از: مولانا اختر امام عادل قاسمی، مہتمم جامعہ ربانی منوروا شریف، سمستی پور
ہندوستان علماء ومحدثین کی سرزمین ہے ،ہر دور میں یہاں ایسی شخصیتیں موجود رہی ہیں، جن کے نفوسِ قدسیہ سے چمنستانِ علم کی بہار قائم رہی ہے،اس سلسلے کی سب سے اولین شخصیت جن کا ذکر نہ صرف برکت کے لیے ضروری ہے؛ بلکہ ایک تاریخی حقیقت کا اظہار بھی ہے ،اور جو نہ صرف ہندوستان؛ بلکہ ساری دنیائے علم کے لیے باعثِ افتخا رہیں۔
ہندوستان میں تدریسِ حدیث کی اولین شخصیت
میری مراد اس سے حضرت ابوحفص ربیع بن صبیح السعدی البصریؒ (۱۶۰ھ)کی شخصیت ہے ،یہ تبعِ تابعین اور بلند پایہ محدثین میں گذرے ہیں ،صدوق ،عابد اور مجاہد تھے ،ان کے حالات میں لکھاہے کہ(اَوَّلُ مَنْ صَنَّفَ فِي الْاسْلَامِ) اسلام میں پہلی کتاب آپ نے ہی تصنیف کی ،حضرت حسن بصری اور حضرت عطا ءکے شاگردوں میں ہیں ،اور آپ کے تلامذہ میں حضرت سفیان ثوری ،حضرت وکیع بن الجراح اور ابن مہدی ، جیسے بلند پایہ محدثین شامل ہیں ،صاحب المغنی کا بیان ہے کہ ان کا انتقال سندھ میں ہوا ،اور اسی مناسبت سے ان کو علماء ہند میں شمار کیا جاتا ہے ،یہ خلفاء عباسیہ کا دور تھا ،اور سندھ کا علاقہ اولین عہد اسلامی میں ہی فتح ہوچکاتھا ،اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے زمانہ میں محمد بن قاسم الثقفی نے ۹۲ ھ میں سندھ کو فتح کیا ،اور ۹۵ ھ میں اس کی فوجیں حدود سندھ سے نکل کر اقصائے قنوج تک پہونچ گئی تھیں،غالباًاسی ضمن میں یا دعوت وتبلیغ کی غرض سے حضرت ابوحفص ربیع سندھ تشریف لائے ،اور بالآخر یہ امانت اسی خاک کی آغوش میں مدفون ہوئی ،(ابجد العلوم الوشی المرقوم فی بیان احوال العلوم ،محمد صدیق حسن خان القنوجی (م۱۳۰۷ھ)ج ۳ ص ۲۱۵،ج ۱ ص ۳۴۴ط دارالکتب العلمیة بیروت ۱۹۷۸ء ،ہدیة العارفین لاسماعیل بن محمد امین بن میر سلیم الیابانی البغدادی (م۱۳۹۹ھ)ج ۱ ص ۱۹۱)
ہندوستان کے لیے قابلِ فخر ہے کہ یہ سرزمین حضرت ابوحفص ربیع جیسی عظیم ہستی کی دینی، علمی اور دعوتی سرگرمیوں کا مرکز بنی ،اور ان کی برکت سے ہندوستان میں حدیث اور روایت حدیث کابول بالا ہوا ،اور ہندوستان علماء ومحدثین کا گہوارہ بن گیا ،درس حدیث کی نہ معلوم کتنی درس گاہیں قائم ہوئیں ،اور یہ سلسلہ چلتاہوا حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور پھر دارالعلوم دیوبندتک پہونچا ،علم وفن کی نئی نئی جہتیں دریافت ہوئیں ،اور یہ قافلہٴ قُدس آج بھی رواں دواں ہے ،اور اپنے عہد کے لحاظ سے اس کی اہمیت آج بھی اسی طرح قائم ہے جیسے کہ (کیف وکم کے فرق کے ساتھ )قرونِ وسطیٰ میں تھی ۔
تدریسِ حدیث کے تین طریقے
*حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی جو ہندوستان میں علمِ حدیث کی نشر واشاعت کے اولین معماروں میں ہیں ،انفاس العارفین میں تحریر فرماتے ہیں :
”باید دانست کہ درسِ حدیث را نزدیکِ علماء حرمین سہ طریق است ،یکے طریق سرد کہ شیخ یا قاری وے تلاوتِ کتاب کند ،بے تعرض مباحث لغویہ وفقہیہ واسماء رجال وغیر آن ودیگر طریق بحث وحل کہ بعد تلاوت یک حدیث بر حفظ غریب وترکیب عویص ورسم قلیل الوقوع از اسماء اسناد وسُوالِ ظاہر الورود و مسئلہٴ منصوص علیہا توقف کند وآں را بہ کلام متوسط حل نماید وآنگاہ پیش رود وعلیٰ ہذا القیاس ،وسویم طریقہٴ امعان وتعمق کہ بر ہر کلمہ مالہا وما علیہا ومایتعلق بہا بسیار ذکر کند ،مثلاً در کلمہٴ غریبہ وترکیب عویص ،شواہد آن از کلام شعراء واخوات کلمہ در اشتقاق ومحال استعمال وے ذکر کند ودراسماء رجال احوال ایں قوم وسیرت ایشاں بیان نماید ومسائل فقہیہ را برآں مسئلہٴ منصوص علیہا تخریج نماید وبادنیٰ مناسبت قصص عجیبہ وحکایات غریبہ بگوید (ص ۱۸۷)
ترجمہ : معلوم ہونا چاہیے کہ علماء حرمین کے یہاں حدیث پڑھانے کے تین طریقے ہیں:۔
*ایک طریقہ سرد کہلاتا ہے ،یعنی استاذ یا طالب علم کتاب کو روایتاً پڑھتا چلاجائے ،اور اس میں لغوی، فقہی یا فنی مباحث سے تعرض نہ کرے۔
*دوسرا طریقہ بحث وحل کا ہے ،یعنی کسی حدیث کی تلاوت کے بعد جو ضروری مباحث ہیں، مثلاً کوئی اجنبی یا نادر لفظ یا مشکل ترکیب ہے ،یاسند میں کسی غیر معروف راوی کا نام آگیا،یا کوئی کھلااعتراض مضمون حدیث پر وارد ہوتا ہے ،یا جن مسائل کاحدیث میں صراحتاً ذکر آیا ہے ،ان پر استاذ تھوڑی دیر ٹھہر کر اوسط درجہ کی گفتگو کرے ،اور ان کو حل کرکے آگے بڑھے ۔
*تیسرے طریقہٴ درس کانام امعان وتعمق ہے ،یعنی حدیث کے ہر ہر لفظ کی تمام تفصیلات زیر بحث لائی جائیں ،مثلاً کسی اجنبی لفظ یا مشکل ترکیب کے لیے شعراء کے کلام سے شواہد پیش کیے جائیں ،اس کے مترادفات ،مصادر اشتقاق ،اور مواقع استعمال پر تفصیلی گفتگو کی جائے، اسی طرح ایک ایک راوی کے حالات پورے شرح وبسط کے ساتھ پیش کیے جائیں ،کسی مسئلہٴ فقہی کا ذکر حدیث میں آیا ہوتواس پر قیاس کرکے کچھ اور مسائلِ فقہیہ کی تخریج کی جائے اور ذرا ذرا سی مناسبت سے واقعات وقصص کا انبار لگادیا جائے“
شاہ صاحب کے نزدیک پہلا طریقہ منتہیوں کے لیے ہے ،اور دوسرا طریقہ مبتدیوں اور متوسط الاستعداد طلبہ کے لیے مفیدہے ،جن کو ابھی مضامین حدیث سے پوری واقفیت نہ ہوئی ہو اور تیسرے طریقہ کے بارے میں ان کی رائے یہ ہے کہ :
”طریقہٴ قصاص است ،کہ قصد ازاں اظہارِ فضیلت وعلم است ،یا غیر آں، واللہ اعلم نہ روایت وتحصیل علم (حوالہ ٴبالا )
ترجمہ :یہ واعظوں اور قصہ خوانوں کا طریقہ ہے ،اس کا مقصد محض اپنے علم وفضل کا اظہار ہے ،یا اس کے سوا کوئی اور غرض ،یہ روایت حدیث اور تحصیل علم کا طریقہ نہیں ہے واللہ اعلم ۔
شاہ صاحب کے نزدیک رجال کی فنی بحثیں ،فقہی تشقیقات ، مذاہبِ فقہیہ کی تطبیقات اور روایات کی ترجیح وتطبیق وغیرہ تیسرے طریقہٴ درس (طریقہٴ امعان وتعمق )میں داخل ہیں ،اور یہ طریقہ عہدِ سلف میں رائج نہیں تھا (حوالہ بالا)۔
میرا ناقص خیال یہ ہے کہ یہ تیسرا طریقہ جس کا رواج شاہ صاحب نے اپنے دور کے بعض علماء حرمین کے یہاں دیکھا تھا ،یہ متخصصین کے لیے مفیدہوسکتا ہے ،تعلیمی نظام میں تبدیلیوں کے ساتھ جب صلاحیتیں بھی کمزور ہونے لگیں اور علم ومعنی میں تعمق کے بجائے سطحیت اورمادیت کا رجحان بڑھنے لگا تو حقائقِ دین کے تحفظ کے لیے کم ازکم ایک ایسی جماعت کی تیاری پر توجہ دی گئی جو اپنی صلاحیتیں علم وفن کی گہرائیوں تک پہونچنے میں خرچ کریں ،اور جن کی زندگی کا نصب العین ہی حقائق واسرار کے لعل وگہر چنناہو ۔
ہندوستان کاقدیم نصابِ حدیث
اسلامی ہندوستان کے قدیم نصابِ تعلیم میں حدیث کے نام پر عموماً صرف تین کتابوں کا باقاعدہ درس ہوتا تھا ،اور اکثر مباحث حدیث انہی کتابوں کے ضمن میں پڑھادیے جاتے تھے، مشارق الانوارللصغانی ،المصابیح للبغوی ،یا مشکوٰة المصابیح للخطیب التبریزی (م۷۳۷ھ) انہی تین کتابوں کے ذریعہ معانی حدیث کی بحث مکمل کی جاتی تھی،اور بالعموم ان تین کتابوں کے بعد فقہی اورفنی مباحث کی ضرورت نہیں رہ جاتی تھی ،اس کے بعد محض تکمیل سند کامسئلہ رہ جاتا تھا ،اس لیے باقی کتابیں سرداً پڑھائی جاتی تھیں ،بعض لوگ اس کے لیے حرمین شریفین تک کا سفر کرتے تھے ،اور جن کو یہ موقع نہیں ملتا تھا ،وہ انہی کتابوں پر اکتفا کرلیتے تھے ؛اس لیے کہ اس کوضرورت نہیں صرف فضیلت خیال کیا جاتا تھا ۔
شاہ ولی اللہ کا طریقہٴ درسِ حدیث
خود حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے کئی سال کے درس وتدریس کے بعد حرمین شریفین کا سفر کیا اور وہاں کے مشائخ بالخصوص شیخ ابوطاہر سے سرداً صحاحِ ستہ کا درس لیا ،بقول حضرت شاہ صاحب شیخ ابوطاہر کا طریقہٴ درس سرداً ہی تھا ،اور اس کا فائدہ یہ لکھتے ہیں کہ :
تا زود سماعِ حدیث وسلسلہٴ روایت درست کنند․․․․باقی مباحث بر شروح حوالہ می کردند زیراکہ ضبطِ حدیث امروز مدار آں برتتبع شروح است (انفاس العارفین ص ۱۸۷)
ترجمہ : تاکہ سماعتِ حدیث کاکام جلدختم ہوجائے اور سلسلہٴ روایت درست ہوجائے،باقی تفصیلی مباحث شروحات کے حوالہ کردیتے تھے ؛اس لیے کہ آج کے دور میں ضبطِ حدیث کا زیادہ تر مدار شروحاتِ حدیث پر ہے ۔
شاہ صاحب حدیث کے فنی اور فقہی مباحث سے پہلے ہی آشنا تھے ،اور برسوں انہوں نے ہندوستان میں حدیث کا درس دیا تھا ؛اس لیے ان کے لیے اصل مسئلہ فہمِ حدیث کا نہیں؛ بلکہ روایت حدیث کا تھا ؛تاکہ ان کا سلسلہٴ سند درست ہوجائے ،اور شاہ صاحب کا بڑا کارنامہ یہی ہے کہ ان کی بدولت تمام علماء ہند کا سلسلہٴ سند درست ہوا۔
اور یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے ،محدثین کے یہاں قبل سے ہی اخذِ حدیث کی آٹھ صورتوں میں سے ایک صورت مناوَلہ کی رہی ہے ،یعنی شیخ کسی عالم کی صلاحیت وقابلیت پر اعتماد کرکے پڑھائے بغیر اپنی مسموعات ( کتابیہ )کی روایت کی اجازت دے دے ،اصولِ حدیث کی کتابوں میں اس کی تفصیل موجود ہے ۔
دارالعلوم دیوبند میں تدریسِ حدیث
حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی نے اپنی مشہور کتاب ”ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم وتربیت “ میں دارالعلوم دیوبند کے طریقہٴ درس حدیث (جو بلاشبہ ولی اللٰہی سلسلے ہی کی ایک اہم شاخ ہے )کے بارے میں ایک جگہ لکھا ہے کہ :
”پچھلے دنوں اخباروں میں ناواقفوں کی طرف سے جب یہ شائع کرایا گیا کہ دیوبند میں بخاری کے چالیس چالیس پچاس پچاس ورق ایک دن میں ہوجاتے ہیں ،حضرت مولانا حسین احمد متع اللہ المسلمین بطول بقائہ پر الزام لگایا گیا کہ سال بھر تک وہ سیاسی مشاغل میں منہمک رہتے ہیں، اور ختمِ سال پر اسی طرح کتابوں کا عبور کرادیتے ہیں ،تو درسِ حدیث کے راز سے جو ناآشنا ہیں انہوں نے تعجب کے ساتھ ان خبروں کو پڑھا؛حالانکہ ان بیچاروں کو کیا معلوم کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ،حدیث کے پڑھانے کا صحیح طریقہ ہی یہ ہے ،جو چیز مطالعہ اور مزاولہ سے استاد کی تعلیم کے بغیر آسکتی ہے ،سچی بات تو یہی ہے کہ اس کو پڑھانے کی حاجت کیا ہے ؟(ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم وتربیت ص ۳۵۲ ط مکتبہ الحق بمبئی ،مئی ۲۰۰۷ء)
یعنی یہ چیز قابلِ طعن نہیں ،قابلِ تقلید ہے ،تحصیلِ حاصل بہر حال ایک لغو کام ہے ،اسی طرح خوامخواہ کا اظہارِ علم بھی علامتِ کبر ہے جو منصبِ حدیث کے شایان نہیں ہے ،نیز اس سے طلبہ کا ذوقِ تخلیق اور جذبہٴ تحقیق کمزورپڑجاتا ہے ،دل ودماغ کی صلاحیتیں مردہ ہونے لگتی ہیں ،جس کی وجہ سے عبقری صلاحیت کے علماء پیدا نہیں ہوسکتے ۔
قدیم طریقہٴ تعلیم کے نتائج
حضرت مولانا احمد علی محدث سہارن پوری ،حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ،فقیہ العصرحضرت مولانا رشید گنگوہی جیسے علماء اور محدثین اسی قدیم نصابِ حدیث کی پیداوار ہیں، جن میں مشارق اور مشکوة کو مرکزی حیثیت حاصل تھی ،باقی تمام کتابیں حسب موقع سرداً پڑھادی جاتی تھیں ،بعد کے ادوار میں ان جیسے عبقری علماء پیدا نہیں ہوئے ،یہ اکابر مرکزِ ولی اللٰہی سے پھر بھی قریب تھے اور اس سے استفادہ بھی کیا تھا؛لیکن مرکز شاہ ولی اللہ سے بہت دور بہار کی سرزمین سے پیدا ہونے والے علامہ شوق احسن نیموی (صاحب آثار السنن )نے درسِ نظامیہ والی حدیث سے زیادہ اور کوئی چیز اس فن میں استاذ وں سے نہیں پڑھی؛لیکن فنِ رجال اور تنقید احادیث میں ان کا جو پایہ تھا ،ایک زمانے نے اس کا اعتراف کیا۔
علامہ شوق نیموی
علامہ مناظر احسن گیلانی علامہ شوق نیموی کے بارے میں رقم طراز ہیں :
”آپ کا اسم گرامی مولانا ظہیر احسن اور تخلص شوق تھا ،حدیث خصوصاً نقدِ رجال میں ان کا جو پایہ تھا اس کا اندازہ اسی سے ہوسکتا ہے کہ حضرت مولانا انور شاہ کشمیری ان کی دقتِ نظر کے مداحوں میں تھے ،آپ ”نیمی “بہار میں پیدا ہوئے ،اور مولانا عبدالحی فرنگی محلی سے درسِ نظامیہ کی تکمیل کرکے پٹنہ میں مطب کے ساتھ ساتھ تالیف وتصنیف کا کاروبار شروع کیا ،آثار السنن کے چند ابتدائی حصے ملک میں شائع ہوئے کہ سارے ہندوستان میں دھوم مچ گئی؛لیکن افسو س عمر کم پائی، کتاب ناتمام رہی ،پھر بھی جتنا حصہ شائع ہوچکاہے ،حنفی مدارس میں بعضوں نے اس کو نصاب کا جزو قرار دیا ہے ،یہ کتاب حنفی مکتبِ خیال کی تائید میں محدثانہ اصول پر مرتب کی گئی ہے ،علامہ تھانوی نے اس کا تکملہ بھی کرایا ہے ،مولانا شوق اردو زبان کے بڑے نامور شعراء میں تھے ،جلال لکھنوی سے زبان کے مسئلے میں تحریری مناظرہ بھی کیا تھا ،جس میں مولانا ہی کی جیت ہوئی تھی، ایک بڑی دردناک مثنوی اردو میں لکھی ہے ،اور بھی بیسیوں کتابوں کے مصنف ہیں (ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم وتربیت ،حاشیہ ص ۳۵۳)
قدیم بہار کی علمی سربلندی
مجھے اس مناسبت سے اس قدیم ہندوستان کی علمی سربلندی کا تذکرہ کرنے کا جی چاہتا ہے جس میں بہار ایک مرکز علم کی حیثیت سے معروف تھا ،اور پورے ہندوستان کے لیے سرمایہٴ افتخار تھا، مولانا گیلانی نے مولانا غلام علی آزاد بلگرامی کی مآثرالکرام اور حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی اخبار الاخیار کے حوالوں سے لکھا ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ کے دودمانِ عالی کے مشہور بزرگ شیخ عبدالعزیز شکربار کے دادا شیخ طاہر نے تحصیل علم کے لیے ملتان سے بہار کا سفر کیا اور شیخ بدھ (یابودھن) حقانی کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا، (اخبار الاخیار ص ۱۹۵،مآثرالکرام ص ۴۳)۔
اس سے اندازہ ہوتا کہ قدیم ہندوستان میں بہار علم کا بڑا مرکز تھا ،اور دوردراز سے لوگ تحصیل علم کے لیے یہاں آتے تھے ،اور خاص بات یہ تھی کہ ابتدا سے لے کر انتہائی درجات تک کی مکمل تعلیم کا یہاں معقول انتظام تھا؛اسی لیے یہاں کے طلبہ کو تحصیل علم کے لیے بہار سے باہر جانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی ،ملاموہن بہاری جو بعد میں شہزادہ اورنگ زیب کے استاذ ہوئے آزادبلگرامی کے بقول ان کی اول سے آخر تک تعلیم بہار ہی میں ہوئی ،اور یہاں ان کے علم کی شہرت ہی سے متأثر ہوکر بادشاہ شاہجہاں کی توجہ ان کی جانب ہوئی ،(دیکھیے مآثر الکرام ص ۴۳)
ملااحمد سعید مفتی عساکر شاہجہانی کے بارے میں معروف ہے کہ وہ بہار کے تھے اور ان کی پوری تعلیم بہار ہی میں ہوئی تھی اپنے والد ملا سعد سے تعلیم حاصل کی ،(بادشاہ نامہ ج ۲ )بہار کی اس علمی خود مختاری کا اعتراف حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی اور حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے بھی کیا ہے ،لکھا ہے کہ :
بہار مجمع علماء بود (نظام تعلیم وتربیت ص ۴۸)
ترجمہ : بہار سربرآوردہ علماء کا مرکز تھا ۔
اور اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان میں زیادہ تر علماء ومحدثین ہندوستان کے اسی قدیم نصابِ تعلیم کے پڑھے ہوئے تھے، جس میں حدیث کے نام پروہی تین کتابیں(جن کا ذکر اوپر ہوا) پڑھائی جاتی تھیں ،اس کے بعد طلبہ میں اتنی صلاحیت پیدا ہوجاتی تھی کہ وہ اپنا علمی سفر جاری رکھ سکیں ،اور فضل وکمال کی بلندیوں تک پہونچیں ،اکثر اہلِ کمال محض ان درسی کتابوں پر قناعت نہیں کرتے تھے۔
محدث کی شرائط
اگر چہ کہ تاریخ علوم کی کتابوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعض کوتاہ نظرعلماء اس دور میں بھی ایسے تھے ،صرف ہندوستان میں نہیں؛بلکہ ہندوستان سے ترکستان تک ایسے کچھ لوگ ضرور موجود تھے ،جن کے نزدیک مشارق الانوار للصغانی اور مصابیح السنة للبغوی علمِ حدیث کی معراج سمجھی جاتی تھی ،اور اگر کسی کی رسائی جامع الاصول لابن اثیر، علوم الحدیث لابن الصلاح اور التقریب للنووی تک ہوگئی تو اس کو محدث المحدثین اور بخاری العصر جیسے خطابات کا مستحق سمجھا جاتا تھا ،جبکہ اہلِ حقیقت کے یہاں اتنے سے علم سے کسی کو پورا محدث نہیں مانا جاسکتا تھا ،یہ طالب علمی کا درجہٴ نہائی تھا نہ کہ علمِ حدیث کا ،اہلِ نظرکے نزدیک ابتدائی درجے کے محدث کے لیے شرط یہ تھی کہ اس کی نگاہ مسانید وعلل ،اسماء رجال ،سند عالی ونازل پر ہو، اس کے علاوہ بے شمار متون حدیث اس کے حافظہ میں ہو ں،صحاح ستہ ،مسند امام احمد بن حنبل ،سنن بیہقی ، معجم طبرانی اوراجزاء حدیث میں سے ایک ہزاراجزاء کی اس نے سماعت کی ہو ،نیز کتب طبقات کا اس نے مطالعہ کیا ہو ،مشائخ حدیث پر اس کی نظر ہو ،ان کے حالات اور سنین وفات سے واقف ہو ، یہ محدثیت کی پہلی منزل ہوتی تھی، ابھی علم کے آسماں اور بھی ہیں،یہ تھا ہندوستان کے عہدِ قدیم کا تصور علم حدیث ،اوراس کے ثمرات، ان باتوں کا تذکرہ علامہ تاج الدین السبکی کے حوالہ سے متعدد مصنّفین نے کیا ہے، (دیکھیے کشف الظنون لمصطفیٰ بن عبداللہ کاتب چلپی القسطنطینی (م ۱۰۶۷ھ)ج ۱ص ۶۳۵ط بیروت ،ابجد العلوم الوشی المرقوم فی بیان احوال العلوم ،محمد صدیق حسن خان القنوجی (م ۱۳۰۷ھ)ج ۲ ص ۲۲۷ط دارالکتب العلمیة بیروت ۱۹۷۸ء ،فہرس الفہارس والاثبات ومعجم المعاجم والمشیخات والمسلسلات، لمحمد عبدالحی بن عبدالکبیر الکتانی(م ۱۳۸۲ھ)ج ۱ ص ۷۵ ط دارالغرب الاسلامی بیروت ،۱۹۸۲ء)
ایک وضاحت
اس تفصیل سے اس عام تصورپر بھی زد پڑتی ہے جس میں کہاجاتا ہے کہ مشارق الانواراور مصابیح السنة پر حدیثی انحصار کے تصور کو سب سے پہلے حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے توڑا ،جبکہ مذکورہ حوالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فکر بہت قدیم ہے اور اس کی تغلیط بھی بہت قدیم سے ہورہی ہے ،حضرت شاہ صاحب کا کام یہ ہے کہ انہوں نے ان معلومات کو عام کیا اور حدیث کے مطلوبہ معیار کے لیے ہندوستان میں مفید کوششیں کیں،جو دراصل حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کے مساعی جمیلہ کا ایک تسلسل تھا ۔
مشارق الانوار -کتاب اور صاحبِ کتاب
اس موقع پر مشارق الانوار کامختصر تعارف بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا؛ اس لیے کہ یہ وہ کتاب ہے جو ایک طویل عرصے تک ہندوستان کے واحدسرمایہٴ حدیث کی حیثیت سے نصاب تعلیم کا حصہ رہی ،اور قدیم وجدید تمام تذکروں میں اس کتاب کا نام آتا ہے؛ لیکن آج بہت کم لوگ ہیں جنہوں نے اس کتاب کی زیارت کی ہو یاکتاب اور صاحبِ کتاب کے بارے میں ضروری معلومات رکھتے ہوں ؛جبکہ اہل علم کو خصوصاً تدریسِ حدیث سے وابستہ علماء کو اپنے اس قدیم سرمایہٴ حدیث کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
اس کتاب کا پورا نام ”مشارق الانوار النبویة من صحاح الأخبار المصطفویة “ہے ،اورمصنف ہیں ”امام رضی الدین حسن بن محمدبن حسن بن حیدر العدوی الصغانی الحنفی(م ۶۵۰ھ)یہ صحیح احادیث کا مجموعہ ہے ،احادیث کی تعداد شارح مشارق سعید بن محمدبن مسعودالکازرونی (م۷۵۸ھ) کے مطابق دوہزار دوسو چھیالیس(۲۲۴۶) ہے ،کازرونی کی شرح کا نام ”المطالع المصطفویة “ ہے، ہرباب یا نوع کے آخر میں احادیث کی تعداد بھی ظاہر کردی ہے ،مصنف کے بقول اس کتاب کی تالیف میں خلیفہ المستنصربن الظاہر بن الناصربن المستضی کا مالی تعاون شامل رہا ہے ،کتاب کا آغازاس خطبہ سے ہوتا ہے :
الحمد للہ محی الرمم ومجری القلم …الخ
ترجمہ : تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو بوسیدہ ہڈیوں کو زندہ کرنے والا اور قلم کوچلنے کی قوت بخشنے والا ہے ۔
اس کتاب میں بارہ ابواب ہیں اور ہر باب میں کئی فصلیں ہیں ،آخری باب ”جوامع الأدعیة“ کے بارے میں ہے ۔
اس کتاب کی بے شمار شروح وحواشی اور شروحات کی شروحات بڑے بڑے اہلِ علم اور فاضل مصنفین کے قلم سے لکھی گئیں،یہ دنیا کی چند ان کتابوں میں ہے جن کو سمجھنے کی بہت زیادہ کوششیں کی گئیں ،اور جن کو ایک طویل عرصہ تک دنیا ئے اسلام کے تعلیمی اداروں میں نصابی حیثیت حاصل رہی ،چند مشہور شروحات کے نام یہ ہیں ۔
*تحفة الابرار فی شرح مشارق الانوار -علامہ اکمل الدین بابرتی (م۷۸۶ھ)
*شوارق الاسرار العلیة فی شرح مشارق الانوار النبویة – محمد بن یعقوب الفیروزآبادی الشیرازی (م ۸۷۱ھ)
*المطالع المصطفویة-سعید بن محمدبن مسعودالکازرونی (م ۷۵۸ھ)
*دقائق الآثار فی مختصر مشارق الانوار -محمد بن محمد الأسدی القدسی (م۸۰۸ھ)
*حاشیة علی المشارق -شیخ قاسم بن قطلوبغا الحنفی (م ۸۷۹ھ)وغیرہ (کشف الظنون ج ۱ ص ۶۳۵)
مصنف کتا ب شیخ رضی الدین الصغانی کا تعلق ماوراء النہر کے شہر” صغان “سے ہے ،آپ کی پیدائش ۵۷۷ھ میں لاہور میں ہوئی ،نسباً فاروقی ہیں ،اپنے والد ماجد سے تعلیم حاصل کی اس کے بعد بغداد کا سفر کیااور تا حیات وہیں قیام رہا،ایک زمانے تک مکہ میں بھی قیام کیا ،مکہ معظمہ ،عدن اور ہندوستان کے بے شمار مشائخ حدیث سے سماعت حدیث کی ،بڑے محدث ،فقیہ اور ادیب تھے، کئی اہم کتابیں لکھیں ،مثلاً کتاب الشوارد فی اللغات ،کتاب الافتعال ،مصباح الدجیٰ،الشمس المنیرة ،شرح البخاری ،اور لغت کی ایک کتاب العباب وغیرہ ،۶۵۰ھ میں بغداد میں انتقال کیا، حسبِ وصیت نعش مبارک مکہ معظمہ لے جائی گئی ،اس طرح ان کی وہ آرزو پوری ہوئی جو انہوں نے مشارق الانوار کے آغاز میں مکہ معظمہ میں دفن ہونے کے تعلق سے تحریر کی ہے ،اللہ پاک نے ان کی دعا سن لی اور حرم الٰہی کا جوار نصیب ہوا فرحمہ اللہ (ابجد العلوم للقنوجی ج۳ ص ۲۱۶)
*”مشارق الانوار “ہی کے نام سے ایک کتاب اور بھی ہے ،جو بازار میں چھپی ہوئی ملتی ہے؛ مگر اس کا پورانام ”مشارق الانوار علیٰ صحاح الآثار “ ہے ،اس کے مصنف قاضی ابو الفضل عیاض بن موسیٰ الیحصبی المالکی (م ۵۴۴ھ)ہیں ،یہ علامہ صغانی سے متقدم ہیں ،زبان خالص ادب عالیہ کی استعمال کی ہے ،اس کتاب کا موضوع ہے مؤطا امام مالک ،صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے اجنبی اور مشکل الفاظ کی تشریح وتحقیق ، اپنے موضوع کے لحاظ سے کتاب بہت مفید ہے ،المکتبة العتیقة ودارالتراث “ سے دو جلدوں میں چھپ گئی ہے ،(دیکھیے کتاب کاسرورق )
حیرت ہے کہ” مکتبة الشاملہ “والوں نے اس کتاب کو اپنی فہرست میں شامل کیاہے؛مگر علامہ صغانی کی ”مشارق الانوار “کو جگہ نہیں دی ہے۔
کتب حدیث کی اقسام-عہد بہ عہد
*یہاں ایک بحث پر اپنی گفتگو کوختم کروں گا کہ کتابتِ حدیث کا عمل یوں تو معلوم تاریخ کے مطابق عہدِ نبوی ہی سے جاری ہے؛لیکن باقاعدہ تدوینِ حدیث کا عمل حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانے سے شروع ہوا ،اور اس میں باضابطگی تیسری صدی ہجری میں آئی ،اس کے بعد سے علم الحدیث پرمختلف جہتوں سے کام ہوئے ،اور ہر صدی میں کوئی نہ کوئی نئی جہت سامنے آتی رہی،اس کے لیے ہم احادیث کے تحریری ذخیرے کا جائزہ لیں اور کتابوں کے صرف اقسام پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ ہر دور کے مجتہدین فی الحدیث نے کام کی کن کن جہتوں کی دریافت کی تھی ،اور کتنے زاویوں سے انہوں نے احادیثِ رسول کی خدمت انجام دی تھی ،مثلاً :
*عہدِ تابعین میں ایک صحیفہٴ ہمام ابن منبہ کا ذکر آتاہے ،جو اب مطبوعہ صورت میں ہمارے پاس موجود ہے ،یہ حضرت ابوہریرہ کی روایات کا مجموعہ ہے ۔
*پھرعہدِ تابعین ہی میں موضوعاتی مجموعے تیار ہونے شروع ہوگئے،ان میں سنن ابن جریج ،ابن اسحاق کی کتاب السنن اور کتاب المغازی ،امام مالک کی الموطا ،سفیان ثوری کی کتاب التفسیر ،عبداللہ ابن مبارک کی کتاب الزہد والرقائق ،اور الاربعین فی الجہاد ،اور معمر ابن راشد کا ضخیم مجموعہٴ حدیث کتاب المغازی خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔
*تبعِ تابعین کے دور میں کتابوں کی اور بھی نئی قسمیں وجود میں آئیں ،مثلاً مسانید ،یعنی ہر صحابی کی روایات الگ الگ جمع کی جائیں ،یہ قسم اگر چہ کہ پہلے سے موجود تھی اور حضرت امام ابوحنیفہ (جو کہ بلا شبہ تابعی تھے )کی مسانید الامام الاعظم وجود میں آچکی تھی؛مگر یہ عام نہیں تھی ،اس ضمن میں مسند مسدِّد ابن مسَرہَد،مسند اسحاق ابن راہویہ ،مسند ابن ابی شیبة ،مسند ابی یعلیٰ الموصلی اور مسند امام احمد ابن حنبل کو خصوصی شہرت حاصل ہوئی۔
*دوسری قسم مصنفات کی تھی ،یعنی اس میں احادیثِ مرفوعہ اور آثارِ صحابہ وتابعین دونوں جمع کردیے جائیں ،اس ضمن میں مصنف عبدالرزاق ابن ہمام الصنعانی اور مصنف ابن ابی شیبہ کو بڑی شہرت حاصل ہوئی۔
*سنن وصحاح کا سلسلہ بھی جاری رہا ،اور بعد کے ادوار میں صحاحِ ستہ اور دیگر کتبِ سنن وجود میں آئیں۔
*اسی دور میں اجزاء حدیثیہ اور فوائد کا سلسلہ شروع ہوا،یعنی ایسے رسائل جن میں کسی ایک معین موضوع کی روایات جمع کردی جائیں ،اس طرح کے بے شمار مجموعے وجود میں آئے ،مثلاً بقی بن مخلد القرطبی کی جزء الحوض والکوثر ،ابواسحاق الحربیکی جزءُ اِکرام الضیف ،ابن ذاذان کی جزء تقبیل الید ،یہ موضوعاتی مجموعے ہیں۔
ایک راوی یا ایک سند کی روایات کے اجزاء بھی تیار ہوئے ،مثلاًجزء نسخة وکیع عن الاعمش، اور جزء اللیث بن سعد وغیرہ ۔
*قرنِ رابع میں معاجم کا سلسلہ شروع ہوا ،اور طبرانی کی تینوں معاجم کو آفاقی شہرت حاصل ہوئی:
(۱)معجم کبیر ،اس میں صحابہ کی مسندات جمع کی گئی ہیں۔
(۲)معجم اوسط : اس میں اپنے شیوخ کی روایات کو الگ الگ بیان کیا گیا ہے۔
(۳)معجم صغیر :اس میں اپنے تمام مشائخ حدیث کی صرف ایک ایک روایت ذکر کی گئی ہے۔
*ان کے علاوہ معجم ابن قانع اور معجم البغوی کو بھی شہرت حاصل ہوئی۔
*حافظ ابو نُعیم کی کتاب ”حلیة الاولیاء“ اور دلائل النبوة قرن رابع کی مشہور تصانیف میں ہیں ،اسی طرح سنن دارقطنی اور صحیح ابن حبان بھی اسی دورکا کارنامہ ہے۔
*قرن خامس میں امام حاکم نیشاپوری نے مستدرک لکھی ،یعنی بخاری ومسلم کا ان کی شرائط کی روشنی میں از سرنو جائزہ لینا ،قطعِ نظر اس سے کہ ان کے استدراکات کارتبہ کیا ہے؟ حاکم کی مستدرک کو شہرتِ دوام حاصل ہوئی ،بعد میں علامہ ذہبی نے اس کی تہذیب لکھی ۔
*اسی دور میں امام حاکم کے شاگرد امام بیہقی کی السنن الکبریٰ ،اور ”دلائل النبوة“ وجود میں آئی۔
یہ تسلسل بعد کے ادوار میں بھی جاری رہا ،علامہ ظہیر احسن شوق نیموی کی کتاب آثار السنن، حضرت مولانا ظفر احمد تھانوی کی اعلاء السنن اور حضرت مولانا بدرعالم میرٹھی کی ترجمان السنة ،اور حضرت مولانا منظور احمد نعمانی کا اردو مجموعہ معارف الحدیث وغیرہ اسی خوبصورت تسلسل کی آخری کڑیاں ہیں ،میرے مربی ومحترم حضرت مولانا عتیق احمدقاسمی چندرسین پوری نے آثار السنن میں کتاب الزکوٰة کا اضافہ کیا ،(جو ابھی غیر مطبوعہ ہے )عمر نے وفا نہیں کی ورنہ وہ پوری ہی کتاب کا تکملہ لکھنا چاہتے تھے۔
آمدم برسرمطلب
اس پوری تفصیل کا مقصد آج کے دور میں اپنے طریقہٴ درس حدیث کا جائزہ لینا ہے،کیا اس میں ان نکات کا لحاظ کیا جاتا ہے ؟ کیا درجات کے فرق سے ہمارے مباحث کے درجہٴ حرارت میں بھی فرق آتا ہے ؟اور ہمارے یہاں اس کے لحاظ سے تیاریاں ہوتی ہیں ؟میرے خیال میں کتابیں تبدیل ہوگئی ہیں ،اور ہفتم اور دورہ کے علاوہ نیچے کے درجات میں قدیم محدثین کی کتابیں زیر درس نہیں رہیں؛لیکن جو کتابیں بھی ہیں ،نیچے سے لے کر مشکوٰة تک میں تمام فقہی اور فنی مباحث کی تکمیل ہوجانی چاہیے ،یہ ملحوظ رکھتے ہوئے کہ کتبِ صحاح میں جن رجال کی تحقیق ہوچکی ہے ،اس پر زیادہ وقت صرف نہ کیا جائے کہ یہ تحصیلِ حاصل ہے ،اور اس کو طلبہ شروحات کے ذریعہ معلوم کرسکتے ہیں، اس کے بعد دورہٴ حدیث کو سرداً پڑھایاجائے،اور اس کا اہتمام ہو کہ تمام کتابوں کی تمام روایتیں طلبہ کی نگاہ سے گذر جائیں تاکہ سلسلہٴ سند درست ہوجائے۔
لیکن میں یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ آج حدیث کے معاملے میں ہرطرف سناٹا سا محسوس ہوتا ہے ،فقہ کے بارے میں تھوڑی سی چہل پہل ابھی موجودہے؛ اس لیے کہ زندگی میں اس کی ضرورت پڑتی ہے؛لیکن تدریسِ حدیث میں وہ زندگی باقی نہیں رہی جو چند دہائیاں قبل ہمارا امتیاز سمجھی جاتی تھی ،آج ہمارے طریقہٴ تدریس میں کمی ہے یا نظامِ تعلیم میں؟ کہ اب وہ پہلوں والی بات ختم ہوتی جارہی ہے ،یہ ایک سوالیہ نشان ہے جس پر ہمیں غور کرنا چاہیے ،اپنے آقا … سے ہمارا رشتہ کمزور ہورہا ہے ،یا علم الحدیث پر اب کسی نئے کام کی ضرورت باقی نہیں رہی ؟
کتابی سرمایے کے ماسوا رجال حدیث کا بھی قحط ہے ،ہماری متمول درس گاہیں اب ایسے رجالِ کارپیدا کرنے سے قاصر ہیں، جو پچھلی درس گاہیں بے سروسامانی کے عالم میں پیدا کرتی تھیں، ہمیں اپنے اندر کا بھی احتساب کرنا ہوگا،ترتیب بھی کچھ بدلنی ہوگی ،پچھلے مآخذ کی طرف رجوع کرنا ہوگا ،اور ایک بار پھر علمِ حدیث کو ایک زندہ موضوع کی طرح ہمیں برتنا ہوگا ،اللہ پاک ہمارا معین ومددگار ہو، آمین !
***
———————————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 11 ، جلد: 97 ، محرم الحرام 1435 ہجری مطابق نومبر 2013ء