از: مفتی ابوالخیر عارف محمود
استاذ ورفیق شعبہٴ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ، کراچی
تاریخ کا لغوی مفہوم
لغت میں ”تاریخ“ وقت سے آگاہ کرنے(کسی چیز کے واقع ہونے کاوقت بتانے) کو کہتے ہیں۔(۱)
اہل لغت کہتے ہیں کہ أرَّخْتُ الکتابَ: میں نے لکھنے کا وقت ظاہر کیا۔ علامہ اسماعیل بن حماد الجوہری (المتوفی ۳۹۳ھ) فرماتے ہیں کہ ”تاریخ اور توریخ“ دونو ں کے معنی وقت سے آگاہ کرنا ہیں؛ چناں چہ اس کے لیے”أرَّخْتُ“ بھی کہا جاتا ہے اور” وَرَّخْتُ“ بھی۔(۲)
بعض اہل لغت کہتے ہیں کہ تاریخ ”أرخ“ (بضم الھمزة و کسرھا) سے مشتق ہے ، أرخ وحشی گائے (نیل گائے) کے مادہ بچہ کو کہتے ہیں، اور اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ جس طرح بچہ نومولود ہوتا ہے، اسی طرح تاریخ بھی ایک نو ایجاد شئے ہے۔(۳)
تاریخ کا اصطلاحی مفہوم
تاریخ کی اصطلاحی تعریف میں بڑی بڑی موشگافیاں کی گئی ہیں،یہاں بعض کا تذکرہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔
۱۔اصطلاح میں تاریخ اس وقت کے بتانے کا نام ہے جس سے راویوں اور ائمہ کے سارے احوال وابستہ ہوتے ہیں، یعنی ان کی ولادت، وفات ، ان کی صحت و عقل ، طلبِ علم کے لیے سفر، ان کاحج ، ان کا حافظہ ، ضبط ، و اتقان ، ان کا عادل ہونا ،قابلِ جرح ہونا وغیرہ وغیرہ تمام باتیں جن کا تعلق ان کے احوال کے چھان بین سے ہو۔
۲۔یا اصطلاح میں تاریخ اس علم کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ بادشاہوں ، فاتحوں اورمشاہیر کے احوال، گزرے ہوئے زمانہ کے بڑے اور عظیم الشان واقعات و حوادث، زمانہٴ گزشتہ کی معاشرت ، تمدن اور اخلاق وغیرہ سے واقفیت حاصل کی جاسکے۔
۳۔بعض حضرات نے کہا کہ پھر اس مفہوم کو وسعت دے کر وہ سارے امور بھی اس سے ملحق کردیے گئے جو بڑے واقعات و حوادث سے متعلق ہوں، جنگوں ، امورِ سلطنت ،تہذیب و تمدن ، حکومتوں کے قیام ، عروج و زوال ، رفاہِ عامہ کے کاموں کی حکایت (وغیرہ) کو بھی تاریخ کہا گیا ہے۔
خلاصہ اور نتیجہ ان تمام اقوال کا یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ جو حالات و واقعات بقیدِ وقت لکھے جاتے ہیں ، ان کو تاریخ کہتے ہیں۔(۴)
تاریخ کی ضرورت وفوائد
تاریخ سے گزشتہ اقوام کے عروج و زوال ، تعمیر و تخریب کے احوال معلوم ہوتے ہیں، جس سے آئندہ نسلوں کے لیے کافی عبرت کا سامان میسر آتا ہے، حوصلہ بلند ہوتا ہے، دانائی و بصیرت حاصل ہوتی ہے اور دل و دماغ میں تازگی و نشو نما کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ، غرض تاریخ اس کائنات کا پس منظر بھی ہے اور پیش منظر بھی، اسی پر بس نہیں؛ بلکہ اس سے آئندہ کے لیے لائحہٴ عمل طے کرنے میں خوب مدد ملتی ہے۔(۵)
بہترین موٴرخ کون ؟
بہترین موٴرخ وہ ہوتا ہے جو سالم العقیدہ اور پاک مذہب ہو، جوکچھ لکھے وہ بیانِ واقعہ ہو، نہ کچھ چھپائے ، نہ کچھ بڑھائے۔ موٴرخ کے لیے ضروری ہے کہ وہ امانت و دیانت میں ممتاز ہو، ذہین ، نکتہ رس ، منصف مزاج ہونے کے ساتھ ادیب اور قادرالکلام بھی ہو، سیاسی، مسلکی وابستگی و تعصب سے پاک ہو، امراء و حکام کی خوشنودی اور مادی منافع اور جاہ ومنزلت کی خاطرحقائق کو توڑمروڑ کر، ضمیر فروشی کا مرتکب نہ ہو،تائیدی اسباب کے مختلف احتمالات میں پہلے سے کسی ایک جانب کو متعین نہ کرے،انصاف کے ساتھ صحیح اور درست سَمت کو اختیار کرے، وغیرہ وغیرہ۔(۶)
شرائط ِ موٴرخ
علامہ تاج الدین سبکی رحمہ اللہ ”قاعدة في الموٴرخین نافعة جداً “ کے عنوان سے تحریر فرماتے ہیں کہ اہلِ تاریخ بعض دفع کچھ لوگوں کو ان کے مقام و مرتبہ سے گرا کر اور کچھ کو اونچا کر کے پیش کرتے ہیں،یہ یا تو تعصب ،یا جہل ،یا غیر موثوق راوی کے نقل پر اعتمادِ محض وغیرہ کی وجہ سے ہوتا ہے،شاید ہی کسی تاریخ کو آپ اس سے خالی پائیں گے․․․اس بارے میں صحیح و صائب رائے ہمارے نزدیک یہ ہے کہ چند شرائط کے بغیر موٴرخین کی نہ مدح قبول کی جائے اور نہ ہی جرح،وہ شرائط یہ ہیں:
(۱)موٴرخ صادق ہو،(۲) روایت باللفظ پر اعتماد کیا ہو نہ کہ روایت بالمعنی پر،(۳)اس کی نقل کردہ روایت مجلسِ مذاکرہ میں سن کر بعد میں لکھی گئی نہ ہو،(۴) جس سے نقل کر رہا ہو اس کے نام کی صراحت کرے ،(۵)اپنی طرف سے کسی کے حالات بیان نہ کرے، (۶) تراجم میں کثرت نقل کو اختیار نہ کرے، (۷) مترجم لہ کے علمی اور دینی حالات سے پوری طرح واقف ہو ،(۸) حسن تعبیر کا مالک ہو اور الفاظ کے مدلولات سے واقف ہو، (۹) حسنِ تصور والا ہو یہاں تک کہ مترجم لہ کے تمام حالات اس کے سامنے ہوں،اس کے بارے میں ایسی عبارت لائے جو نہ اسے اس کے حقیقی مقام سے اونچا کرے اور نہ گرا دے، (۱۰) ہوی پرستی کا شکار نہ ہو کہ وہ اس کو اپنی محبوب شخصیت کی مدح میں اطناب اور دیگر کے بارے میں تقصیر پر مجبور کرے، یا تو ہویٰ سے بالکل پاک ہو یا اس میں ایسا عدل ہو جو اس کے ہویٰ کو مغلوب کر کے انصاف پر مجبور کرے۔(۷)
تاریخ ِقرونِ ثلاثہ
اس تمہیدی گفتگو کے بعد ہم اپنے اصل موضوع کی طرف لوٹ آتے ہیں، ہماری تحریر کا مقصد قرون ثلاثہ سے متعلق تاریخ کی تدوین اور دروغ گوراویوں کے کردار اور تاریخ کی تدوین جدیدکی ضرورت کے متعلق بحث کرناہے، اگرچہ تدوینِ حدیث بھی تاریخ ہی کا ایک حصہ ہے؛ مگر وہ ہمارا موضوعِ بحث نہیں ،اس سے متعلق سرسری اشاروں پر اکتفا کریں گے، اسلام میں تاریخ نویسی کی ابتدا تو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہٴ مبارک سے ہوئی کہ صحابہ رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرایا وغزوات کے حالات نہ صرف اپنے سینوں میں محفوظ رکھتے تھے ؛بلکہ اپنی اولاد کو بھی انھیں یاد کرنے کی ترغیب دیا کرتے تھے؛ لیکن باقاعدہ تمام اخبار و وقائع کو بصورتِ تاریخ مدون کرنے کا کام دوسری صدی ہجری میں بنو عباس کے عہدِ حکومت میں شروع ہوا، ابتدا میں واقعات کو بیان کرنے کے لیے سند کا اہتمام کیا گیا؛ یہاں تک کہ اشعار بھی سند کے ساتھ بیان کیے جاتے تھے؛ چناں چہ تاریخِ طبری اور کتاب الأغانی اس کا مظہر ہیں؛ لیکن یہ واضح رہے عام اخبار و قائع اور اشعار کے راویوں کی بابت بحث و تمحیص اور تحقیق کے باب میں وہ اہتمام اور شدت نہیں برتی گئی جو روایاتِ حدیث کے متعلق بحث وتمحیص اور تحقیق کے باب میں برتی گئی۔
تدوینِ تاریخ میں کار فرما ایک نفسیاتی ضابطہ
یہ بات تو ہر عام و خاص پر واضح ہے کہ انسانی تاریخ میں جب بھی ایک قوم و قبیلہ یا جماعت و پارٹی کی حکومت و اقتدار کو ختم کر کے دوسری مقابل قوم و قبیلہ یا جماعت و پارٹی بر سرِ اقتدار آتی ہے تو وہ اپنے پیش رو حکمرانوں کی تمام خوبیوں ، محاسن ، اور تعمیری کاموں کو بھی خامیوں ، برائیوں اور تخریب باور کروانے کے لیے پوری حکومتی مشینری کے ساتھ مل کر ایڑی چوٹی کا زور لگاتی ہے، تدوینِ تاریخ اسلامی کے وقت بھی یہ نفسیاتی ضابطہ کار فرما رہا، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے درمیان مصالحت کے بعد سے تقریباً ۱۳۲ ہجری تک عالمِ اسلام پر بنوامیہ کی حکومت رہی، پھر اس کے بعد ۱۳۲ہجری بموافق ۷۴۹ء بنو عباس کے ایک شخص ابو العباس السفاح نے بنو امیہ کی حکومت ختم کر کے بنو عباس کی حکومت کی داغ بیل ڈالی۔
یہ بات بھی بالکل عیاں ہے کہ بنو عباس اور بنوامیہ میں باہمی مخالفت اس درجہ تھی کہ ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرسکتے تھے؛ لہٰذا جب بنو عباس کے دورِ حکومت میں تاریخ کی تدوین شروع ہوئی تو عام طور سے تاریخی و قائع و حوادث کو مرتب کرنے میں اسی نفسیاتی ضابطہ کو پیشِ نظر رکھا گیا؛ بلکہ بعض موٴرخین نے حکومتی ظلم و ستم سے بچنے یا حکامِ وقت کی خوشنودی کی خاطر اور اپنی معاشی و تمدنی حالت کو مستحکم کرنے کے لیے مذکورہ بالا طرز ہی اختیار کیا۔
علامہ شبلی کی گواہی
قریبی دور کے ایک مشہور موٴرخ علامہ شبلی نعمانی رحمة اللہ علیہ نے اپنی تصنیف” الإنتقاد علی التمدن الإسلامي“ میں اسلامی تاریخ کی ابتدائی تدوین کا بہترین جائزہ پیش کیا ہے، چناں چہ لکھتے ہیں : ” اسلامی تاریخ کے موٴرخین عموماً بنو عباس کے عہد میں (پیدا) ہوئے اور یہ بات بھی معلوم ہے کہ عباسیوں کے عہد میں بنو امیہ کی خوبی کی کوئی چیز (بھی) اتفاقاً صادر ہوجاتی تو اس کے قائل کو کئی قسم کی ایذاوٴں کا سامنا کرنا پڑتا اور ہتکِ عزت کے علاوہ ناموافق انجام سے بھی دو چار ہونا پڑتا تھا، دفترِ تاریخ میں اس قسم کی کئی مثالیں موجود ہیں “۔(۸)
راویوں کا نظریاتی کردار
اس کے علاوہ تاریخی واقعات کو نقل کرنے والے راویوں کے نظریات اور مذہبی رجحانات نے بھی ان واقعات کو بیان کرنے اور اس کے لیے اختیار کی جانے والی تعبیر میں مرکزی کردار ادا کیا، خصوصاً جب انھیں روایت با لمعنی کی عام اجازت بھی حاصل تھی؛ چناں چہ بہت سارے گمراہ عقائد و افکار کے حامل راویوں نے قرونِ ثلاثہ سے متعلق واقعات کو اپنے مذہبی رجحانات و نظریاتی افکار کے تحت حقائق کو نظر انداز کرکے اس طرح بیان کیا کہ اس سے حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعین کے بارے میں بہت سارے مطاعن پید ا کیے گئے۔
دروغ گو راویوں کے ظہور کے اسباب و اہداف
قارئین کرام! اگر آپ قرون ثلاثہ کی تاریخ کا باریک بینی سے جائزہ لیں گے تو تدوین کے اس زمانہ میں جھوٹ کے ظاہر ہونے کے اسباب و اہداف میں تداخل پائیں گے، بسا اوقات ایک ہی واقعہ میں سبب اور ہدف دو نوں پائے جائیں گے، اگر آپ نفس واقعہ کی طرف دیکھیں گے تو آپ کو اس کا سبب نظر آئے گا؛ لیکن اسی واقعہ پر نتیجہ کے اعتبار سے غور کیا جائے تو اس کی ایک غرض بھی سامنے آئے گی۔غرض دروغ گوئی کے بعض ایسے بنیادی اور واضح اسباب ہیں ، جن کی وجہ سے قرون ثلاثہ کے دوران عام طور سے اور تدوین تاریخ کے وقت خاص طور سے دروغ گوئی نے جڑ پکڑ لی تھی۔
دروغ گوئی کے اہم اور بنیادی اسباب
ویسے تو دروغ گوئی کے اسباب کثیر تعداد میں ہیں ، ہم یہاں صرف چنداہم اور بنیادی اسباب کے ذکر پر اکتفا کریں گے۔
۱- سیاسی اختلافات ۲- فکری اور مذہبی گمراہی و بے اعتدالی۔
۳- باطنی امراض (کفر و نفاق اور زندقہ)
سیاسی اختلافات
بنیادی طور پر سیاسی اختلافات ہی وہ اہم سبب ہے جس نے امتِ مسلمہ کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے باہم مقابل فرقوں میں بانٹ کر ایک دوسرے کے خون کا پیا سا بنادیا ، سیاسی اختلافات کی ابتدا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کے آخری ایام میں ہوئی جس کا سلسلہ بعد کے زمانوں میں مختلف صورت میں جاری رہا۔
فکری اور مذہبی گمراہی
فکری اور مذہبی گمراہی نے اسی سیاسی فتنہ کے بطن سے جنم لیا، اس اندھے سیاسی فتنہ نے فکری اور مذہبی انحراف کو مزید گہرا کر کے نہ صرف اسے بنیاد فراہم کیا؛ بلکہ اس کا دفاع کر کے اسے ایک مقدس ، شرعی و مذہبی رنگ دے دیا ، جیسا کہ صراطِ مستقیم سے انحراف کرنے والے، اسلام کی طرف منسوب بہت سارے گمراہ فرقے خوارج و روافض وغیرہ کا حال یہی ہے کہ دونوں نے سیاسی فتنہ کے بطن سے جنم لے کر اسی کی گود میں پر ورش پائی اور اس کی تائید سے صراط مستقیم سے منحرف ان فرقوں نے ایک مقدس مذہبی رنگ کا لبادہ اوڑھ لیا ، جن کی قداست کے پسِ پردہ امت مسلمہ کو گزشتہ تیرہ صدیوں سے لہو لہان کیا جارہا ہے۔
امراض باطنی
باقی رہی بات امراض باطنی کی، جیسا کہ کفر ، نفاق،زندقہ، حسد، کینہ ، دنیا کی محبت و حرص وغیرہ یہ وہ اسباب ہیں جنہوں نے بہت سارے لوگوں کو دروغ گوئی، اس میں مہارت و امتیاز حاصل کرنے پر ابھارا اور مجبور کیا، پھر اس کے برے اور زہریلے اثرات میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب ان امراض باطنی اور سیاسی و مذہبی اختلافات میں امتزاج ہوا۔
غرض یہی وہ مرکزی اور گہرے و بنیا دی اسباب تھے جنہوں نے ان دروغ گو راویوں کے لیے زمین ہموار کی اور فضاو ماحول کو سازگار بنایا جس کی وجہ سے وہ نہ صرف جھوٹ و دروغ گوئی کی طرف متوجہ ہوئے؛ بلکہ اس میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی سعی نامسعود کی؛ تاکہ اپنے زعمِ باطل کے مطابق اس دروغ گوئی کے سہارے اپنے مذہب کی خدمت، مصالح کے حصول اور شہوات کی تکمیل کرسکیں ۔
مخصوص فکری و مذہبی فرقہ کی تائید و نصرت
دروغ گوئی و کذب کے ظاہر ہونے کے اسباب میں ایک سبب صراط مستقیم سے منحرف رہنے والے مخصوص فکری و مذہبی فرقہ کی تائید و نصرت بھی ہے ، علامہ ذھبی رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ دروغ گواورکذّاب احمد بن عبداللہ جو یباری فرقہ کرامیہ کی نصرت و دفاع کی خاطر محمد بن کرام کے لیے احادیث گھڑا کرتا تھا اور محمد بن کرام انھیں اپنی کتابوں میں ذکر کرتا تھا۔ (۹)اس طرح دروغ گو و کذّاب قاضی محمد بن عثمان نصیبی روافض کی تائید و نصرت کی خاطر احادیث گھڑاکرتا تھا، اور ابو جارود بن منذر کوفی مثالبِ صحابہ میں احادیث وضع کیا کرتا تھا، عبدالرحمن بن خراشی شیعی کابھی یہی وطیرہ تھا، اس نے حضرات شیخین رضی اللہ عنہم کے مزعومہ مثالب میں دو رسالے تحریر کرکے روافض کے ایک بڑے پیشوا کی خدمت میں پیش کیا تو اس نے اسے دو ہزار درھم انعام میں دیے۔(۱۰)
قارئین کرام! غور فرمائیں کہ مذکورہ بالا تینوں افراد کا ہدف و مقصد وضعِ حدیث سے صرف اپنے مخصوص فرقہ کے فکری و اعتقادی افکار کی تائید کے علاوہ کچھ نہیں، یہ لوگ انبیاء کرام کے بعد بالاتفاق خیرالبشر و افضل البشر صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف زبان درازی اور دلی کینہ کے اظہار کی غرض سے دروغ گوئی کیا کرتے تھے، روافض نے اہل بیت و حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تین ہزارکے قریب جعلی احادیث وضع کی ہیں۔(۱۱)
ترغیب و ترہیب
دروغ گوئی کے اہداف میں ایک ہدف لوگوں کو دین کی ترغیب دینا اور ان کے دلوں کو نرم کرنا اور اپنے مزعومہ نظریہ کے مطابق لوگوں کو اجر کی امید دلانا اور گناہ سے روکنے کے لیے ترہیب بھی تھا، جیسا کہ بعض جہل گزیدہ نام نہاد صوفیوں نے اس قبیح فعل کا ارتکاب کیا۔
مادی و معاشی فوائد کا حصول
دروغ گوئی کے مرکزی اہداف و اسباب میں ایک بڑا اور بنیادی سبب جاہل عوام کو اپنی طرف مائل کر کے ان سے مادی و معاشی فوائد حاصل کر کے اپنی خواہشات کو پورا کرنا بھی تھا، یہ طرزِ عمل مخصوص گمراہ فرقوں کے علاوہ قصہ گو اور واعظ قسم کے لو گوں نے بھی اختیار کیا تھا، یہ لوگوں کو جھوٹی روایات ، عجیب و غریب اور محیرالعقول قسم کی باتیں گھڑ کر سنایا کرتے؛ تاکہ لوگ ان سے متأثر ہو کر ان کی مادی و معاشی ضروریات کی تکمیل میں معاونت کریں۔حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ نے میں لکھا ہے کہ ابراہیم بن فضل اصفہانی (المتوفی ۵۳۰ھ)اصفہان کے بازار میں کھڑے ہو کر اسی وقت اپنی طرف سے احادیث گھڑ کر لوگوں کو سنایا کرتا تھا اور ان روایاتِ کاذبہ کے ساتھ صحیح روایات کی اسانید کو جوڑا کرتا تھا۔(۱۲)
شخصی یا گروہی مفادات
جھوٹ میں منافست کا ایک سبب اپنے شخصی یا گروہی مفاد کے لیے بعض بر گزیداور بڑے لوگوں کی مدح یا مذمت میں احادیث وضع کرنا بھی تھا،جیسا کہ روافض کا یہ عمومی حال تھا، علامہ ذہبی نے امام مازری کے حوالہ سے لکھا ہے کہ نعیم بن حماد امام اعظم ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کے مثالب میں جھوٹی روایات و ضع کیا کرتا تھا، (۱۳) علامہ ذہبی ہی نے لکھا ہے کہ احمد بن عبداللہ جو یباری نے امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کی مدح میں ایک حدیث وضع کی تھی۔(۱۴) ان تمام اسباب و اہداف میں غور و فکر سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کذب و دروغ گوئی کے پھلنے اور پھولنے کی بنیاد تو ان دروغ گوراویوں کے باطنی امراض کے سبب وجود پذیر ہوئی ؛ لیکن سیاسی ، گروہی اور مادی و معاشی عوامل نے اس کی گہرائی و نشاط میں اضافہ کر کے اسے مزید سہ آتشہ بنایا۔
تاریخ اسلامی پر جھوٹ کے برے اثرات
دروغ گوراویوں کے اس مخصوص مکتبہٴ فکر نے ہماری پوری تاریخِ اسلامی پر عام طور سے اور قرونِ ثلاثہ پر خاص طور سے بہت سے زہریلے اور بُرے اثرات چھوڑے ، مقامِ فکر یہ ہے کہ ان دروغ گو اور گذّاب( اور متہم بالکذب) لوگوں کی روایات ہماری تاریخ ، ادب اور دینی تصانیف میں سرایت کر گئیں، اور ان کے ایک بڑے اور معتدبہ حصہ کو اپنے جھوٹ سے فاسد کرڈالا، جس کے نتیجہ میں ثقہ روایات کے ساتھ ابا طیل، خرافات و متنا قضات،ان کتابوں میں شامل ہوگئیں۔
تاریخِ طبری کا ایک سرسری جائزہ
جن حقائق کا ہم نے گزشتہ سطور میں تذکرہ کیا ، ان کا ہماری اسلامی تاریخ سے کتنا تعلق ہے اور اس کے کیا برے اثرات مرتب ہوئے ،ان کا ایک سر سری جائزہ لینے کی غرض سے ہم نے کتبِ تاریخ میں سے علامہ ابن جریر بن یزیدطبری (المتوفی: ۳۱۰ھ) کی مشہور و معروف تصنیف ”تاریخ الأمم والملوک المعروف بتاریخ الطبری“ کا بطور نمونہ کے انتخاب کیا ہے، تاریخِ طبر ی ہماری عہدِ اسلامی کی تاریخ کا اہم مصدر ہو نے کے علاوہ قرونِ ثلاثہ کے حوالہ سے سب سے اہم ، کثیر المعلومات اور مستند کہی جانے والی کتاب ہے؛ اس لیے طبری اور ان کی کتاب کا مختصر سا تعارف پیش کرنے کے بعد ہم اپنے اصل موضوع پر گفتگو کریں گے؛ تاکہ قاری پر یہ بات واضح ہو جائے کہ علامہ طبری خود توثقہ ہیں؛ لیکن ان کی کتاب رطب و یابس کا مجموعہ ہے۔
ابن جریر طبری کا مختصر تعارف
نام: محمد ، ولدیت: جریر،دادا کا نام: یزیداور کنیت: ابو جعفر ہے ، پیدائش طبرستان میں ہوئی،اس کی نسبت سے ”طبری“ کہلاتے ہیں۔ سنہ ولادت میں دو قول ہیں:(۱)۲۲۴ھ کے اخر میں، (۲)۲۲۵ھ کے اول میں۔ابن جریر خود اپنے ابتدائی حالاتِ زندگی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے سات سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ یاد کرلیا ،آٹھ سال کی عمر میں لوگوں کو نمازیں پڑھانا شروع کردیں اور نوسال کی عمر میں حدیث لکھنا شروع کردیاتھا۔ ابن جریر طبری نے علوم و فنون کی تکمیل کے لیے مختلف علماء اورعلاقوں کی طرف اسفار کیے۔ عراق میں ابو مقاتل سے فقہ پڑھی، احمدبن حماد دولابی سے کتاب ”المبتدا“ لکھی ،مغازی محمد بن اسحاق بواسطہ سلمہ بن فضل حاصل کیے اور اسی پر اپنی تاریخ کی بنیاد رکھی۔کو فہ میں ھناد بن سری اور موسی بن اسماعیل سے حدیث لکھی ، سلیمان بن خلادطلحی سے قرآت کا علم حاصل کیا پھر وہاں سے بغداد لوٹ آئے، احمد بن یوسف تغلبی کی صحبت میں رہے اور اس کے بعد فقہِ شافعی کی تحصیل کی طرف متوجہ ہوئے اور اسی کو اپنامسلک ٹھہرا کر کئی سال تک اس کے مطابق فتویٰ دیتے رہے، بیروت میں عباس بن ولید بیروتی سے شامیوں کی روایت میں قرآت و تلاوت مکمل کی۔
مصر میں بھی ایک طویل دور تک قیام پذیر رہے، اسی اثنا میں شام چلے گئے پھر لوٹ آئے اور امام مزنی اور عبدالحکم کے صاحبزادوں سے فقہ شافعی کا علم حاصل کیا اورابن وھب کے شاگردوں سے فقہ مالکی کی تحصیل کی ۔غرض علامہ طبری نے حدیث ، تفسیر ، قرآت ، فقہ ،تاریخ، شعر و شاعری اور تمام متداول علوم و فنون میں مہارت حاصل کر لی تھی۔ مختلف عنوانات پر ۲۶ کے قریب کتابیں تصنیف کیں ، ان میں تفسیر طبری کے علاوہ تاریخ طبری بہت زیادہ مشہور و معروف ہے۔(۱۵)
تاریخ طبری کا مختصر تعارف
اس کتاب کا نام ”تاریخ الرسل والملوک “ یا ”تاریخ الأمم و الملوک“ہے؛ البتہ ”تاریخ طبری“ کے نام سے عوام و خواص میں مشہور ہے۔ علامہ طبری کی یہ تصنیف عربی تصانیف میں مکمل اور جامع تصنیف شمار کی جاتی ہے، یہ کتاب ان سے پہلے کے موٴرخین یعقوبی ، بلاذری ، واقدی، ابن سعد وغیرہ کے مقابلہ میں اکمل اور ان کے بعد کے موٴرخین ، مسعودی، ابن مسکویہ ، ابن اثیر اور ابن خلدون وغیرہ کے لیے ایک رہنما تصنیف بنی۔معجم الادباء میں یا قوت حموی نے لکھا ہے کہ ابن جریر نے اپنی اس تالیف میں۳۰۲ ھ کے آخر تک کے واقعات کو بیان کیا اور بروز بدھ ۲۷ ربیع الاول ۳۰۳ھ میں اس کی تکمیل کی۔(۱۶)
طرزِ نگارش
ابن جریر نے اپنی تاریخ کی ابتدا حدوثِ زمانہ کے ذکر ، اول تخلیق یعنی قلم و دیگر مخلوقات کے تذکرہ سے کی، پھر اس کے بعد آدم علیہ السلام اور دیگر انبیاء و رسل کے اخبار و حالات کو تورات میں انبیاء کی مذکورہ ترتیب کے مطابق بیان کیا؛ یہاں تک کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تک تمام اقوام اور ان کے واقعات کو بھی بیان کیا ہے۔اسلامی تاریخ کے حوادث کو ہجرت کے سال سے لے کر ۳۰۲ھ تک مرتب کیا اور ہر سال کے مشہور واقعات و حوادث کو بیان کیا۔اس کے علاوہ اس کتاب میں حدیث ، تفسیر ، لغت ، ادب ، سیرت ، مغازی ، واقعات و شخصیات ، اشعار، خطبات اور معاہدات وغیرہ کو خوبصورت اسلوب میں مناسب تر تیب کے ساتھ ہر روایت کو اس کے راوی اور قائل کی طرف (بغیر نقد و تحقیق کے ) منسوب کیا کہ اس کو کتاب اور فصول کے عنوان سے تقسیم کرکے ان کو علماء کے اقوال سے مزین کیا ہے۔
مصادرِ تصنیف
طبری نے اپنی اس تصنیف کے لیے جن مصادر کا انتخاب کیا وہ یہ ہیں:(۱) تفسیر مجاہد اور عکرمہ وغیرہ سے نقل کی،(۲)سیرت ابان بن عثمان ، عروہ بن زبیر ، شرجیل بن سعد ، موسی بن عقبہ اور ابن اسحاق سے نقل کی،(۳)ارتداد اور فتوحاتِ بلاد کے واقعات سیف بن عمر اسدی سے نقل کیے، (۴)جنگ جمل اور صفین کے واقعات ابو مخنف اور مدائنی سے نقل کیے،(۵) بنو امیہ کی تاریخ عوانہ بن حکم سے نقل کی،(۶)بنو عباس کے حالات احمد بن ابو خیثمہ کی کتابوں سے لکھے، (۷)اسلام سے قبل عربوں کے حلات عبید بن شریة الجر ھمی ، محمد بن کعب قرظی اور وھب بن منبہ سے لیے،(۸)اہل فارس کے حالات فارسی کتابوں کے عربی ترجموں سے لیے،(۹)پوری کتاب میں مصنف کا اسلوب یہ ہے کہ واقعات و حوا دث اور روایات کو ان کی اسناد کے ساتھ بغیر کسی کلام کے ذکر کرتے چلے گئے ہیں،(۱۰)جن کتابوں اور موٴلفین سے استفادہ کیا ہے تو جگہ جگہ ان کے ناموں کی صراحت کی ہے،(۱۱)تاریخِ طبری کے بہت سارے تکملات لکھے گئے اور کئی لوگوں نے اس کا اختصار بھی کیا اور خود طبری نے سب سے پہلے اس کا ذیل لکھا ، بعض حضرات نے اس کا فارسی میں ترجمہ کیا، پھر فارسی سے ترکی زبان میں بھی ترجمہ کیا گیا۔(۱۷) (باقی اگلے ماہ)
$ $ $
حواشی و حوالہ جات
(۱) القاموس المحیط للفیروز آبادی،فصل الھمزة:۱/۳۱۷، المحکم والمحیط الأعظم لابن سیدة ، فصل الخاء واللام والھمزہ: ۵/۲۳۸،دار الکتب العلمیة، المعجم الوسیط باب الھمزة:۱/۱۳،دار النشر، تاج العروس،أرخ: ۷/۲۲۵،دار الھدایة، لسان العرب،أرخ:۳/۴،دار صادر
(۲) الصحاح : ۱/۴۴۰ ، مختار الصحاح ، باب الألف :۱/۱۳،مکتبة لبنان ناشرون
(۳) القاموس المحیط للفیروزآبادي، فصل الھمزة:۱/۳۱۸، المحکم والمحیط: ۵/۲۳۸، المغرب ، الھمزة مع الراء ۱: ۳۵ ،مکتبة أسامة بن زید حلب، لسان العرب: ۳/۴ ، الصحاح:۱/۴۴۰
(۴) تفصیل کے لیے دیکھئے : الشماریخ في علم التاریخ للسیوطي: ۱/۱۰۔۱۴،الدار السلفیة کویت ، تاریخ ابن خلدون : ۱/۳، ۹،۳۵، تاریخ الإسلام للذھبي: ۱/۱۲،دار الکتاب العربي، تاریخ الطبري: ۱/۱۲، دار الکتب العلمیة
(۵) الکامل في التاریخ : ۱/۹،دار الکتب العلمیة ،الشماریخ في علم التاریخ للسیوطي: ۱/۱۴
(۶) تفصیل کے لیے دیکھیے : تاریخ اسلام ،مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی :۱/۲۳،۲۴۔مکتبة العلم کراچی
(۷) طبقات الشافعیة:۱/۱۹۷،۱۹۸، دار المعرفة،بیروت
(۸) بحوالہ سیرت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ: ۲/۱۲،دار لکتاب لاہور
(۹) میزان الاعتدال :۱/۲۴۵،دار لکتب العلمیة
(۱۰) تفصیل کے لیے دیکھیے: الضعفاء لابن الجوزاي: ۳/۸۴، ۴/۳۶۵،دار لکتب العلمیة، لسان المیزان : ۳/۴۴۴
(۱۱) میزان الاعتدال:۲/۱۷۱
(۱۲) لسان المیزان :۱/۱۳،موٴسسة الأعلمي بیروت
(۱۳) میزان الاعتدال :۷/۴۴
(۱۴) میزان الاعتدال :۲۴۵۱
(۱۵) طبقات الشافعیة الکبریٰ للسبکي:۲/۱۳۵․۱۳۸، تذکرة الحفاظ : ۲/۷۱۰․۷۱۶،دار الصمیعي، میزان الاعتدال :۳/۴۹۸،۴۹۹،لسان المیزان :۵/۱۰۰،۱۰۳،وفیات الأعیان لابن خلکان: ۴/۱۹۱، دار صادر، الأعلام للزرکلی:۶/۶۹،دار العلم للملایین
(۱۶) معجم الأدباء:۶/۵۱۶،موٴسسة المعارف
(۱۷) مقدمة ملحقة فيبدایة تاریخ الطبري،ص۷،۸،دار الکتب العلمیة
——————————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 5، جلد: 98 ، رجب 1435 ہجری مطابق مئی 2014ء