از: ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی

۱۵-گاندھی روڈ، دہرہ دون

ورنداون متھرا میں جس طرح B J P نے ایک حساس موضوع کو گھٹیا سیاست کا موضوع بنادیا، وہ انسانی اور قانون وانتظام کے نقطئہ نظر سے انتہائی قابلِ مذمت ہے۔ یہ گھٹیا ذہنیت کس حد تک ووٹوں اور اقتدار کے لیے گرسکتی ہے، یہ اس پارٹی کی عاملہ کی میٹنگ کی کارروائی سے ظاہر ہے۔ ”لو جہاد“ کے گمراہ کن، فرضی اور نفرت انگیز اصطلاح کی آڑ میں سماج میں نفرت اور انتشار پھیلانا حدرجہ قابلِ نفرت ہے۔ اقتدار کے لیے اپنے ہی فرقہ کی بہو بیٹیوں کو گندے الزامات کی بھینٹ چڑھادینا، خود اپنے فرقہ کی بچیوں کی عقل، تمیز اور کردار وشعور پر سوال اٹھانے جیسا ہے۔ ایسا ممکن ہے کہ ایک ہی جیسے معاشرت میں رہنے والے دو گروہ ایک لعنت، جنسی چھیڑ چھاڑ، یا زنا سے کم یا زیادہ پریشان ہوں، بات اتنی سی ہے کہ سماج میں تعلیم اور تہذیب نیز سماجی کھلے پن یا بے روک ٹوک پہنچ کے ذرائع نے سماج کے ہر طبقہ کے نوجوان لڑکے لڑکیوں کے عادات واطوار پر مثبت/ منفی اثرات ڈالے ہیں۔ منفی اثرات میں جنسی دست درازی کی تمام شکلیں بہت عام ہیں۔ ہندومسلمان کی قید نہیں ہے، مسلمان لڑکیاں غیرمسلموں سے شادیاں بھی کررہی ہیں، آشنائیاں بھی کررہی ہیں اور اس کا الٹا بھی ہورہا ہے۔ اب چونکہ مسلمانوں میں تعلیم کا اوسط کم ہے خصوصاً بچیوں کی تعلیم کا اوسط کم ہے؛ اس لیے وہ بیرونی دنیا سے نسبتاً کم خلط ملط ہوتی ہیں، کم نوکریاں کرتی ہیں، پھر کچھ مذہبی اثرات بھی زیادہ ہوتے ہیں؛ جبکہ غیرمسلم سماج میں خواتین کی تعلیم، روزگار، روزانہ سفر بہت زیادہ ہے؛ اس لیے ان کے لیے اسی نسبت سے خطرہ بھی زیادہ ہے۔ چھیڑ چھاڑ کرنے والا کسی بھی مذہب کا ہو وہ یہ حرکت اپنی غلیظ خواہش کی تسکین کے لیے کرتا ہے، نہ کہ ثواب کا کام سمجھ کر۔ 18/8/2014 کے ٹائمس آف انڈیا میں ضلع مظفرنگر کے جرائم کی شرح کی تفصیلات کو نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے حوالہ سے شائع کیاگیا ہے، جس کے مطابق ضلع میں زنا کی واردات میں 2011-2013 کے درمیان 57% اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح سسرالی لوگوں کے مظالم بھی بہت بڑھے ہیں۔ ظاہر ہے یہ سسرالی تو ہم مذہب ہی ہوں گے، اس پر ہنگامہ نہیں ہورہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ضلع میں خواتین سے متعلق جرائم کی تفصیل یہ ہے:

سالزنااغواجہیزی امواتسسرالیوں کے مظالم
20111917925203
20122717716225
20134921425270

            اگر سنگھ پریوار کو حقیقتاً خواتین اور بچیوں کی فلاح کی فکر ہے تو انھیں ہر طرح کے جرائم پر تشویش کا اظہار کرنا تھا۔ انھیں دیکھنا تھا کہ جہیز کے معاملہ میں ہندو بچیاں زیادہ ماری گئی ہیں یا مسلمان پھر ان بچیوں کے مارنے والے کون ہیں؟ اگر سسرال میں بچیوں پر مظالم ہورہے ہیں؛ بلکہ تعلیم اور خواتین کی نوکریوں کے باوجود بڑھ رہے ہیں تو یہ سسرالی بھی کیا سب مسلمان ہیں؟ ہندو بچیوں کو ہندو سسرالی مظالم کا نشانہ بنائیں یا ہندو مجرم زنا کا شکار بنائے تو یہ BJP کے لیے تشویش کا باعث کیوں نہیں ہوتا؟

            رہی بات ”لو میرج“ کی یا ”کورٹ میرج“ کی تو یہ تو نئی تعلیم اور تہذیب اپنانے کا نتیجہ ہے، اور یہ دونوں فرقہ میں ہورہا ہے۔ فرق یہ ہے کہ مسلم لڑکی ہوتی ہے تو سنگھی ذہنیت خوش ہوتی ہے الٹا ہوتا ہے تو ”جہاد“ نظر آتا ہے؛ حالاں کہ اسلامی قوانین کی رو سے زنا ایک جرم ہے، یہ ثواب کا کام ہوہی نہیں سکتا۔ ”کورٹ میرج“ اگر بری بات ہے تو مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے بجائے مرکزی حکومت کو اس قانون کو ختم کردینا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ کوئی مسلم اس پر ہنگامہ نہیں کرے گا، اپنے ہم مذہب لوگوں کو یہ کہہ کر بھڑکانا کہ دوسرا فرقہ تمہاری بچیوں کو سازش کے تحت پلان کے ساتھ بہلا پھسلا کر شادیاں کررہا ہے، انتہائی گندہ ذہنیت کی غماز ہے۔ حکومت یوپی اور مسلم تنظیموں کو یوپی میں ضلع وار پچھلے تین سالوں کے کورٹ میرج کے ریکار حاصل کرکے اس جھوٹے، شیطانی پروپیگنڈہ کا پردہ فاش کردینا چاہیے، جس طرح تین سال قبل کیرالہ میں وہاں کی حکومت نے ہائی کورٹ کے حکم پر تحقیقات کراکر اس شیطانی، غیراختلافی پروپیگنڈہ کا بھانڈا پھوڑ دیا تھا۔ یہ وقت چپ بیٹھنے کا نہیں ہے، برادرانِ وطن کو صحیح صورتِ حال سے آگاہ کرنے کا اور اپنے معاشرہ میں اصلاح کرنے کا بھی ہے کہ ہمارے یہاں جنسی بے راہ روی بڑھ رہی ہے، اس پر روک لگانا ضروری ہے۔ وہ ہمارے لیے مستقل فریضہ ہے، ایک دو کی حرکت کا خمیازہ پورے سماج کو بھگتنا پڑتا ہے۔

——————————————-

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 10‏، جلد: 98 ‏، ذی الحجہ 1435 ہجری مطابق اكتوبر 2014ء

Related Posts