حرفِ آغاز
مولانا حبیب الرحمن اعظمی
اسلامی تاریخ میں فتنہٴ ارتداد اور یورشِ تاتار کے بعد غالباً ایسا پُر آشوب اور نازک ترین وقت کبھی نہیں آیا، جس اُتھل پتھل، انتشار و اختلال اور مظلومیت وبیچارگی سے آج قوم مسلم دوچار ہے، چین سے لے کر کاشغر؛ بلکہ اس سے بھی ماوراء دنیا کے ہر خطہ اور علاقہ میں اسلامی تہذیب وثقافت، علوم وآثار ہی نہیں؛ بلکہ قومِ مسلم کا وجود ظلم پیشہ طاقتوں کے نرغے میں ہے اور خداے وحدہ لاشریکَ لہ کی زمین اپنی وسعتوں کے باوجود ان پر تنگ سے تنگ تر بنادی گئی ہے، بالخصوص امریکہ واسرائیل کی خوئے انسان کُشی اور خصلت خون آشامی سے عالمِ اسلام مقتل بنا ہوا ہے، جو مسلم حکومتیں ابھی تک ان کی فتنہ سامانیوں اور چیرہ دستیوں سے بچی ہوئی ہیں، وہ بھی امریکہ کے مزاج اور رویہ کو دیکھتے ہوئے اس کے ساتھ اپنی قدیم وفاداریوں کے باوجود اپنے مستقبل کی طرف سے غیرمطمئن ہیں، اور ڈری سہمی اپنی خانہ خرابی کے دن گِن رہی ہیں، تادم تحریر اسرائیل نے نبیوں اورپیغمبروں کی سرزمین کو خود ان کے نام لیواؤں کے خونِ ناحق سے رنگین بنادی ہے، تقریباً آٹھ برسوں سے محصور ومقہور مٹھی بھر جماعتِ اسرائیل کے ایٹمی ہتھیاروں اور اس کی ریزرو فوج کی سنگینوں کی زد میں ہے، اب تک دو ہزار سے زائد لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں، جن میں چھ سو سے اوپر معصوم بچے، نحیف ونزار بوڑھے اور خانہ نشین نازک خاتون شامل ہیں، امریکہ کے ڈر سے کسی کو اسرائیلی درندوں سے یہ پوچھنے کی ہمت نہیں ہے کہ اِن معصوم نونہالوں، بے سکت بوڑھوں، نازک وناتواں عورتوں نے کتنے میزائل داغے تھے، جس کی پاداش میں انھیں ہمیشہ کے لیے خاک پر سلادیاگیا ہے، خود امریکہ جو اس وقت عراق میں عیسائی اور یزیدی اقلیتوں کے جانی حق کے تحفظ کے نام پر داعش پر مسلسل فضائی حملے کررہا ہے، اسی نام نہاد انسانی حقوق کے محافظ امریکہ نے غزہ میں آباد فلسطینیوں پر اسرائیل کے اس حالیہ حملہ کے وقت جارح وقاتل اسرائیل کی ہمت بڑھانے کے لیے اس کی اسلحوں اور ڈالروں سے بھرپور امداد کی، گویا اس کے نزدیک یہ مظلوم دنیا میں جینے کا حق نہیں رکھتے ہیں؛ اس لیے صفحہٴ ہستی سے حرفِ غلط کی مانند ان کا نام ونشان مٹادینا ہی انسانیت کی خدمت اور حقوقِ انسانی کی پاسداری ہے۔ امریکہ اور اس کے نشانِ قدم کی پیروی کرنے والوں کا حق ونصاف سے عاری یہی وہ مذموم ومسموم رویہ ہے، جس نے دنیا کو دہشت گردی کے جہاں سوز عذاب میں مبتلا کررکھا ہے، اگر ان یک طرفہ مظالم اور نا انصافیوں سے یہ لوگ دست بردار ہوجائیں تو یقین جانئے کہ دنیا سے اسی دن دہشت گردی کا خاتمہ ہوجائے گا۔
اس موقع پر ہم حماس کے مجاہدین کی جرأت وعزیمت اور غیرت وحمیت کو سلام کیے بغیر نہیں رہ سکتے ہیں، اسرائیل کی جانب سے آٹھ سالہ اذیت ناک اور ہلاکت خیر ناکہ بندی کے باوجود ان کے پائے استقامت میں ادنیٰ لغزش نہیں آئی، اپنے دستیاب معمولی ہتھیاروں سے انھوں نے جدید اسلحوں سے لیس تازہ دم اسرائیلی فوج کا اس جرأت و حوصلہ سے مقابلہ کیا کہ ان کے سارے عزائم ومنصوبے خاک میں مل گئے، اسرائیل اسی خیال میں تھا کہ اس آٹھ سالہ سنگین حصار سے وہ اس قدر ٹوٹ گئے ہوں گے کہ ان میں تابِ مقاومت نہیں ہوگی، ہمارے اولیں حملہ ہی میں وہ بھاگ کھڑے ہوں گے؛ مگر اللہ کے ان مظلوم بندوں نے قدیم عرب مجاہدین کے صبر و استقامت کی یاد تازہ کردی، اسرائیل کے آتشیں گولوں سے ان کے گھر جلتے رہے، ان کے بچے بوڑھے اور عورتیں ان کی آنکھوں کے سامنے خاک وخون میں لوٹتے رہے پھر بھی وہ اس حوصلہ اور پامردی کے ساتھ اسرائیلی لشکر کا مقابلہ کرتے رہے کہ بعض محاذوں پر انھیں پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔
جنگوں میں ہتھیار ایک ناگزیر ضرورت ہے، جس سے بے توجہی بلاشبہ ایک جرم ہے، پھر بھی ان میں بالعموم سرخ روئی اور سرفرازی کا سہرا ایمان کی صداقت، خداے حیی وقیوم پر کلی اعتماد، مقصد سے والہانہ شیفتگی اور اخلاص وعزیمت ہی کے سر بندھا ہے، اسی ارضِ فلسطین اور بیت المقدس کو چھٹی صدی کے مجدد صلاح الدین ایوبی نے صلیب کے مشرکانہ پنجے سے واگزار کیا تو بتایا جائے کہ دنیا کی کتنی مادی طاقت ان کے پُشت پر تھی؟ کیا اس وقت کے مقابل حریف نے اپنی طاقت وقوت کو مجتمع کرنے میں کوئی کسر باقی چھوڑی تھی؟ تاریخ بتاتی ہے کہ روئے زمین کی ساری صلیبی طاقتیں ایک صلاح الدین کے مقابلہ کے لیے اس چھوٹے سے شہر میں اکٹھا ہوگئی تھیں، اس وقت کے تمام جنگ آزما سورما اور تاجدارانانِ کج کلاہ قیصر، فریڈرک، شیرول، اور شاہانِ انگلستان، فرانس، صفلیہ، آسٹریلیا وغیرہ سب نے متحدہ طور پر اپنی آہنی فوجوں کے ساتھ اس خطہٴ مقدس پر یلغار کی تھی اور اللہ کا ایک سچا بندہ ان سب کے مدمقابل تنہا اپنے مجاہدوں کے لیے کھڑا تھا، پھرکیاہوا! دنیانے کھلی آنکھوں دیکھا کہ اس ایمان ویقین کے دھنی، صبر واستقامت کے پیکر، حریمِ اسلام کے مخلص محافظ نے صلیبیوں کی متحدہ طاقت کو اس طرح پامال کیا کہ انھیں صدیوں سر اٹھانے کی ہمت نہیں ہوئی، انھوں نے مسیحی کمانڈر ریجی نالڈ کو جس وقت تہ تیغ کیا تو ان کی زبان پر یہ جملہ تھا ”ھَا أنَا انْتَصِرُ لِمُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم“ لو میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقام لے رہا ہوں، اس گستاخ نے مکہ ومدینہ پر حملہ کی بات کہی تھی، سلطان ایوبی کا یہ جملہ بتارہا ہے کہ ان کی لڑائی ملک وقوم اور حکومت وسلطنت کے لیے نہیں؛ بلکہ محض اللہ جل شانہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا اور خوشنودی کے لیے تھی، موٴرخین یہ بھی صراحت کرتے ہیں کہ وہ دن بھر میدان جنگ میں اس طرح بے تابانہ سرگرداں رہتے جس طرح ایک ماں اپنے نونہال کے لیے غمزدہ پھرتی ہے اور راتوں کو وہ خداے واحد اور مالکِ کائنات کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوکر اس قدر گڑگڑاتے کہ داڑھی آنسوؤں سے تر ہوجاتی تھی۔
ظاہری حرب وضرب کے ہتھیاروں کی قوت کے ساتھ ہمارے اسلاف اور پیش رو قائدین کی یہی وہ باطنی قوت تھی جس کے آگے بڑی سے بڑی مادی طاقتیں سرنگوں ہوجاتی تھیں۔ بدر وحنین اور قادسیہ ویرموک نے ہمیں جو راہ دکھائی تھی اسے چھوڑ کر ہم نے مغضوب علیہم اورضالّین کے راستے کو اختیار کرلیا ذلت و بے حیثیتی اور کج روی جن کے گلے کا ہار ہے، ہماری اسی رجعت قہقری کا وبال ہے جس سے قومِ مسلم آج دوچار ہے، اس عمومی بے راہ روی اور اس کی پاداش میں عمومی خانما بربادی کے عہد میں غزہ کے جوانوں نے اسلاف اور اپنے بزرگوں کا معمولی سا نمونہ پیش کیا تو ان کی مزاحمت کے آگے آلاتِ جدیدہ سے لیس اسرائیلی حیران وششدر ہے کہ ان کے اندر یہ طاقت کہاں سے آگئی ہے۔
افسوس کہ ہم نے اپنی کم ہمتی، غفلت شعاری، راحت پسندی اور ناعاقبت اندیشی سے اپنے دامن میں سب کچھ ہوتے ہوئے تہی دامنی کو اپنا نصیبہ بنالیا ہے، آج نہ ہمارے پاس ظاہری اسباب و وسائل ہیں جن سے دشمن طاقت کا مقابلہ کرسکیں اور نہ باطنی قوت کہ نصرتِ الٰہی ہماری دست گیری کرے، ہم نے خود اپنے کردار و اخلاق سے اپنے آپ کو اس قدر ناکارہ اور بے حیثیت بنالیا کہ وقت پڑنے پر ہم ایسے لوگوں کی طرف دیکھتے ہیں، ذلت و مسکنت جن کے گلے کا ہار اور جہالت وضلالت جن کی زندگی کا شعار ہے، کیا صورتِ حال ہمارے لیے تازیانہٴ عبرت نہیں ہے! اِنَّ فِی ذلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہ قَلْبٌ اَوْ اَلقیٰ السَّمْعَ وَھُوَ شَھِیدٌ․
———————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 8-9، جلد: 98 ، شوال، ذی قعدہ 1435 ہجری مطابق اگست، ستمبر 2014ء