میاں بیوی کے آپسی معاملے میں تحکیم کی شرعی حیثیت

از: مولانا محمد فیاض قاسمی‏   

رہوا، رامپور، وارث نگر، سمستی پور      

اسلام ایک آفاقی مذہب ہے اور اس میں جاری ہونے والے سارے اصول وضوابط اور احکام و فرمان سب کے سب انسانوں کے بنائے ہوئے یااختیار کردہ نہیں ہیں؛ بلکہ احکم الحاکمین اور مالک الملک یعنی اللہ رب العزت کی طرف سے نافذ کردہ ہیں، جن کی پیروی کرنا اور بغیر قیل وقال انھیں قبول کرتے ہوئے ان کے مطابق اپنی زندگی گزارنا اللہ کے بندوں کا فرض بنتاہے اور ان سے منہ موڑنا یا ان میں اپنے مفاد اور سہولت پسندی کی بنا پر کسی بھی طرح کا کتر بیونت اور ایسا تغیر وتبدل کرناجو روحِ شریعت اور اسلا می ڈھانچوں کے خلاف اور متضاد ہو، وہ گویا رب العالمین کی بندگی سے انکار اور انحراف کرنا ہے؛ جو کہ عین ہلاکت اور ضلالت وگمرہی ہے۔

                یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اسلا م دشمن عناصر پوری دنیا میں مختلف صورتوں اور جداگانہ تدابیر اور پروپیگنڈوں سے ہمہ وقت اور ہر آن اسلام کی روشنی بجھانے کے درپے ہیں۔ خود حکومتی سطح کی تنظیمیں اور ذمہ دار قسم کے افراد بھی طرح طرح کا روپ دھار کر امتِ مسلمہ کو مغالطہ میں ڈالنا چاہتے ہیں اور ایسے قوانین اور فیصلوں کو صادر ونافذ کرنا چاہتے ہیں جو ہمارے دینِ متین کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ پوری مسلم قوم کی دل آزاری کا سبب بنتے ہیں، جو اخلاقاً یا قانوناً کسی بھی طرح درست نہیں ہیں اور جس سے اس ملک کی سا لمیت پر بھی ضرب آتی ہے۔

                چنانچہ چند سال پہلے ممبئی ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ ”طلاق واقع ہونے کے لیے تحکیم کے مرحلے سے گزرنا ضروری ہے، جب تک شقاق کی نوبت نہ آجائے اور اس کے بعد تحکیم کے ذریعہ مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش نہ کی جائے اگر شوہر طلاق دے بھی دے تو یہ طلاق معتبرنہیں ہوگی اور وہ عورت اس کی بیوی سمجھی جائے گی“۔

                ظاہر ہے یہ فیصلہ واضح طور پر اسلامی شریعت کے خلاف ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ”اَلطَّلاقُ لِمَن اَخَذَ بِالسَّاق“ یعنی طلاق کا پورا اختیار شوہر کو ہے۔ اس میں وہ کسی ثالث کے تابع نہیں ہے اورنہ ہی وہ طلاق دینے میں کسی کا محتاج ہے۔ کسی ثالث کے فیصلہ اور اجازت پر شوہر کی طلاق معلق نہیں ہوا کرتی، یعنی شوہر نے طلاق دے دی توبہر حال طلا ق واقع ہوجائے گی، اس کے وقوع وعدمِ وقوع میں تحکیم یعنی ثالث کے فیصلے اور اجازت کو کوئی دخل نہیں ہے۔

                زیر نظر مقالہ اسی پس منظر میں ہے، جس سے کورٹ کے فیصلہ کی بالکلیہ تردید ہوجاتی ہے اور شرعی حکم مبرہن ہو کر سامنے آجاتا ہے جوہمارے مسلم قوم کے لیے مشعل راہ ہے۔

                قرآن کریم کے اندر تحکیم کا تذکرہ آیا ہے۔ تحکیم کے معنی ہیں: حَکَم اور فیصل ماننا یا بنانا۔ یعنی میاں بیوی کا اپنے معاملہ کے تصفیہ اور حل کے لیے اور اپنے آپسی تنازع کو سلجھانے کی خاطر کسی کو فیصل مان کر اس کے فیصلہ کے مطابق عمل کرنا۔

                آیت کریمہ: ”فَابْعَثُوُا حَکَماً مِنْ اَھْلِہ وَحَکَماً مِن اَھْلِھَا“ (یعنی جب میاں بیوی میں نزاع اور جھگڑا پیدا ہوجائے تو دونوں خاندان والوں کو چا ہیے کہ ایک ایک حکم (فیصل) مقرر کرلیں جو ان دونوں کے معاملہ کو افہام وتفہیم کے ذریعہ حل کرے) میں تحکیم کی حیثیت جواز اور استحباب کی ہے، واجب اور لازم نہیں۔ علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ ایک آدمی کو بھی حکم بنا کر بھیجنا جائز ہے؛ اس لیے کہ نبی… نے زانیہ عورت کے پاس ایک شخص کو بھیجا اور فرمایا کہ اگر وہ اعتراف کرلیتی ہے تو اسے رجم کردو۔ ویُجْزِیٴ اِرْسالُ الْوَاحِدِ لِاَنَّ اللہَ سُبحانَہ حَکَمَ فی الْزنیٰ بِاَرْبَعَةِ شُھُوْدٍ، ثُم قَد اَرْسلَ النَبیُ علیہ السلامُ اِلیَ الْمَرْأةِ الزَانِیَةِ اَنِیساً وَحْدَہ وَقَالَ لَہ ”اِن اِعْتَرَفَتْ فَارْجُمْھَا“ قُلتُ وَاِذَا جَازَ اِرْسَالُ الْوَاحِدِ فَلَوْ حَکَمَ الزَوْجَانِ وَاحِدًا لاَٴجْزَأ وَھُوَ باِلْجَوازِ اَولیٰ اِذَا رَضِیَا بِذٰلِکَ، اِنَّمَا خَاطَبَ اللہُ بِاِرْسَالِ الحُکَّامِ دُونَ الزَوْجَینِ، فَاِنْ اَرسَلَ الزَوْجَانِ حَکَمَیْنِ وَحَکَماً نَفَذَ حُکْمُھُمَا لِاَنَّ التَّحْکِیمَ عِنْدَنَا جَائِزٌ۔ (الجامع لاحکام القراٰن للشیخ القرطبی، مطبع: بیروت، لبنان، ج ۵/ ص۱۷۸، ۱۷۷)

                امام شافعی نے بھی فرمایا ہے کہ حاکم کے لیے مستحب ہے کہ وہ دوعادل آدمی کو حکم بنا کر بھیجے اور اگر حکمین زوجین کے خاندان سے ہوں تو زیادہ اولیٰ ہے، ورنہ اجنبی بھی بن سکتے ہیں۔

                قَالَ الشافعی اَلمُستَحَبُ اَنْ یَبْعَثَ الْحاکِمُ عَدلَیْنِ وَیَجعلَھما حَکمینِ، وَالاَولیٰ اَن یَکونَ وَاحدٌ مِنْ اَھلِہ وَوَاحِدٌ مِن اَھلِھا الخ فَاِنْ کانَا اَجْنَبِیَیْنِ جَازَ۔ (التفسیر الکبیر للرازی، ج۱۰/ص۹۳)

                نیز آیت ”فابعثوا حکما“ الخ اگرچہ امر کا صیغہ ہے؛ لیکن یہ وجوب کے لیے نہیں ہے؛ بلکہ استحباب کے لیے، جس کی وضاحت حضور … اور صحابہ  کے زمانہ میں واقع ہونے والی طلا ق سے ہوتی ہے کہ آپ … نے حضرت حفصہ  کو طلاق دیا، پھر آپ نے رجعت فرمالی۔ حضرت عبداللہ بن عمر  نے اپنی بیوی کوحالت حیض میں طلاق دے دیا تو آپ نے فرمایا کہ اسے کہو کہ وہ رجعت کرلے۔

                عَن سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ عن اِبنِ عباس عَنْ عُمَرَ اَنَّ النَبیَّ صلی اللہُ علیہ وسلم طَلَّقَ حَفْصَةَ ثُمَّ رَاجَعَھَا۔ (ابوداوٴد ج۱/ص ۳۱۱)

                عن نَافِع عَنْ اِبْنِ عُمَرَ قالَ طَلَّقْتُ اِمْرَأتِی علٰی عَھْدِ رَسولِ اللہِ صلی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ وَھِیَ حَائِضٌ فَذَکَرَ ذٰلِکَ عُمَرُ لِرَسُولِ اللہِ صلی اللہُ علیہ وسلم فَقَالَ مُرْہُ فَلْیُرَا جِعْھَاالخ۔ (مسلم ج ۱/ص۴۷۶)

                 یہ احادیث اس بات کی شاہد ہیں کہ مذکورہ طلاقیں واقع ہو ئیں اور ان کے وقوع کے لیے کسی حکم کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ معلوم ہوا کہ تحکیم کا حکم استحبابی ہے، وجوبی اور لازمی نہیں۔

                اسی طرح تحکیم سے متعلق آیت کا تعلق طلاق سے نہیں؛ بلکہ اس میں صرف زوجین کی اصلاح کے لیے حکمین متعین کیے جانے کی ترغیب ہے اور ان کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ وہ زوجین کے درمیان حتی الوسع اصلاح واتفاق کرنے کی کوشش کریں، اس کے علاوہ ان کا دوسرا کام نہیں ہے۔ اگر حکمین سے اصلاح حال نہ ہوسکے تو زوجین کو اپنی حالت پر چھوڑدے، خود زوجین ہی اپنے حال کے مطابق مصالحت، صبر ،طلاق یا خلع کے ذریعہ اپنا فیصلہ کرلیں گے۔ حکمین کو زوجین کے درمیان تفریق کرانے کی قطعا ً اجازت نہیں ہے۔ ہاں اگر زوجین اپنی تفریق کو حکمین کے سپرد کردیں تو اس وقت یہ حکمین وکیل ہو جائیں گے اور پھر ان کے لیے زوجین کے درمیان بحیثیت وکیل تفریق کرانا جائز ہوگا۔

                ذَھَبَ الْحَنْفِیَةُ اِلٰی اَنَّ مُھِمَّةَ الْحَکَمَیْنِ اَلاِصْلَاحُ لَاغَیْرُ، فِاِذَا نَجَحَا بِہ فَبِھَا وَاِلاَّ تَرَکَا الَّزوْجَیْنِ عَلٰی حَالِھِمَا لِیَتَغَلَّبَا علٰی نِزَاْعِھِمَا بِنَفْسِھِمَا، اَمَّا بِالْمُصَالَحَةِ اَوْبِالْصَّبْرِ اَوْ بِالْطَّلَاقِ اَوْ بِالْمُخَالَعَةِ، وَلَیْسَ لِلْحَکَمَیْنِ اَلْتَّفْرِیْقُ بَیْنَ الْزَّوْجَیْنِ اِلاَّ أن یُفَوِّضَ الْزَّوْجَانِ اِلَیْھِمَا ذٰلِکَ، فَاِنْ فَوَّضَا ھُمَا بِالْتَّفْرِیْقِ بَعْدَ الْعَجْزِ عَنِ الْتَوْفِیْقِ کاَنَا وَکِیْلَیْنِ عَنْھُمَا فِی ذٰلِکَ وَجَازَ لَھُمَا التَفْرِیْقُ بَیْنَھُمَا بِھٰذِہ الْوَکَالَةِ۔ (الموسوعة الفقہیة ج۲۹/ص ۵۴)

                نیز اس آیت میں آگے چل کر ایک جملہ اللہ پاک نے فرمایا ”اِنْ یُرِیْدَا اِصْلَاحاً یُوَفِقِ اللہُ بَیْنَھُمَا“جواس بات پر دال ہے کہ بعث حکمین کا جملہ طلاق سے متعلق نہیں ہے؛ اگر ایسا ہو تا تو پھر آخر والے اس ٹکرے سے حکمین کے مقصد اور کام کی وضاحت نہ کی جاتی؛ البتہ مالکیہ کے نزدیک یہ ہے کہ اگر حکمین جھگڑا سلجھا نے سے عاجز آگئے تو انھیں زوجین کے درمیان تفریق کرانے کا پورا اختیار ہے وکیل بنے بغیر۔

                ذَھَبَ الْمَالکِیَةُ اِلَی اَنَّ وَاجِبَ الْحَکَمَیْنِ اَلاِصْلَاحُ اَوَّلاً فَاِنْ عَجَزَ عَنْہُ لِتَحَکُّمِ الْشِقَاقِ کَانَ لَھُمَا الْتَفْرِیقُ بَیْنَ الْزَّوْجَیْنِ دُوْنَ وَکِیْل۔(الموسوعة ج۲۹/ص۴۵)

                شوافع اپنے ظاہر قول میں احناف کے ساتھ ہیں؛ البتہ قول ثانی میں ان کے یہاں بھی حکمین کو بلا اجازت اور رضامندیِ زوجین کے تفریق کا اختیار ہے۔

                وَعَلَی الْقَولِ الثَانِی لاَ یُشْتَرَطُ رِضَا الْزَّوْجَیْنِ بِبَعْثِھِمَا وَیَحْکُمَان بِمَا یَرِیَانِہ مَصْلِحَةً مِنَ الْجَمْعِ اَوِ الْتَّفْرِیْقِ۔(الموسوعة ج۲۹/ص۴۵)

                حنابلہ بھی ایک قول میں احناف کے ساتھ ہیں اور دوسرے قول میں شوافع کے ساتھ ہیں۔

                وَفِی قَوْلٍ آخَرَ لَھُمَا ذٰلِکَ۔ (الموسوعة ج۲۹/ص۵۵)

                لیکن قولِ راجح احناف کا ہے۔ جس کی تائید حضرت علی کرم اللہ وجہ کی عدالت میں پیش ہو نے والے واقعہ سے ہوتی ہے، جس میں حضرت علی  نے حکمین کو ان کی ذمہ داری بتائی اور پھر حکمین سے بھی آپ نے رائے معلوم کی ۔

                رَوَیْ الْدَّارَ قُطْنِی مِنْ حَدیثِ مُحمدِ بْنِ سِیرِینَ عَن عُبَیدةَ فِی ھٰذہ الْاٰیَةِ ”وَاِن خِفْتُمْ شِقَاقَ بَینھما فَابْعثُوا حَکَما مِن اَھلِہ وحَکمًا من أھلھا“ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ وَاِمْرَأةٌ اِلٰی عَلِیٍ مَعَ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْھُمَا فِئَامٌ مِنَ الْنَّاسِ فَاَمَرَھُمْ فَابعَثُوا حَکمًا مِن اَھلِہ وَحَکمًا مِن اَھلِھا، وَقَالَ لِلْحَکَمَینِ ھَلْ تَدْرِیَانِ مَا عَلَیْکُمَا؟ عَلَیْکُمَا اِنْ رَأیْتُمَا اَنْ تَفَرَّقَا فَرَّقْتُمَا، فَقَالَتِ الْمَرْأةُ رَضِیْتُ بِکِتَابِ اللہِ بِمَا عَلَّی فِیہِ وَلِیَ، وَقالَ الْزَّوْجُ اَمَّا الْفُرْقَةُ فَلَا۔ فَقَالَ عَلِی کَذَبْتَ، وَاللہِ لاَتَبْرَحْ حَتٰی تُقِرَّ بِمِثْلِ الَّذِیْ اَقَرَّتْ بِہ۔ وَھٰذَا اِسْنَادٌ صَحیحٌ ثَابتٌ عَنْ عَلیٍ مِنْ وُجُوہٍ ثَابِتَةٍ عَنْ اِبْنِ سِیرِینَ عَنْ عُبیدَةَ، قَالَہ اَبُو عُمَرَ۔ اِحْتَجَّ اَبو حَنِیْفَةَ بِقَوْلِ عَلِیٍ عَنْہُ لِلزَّوجِ ’لاَتَبْرَحْ حَتٰی تَرْضٰی بِمَا رَضِیَتْ بِہ“ فَدَلَّ عَلٰی اَنَّ مَذْھَبَہ اَنَھُمَا لاَیُفِرِّقَان اِلَّا بِرِضَا الْزَّوْجِ، وَبِاَنَّ الْاَصْلَ اَلْمُجْتَمَعَ عَلَیْہِ اَنَّ الْطَّلَاقَ بِیَدِ الْزَوْجِ اَوْبِیَدِ مَنْ جُعِلَ ذٰلکَ اِلَیْہِ۔ (تفسیر قرطبی ج۵/ص۷۷۱)

                حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب عثمانی ”معارف القرآن“ میں لکھتے ہیں کہ اس واقعہ سے بعض ائمہ مجتہدین نے یہ مسئلہ اخذ کیا کہ ان حکمین کابااختیار ہونا ضروری ہے، جیسا کہ حضرت علی  نے فریقین سے کہہ کر ان کو با اختیار بنوایا۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ اور حسن بصری  نے یہ قرار دیا کہ اگر حکمین کا بااختیار ہونا امر شرعی اور ضروری ہوتا تو حضرت علی کرم اللہ وجہ کے ارشاد اور فریقین سے رضامندی حاصل کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ فریقین کو راضی کرنے کی کوشش خود اس بات کی دلیل ہے کہ اصل سے یہ حکمین با اختیار نہیں ہوتے، ہاں میاں بیوی ان کو مختار بنادیں تو با اختیار ہوجاتے ہیں۔ (معارف القرآن ج۲ص۴۰۴)

                اسی طرح حضرت تھانوی نے لکھا ہے کہ ان دونوں حکمین کا اصل کام اتنا ہی ہے: ’اصلاح حال‘؛ البتہ اگر زوجین اپنے حکم کو طلاق یا خلع کا اختیار بھی دے دیں تو وکالةً وہ اس کے مختار بھی ہوجائیں گے؛ مگر اس آیت میں اس سے تعرض نہیں۔ (بیان القرآن ج۲ ص۱۱۵)

                تحکیمِ طلاق کے لیے شرط کے درجہ میں نہیں ہے۔ فقہاء کے نزدیک طلاق کی شرطیں تین طرح کی ہیں: بعض کا تعلق مطلِق (طلاق دینے والے) سے ہے، بعض کا تعلق مطلَقہ سے ہے اور بعض کا تعلق صیغہٴ طلاق سے ہے۔ مطلِق سے متعلق چار شرطیں ہیں: 1۔شوہر ہونا، 2۔بالغ ہونا، 3۔عاقل ہونا، 4۔قصد واختیار والا ہونا۔ مطلَقہ سے متعلق دوشرطیں ہیں: 1۔آپس میں زوجیت قائم ہوحقیقتاً ہو یا حکماً، 2۔مطلقہ کو اشارہ، صفت یانیت کے ذریعہ متعین کرنا۔ (موسوعہ ۲۹) طلاق کی مذکورہ شرطوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ تحکیم طلاق کے لیے شرط نہیں ہے۔ بغیر تحکیم کے طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ اگر تحکیم شرط ہوتی تو شرائط کے باب میں ضرور اسے بیان کیا جاتا۔ حدیث پاک میں آتا ہے کہ صرف لفظ کا تکلم کرلیا اور اس سے حقیقتاً یا مجازاً طلاق مراد نہیں لیا، یعنی مذاقاً بھی اگر تکلم کرلے تو بھی طلاق واقع ہوجائے گی۔

                عَنْ اَبِی ھُرَیْرَةَ اَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَمَّ قَالَ ثَلاَثٌ جِدُھُنَّ جِدٌ وَھَزْلُھُنَّ جِدٌ: اَلْنِّکَاحُ وَالْطَّلَاقُ وَالْرَّجْعَةُ (ابو داوٴودج۱/ص۲۹۸)

                طلاق کے معتبر ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ میاں بیوی میں نزاع اور شقاق پیدا ہو؛ بلکہ جھگڑا اور نزاع کے پیدا ہوئے بغیر بھی اگر شوہر نے طلاق دی تو واقع ہوجائے گی۔ حدیث ”ثَلاَثٌ جِدُ ھُنَّ جِدٌ وَھَزْلُھُنَّ جِدٌ“ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وقوعِ طلاق کے لیے نزاع ضروری نہیں؛ بلکہ مذاقاً بھی اگر طلاق دے دی تب بھی واقع ہو جائے گی۔

***

———————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 3‏، جلد: 98 ‏، جمادی الاولی 1435 ہجری مطابق مارچ 2014ء

Related Posts