از:مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی

 دارالسلام اسلامی مرکز۔ مالیرکوٹلہ

جب سے انسان نے اللہ کی اس زمین پر قدم رکھا ہے اس کے سامنے دو نقطئہ نظر رہے ہیں:

                ایک یہ کہ انسان کی زندگی ماں کی گود سے شروع ہوتی ہے اور زمین کی گود پر ختم ہوجاتی ہے اسے آپ زندگی کا ”مادی تصور“ کہہ سکتے ہیں۔

                دوسرا نقطئہ نظر یہ ہے کہ دنیا کی یہ زندگی ہی کل زندگی نہیں ہے؛ بلکہ پوری زندگی کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے اسے ہم زندگی کا ”مذہبی تصور“ کہہ سکتے ہیں۔

                زندگی کے پہلے نقطئہ نظر یعنی ”مادی تصور“ کے مطابق انسان ان ہی چیزوں کو اہمیت دے گا جن کی اسے اس مادی زندگی میں ضرورت ہے۔

                ان دنیاوی چیزوں میں اس کے لیے معاش کا مسئلہ سب سے اہم مسئلہ ہے۔

                زندگی کے ”مذہبی تصور“ کے مطابق زندگی کے سارے مسائل میں انسان کا بنیادی مسئلہ یہ ٹھہرتا ہے کہ وہ اپنے نفس کو غلط خواہشات سے پاک وصاف کرے اور اس کو اللہ کے احکام کے تابع بنائے۔

                اسلام نہ تو مادی ضروریات سے کنارہ کشی کی دعوت دیتا ہے، نہ مادے اور روح میں تفریق کرکے، انھیں الگ الگ رکھ کر ان کی ترقی کی الگ الگ راہیں تجویزکرتا ہے؛ بلکہ وہ ایسی شاہراہ متعین کرتا ہے، جس پر روح اور مادہ دونوں مل کر ساتھ سفر کرسکیں اور انسان کو اس کی منزل پر پہنچاسکے۔

                یہ نظامِ زندگی انسانیت کی صحیح تعمیر اور اس کی مکمل ترقی کی ضمانت دیتا ہے، اس نظام کا ایک ایک جز اور ایک ایک حصہ اصل مقصد کا خادم ہے۔

                معیشت اور اقتصاد بھی اس نظام کا ایک حصہ ہے، اسلام نے اقتصادی اور معاشی نظام کی تشکیل ایسے حکیمانہ انداز میں کی ہے کہ وہ انسان کے لیے تزکیہٴ نفس کا ایک فطری ذریعہ اور انسانیت کی ترقی کا ایک وسیلہ اور زینہ بن جائے۔

اسلام میں دولت کا مقام

                اسلام ایک دین ہے جس کا نصب العین ہے کہ انسان کو خالقِ کائنات کی مرضیات کے مطابق زندگی بسر کرنے کا ڈھنگ بتائے اور اس کی بخشی ہوئی تمام قوتوں سے صحیح طور پر کام لے اور اس طرح دونوں جہان کی وسعتوں میں پھیلی ہوئی اپنی زندگی کو خوشگوار اور بامراد بناسکے۔

                چنانچہ اسلام مال ودولت کو زندگی کے قیام کا ذریعہ اور اللہ کا فضل قرار دیتا ہے اور اس کے کمانے کا حکم دیتا ہے۔

                فرمایا: اَمْوَالَکم التی جَعَلَ اللہُ لَکُمْ قیاماً․

                ترجمہ: تمہارے وہ مال جن کو اللہ نے تمہاری زندگی کے قیام کا ذریعہ بنایا۔

                اور فرمایا: وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللہِ ۔  ترجمہ: اور اللہ کا فضل تلاش کرو!۔

نوعِ انسانی کا مشترک ذخیرئہ رزق

                اللہ تعالیٰ نے یہ ساری دولت پوری نوعِ انسانی کی زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے پیدا کی ہے، زمین کے اوپر اور اس کے پیٹ میں جو کچھ بھی ہے؛ اس لیے ہے کہ اللہ کی مخلوق کے لیے رزق کے سامان اور زندگی کی ضروریات فراہم ہوں۔

                فرمایا: خَلَقَ لَکُمْ مَا فِی الْأرْضِ جَمِیْعاً․ ترجمہ: زمین میں جو کچھ ہے وہ تم سب کے لیے پیدا کیاہے۔

                 اور زمین میں ہی نہیں؛ بلکہ فضاؤں میں بھی جو کچھ ہے وہ بھی تمام انسانوں کے لیے ہے۔

                فرمایا: وَسَخَّرَلَکُمُ اللَّیْلَ والنَّھَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرَاتٍ بِأمْرِہ․

                ترجمہ: تمہارے لیے رات اور دن کو مسخر کردیا ہے اور چاند اور سورج کو اور ستارے اس کے حکم کے تابع ہیں۔

                گویا یہ پوری دنیا اور اس کے وسائل دنیا کے تمام انسانوں کا مشترک سرمایہ ہیں اور ہر فرد کا بنیادی حق ہے کہ اس میں حصہ پائے۔

                ہر شخص یہ بنیادی حق کس طرح حاصل کرتا ہے، اسلام کا اقتصادی نظام اسی سوال کا جواب ہے۔

اسلام کا اقتصادی نظام

                جس دولت کو اسلام نے اتنی اہمیت دی ہے کہ اس کو اللہ کا فضل قرار دیاہے، اس کے حاصل کرنے اور اس کی تقسیم کا نظام بھی اس نے اس کے شایانِ شان بنایا ہے۔

                یہ حقیقت ہے کہ تمام انسانوں میں کسبِ معاش کی صلاحیتیں ایک جیسی نہیں ہوتیں اور سب کے لیے حالات سازگار نہیں ہوتے؛ اس لیے کچھ لوگوں کو ضرورت کے مطابق بھی معاش حاصل نہیں ہوتا ہے۔

                اور ایک طبقہ وہ ہوتا ہے جو اپنی ضرورت کے مطابق ہی حاصل کرپاتا ہے۔

                تیسرا طبقہ وہ ہوتا ہے جو اپنی ضرورتوں سے بڑھ کر حاصل کرلیتاہے۔

                ایک اچھا اقتصادی اور معاشی نظام وہ ہوتا ہے، جو معیشت کے اختلاف کو اعتدال کے حدوں سے آگے بڑھنے نہ دے اور ایسی صورت پیدا نہ ہونے دے کہ دوسرا طبقہ محرومی کی حالت میں مبتلا رہے۔

اسلام میں معاشی حقوق کے ضوابط

                اسلام کے اقتصادی اور معاشی نظام کی اصل بنیاد اخلاق ہے؛ لیکن اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ انسان فرشتہ نہیں ہے، اس کی نظروں میں ہمیشہ زندگی کی اعلیٰ قدریں نہیں رہتیں؛ اس لیے اسلام نے معاشرے کے حاجت مند افراد کی ضروریات کو پورا کرنے کا کام صرف مالداروں کے احساسِ ذمہ داری پر نہیں چھوڑا؛ بلکہ ایسا جامع نظام پیش کیا جس میں قابلِ اطمینان حل موجود ہے۔

                اسلام نے معاشی حقوق کا جو صابطہ بنایا ہے، وہ درج ذیل دفعات پر مشتمل ہے:

                ۱-            سب لوگوں کے لیے کسبِ معاش کی کھلی آزادی۔

                ۲-           جولوگ اپنی صلاحیتوں اور حالات کے سازگار ہونے کی وجہ سے زیادہ ذرائع حاصل کرلیں، ان پر دو طرح کی ذمہ داریاں ہیں:

                ایک ذمہ داری یہ ہے کہ اہلِ ثروت کو اپنی آمدنی کا ایک حصہ لازماً اپنے غریب بھائیوں کو دینا پڑے گا۔

                دوسرے یہ کہ دولت کمانے اور دولت خرچ کرنے کے ان طریقوں کی ممانعت ہوگی، جن سے دنیا میں دولت پرستی پیدا ہوتی ہے۔

                ۳-          کوئی شخص یا ادارہ دولت سے دولت پیدا نہیں کرسکتا، یعنی سود مہاجنی ہو یا تجارتی یا بینک کے ذریعے، اس میں اپنی دولت نہیں لگاسکتا، اسلام کی نظر میں سود انتہائی سنگین جرم ہے اور سود لینے والا لعنت کا مستحق ہے، اس کے ساتھ سود دینے والا، سودی معاملات کی دستاویز لکھنے والا اور اس کے گواہ سب اس لعنت میں شریک ہیں۔

                ۴-          کوئی مشترک تجارتی ادارہ ایسا کاروبار نہیں کرسکتا جس میں ایک فریق کا نفع تو متعین ہو؛ مگر دوسرے کا محض اتفاق کے حوالے ہو۔

                ۵-           ایسے لین دین ممنوع ہیں جن میں دھوکا ہوسکتا ہے، مثلاً جس چیز کا سودا ہورہا ہے وہ سامنے موجود نہ ہو یا اس کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ وہ چیز کیسی ہے۔

                ۶-           جو چیزیں دیکھنے والے کے اختیار میں نہ ہوں ان کو وہ محض اپنے موہوم اختیار کے ذریعے نہیں بیچ سکتا، مثلاً اڑنے والے پرندے، زیرملکیت تالاب کی مچھلیاں، زمین کے اندر پٹرول، کوئلہ، تانبہ، سونا چاندی، کوئی بھی معدنی چیز؛ اس لیے کہ وہ زمین آپ کی مملوکہ ہے آپ بیچ نہیں سکتے اور نہ کوئی آپ سے خریدسکتا ہے۔

                ۷-          ذخیرہ اندوزی منع ہے، چاہے تاجر کرے یا صنعت کار۔

                ۸-          جوئے، سٹے، وعدے کے سودے جن سے بلا محنت روپیہ سمیٹنے کی ذہنیت پرورش پاتی ہے۔

                ۹-           تعیش کے سامان جو قطعی حرام ہیں، ان کا بنانا اور بیچنا قطعاً ممنوع ہے۔

                ۱۰-         محنت اور سرمایے کے باہمی تعلق کو اسلام ایک حد تک آزاد رکھتا ہے۔

                جدید اقتصادی نظام میں سب سے بڑی دشواری یہ ہے کہ پورا نظام سود پر قائم ہے، بینک سودی سسٹم پر چلتے ہیں۔

                حالانکہ بینک آج کے دور کی ایک اہم ضرورت ہے، بینک ہمارے سرمایے کی حفاظت کرتا ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت سی خدمات انجام دیتا ہے، بینکوں کے کچھ کام ایسے ہیں جن میں سود نہیں ہے ان سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے، یہ کوشش بھی جاری ہے کہ بینک کاری اسلام کے تصور کے مطابق ہو۔

                اسلامی بینک کاری میں سود کا تصور نہیں ہے؛ اس لیے پیداوار کی قیمت کم ہوتی ہے اور سرمایہ زیادہ پیدا ہوتا ہے۔

                خوشحالی کا راز یہ ہے کہ سرمایہ کی گردش کو تیز کیا جائے، سرمایہ رگوں میں دوڑتے ہوئے اس خون کی طرح ہے جو جسم کے ہر حصے کو طاقت دیتا ہے یا بہتے ہوئے اس پانی کی طرح ہے جو زمین کو سیراب کرتا ہے اور شادابی لاتا ہے؛ اس لیے قرآن کہتا ہے کہ:

                اَحَلَّ اللہُ البَیْعَ وَحَرَّمَ الرِبوا․

                ترجمہ: اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔

                قرآن حکیم کا بتلایا ہوا اقتصادی نظام انسانیت کی معاشی فلاح کا ضامن ہے؛ مگر یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ اسلام کا اقتصادی نظام اسلام کے پورے نظام حیات کا ایک جز ہے اور اس جز کے فائدے اس وقت تک پوری طرح محسوس نہیں کیے جاسکتے؛ جب تک اس جز کو اپنے کل کے اندر اس کے موزوں مقام پر نہ رکھا جائے۔

***

————————————-

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 3‏، جلد: 98 ‏، جمادی الاولی 1435 ہجری مطابق مارچ 2014ء

Related Posts