیط: ۲/۷۵ مطبوعہ دارالفکر بیروت)
اسی لیے امام راغب (ابوالقاسم حسین بن محمد اصبہانی متوفی: ۵۰۲ھ) نے ضرورت کی مختلف قسمیں بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: لفظ ضروری کا اطلاق تین طرح ہے: ایک تو جبر وبے اختیاری صورت پر جیسے کہ درخت کو جب تیز وتند ہوا حرکت دے، دوسرے وہ صورت ہے کہ بغیر اس کے اس شئے کا وجود ناممکن ہو، جیسے بدن کی حفاظت کے لیے ضروری خوراک، تیسرے ایسے موقع پر کہا جاتا ہے؛ جب کہ کسی چیز کا اس کے خلاف ہونا ممکن نہ ہو، مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ ایک جسم بہ یک وقت دو جگہوں پر یقینا نہیں ہوسکتا۔ (المفردات في غریب القرآن، ص۲۹۶)
جمیل محمد لکھتے ہیں: لغت کی رو سے لفظ ضرورت کے استعمال کے لیے حالت کا کسی خاص معین حد کو پہنچنا ضروری نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اہل لغت ضرورت کی حاجت سے اور اضطرار کی احتیاج سے، اور اسی طرح حاجت کی ضرورت سے تفسیر کرتے ہیں (نظریة الضرورة، جمیل محمد: ۲۲ بحوالہ: ضرورت وحاجت سے مراد ۲۰۸ مطبوعہ فقہ اکیڈمی)
اس پوری تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ ضرورت کا استعمال لغت کے لحاظ سے تین معنی پر ہوتا ہے: (۱) ناقابل لحاظ نقصان (۲) اضطرار (۳) مطلق حاجت۔
ضرورت کی تعریف اصحاب بصیرت علماء کی نظر میں
ضرورت کی بنیادی طور پر دو تعریفیں ہیں، ایک کے حامل علامہ حموی (احمد بن محمد مکی ابوالعباس الحسینی ۱۰۹۸ھ) ابن ہمام (کمال الدین بن محمد بن عبد الاحد متوفی ۶۸۱ھ) علامہ سیوطی (جلال الدین عبدالرحمن بن ابی بکر متوفی ۹۱۱ھ) اور ماضی قریب کے شیخ مصطفی زرقاء (متوفی ۱۴۲۰ھ-۱۹۹۹/) ہیں، ان حضرات کی تعریف کا لُبِّ لُباب یہ ہے کہ مصالحِ خمسہ (تحفظ نفس، تحفظ دین، تحفظ مال، تحفظ نسل، تحفظ عقل) میں صرف تحفظ نفس کی بقا جن امور پر موقوف ہو وہی ضرورت ہے۔ علامہ سیوطی (جلال الدین بن عبدالرحمن بن ابی بکر متوفی ۹۱۱ھ) لکھتے ہیں:
فَالضَّرُوْرَةُ بُلُوْغُہ حَدًّا انْ لَمْ یَتَنَاوَلِ الْمَمْنُوْعُ ھَلَکَ أَوْ قَارَبَ (الأشباہ والنظائر للسیوطی، ۱۱۴، مطبوعہ: موٴسسة الکتب الثقافیہ بیروت ۱۴۱۶ھ)
(ضرورت آدمی کا اس حد تک پہنچ جانا ہے کہ اگر ممنوعہ چیز نہ کھائے تو ہلاک ہوجائے یا ہلاکت کے قریب ہوجائے)
ان بزرگوں کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ”ضرورت“ اسی اضطرار کے معنی میں ہے جس کو قرآنِ کریم میں فَمَنِ اضّطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ سے تعبیر کیاگیا ہے۔ امام ابوبکر جصاص (متوفی ۳۷۰ھ) اس آیت کے تحت لکھتے ہیں: مَعْنَی الضَّرُوْرَةِ ھٰھُنَا ھُوَ خَوْفُ الضَّرَرِ عَلٰی نَفْسِہ أَوْ بَعْضِ أعْضَائِہ بِتَرْکِہ الْأَکْلَ (احکام القرآن للجصاص: ۱/۱۸۱، مطبوعہ: دارالفکر، بیروت ۱۴۳۲ھ)
(یہاں پر ضرورت کا مفہوم یہ ہے کہ ترکِ اکل کی وجہ سے نفس یا کسی عضو کے ہلاک ہونے کا خوف ہو۔ اس کے برخلاف کچھ دوسرے بزرگوں نے جن میں سرِفہرست مالکی فقیہ اور اصولی امام علامہ شاطبی (ابو اسحاق ابراہیم متوفی ۷۹۰ھ) ہیں، انھوں نے تھوڑا توسع اختیار کیا اور ضرورت کا تعلق صرف ہلاکتِ نفس سے ہی نہیں؛ بلکہ حیاتِ انسانی کے پانچ مصالح میں سے کسی پر بھی شدید زد پڑنے والی ہر صورت سے کیا، اور ”ضرورت“ کو ایک اصل کلی قرار دیا جس کی مختلف جزئیات ہیں۔ علامہ شاطبی (ابواسحاق ابراہیم متوفی ۷۹۰ھ) لکھتے ہیں:
ضروری احکام سے مراد وہ احکام ہیں جو دین ودنیا کے مصالح کی بقا کے لیے ناگزیر ہوں، اس طور پر کہ اگر وہ مفقود ہوجائیں تو دنیا کی مصلحتیں صحیح طریقہ پر قائم نہ رہ سکیں؛ بلکہ فساد وبگاڑ اور زندگی سے محرومی کا باعث بن جائیں یا ان کے فقدان سے نجات اور آخرت کی نعمت سے محرومی اور کھلا ہوا نقصان و خسران اٹھانے کا باعث ہو۔(الموافقات: ۲/۴، کتاب المقاصد، النوع الاول، المسئلة الاولیٰ، مطبوعہ: بیروت)
ان کی ہی پیروی کرتے ہوئے شیخ عبدالوہاب خلاّف نے علم اصول الفقہ میں اور شیخ ابوزہرہ نے اصول الفقہ میں ضرورت کو وسیع تر مفہوم میں استعمال کیاہے، فقہاء واصولیین کے استعمال سے بھی اسی نظریہ کی تائید ہوتی ہے، صاحب ہدایہ مختلف جگہوں پر ضرورت کو بنیاد بناکر مسائل کو مدلل کرتے ہیں، اکثر مواقع پر تحفظِ نفس کے علاوہ دیگر مصالح کا تحفظ واضح طور پر نظر آتا ہے، یہی حال کچھ دیگر مصنّفین کا بھی ہے، نمونہ کے لیے چند عبارتیں پیش کی جارہی ہیں:
(۱) جس جانور میں دم مسفوح (بہتا ہوا خون) نہ ہو، اگر پانی میں گرکر مرجائے تو پانی ناپاک نہیں ہوتا، امام شافعی رحمہ اللہ کا اختلاف ہے ان کی دلیل کا ذکر کرتے ہوئے صاحب ہدایہ لکھتے ہیں:
لِأنَّ التَّحْرِیْمَ لاَ بِطَرِیْقِ الْکَرَامَةِ آیَةٌ لِلنِّجَاسَةِ بِخِلاَفِ دُوْدِ النَّحْلِ وَسُوْسِ الثِّمَارِ لِأنَّ فِیْہِ ضَرُوْرَةٌ (ہدایہ:۱/۳۷)۔
(اس لیے کہ ایسی تحریم جو بطریقِ کرامت نہ ہو اس کے نجس ہونے کی دلیل ہوتی ہے برخلاف شہد کی مکھی اور پھلوں کے کیڑے کہ اس میں ضرورت ہے)
(۲) قلیل وکثیر کی مقدار متعین کرتے ہوئے مصنف موصوف رقم طراز ہیں:
جَعَلَ الْقَلِیْلَ عَفْوًا لِلضَّرُوْرَةِ وَلاَ ضَرُوْرَةَ فِي الْکَثِیْرِ وَھُوَ مَا یَسْتَکْثِرْہُ النَّاظِرُ الَیْہِ فِي الْمَرْوِيِ عَنْ أبِيْ حَنِیْفَةَ وَعَلَیْہِ الْاعْتِمَادُ (ہدایہ:۱/۴۲، باب الماء الذی یجوز بہ الوضوء وما لا یجوز بہ) (کنواں میں قلیل مقدارلید قابلِ عفو ہے کہ اس میں ضرورت ہے، کثیر مقدار میں ضرورت نہیں ہے، کثیر مقدار وہ ہے جس کو دیکھنے والے کثیر محسوس کریں، امام ابوحنیفہ سے یہی مروی ہے اور اسی پر اعتماد ہے)
(۳) کتبِ دینیہ کو جنبی کے لیے اپنی آستین سے چھونے میں حرج نہیں ہے؛ جبکہ قرآنِ کریم کو آستین سے مس کرنا مکروہ ہے۔ دلیل بیان کرتے ہوئے صاحبِ ہدایہ فرماتے ہیں: لاِٴنَّ فِیْہِ ضَرُوْرَةً (ہدایہ: ۱/۶۵ باب الحیض والاستحاضہ) (فرماتے ہیں کہ اس میں ضرورت ہے)۔
(۴) بیع وشراء کے ایک مسئلہ کو بیان کرتے ہوئے ہدایہ میں ذکر کیاگیا ہے:
وَلاَ تَجُوْزُ بَیْعُ بَیْضَتِہ عِنْدَ أبِيْ حَنِیْفَةَ وَعِنْدَھُمَا یَجُوْزُ لِمَکَانِ الضَّرُوْرَةِ (ہدایہ: ۳/۵۴ باب البیع الفاسد)
(امام ابوحنیفہ کے نزدیک ریشمی کیڑے کے انڈوں کا فروخت کرنا ناجائز ہے؛ لیکن حضراتِ صاحبین کے نزدیک ضرورت کی وجہ سے جائز ہے)
(۵) صاحبِ دُرِ مختار (محمد علاء الدین حصکفی متوفی ۱۰۸۸ھ) موزے پر مسح کی مدت پوری ہوگئی؛ لیکن وضو باقی ہے، اس مسئلہ کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَمُضِيُّ الْمُدَّةِ وَانْ لَمْ یَمْسَحْ انْ لَمْ یَخْشَ بِغَلَبَةِ الظَّنِّ ذَھَابَ رِجْلِہ مِنْ بَرَدٍ لِلضَّرُوْرَةِ فَیَصِیْرُ کَالْجَبِیْرَةِ فَیَسْتَوْعِبُہ بِالْمَسْحِ (درمختار مع رد المحتار ۱/۲۰۲، باب المسح علی الخفین، مطلب نواقض المسح، مطبوعہ: مکتبہ رشیدیہ پاکستان ۱۴۱۲ھ)
(اگر موزے پر مسح کی مدت پوری ہوگئی؛ لیکن وضو باقی ہے تو موزے اتارکر پیروں کا دھونا فرض ہے؛ لیکن سردی کی وجہ سے ظن غالب ہے کہ پاؤں شل ہوجائے گا تو مدت پوری ہونے کے بعد بھی مسح جاری رکھے، جس طرح زخمی غضو کے جبیرہ پر مسح کرتا ہے، یہ رخصت ضرورت کی وجہ سے ہے۔
(۶) علامہ رافعی (فقیہ اکبر عبدالقادر رافعی فاروقی مفتی دیار مصریہ متوفی ۱۳۲۳ھ) اپنی مایہ ناز تعلیق میں تحریر فرماتے ہیں:
فِيْ مَوَاقِعِ الضَّرُوْرَةِ أَيْ: بِأَنْ طَالَتْ عِدَّتُھَا تَعَالَجَتْ فَرْجَھَا بِدَوَاءٍ حَتّٰی رَأَتْ صُفْرَةً مثلاً فَھِيَ حَیْضٌ وَانْ لَمْ یَکُنْ فِيْ أَیَّامِ حَیْضِھَا․ (تقریرات رافعی:۱/۳۸ ملحق بردالمحتار)
(مواقع ضرورت میں یہ ہے کہ کسی کی عدت طویل ہوگئی اس نے اپنی شرم گاہ میں کوئی دوا داخل کیا، یہاں تک کہ پیلا مادہ نظر آیا تو یہ حیض ہوگا؛ اگرچہ کہ ایام حیض کے ماسواء میں ہو)
یہ چند مثالیں ہیں جن سے یہ بات بخوبی معلوم ہوسکتی ہے کہ ضرورت کا اطلاق، شریعت غرا میں صرف اسی وقت نہیں ہوتا ہے؛ جبکہ ہلاکتِ نفس کا تیقن یا غلبہ ظن ہو؛ بلکہ اس کے مفہوم میں توسع ہے جو مقاصدِ پنج گانہ (تحفظ نفس، تحفظ مال، تحفظ عقل، تحفظ دین، تحفظ نسل) میں سے ہر ایک سے اس کا تعلق قائم ہے۔ نیز اضطرار کی کیفیت ہی میں منحصر نہیں؛ بلکہ شدید ضرر اور غیرمعمولی مشقت بھی لاحق ہو تو ضرورت کا تحقق ہوجاتاہے۔
بہرحال یہ دو نقطہ ہائے نظر ہوئے، راقم یہ سمجھتا ہے کہ دونوں تعریف میں کوئی تضاد بھی نہیں ہے۔ علامہ حموی (احمد بن محمد مکی ۱۰۹۸ھ) اور ان کی اتباع کرنے والوں کے پیش نظر وہ ضرورت ہے جو دلائلِ قطعیہ سے ثابت احکام جیسے کلمہٴ کفر کا زبان سے تکلم کرلینا، مردار کا گوشت وغیرہ کھالینا میں بھی موثر ہو؛ جبکہ علامہ ابو اسحاق شاطبی (متوفی ۷۹۰ھ) ہر اس ضرورت کی تعریف کررہے ہیں جو احکام میں مطلقاً موثر ہوتی ہے؛ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ کچھ بزرگوں نے ضرورت شدیدہ بمعنی اضطرار کی تعریف پر زور دیا ہے، تو دوسرے بزرگوں نے مطلق ضرورت کو پیش نظر رکھا ہے۔
شریعت میں اضطرار کا استعمال بھی ضرورت کے عام معنی میں ہوا ہے
اوپر کی تفصیل سے معلوم ہوا کہ ”ضرورت“ ایک مفہومِ کلی کا نام ہے جو کھانے پینے سے ہی متعلق نہیں؛ بلکہ اپنے مفہوم و استعمال کے لحاظ سے عموم رکھتی ہے، اس میں اضطرار کا معنی بھی پایا جاتا ہے؛ لیکن حقیقت میں وہ بھی ”ضرورت“ کی ایک نوع ہی ہے۔ ذرا ہم آیات واحادیث پر سرسری نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ”اضطرار“ قرآن کے سیاق وسباق میں کھانے پینے کے ضمن میں ضرور آیا ہے؛ بلکہ اس کا استعمال خاص طور پر اس موقع پر ہوا ہے؛ جب کہ جان آخری مرحلہ میں پہنچ چکی ہو؛ لیکن احادیث میں ”مضطر“ بھی وسیع مفہوم میں ہی استعمال ہوا ہے۔ چند مثالیں درج ذیل ہیں:
(۱) نَھَیٰ رَسُولُ اللہِ صَلی اللہُ علیہ وسلم عَنْ بَیْعِ الْمُضْطَرِّ (ابوداؤد: ۲/۴۸۰، کتاب البیوع، باب بیع المضطر) (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مضطر کی بیع سے منع فرمایا)
ظاہر ہے خریدوفروخت کے باب میں مذکور ”مضطر“ کی حالتِ زار ہونا ضروری نہیں ہے کہ بغیر اس قسم کی بیع وشراء جان خطرے میں پڑجائے، یا قریب بہ ہلاکت ہوجائے؛ بلکہ مجبور شخص جو شدید ضرورت کی بنا پر، یا کسی خاص مصلحت کے حصول کے لیے بیچنے پر مجبور ہوا ہے، وہی مراد ہے۔ علامہ خطابی (ابوسلیمان احمد بن محمد متوفی ۳۸۸ھ) حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَالثَّانِيْ أَنْ یَضْطَرَّ الٰی الْبَیْعِ لِدَیْنٍ رَکِبَہ أَوْ مُوٴُنَةٍ تُرْہِقُہ فَیَبِیْعُ مَا فِيْ یَدِہ فِالْوَکْسِ بِالصَّرُوْرَةِ․ (حاشیہ ابوداؤد: ۲/۴۷۹، کتاب البیوع، باب بیع المضطر) (دوسری صورت یہ ہے کہ قرض کا بار آگیا، یا کوئی اور تاوان دینا پڑگیا، جس کی وجہ سے بیچنے پر مجبور ہوجائے تو اپنے مال کو کم قیمت میں ضرورت کی وجہ سے بیچ دے)
(۲) مسند احمد کی روایت ہے: اذا اضَّطَرَرْتُمْ اِلَیْھَا فَاغْسِلُوْھَا بِالْمَاءِ (مسنداحمد:۲/۱۸۲)
(جب تم ان برتنوں کے استعمال پر مجبور ہوتو ان کو پانی سے دھولیا کرو)
ظاہر ہے کہ برتن کے نہ رہنے سے جان نہیں چلی جاتی؛ اس لیے کہ انسان بھون کر کھاسکتا ہے۔ ہاں شدید مجبوری ہوتی ہے اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔
(۳) موطا مالک کی روایت ہے: اذَا اضَّطَرَّ الٰی لُبْسٍ مِنْ شَيْءٍ مِنَ الثِّیَابِ الَّتِيْ لَابُدَّ لَہ مِنْھَا صُنْعُ ذٰلِکَ وَاقْتَدیٰ․ (موطا مالک: ۱۴۰، کتاب الحج، باب ما جاء فیمن أحصر بغیر عدد)
(حاجی جب کسی کپڑے کے پہننے پر مجبور ہوجائے جو کہ اس کے لیے ضروری بھی ہوتو پہن لے اور فدیہ دے دے)
معلوم ہوا کہ احادیث میں ”مضطر“ بھی وسیع مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ امام ابوبکر جصاص (احمد الرازی متوفی ۳۷۰ھ) نے تو قرآن کریم کی آیت: ”الَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ الَیْہ“ کی تفسیر کرتے ہوئے آیت سے بھی عموم ہی کو مستفاد مانا ہے: آیت میں مذکور ”ضرورت“ دیگر محرمات کو بھی شامل ہے اور بعض آیات میں مردار وغیرہ کے سیاق میں اس کا تذکرہ اس آیت کے عموم سے مانع نہیں ہے۔ (احکام القرآن للجصاص: ۱/۱۸۲ مطبوعہ دارالفکر ۱۴۳۲ھ)
اسی طرح مفسر موصوف آیت اضطرار کے تحت ضرورت کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: وَقَدِ انْطَویٰ تَحْتَہ مَعْنَیَانِ اس کے تحت دو شکلیں آتی ہیں: ایک شکل بھوک کی وجہ سے اضطرار اور مردار کھانے کی اور دوسری شکل اکراہ کی وَکِلَا الْمَعْنَیَیْنِ مُرَادٌ بِالْآیَةِ عِنْدَنَا لِاحْتِمَالِھِمَا اور دونوں ہی معنی مراد ہیں اس لیے کہ آیت دونوں کی محتمل ہے (احکام القرآن: ۱/۱۸۱، مطبوعہ دارالفکر، بیروت ۱۴۳۲ھ)
جب اضطرار بھوک و پیاس کے ساتھ خاص نہیں ہے، تو ضرورت کو بھوک وپیاس کے ساتھ کیوں کر خاص کیا جاسکتا ہے؛ اس لیے زیادہ راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ ”ضرورت“ ایک مفہومِ کلی ہے جو مختلف نوع کو شامل ہے۔
(باقی آئندہ)
————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 2، جلد: 99 ، ربیع الثانی1436 ہجری مطابق فروری 2015ء