از: مولانا ابرار احمد اجراوی قاسمی
جواہر لعل نہرو یونی ورسٹی، نئی دہلی
دوسروں کی سوانح لکھنایا دوسروں کے احوال و کوائف قلم بند کرنا بہت آسان کام ہے۔اس کے برعکس اپنی خود نوشت مرتب کرنا اور اپنی کتابِ زندگی کو بے کم و کاست تحریر کے قالب میں ڈھالناپل صراط پر چلنے کے مترادف ہے۔ سوانح نگاری خارجی زندگی کی تصویر کشی ہے، تو خودنوشت نگاری باطن کے اسرار رو رموز کو کاغذ کے سینے پر کندہ کرنے کی جان کاہی۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ خود ستائی کی بے لگام خواہش سے مجبور ہوکر اپنی خوبیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے اور اپنے عیوب پریا تو ملمع سازی کرتا ہے یا دانستہ اس سے چشم پوشی کرلیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ داستانِ خود بقلم خود سے عبارت، خود نوشت نگاری تمام ادبی اصناف میں مشکل بھی ہے اور آسان بھی۔ مشکل اس لیے کہ اس میں حقیقت بیانی اور صدق مقالی سے کام لینے پر اپنی زندگی کی پرتوں کو اس طرح کھولنا پڑتا ہے کہ بسا اوقات دھرم سنکٹ والا معاملہ پیش آجاتا ہے۔اور یہیں نفسانی خواہشات سے مغلوب ہوکر مصنف کا قلم شکست کھاجاتا ہے۔ اور آسان اس لیے کہ اگرچہ اپنا اعمال نامہ زیادہ’ طویل‘ ہو ، اس پر ادبی لفاظی، عبارت آرائی اور خوش نما ترکیبوں کی قلعی کرتے جائیے اور اپنی خامیوں کو بھی خوبی کے لباس میں پیش کرتے جائیے۔ خود نوشت نگاری کوئی تحقیق یا تنقید کا میدان نہیں کہ اس میں مراجع اور مآخذ کی طرف جھانکنے کی نوبت آئے ۔ بس حقیقت کی بینائی کھولے رکھیے اور اپنے ظاہر و باطن کے احوال کو قلم و قرطاس کے حوالے کرتے جائیے؛تا ہم خود نوشت کے لیے اصلیت و واقعیت اور انکشافِ ذات خشتِ بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خود نوشت کا محور چوں کہ مصنف کی شخصیت ہوتی ہے؛ اس لیے اس میں اپنی ذات سے محبت کا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے اور قاری کے محاسبے کا خوف بھی دامن گیر رہتا ہے۔سوانح عمری اور خود نوشت کے تقاضوں کی تشریح کرتے ہوئے ڈاکٹر سید عبد اللہ لکھتے ہیں:
”ایک لحاظ سے آپ بیتی یا خود نوشت سوانح عمری کی صنف دوسروں کی لکھی ہوئی سوانح عمریوں کے مقابلے میں خاصی نارسا اور ناقص چیز ہوتی ہے۔ اس کے راستے میں دوبڑی رکاوٹیں ہوتی ہیں۔ دوسرں کا خوف اور اپنے آپ سے محبت۔ ایک اچھا سوانح نگار، اپنے فن کی لاج رکھنے کے لیے بہت سی ایسی باتیں بھی بیان کردیتا ہے جو خود نوشت نویس کے لیے ممکن نہیں ہوتیں۔ سوانح نگار اپنے ہیرو کے کرداد کا جج بن سکتا ہے۔ اس کی کمزوریوں کا شمار کرسکتا ہے؛ لیکن آپ بیتی میں اپنی محبت اور دوسروں کاخوف ہر وقت دامن گیر رہتا ہے۔ وہ نہ اپنے گناہوں کی صحیح فہرست پیش کرسکتا ہے، نہ اپنا صحیح جج بن سکتا ہے۔( میر امّن سے عبد الحق تک،ڈاکٹر سید عبد اللہ، ص:۴۰۰ چمن بک ڈپو، دہلی، ۱۹۶۵/)
خود نوشت نگاری کے بنیادی لوازم کیا ہیں، ڈاکٹر عمر رضا لکھتے ہیں:
”خود نوشت سوانح عمری کی تعمیر اگرچہ خود مصنف اپنی یاد داشت کی بنیاد پر کرتا ہے؛ لیکن محض یاد داشت کی بنیاد پر خود نوشت سوانح مرتب کرنا درست نہیں؛ بلکہ مصنف کو اپنے حالات و واقعات کی صحت مندی پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے؛ تاکہ اپنے متعلق کوئی بھی غلط بات یا غلط حقائق قارئین کی نذر نہ کردے۔“(اردو میں سوانحی داب: فن اور روایت، ص:۲۲، کتابی دنیا نئی دہلی، ۲۰۱۱/)
ڈاکٹر سید طفیل احمد خود نوشت سوانح کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”آپ بیتی کسی انسان کی زندگی کے تجربات، مشاہدات، محسوسات و نظریات کی مربوط داستان ہوتی ہے، جو اس نے سچائی کے ساتھ بے کم و کاست قلم بند کردی ہو، جس کو پڑھ کر اس کی زندگی کے نشیب و فراز معلوم ہوں۔ اس کے نہاں خانوں کے پردے اٹھ جائیں اور ہم اس کی خارجی زندگی کی روشنی میں پرکھ سکیں۔“(اردو میں سوانحی ادب، فن اور روایت، ص:۱۲۱)
خود نوشت سوانح کے مذکورہ لوازمات اور فنی تعریف کے علاوہ اگر ماہرینِ فن کے ذریعے مرتب کردہ اس کے عناصرِ ترکیبی پر غور کیجیے تو یہ صنف تمام نثری اصناف میں مشکل ترین نظر آتی ہے اور اس دشت کی سیاحی کے لیے قدم قدم پر بڑی جان کاہی کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ مشہور مزاح نگار مشتاق یوسفیؔ اسی مشکل کو بیان کرتے ہوئے، اپنی مزاحیہ خود نوشت ”زرگزشت“ کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
”آپ بیتی میں ایک مصیبت یہ ہے کہ اپنی بڑائی آپ کرے تو خود ستائی کہلائے اور از راہِ کسرنفسی یا جھوٹ موٹ اپنی برائی خود کرنے بیٹھ جائے تو یہ احتمال کہ لوگ جھٹ یقین کرلیں گے۔“
شورش کاشمیری بھی خود نوشت نگاری کو نقصان کا سودا ہی بتاتے ہیں، اور اس کو ناقابلِ اعتبار قرار دیتے ہیں، لکھتے ہیں:
”لیکن چوں کہ انسان یہ سمجھ کر اپنے حالات حوالہٴ قلم کرتا ہے کہ ایک دن یہ مجموعہ لوگوں کے ہاتھ میں جائے گا؛ اس لیے اس تصویر میں جہاں عیب ہیں، وہ ان پر سیاہی پھیرتا جاتا ہے اور اس بناء پر یہ مرقع بھی اس کی سچی شبیہ نہیں ہوتی۔“(قلم کے چراغ، مرتب:پروفیسر محمد اقبال، ص:۴۶۲، دارالکتاب لاہور، ۲۰۰۹/)
لیکن مشتاق یوسفیؔ کے احتمال وایقان یا شورش کاشمیری کے غیر معتبریت کا مسئلہ ان لوگوں کے ساتھ گمبھیر روپ اختیار کرلیتا ہے جو واقعی اپنی زندگی میں بڑے حقیقت پسند واقع ہوئے ہیں۔ ورنہ جن لوگوں کی کتابِ زندگی میں حقیقت وصداقت اور اعتبار و استناد کا کوئی باب اور فصل ہی نہ ہو ان کے لیے یہ یقین یا شک کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ان کے لیے صحیح اور غلط سچ اور جھوٹ دونوں یکساں ہیں۔ اکثرخود نوشت نگار اپنی زندگی کے دروں میں جھانکتے ہوئے سچائی اور صداقت پر مبنی ان تمام اصول کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور بس بزبانِ حال ان کا یہی دعوی ہوتا ہے کہ میں بھی غالب کی طرح عندلیب گلشن ناآفریدہ ہوں۔
خود نوشت نگاری کے مرض میں ہمارے عہد کے قلم کار اس میں بری طرح مبتلا ہیں، یا شہرت طلبی کے بے لگام شوق اور سیم و زر کی بہتات نے انھیں اس مرض میں مبتلا کردیا ہے کہ کسی لائبریری کے کیٹلاگ میں جاکر خود نوشت والا حصہ کھنگالیے تو سب سے پھیلا ہوا اور وسیع و عریض یہی رقبہٴ ادب ہوگا۔ہماری نومولود اردو زبان میں خاص طور سے خود نوشت نگاری کا سیلاب آیا ہوا ہے۔افسانہ نگاری اور عزل گوئی کے بعد اس بیچاری زبان کے اسی نثری حصے کوسب سے زیادہ مشقِ ستم بنایا جارہا ہے۔ اب تو اردو کے نام سے قائم اکیڈمیاں خود نوشت نگاری کے لیے ادیبوں اور ریٹائرڈ پروفیسرز کو خطیر رقم پر مبنی فیلوشپ بھی دینی لگی ہیں؛ تا کہ اس سیلاب بلا خیز پر کوئی بھی بند نہ باندھ سکے۔اسی قسم کی بے سر و پا باتوں پر مبنی، اردو کی خود نوشت سوانح عمریوں کا ماتم کرتے ہوئے شورش کاشمیری نے لکھا تھا:
”بین الاقوامی ادب سے قطعِ نظر اردو میں جس قدر خود نوشت سوانح عمریاں ہیں، ان میں شاعری زیادہ اور اصلیت کم ہے۔“(قلم کے چراغ، ص:۴۶۲)
جملہٴ معترضہ کے طور پر عرض ہے کہ ناچیز راقم الحروف کو خود نوشت نگاری کیا ، کسی بھی نثری یا شعری صنف سے کوئی بیر نہیں ہے، میرا یقین ہے کہ تاریخی کتابوں کی طرح یہ بھی معلومات کا ایک اہم ذریعہ ہے؛ لیکن جب خود نوشت کی تعیینِ قدر کے معاملے میں بھی ہمارے اردو کے سماجیاتی ماہرین ڈنڈی مارنے لگیں، تو واقعی بڑا دکھ ہوتا ہے۔ خود نوشت نگاری کی صنف میں بے شمار لوگوں کا نام آتا ہے۔ سر رضا علی،جوش ملیح آبادی،رشید احمد صدیقی، عصمت چغتائی، ، آل احمد سرور، کلیم الدین احمد، انیس قدوائی ، ادا جعفری، شکیل الرحمن، وہاب اشرفی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس طویل فہرست میں کسی ایسے آدمی کا نام نہیں جو یونیورسٹی یا ادبی پارٹی اورسکہ بند نظریاتی ادبی گروہ سے الگ رہ کراردو زبان کی زلفِ پریشاں کی مشاطگی میں مصروف ہو۔آخر کیا وجہ ہے کہ اس فہرست میں شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا اور شیح الاسلام مولانا حسین احمدمدنی کا نام نہیں آتا۔ بعض شدت پسند حضرات تو مولانا عبدا الماجد دریابادی کی خود نوشت کو بھی ہضم کرجاتے ہیں۔ تجدد پسند اُدباء اس فہرست میں زیادہ سے زیادہ مولانا جعفر تھانیسری کا نام لیتے ہیں اور وہ بھی اس لیے کہ دستیاب تاریخی دستاویزات کے مطابق ان کی خود نوشت تواریخ عجیب(کالاپانی) کو ارود میں پہلی خود نوشت ہونے کا شرف حاصل ہے۔مصیبت یہ ہے کہ اگر کالاپانی کو پہلی خود نوشت تسلیم نہیں کیا جائے گا تواردو میں خود نوشت نگاری کی تاریخ کو اپنے آغاز کے لیے کئی سال مزید انتظار کرنا پڑے گا۔کیا یہ پلے درجے کی علمی اور ادبی بد دیانتی نہیں؟جب کہ مدارس کی چہار دیواری میں پرورش پانے والے ان بوریہ نشیں علماء کی خود نوشتوں کو پڑھیے تو وہ معلومات کا جامِ جہاں نما معلوم ہوتی ہیں۔ ان کی زبان میں سادگی بھی ہے اور سلاست بھی۔اختصار بھی ہے اور جامعیت بھی۔ واقعات اور قصوں میں صداقت بھی ہے اور بیانیہ کی چاشنی بھی۔ان کے مشمولات جگ بیتی بھی ہیں اور آپ بیتی بھی۔ ہاں آج کل کی سطحی رومانیت اور عشق و عاشقی کے جھوٹے اور فرضی لطیفوں سے ان کی تحریریں خالی ہوتی ہیں، معاشقہ بازی کے معاملات اور رو مانٹک قصوں سے وہ کیوں سرو کار رکھیں کہ یہ عشق مجازی کا بھی ادنی ترین درجہ ہے؛ لیکن ان کی تحریروں میں عشقِ حقیقی کے نمونے وافر مقدار میں ملتے ہیں۔اور یہی درجہ کسی بھی سچے عاشق کا منزلِ مقصود ہوتا ہے۔اور یہ بھی کہ خود نوشت نگاری اپنی خودی سے آشنائی کا مضبوط ذریعہ ہے، جس کی وساطت سے نفس شناسی ہی نہیں، خدا شناسی کی راہ بھی آسان ہوتی ہے۔ عربی کا مقولہ ہے مَنْ عَرَفَ نَفْسَہ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہ (جواپنے آپ سے آشنا ہوگیا، اس کو معرفتِ خداوندی حاصل ہوجائے گی۔)اور اردو شاعری کے مطابق اگر خدا کو اپنا جلوہٴ جہاں آرا دیکھنا منظور نہ ہوتا تو شاید یہ دنیا بھی عدم سے وجود میں نہ آتی۔اسی لیے غالب نے کہا ہے:
دہر جز جلوہٴ یکتائی معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے ، اگر حسن نہ ہوتا خود بیں
شیخ العرب و العجم، اسیرِ مالٹا اور عظیم مجاہد آزادی مولانا حسین احمد مدنی کی خود نوشت ”نقش حیات“کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی متعصبانہ اور جانب دارانہ معاملہ روا رکھاگیا ہے۔ ان کی خود نوشت جو آپ بیتی اور جگ بیتی دونوں کا حسین سنگم ہے، ہماری ادبی بے حسی کی وجہ سے ادبی تحقیقات کا مرکز بننے سے محروم رہی ہے۔ خود نوشت نگاری کی تاریخ اور تنقید پراردو میں حالیہ برسوں میں جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں، ان میں بہت کم ان کی کتاب کا ذکر کیاگیا ہے اور جن ایک آدھ لوگوں نے تحقیق کے مرغے کو حلال کرنے کے لیے اپنی کتاب کے کسی کونے میں اس کاذکر کیا ہے تو انھوں نے بھی ادبی معیار بندی کا خون کردیا ہے۔ ان کی خود نوشت کا قُدسیہ زیدی، صبیحہ انور اور صدف فاطمہ نے ذکر کیا، وہاج الدین علوی اورسید عبد اللہ نے نام لیا او ر وہیں سے ممتاز فاخرہ نے بھی اخذ کیا ؛ لیکن بس اس حد تک کہ نام شماری کے فرضِ کفایہ کی ادائیگی میں کمی نہ رہ جائے۔ڈاکٹر صدف فاطمہ کو چھوڑ کرکسی محقق یا ریسرچ اسکالرنے اس کی ، مذہبی یا تاریخی قدر و قیمت پر تفصیل سے بحث نہیں کی۔ پوری اردو دنیا کو مصنفہ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انھوں نے اپنی کتاب”اردو میں خود نوشت سوانح نگاری (۱۹۴۷/ کے بعد)“ میں اس کتاب کے مضامین اور اس کی مذہبی اور تاریخی اہمیت کو بھی مرکز نظر بنایا ہے۔ڈاکٹر عبد اللہ نے جو اس سلسلے میں سرخیل کی حیثیت رکھتے ہیں بس اتنا لکھا کہ:
”مولانا حسین احمد مدنی نے کوئی بڑا دعوی نہیں کیا۔ محاسبہٴ نفس کے فرض سے پوری طرح باخبر رہنے کے باوجود اپنی سوانح عمری تدین،اخلاق آموزی اور واقعات سیاسی کی خارجی تفصیل کے مقصد سے مرتب کی ہے۔“(میر امن سے عبد الحق تک، ص:۴۱۲)
اور وہاج الدین علوی صاحب نے اپنی کتاب کا ماحصل لکھتے ہوئے بس یہ دو جملے لکھے کہ:
”نقشِ حیات، مولانا حسین احمد مدنی کی خود نوشت ہے۔ اس خود نوشت میں مولانا نے سیاسی حالات اور علمائے دیوبند کے کارناموں کا ذکر کیا ہے۔“(اردوخود نوشت، فن اور تجزیہ، ص:۴۱۹، شعبہٴ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی، ۱۹۸۹/)
مجھے گلے شکوے نہیں کرنا ہے۔ یہ تو معزَّز کو معزِز اور موٴثِر کو موٴثَّر بولنے والے اہلِ ادب اور اردواکادمیوں کے ذمے داران کا محبوب مشغلہ ہے۔ مجھے تو نقشِ حیات کوخود نوشت نگاری کے لیے مقررہ پیمانے پر ادبی زاویہٴ نظر سے دیکھنا ہے اور اس کو تقابل و تجزیے کی اس میزان پر تولنا ہے، جس پر عموماً خود نوشت سوانح عمریوں کو ہمارے نقاد تولا کرتے ہیں۔آخر وہ کون سا پیمانہ ہے جس کے ذریعے ادب اور غیر ادب کے مابین خط کھینچاجاتا ہے۔کیا صرف زبان و ادب اور ادبی تحریکات کی بحث پر مبنی خود نوشت ہی ادب کے زمرے میں آتی ہے؟ کیا صرف مشاعروں، ادبی مذاکروں اور جام و ساغر کی محفلوں کے ذکر سے پُر خود نوشتوں کے سر پر ہی ادب کا تاجِ زرنگار کھا جاسکتا ہے؟بادہ و ساغر کے بغیر بھی تو مشاہدہٴ حق کی گفتگو ہوسکتی ہے۔کیا یہ پیمانہ عدل و انصاف سے میل کھاتا ہے، یا پھر یہ اپنی ذہنی عیاشی ہے کہ کس کو ادب کے نگار خانے میں سجانا ہے اور کس کوادب کے دائرے سے دودھ سے مکھی کی طرح باہر نکال کر پھینک دینا ہے۔ کسی معیار بندی کا یہ پیمانہ تو صحیح ہو نہیں سکتا۔ ادب تو قاری اور ادیب کے مابین کا مقدس رشتہ ہے۔ کوئی تحریر قاری کے باطن کو اپیل کرتی ہے اور اس کو کتھارسس کے مراحل سے گزارنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اس کو ادب کے نگار خانے میں جگہ دی جاسکتی ہے۔ اردو زبان کے اسرارو رموز سے ناواقفیت کا الزام تو اردو کے سب سے بڑے شاعر علامہ اقبالؔ اور ترقی پسندوں کے میر فیض احمد فیضؔ پر بھی لگایا گیا ہے؛ لیکن وقت نے ثابت کردیا کہ علامہ اقبالؔ اور فیضؔ کاکیا مقام ہے اور لاکھوں کی تعداد میں موجود دوسرے شاعراور ادیب ان کے سامنے کہاں کھڑے نظر آتے ہیں۔ مدح و ذم یاتحسین و تنقیص سے اشخاص یا فنون کی معیار بندی ممکن نہیں۔ مولانا محمد حسین آزادؔ کے ا ستاد ذوؔق کو بڑھا چڑھا کر پیش کردینے اورپہلے ایڈیشن میں مومنؔ کو نظر انداز کردینے اور مرزا عالبؔ کا یوں ہی سر سری ذکر کردینے کی وجہ سے ذوؔق ،غالبؔ اور مومنؔ سے بڑے نہیں ہوگئے۔ وقت سب سے بڑا منصف ہے۔مولانا محمد حسین آزادؔ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کے بعد کوئی عبد الرحمن بجنوری، کوئی مالک رام، کوئی احتشام حسین، کوئی شمس الرحمن فاروقی بھی پیدا ہوگا جو تعیینِ قدر کا ایسا پیمانہ متعین کرے گا جس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔آنے والے وقت نے ثابت کردیا کہ کہاں غالبؔ ومومنؔ اور کہاں ذوقؔ۔ صرف شہ کا مصاحب بن کر ادبی محفلوں کی صدارت کرنے سے کوئی بڑا نہیں ہوجاتا۔
مولانا حسین احمد مدنی نے ”نقشِ حیات“ کسی ادبی قلابازی یاکسی ایوارڈ کے حصول یا محض اپنے باطن کی اپیل پر نہیں لکھی تھی، جس میں خود ستائی یا نمود و نمائش کا عنصر موجود ہو؛بلکہ دوستوں اور بے تکلف احباب کے اصرار نے انھیں قلم اٹھانے پر مجبور کیا تھا۔جب آپ نینی جیل میں قید وبند کی زندگی گزار رہے تھے تو بعض مخلص خدام نے تیری زبان، تیری کہانی ،تیرا قلم کے استدلال کے ساتھ، یہ درخواست رکھی کہ نہ صرف اپنی ذاتی اور خاندانی زندگی کے نشیب و فراز کی مفصل روداد مرتب کردی جائے؛ بلکہ جنگِ آزادی کی مختلف تحریکوں کے دوران اپنے عینی مشاہدات اور تاریخی واقعات کو بھی قلم بند کردیا جائے؛ تا کہ علم و معرفت کا یہ کشکول آنے والے موٴرخین کے لیے مشعل کا کام دے سکے۔ اور بہت سے ان واقعات سے پردہ اٹھ سکے جو کسی وجہ سے اب تک ہماری نظروں سے اوجھل ہیں اور جن کی روشنی میں ہندستان کے باشندگان اور خاص طور سے مسلمان اپنے مستقبل کی تعمیر کا نقشہ مرتب کرسکتے ہیں۔یہ کتاب کوئی یک شبینہ نہیں؛ بلکہ نو سالہ کدو کاوش اور ذہنی ریاضت کا نتیجہ ہے۔ ۱۹۴۴/ میں اس کا آغاز ہوا اور اس کا اختتام ۱۹۵۳/ میں ہوا۔شاہ پار ے اتنی طویل ریاضت کے بعد ہی وجود میں آتے ہیں۔ حروف کی نقش گری اتنا آسان کام نہیں اور پھر یہ بھی کہ انھوں نے دوسری مصروفیات سے بھی ہاتھ نہیں کھینچا تھا؛ بلکہ انھیں قال اللہ اور قال الرسول کی محفلِ علم و معرفت سجانے اور تصوف و سلوک کی راہ پر چلنے والے ارادت مندوں کی دست گیری کے ساتھ سیاست کی زلف پریشاں کو بھی سنوارنا تھا کہ
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔پہلا حصہ۴۴۸ صفحات تک پھیلا ہوا ہے۔ شروع کے ۱۸۰/ صفحوں میں خاندانی اور شخصی کوائف درج ہیں۔ اس کے بعد اپنے استاد گرامی شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کا مختصر تذکرہ کر کے اس وقت کی مروجہ ہندستانی سیاست کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس میں انگریزوں کی ظلم پیشہ طبیعت کا بیان بھی ہے اور ہندستانیوں خصوصاً مسلمانوں کی مظلومیت کی دل خراش داستان بھی۔ دوسرا حصہ ۳۵۲/ صفحات کو محیط ہے۔ جس میں اسلامی ریاستوں پر یورپی ممالک کی یورش اور استخلاصِ وطن کے لیے شاہ عبد العزیز، سید احمد شہید اور حضرت شیخ الہند کی انقلابی تحریکوں کا تفصیلی جائزہ شامل ہے۔
“نقش حیات“ مولانا مدنی کی تعلیمی، تدریسی اور سیاسی زندگی کا بیان ہی نہیں؛ بلکہ ملکی اور بیرونی حالات و کوائف کا بھی حسین مرقع ہے۔ مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کتاب پر تعارفی کلمات میں لکھتے ہیں:
”یہ کتاب صرف حضرت مد ظلہ العالی کی سوانح حیات ہی نہیں رہی؛ بلکہ ہندستان میں انگریزوں کی آمد سے لے کر ان کے اقتدار کے خاتمے تک تمام نمایاں واقعات کا مجموعہ، برطانوی حکومت کی تباہ کن ڈپلومیسیوں اور سیاسی مکر و فریب کا انسائیکلوپیڈیا، حضرت شیخ الہند کی تحریک حریت اور اس عرصے کے سیاسی رجحانات اور انقلابی تحریکات کا وہ مستند اور جامع تذکرہ ہے ، جس کا مطالعہ ہر اس شخص کے لیے ضروری ہے، جو ماضی سے سبق لے کر مستقبل کی فکر کرنا چاہتا ہے۔ اور ہند یونین میں ملت اسلامیہ کی عزت و عظمت کا آرزومند ہے۔“(نقش حیات، ص:۱۴)
”نقش حیات“ کے مضامین اور اس کی زبان و بیان اور طرزِ ادا کیسی ہے۔ میری ناقص معلومات کے مطابق، اس پر آج تک کسی ادیب یا اردو کے ریسرچ اسکالر نے تفصیلی بحث نہیں کی۔میں مانتاہوں کہ مولانا مدنی کوئی صاحبِ طرز ادیب یا انشاء پرداز نہیں تھے۔ وہ شاعر تھے، نہ ’نثر نگار‘وہ تو ایک صوفی منش آدمی تھے، جن کے اعصاب پر بس ایک ہی فکر سوار رہتی تھی اور وہ تھی ملک و قوم کی انگریزوں کے چنگل سے آزادی۔ ایسی صورت میں لفظوں کی مینا کاری کے ذریعے، کوئی اپنی زبان دانی کا کیسے ثبوت دے سکتا تھا۔مصلحِ قوم سر سید بھی بس قلم برداشتہ لکھا کرتے تھے، نہ کوئی اہتمام اور نہ التزام، نہ تکلف اور نہ تصنع، ان کے ہاں آمد ہی آمد تھی، آورد کا کوئی دخل نہ تھا ، قومِ مسلم کو جگانے کے لیے وہ ادبی ملمع سازی سے کوئی سروکار نہیں رکھتے تھے۔ ان کا زور بس ادائے مطلب اور مدعا نگاری پر تھا۔ مولانا مدنی نے بھی انھیں نکات پر اپنی خود نوشت یا دوسری تحریریں سپرد قلم کی ہیں۔مولانا مدنی کی حالت تو حالی کے الفاظ میں اس شخص کی سی تھی جس کے گھر میں آگ لگی ہو اور وہ پاس پڑوس کے لوگوں کو مدد کے لیے پکارے، ایسی صورت میں اس کے پاس عبارت آرائی اور لفاظی کے لیے گنجائش کہاں نکلے گی۔ وہ تو بس ادائے مطلب اور مدعا نگاری پر زور دے گا۔
لیکن حقیقت کی نظروں سے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ مولانا نے اس ادائے مطلب اور مدعا نگاری میں بھی زبان و بیان کی حد بندیوں کا خیال رکھا ہے۔ ان کی تحریر کو پرھتے ہوئے خشکی اور حد سے زیادہ سنجیدگی کا احساس تو ہوتا ہے کہ انھوں نے ٹھوس علمی اور تحقیقی زبان لکھی ہے اور انھوں نے آپ بیتی سے زیادہ جگ بیتی کا خیال رکھا ہے اور پاپ نگاری کی طرف تو نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا؛کیوں کہ ایجادِ معانی تو خداداد ہوتی ہے۔ اس کے لیے جوش ملیح آبادی کی طرح فرصی عشقیہ داستانوں کا پیوند لگانے کی ضرورت نہیں۔ مولانا حقیقت و صداقت کا دامن تھامے رہنے کے باوجود زبان و بیان کی حد بندیوں کا پورا خیال رکھتے تھے۔
مجھے ذیل کی سطروں میں ”نقشِ حیات“ کے مضامین اور اس کی تاریخی یا سیاسی حیثیت سے بحث نہیں کرنی ہے کہ اگرادبی معیاربندی کا یہ اصول قرار پاجائے تو پھر ہمیں بہت سے ادبی مسلمات اور تاریخی حقیقتوں پر خطِ تنسیخ کھنچنا پڑے گا۔ واقعات اور مواد اور تاریخ نگاری کے حوالے سے کسی دوسری خود نوشت تحریر سے ”نقشِ حیات“ کا کوئی علاقہ نہیں۔
ع شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور
مجھے صرف زبان و بیان اور خود نوشت کے نام نہاد اصول کی عینک سے اس کو دیکھنا ہے اور شکستہ، آڑی ترچھی لکیروں کے ذریعے ”نقشِ حیات“ کی وہ تصویر ابھارنی ہے جو ہمارے ذہنی اور ادبی جمود پر ہلکی سی ضرب لگا سکے۔
جو کچھ لکھا جائے بے تکلف اور قلم برداشتہ لکھا جائے۔ یہی طرزِ تحریر نثر میں محبوب اور مروج ہے۔ نہ جانے کیوں مولانا حالی نے شاعری میں ستر کنویں جھانک کر الفاظ کے تفحص کی ستائش کی ہے۔ خیر شاعری میں تو یہ قدم محبوب اور قابلِ تقلید ہو سکتا ہے؛ لیکن نثر خاص طور سے خود نوشت میں تو یہ طرزِ تحریر کسی بھی طرح مناسب نہیں ہوسکتا۔مولانا مدنی کے موئے قلم سے ایسے بے تکلف اور پُرمعنی جملے ادا ہوئے ہیں جن پر مقفی اور مسجع تحریروں کا انبوہ قربان کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے طویل جملے نہیں لکھے ہیں کہ اس قسم کے جملوں سے جو دارز نفسی پیدا ہوتی ہے، قاری اس کی مشقت کا بار اٹھانے کے قابل نہیں رہتا اور وہ اکتاہٹ کی گرفت میں کتاب کو ایک طرف ڈالنے پر اپنے کو مجبور پاتا ہے۔ ”نقشِ حیات“ میں اکثر یک سطری جملے استعمال کیے گئے ہیں۔ اور بہت سے تفریعی جملوں کا اختتام ایک ہی حرف پر ہونے کی وجہ سے موسیقیت کی چاشنی بھی پیدا ہوتی ہے۔جملے اتنے چھوٹے اور پر زور ہیں کہ ان میں ڈرامائی مکالموں کی شان پیدا ہوگئی ہے۔مولانانے حسب و نسب سے جنم لینے والے امتیازات کو ایک غیر اسلامی تصور قرار دیتے ہوئے لکھا ہے:
”اور روح نکلنے کے بعد تو جسمِ انسانی خواہ شریف کا ہو یا رذیل کا، بادشاہ کا ہو یا فقیر کا، قوی کا ہو یا ضعیف کا؛جس حالت پر پہنچ جاتا ہے سب کو معلوم ہے۔ جماد محض ہوکر پھولتا پھٹتا ہے، سڑتا گلتا ہے، کیڑے پڑتے ہیں، بدبو سخت پیدا ہوتی ہے، پیپ اور لہو بہتا ہے اور زمین میں مل کر مٹی ہوجاتا ہے۔ یہاں نہ شرافتِ نسبی کچھ فرق کرتی ہے ، نہ دولت و ثروت، نہ حکومت و قوت“ (ص:۳۲-۳۳)
مولانا حسین احمد مدنی کو شاعری سے کوئی خاص لگاوٴ نہیں تھا؛ لیکن پھر بھی فارسی اور عربی کے بہت سے اشعار انھیں ازبر تھے، جن سے وہ اپنی تحریروں میں موقع بہ موقع استدلال کرتے ہیں۔ ان اشعار کی تعداد غبارِ خاطر کی طرح اتنی تو نہیں ہے کہ اس کے لیے محققین الگ سے اشاریہ ترتیب دیں؛ لیکن فارسی کے جتنے اشعار بھی ان کے قلم سے نکلے ہیں وہ بے وقت کی راگنی معلوم نہیں ہوتے، ان اشعار کا مفہوم مضمون اور مخاطب کے حسبِ حال ہے۔ ایک جگہ اپنے اوپر اور اپنے خاندان پر خدائی انعامات و اکرامات پر شکریہ سے قاصر رہنے پر استدلال کرتے ہوئے فارسی کے یہ اشعارلکھتے ہیں:
اگر بروید از ہر مو زبانم
ادائے شکرِ لطفش کے توانم
من آں خاکم کہ ابرِ نوبہاری
کند از لطف بر من قطرہ باری
برطانوی سامراج نے جس طرح مکر و فریب سے کام لے کراپنے ارد گرد بد اطواروں، بدقماشوں اور جرائم پیشہ افراد کا گروہ اکٹھا کرلیا تھا، اس پر طنز کرتے ہوئے یہ شعر رقم کرتے ہیں:
کند ہم جنس باہم جنس پرواز
کبوتر باکبوتر باز با باز
مولانا اردو کے قدیم دواوین پر بھی نظر رکھتے تھے، اساتذہ کے سیکڑوں اشعار ان کے حافظے میں موجود تھے۔ فارسی کی طرح ہی کہیں کہیں اردو کے اشعار سے بھی انھوں اپنی بات کو مزین کیا ہے۔ اپنے والد کے حبِّ نبوی اور مدینہ منورہ سے عشق و محبت کو ان اشعار کی آنچ دی ہے کہ:
مریضِ عشق پر رحمت خدا کی
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
علمائے اہلِ سنت اور علمائے دیوبند کے سر پر جس طرح حُسام الحرمین میں بے سروپا الزامات کا ٹھیکر ا پھوڑنے کی کوشش کی گئی تھی، اس کا دنداں شکن جواب دیتے ہوئے یہ شعر لکھا کہ
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
جب اپنے استاد اور روحانی پیشوا حضرت شیخ الہند کی تجہیز و تکفین میں شرکت سے محروم رہ گئے تو اپنی حسرت کا اظہار اس شعر سے کیا کہ
قسمت کی بد نصیبی کو صیاد کیا کرے
سر پر گرے پہاڑ تو فرہاد کیا کرے
تشبیہات و استعارات کے مرقعے بھی تحریروں کا حسن دوبالا کرتے ہیں۔ کسی روکھی پھیکی تحریر میں بھی تشبیہ اور استعارے کی پیوند کاری سے ان کے تنِ مردہ میں جان آجاتی ہے؛ لیکن وہی تشبیہ اور استعارہ چمنِ تحریر کی حنا بندی کرسکتا ہے جس میں بر جستگی اور شفگتگی ہو۔ بہ تکلف ڈھونڈ ی جانے والی تشبیہیں کہاں کی اینٹ، کہاں کا روڑا ثابت ہوتی ہیں۔ مولانا حسین احمد مدنی نے بھی اپنی تحریر کی جڑوں میں تشبیہ کا آبِ حیات دیا ہے۔ اور یقین کرنا پڑتا ہے کہ تمام تر علمی اور سیاسی مصروفیت کے باوجود وہ اس ہنر سے عاری یا غافل نہیں تھے۔ جب مولانا اور ان کے گھر کے دوسرے افراد نے مل کر ان کے والدِ محترم کو مدینہ منورہ کو اپنا مسکن بنالینے کی ترغیب دی، تو اس مطالبے کو اس طرح تشبیہ دی ہے:
”یہ کلمات ایسے موٴثر واقع ہوئے جیسے کہ اسپرٹ میں دیا سلائی ہوتی ہے۔“(ص:۴۷)
اسی طرح جب مولانا کی اہلیہ کے ماموں نے مولانا کے والدِ محترم سے اپنی یہ خواہش ظاہرکی کہ میں اس کو لکھنوٴ میں رکھ کر طب پڑھاوٴں گاتو والد کے انکار اور دینی اور عصری تعلیم کے مابین فرق کو کتنی خوب صورت تشبیہ دی ہے:
”والد صاحب نے جواب دیا کہ کیا حسین احمد مدنی کو گھوڑے پر سوار کرنے کے بعد میں گدھے پر سوار کروں گا۔ (ص:۴۸)
اسی طرح ہندستان کی دولت و ثروت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”۱۷۷۲/ میں صرافوں کی دکانوں پر شہروں میں اشرفیوں اور روپیوں کے ڈھیر ایسے لگے ہوئے تھے، جیسے منڈیوں میں اناج کے ڈھیر ہوتے ہیں۔“(ص:۲۳۰)
مولانا نے کسی بھی چیز کا ذکر کرتے وقت اس کی تمام جزئیات اور مالہ و ماعلیہ کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ مدینہ منورہ میں پانی لانے کے لیے سقے متعین ہوتے تھے، جو نہر زرقاء سے پانی لانے کا کام کرتے تھے۔ نہر زرقاء کا ذکر کرتے ہوئے مولانا نے اس کے جائے وقوع، اس کے اجمالی پس منظرکے عنوان سے دو صفحے کا طویل مضمون لکھا ہے، جس میں اس کے ابتدائی عہد سے لے کر اس کی موجودہ حیثیت تک کا تفصیل سے ذکر کیا گیاہے۔ اس حصے کو پڑھتے ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد کے چڑیا چڑے اور چائے والے خطوط کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جس میں انھوں نے اپنی انشا پردازی کا ثبوت دیا ہے۔مولانا نے اس نہر کے کسی بھی پہلو کو تشنہ نہیں چھوڑا ہے۔ ایک جگہ ہندستان کی خوبیوں اور اس کی مابہ الامتیاز خصوصیات کا شمار کرتے ہوئے کچھ یوں لکھا ہے:
”اس زمانے میں عام طور سے ہندستانیوں میں مہمان نوازی، انسانی ہمدردی، غرباء اور مصیبت زدوں پر شفقت اور رحم، عہد و پیمان کا تحفظ اور پابندی، خدا ترسی اور سچائی، امانت داری اور سخاوت، وفا داری اور صداقت، دیانت داری اور عدالت، بلند حوصلگی اور شرافت، بیدار مغزی اور جفا کشی، چستی اور بیداری، شجاعت اور مردانگی وغیرہ اوصافِ جمیلہ بڑے پیمانے پر پائے جاتے تھے۔“(ص:۱۹۴)
الفاظ کی تکرار سے غنائیت پیدا ہوتی ہے۔ قدیم شعراء کے دواوین لفظوں کی تکرار والی صنعت سے لبریز ہیں۔ مولانا بھی اس ہنر سے عاری نہیں ہیں۔ شاہانِ ہند کی رواداری اور ان کے مساویانہ او ر عدل پرور نظام حکومت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”یہی نہیں؛ بلکہ اپنی بے مثل ثروت، بے مثل تجارت، بے مثل دست کاری، بے مثل تمدن اور بے مثل طاقت کی بنیاد پر اقوام عالم میں برتری اور سب سے فوقیت کا درجہ رکھتے تھے۔“(ص:۱۸۵-۸۶)
اسی طرح ایک ہی وزن کے متضاد الفاظ کے ذریعے بھی غنائیت اور موسیقیت پیدا ہوتی ہے۔ تنافس و تنافر، اعمال و اخلاق، ذکر و فکر، خلافت اور اجازت، معماروں اور مزدوروں، اخلاق عالیہ اور اعمالِ صالحہ، سلام و پیام وغیرہ مرکبات مختلف مواقع پر قاری کی موسیقیت پسندی کے ذوق کی تسکین کا سامان فراہم کرتے ہیں۔
صنعت تضاد سے بھی تحریر میں تنوع پیدا ہوتا ہے۔ اس سے جہاں قاری کی ذہنی ورزش ہوتی ہے، وہیں وہ دو مختلف تصورات سے بھی آگا ہ ہوتا ہے۔ اس سے اشیاء کے حسن و قبح کا پہلو بھی نکھر کر سامنے آتا ہے۔ متنبی نے کہا ہے: وَبِضِدِّھا تَتَبَیَّنُ الأشْیَاءُ۔ مولانا گرچہ شاعر نہ تھے، مگر اس ادبی خصوصیت سے نا واقف بھی نہ تھے۔لکھتے ہیں:
”رحمت اور انعامِ خداوندی کی بے نیازی اور وسعت اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ دم کی دم میں ذرہ کو پہاڑ اور قطرے کو سمندر بنادے تو کچھ تعجب کی بات نہیں۔عامی مسلمان کو قطب الاقطاب بنادے۔ جاہل کو عالم اور دیوانہ کو افلاطون کردے تو کچھ مستبعد نہیں۔“(ص:۳۳)
مولانا کی نظراردو کے محاوروں، ضرب الامثال اور روزمرہ پر بھی بڑی گہری تھی۔ دیکھیے ”نقشِ حیات“ میں استعمال ہونے والے چند محاوروں، ضرب الامثال اور روزمروں کی جھلک۔مجھ پر نزلہ زیادہ گرتا تھا، وہ ہمیشہ کاٹ کرتے تھے، میری اولاد پھلے پھولے گی، خاندان کے بڑھنے کی امیدیں خاک میں مل گئیں، کس کے پلے پڑجائیں، اپنا الو سیدھا کرنا؛ مگر خدا جانے اس بے شمار دولت اور بے نظیر سرمایہ کو زمین کھاگئی یا آسمان اچک لے گیا،فورٹ ولیم میں سونے کا مینہ برسنے لگا، ایڑی چوٹی تک زور لگادیا، کامیابی کے ڈنکے بھی بجائے، تنگ آمدبجنگ آمد، پانی سر سے اوپر گزر چکا تھا وغیرہ۔
مولانا کی تعلیم عربی اور فارسی میں ہوئی اور مسجدِ نبوی میں تعلیم و تدریس کے طویل تجربے نے انھیں عربی کا مردِ میدا ن بنادیا تھا، اسی لیے ان کی تحریروں پر عربی اور فارسی کا گہرا نقش ملتا ہے؛ لیکن مولانا بلاغت کے اصول سے نا واقف نہیں تھے۔ وہ خود نوشت اردو میں لکھ رہے تھے اور انھیں اپنے مخاطب کی علمی قابلیت اور ذہنی رسائی کا بھی خوب اندازہ تھا۔ اسی احساس کا نتیجہ ہے کہ انھوں نے مقامی زبان کے عام فہم ہندی الفاظ کو بھی جملوں میں برتا ہے، جس کی وکالت مولانا سید سلیمان ندوی بھی کیا کرتے تھے۔”نقشِ حیات“ میں چھپ لک کر، اپر تلی، ٹٹپونجیوں، استری اور کلف، ہنڈی، ٹاٹ، ڈنٹھڑ، ڈھلوان، ڈھارس، گارا ڈھونا، اینٹیں پاتھنا وغیرہ خالص مقامی الفاظ ملتے ہیں۔
آج سے پچاس ساٹھ سال قبل اختصاو و ایجاز کو تحریر کی معراج تصور کیا جاتا تھا۔ مولانا نے اس عام روش کو اس طرح تو نہیں اپنایا کہ اختصار کے گرداب میں اس طرح الجھ جائیں کہ تحریر ایک معمہ بن جائے؛ بلکہ انھوں نے اپنے مخاطب اور مضمون کا لحاظ کرتے ہوئے اختصار و ایجاز سے کام لیا ہے۔ جملے نہ مختصر ہیں اور نہ طویل۔ان کی تحریروں میں نہ ایجازِ مخل ہے اور نہ اکتادینے والی طوالت؛ بلکہ درمیانی راہ اختیار کی ہے۔ محشر ؔاعظمی نے مولانا کی قلمی خصوصیات کو شمار کرتے ہوئے لکھا ہے:
”آپ کا قلم بس وہیں تک چلتا ہے جتنا اسے چلنا چاہیے۔ نہ اتنی تفصیلات اور جزئیات ہوتی ہیں کہ پڑھتے پڑھتے قاری اکتا جائے اور نہ اتنا اختصار کہ مطلب ہی خبط ہوجائے۔ جس بات کی تفصیل ضروری ہوتی ہے اسے پھیلا کر لکھتے ہیں اور جس بات میں اختصار ہونا چاہیے اسے مختصر ہی لکھتے ہیں“(روزنامہ الجمعیة، شیخ الاسلام نمبر، ص:۱۷۳)
”نقشِ حیات“ میں ا ختصار و جامعیت کا انھوں نے بھرپور لحاظ رکھا ہے؛ چناں چہ اپنے ذاتی احوال تو اختصار کے ساتھ قلم بند کیے ہیں؛ لیکن دوسرے حصے میں قومی اور بین الاقوامی حالات پر تفصیل اور طویل حوالوں کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔
خلاصہ یہ کہ ”نقشِ حیات“ میں معانی کا دریا بھی رواں ہے اور زبان و بیان کی نہر بھی بہ رہی ہے۔ یہ صرف معلومات کا خزینہ ہی نہیں، ادبی لطافت کا مرقع بھی ہے۔ نثر کے لیے سادگی، سلاست، اختصار وجامعیت، قطعیت، صراحت اور وضاحت کی جتنی شرطیں درکار ہیں، ان پر نقشِ حیات سو فی صد نہیں تو ننانوے فی صد ضرور اترتی ہے۔ مشکل سے مشکل مضمون کو انھوں نے آسان جملوں میں قلم و قرطاس کے حوالے کردیا ہے۔ جو زبان و بیان پر ان کی مہارت کی دلیل ہے۔ انگریزوں کے دجل و فریب اور ان کی ظالمانہ پالیسیوں کے حوالے سے کوئی بات بے دلیل نہیں ہے۔ انگریزی اور اردو کے سیکڑوں حوالے قاری کو ایقان کی منزل تک پہنچاتے ہیں۔ہر بات قاری کو یقین وعمل اور محبت و معرفت کی لذت سے شرسار کرتی ہے۔ اور دل پر اپنا اثر مرتب کرتی ہے۔ یادوں کی بارات کی طرح خالی خولی بے لطفِ الفاظ کا مجموعہ نہیں، نہ عشق و عاشقی کے فرضی واقعات سے آلودہ ہے؛ لیکن پھر بھی خدا معلوم کیوں ہمارے ناقدین اورخود نوشت نگاری پر ریسرچ کرنے والوں نے اس پر مطلوبہ توجہ نہیں دی ہے۔ نا مکمل خود نوشتوں پر بحث کی گئی ہے؛ مگر ایک مکمل خود نوشت کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔”نقشِ حیات“ صرف اپنے مصامین و مشمولات کے اعتبار سے ہی نہیں، زبان و بیان کے اعتبار سے بھی تحقیق کا موضوع بن سکتی ہے۔ ”نقشِ حیات“ کوئی ناول اور افسانہ تو نہیں؛ لیکن تاریخی و سیاسی حقائق کا نگار خانہ ضرور ہے۔اس میں نام نہاد فنی جمالیات تو نہیں؛ لیکن خود نوشت کی دوسری صفات خود اظہاریت اور تاریخی صداقت کا سنگم ضرور ہے۔یہ قلب میں سوز اور روح میں احساس کے ساتھ تحریر کی گئی ہے، ایسا قلب جو ”لا الہ“ کی صدائے الوہی سے سرشار تھا۔اور ایسے صاحبِ دل بزرگ کے قلم کا نتیجہ ہے جو شب زندہ دار ہونے کے ساتھ رسم شاہبازی ادا کرنے کے لیے میدانِ جنگ میں بھی شہ سواری کا فرض انجام دیتا تھا۔یہ ایسے مرد مجاہد کی داستا ن حیات ہے جس کے رگ و پے میں مستیِ کردار کا لہو گردش کرتا تھا۔یہ ایسے شخص کی رودادِ زندگی ہے جو قوم کی حالت اور قوم کی امامت دونوں ہنر سے آشنا تھا۔ ا س کی زندگانی صداقت، عدالت اور شجاعت کے خمیر سے تیار ہوئی تھی۔ اس کے اندر کسی قسم کی تعلی یا نفس پروری نہیں تھی اور حالی نے جوخود نوشت کے لیے یہ شرط لگائی ہے کہ اس میں تعلی اور خود ستائی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے اور خودد نوشت تمام کاموں سے سبک دوشی حاصل کرنے کے بعد لکھی جائے، ان دونوں شرطوں پر یہ خود نوشت مکمل اترتی ہے۔ اسی لیے ضرورت ہے کہ ہماری ادبی حس بیدار ہو اور ساٹھ سال بعد ہی سہی اس کی ادبی قدر و قیمت کا جائزہ ضرور لیا جائے؛کیوں کہ یہ محض کتاب ہی نہیں، علم و معانی کا بحر بے کراں ہے، جس سے ہر دور میں مستقبل کی تعمیر کا نقشہ مرتب کیا جاسکتا ہے۔ دورِ حاضر کے مشہور تخلیقی ناقد حقانی القاسمی نے اسی شکوہ کا اظہار کیا ہے، لکھتے ہیں:
”ادبی اور علمی دونوں اعتبار سے اس(نقش حیات) کا شمار اہم خود نوشتوں میں ہوتا ہے۔ گوکہ تنگ نظر ناقدین اس کے ذکر سے اعراض کرتے ہیں؛ مگر حقیقت میں دیکھا جائے تو خود نوشت کے فنی تقاضوں پر یہ کتاب پوری اترتی ہے۔ جس میں مولانا موصوف نے نہ صرف اس عہد کو زندہ کردیا ہے؛ بلکہ اس عہد کی پوری سیاسی اور سماجی تاریخ بھی اس کتاب میں سماگئی ہے۔ اس لحاظ سے ”نقشِ حیات“ ایک مقصدی خود نوشت ہے، نہ نرگسیت کی شکارخود ستائی یا خود بینی کی مظہر“ (دارالعلوم دیوبند، ادبی شناخت نامہ، ص:۷۰)
”نقشِ حیات“ تو ہمارا مشترکہ علمی، تاریخی اور ادبی سرمایہ اور مشرقی اقدارِ حیات کا خزانہ ہے۔ یہ اہلِ علم و ادب کی وہ متاعِ فراموش کردہ ہے، جس کی تحقیقی بازیافت اور اس کی تعیینِ قدر کرکے ہم اپنے مستقبل کی تعمیر و ترقی کا نقشہ تیار کرسکتے ہیں۔ ارود کے ریسرچ اسکالرز کو عموماً اور سوانحی ادب پر کام کرنے والوں کو خصوصاً اس کی علمی اور ادبی بازیافت کے لیے اس مصرع کے ساتھ آواز دی جاسکتی ہے کہ
اے اہلِ ادب آوٴ ، یہ جاگیر سنبھالو!
————————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 12، جلد: 98 ، صفرالمظفر 1436 ہجری مطابق دسمبر 2014ء