از:  مولانا ابوالکلام شفیق القاسمی المظاہری‏،استاذ دارالعلوم زکریا، دیوبند

حضرت اقدس مفتی محمودحسن گنگوہی متوفی۱۴۱۷ھ کی مجلس میں بندہ موجود تھا، میں نے عرض کیا کہ ہم جو دعاء قنوت پڑھتے ہیں کس کتاب میں ہے؟ حضرت رحمة اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا الحزبُ الاعظم میں، میں نے عرض کیا کہ حدیث کی کس کتاب میں ہے؟ ارشاد فرمایا: ملاعلی قاری نے لکھا ہے، میں نے الحزب الاعظم میں حدیث سے ثابت شدہ دعائیں جمع کی ہیں، حافظ طیب صاحب زیدمجدہم (مکتبہ نعمانیہ دیوبند) پابندی سے بعد نماز عصر حضرت کی مجلس میں شرکت کرتے تھے اور حضرت سے سوالات کرتے رہتے تھے، انھوں نے عرض کیا کہ حضرت ان کا مقصود یہ ہے کہ حدیث کی کتابوں میں سے کس کتاب میں یہ دعاء ہے؟ حضرت رحمة اللہ علیہ نے مصنف ابن ابی شیبہ یا مصنف عبدالرزاق کا حوالہ دیا تھا۔

                چونکہ یہ سوال اور بھی دوستوں کے دل میں آتا رہتا ہے، خیال ہوا کہ ان احادیث کو جمع کردوں، علامہ ابن منظور متوفی (۷۱۱) لکھتے ہیں:

                القنوت کے معنی ہیں: بات چیت سے رک جانا اور کہا گیا ہے کہ اس کے معنی نماز میں دعا کرنے کے ہیں، نیز القنوت کے معنی خشوع اختیار کرنا عبودیت کا اقرار کرنا اور ایسی فرمانبرداری کرنا جس میں نافرمانی نہ ہو اور کہا گیا کہ اس کے معنی کھڑے ہونے کے ہیں۔ ثعلب کہتے ہیں کہ قنوت کے اصلی معنی کھڑا ہونے کے ہیں اور کہا گیا کہ دیر تک کھڑا ہونے کو قنوت کہتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے: اللہ کے لیے دیر تک کھڑے رہو۔

                ابوعبیدہ نے کہا کہ قنوت کے اصلی معنی کئی ہیں:

                (۱) کھڑا ہونا، اس سلسلے میں حدیثیں وارد ہوئی ہیں؛ کیونکہ اس میں کھڑے ہوکر دعا کی جاتی ہے، اس سے زیادہ واضح حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاگیا کہ کون سی نماز افضل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس میں قیام لمبا ہو۔

                 نمازی کو قانت کہا جاتا ہے، حدیث میں ہے، مجاہد کی مثال نمازی اور روزے دار کی طرح ہے، حدیث میں ہے کہ ایک گھڑی غور وفکر کرنا رات بھر کھڑے ہوکر عبادت کرنے سے افضل ہے۔ قنوت کا لفظ حدیثوں میں متعدد معانی کے لیے آیا ہے۔ مثلاً فرمانبرداری، خشوع، نماز، دعا، قیام، لمباقیام خاموشی اختیار کرنا؛ چنانچہ حسب موقع ان معانی کا استعمال حدیثوں میں کیاگیاہے۔ ابن سیدہ نے کہا: قنوت کے اصلی معنی اطاعت کے ہیں، اللہ کا ارشاد ہے فرمانبردار مرد فرمانبردار عورتیں، پھر نماز میں کھڑے ہونے کو قنوت کہا گیا اور اسی میں سے وتر کا قنوت قنت اللہ یقنتہ کہا جاتا ہے کہ اس نے اللہ کی اطاعت کی اللہ کا ارشاد ہے: سب کے سب اس کے فرمانبردار ہیں۔ القانت کے معنی ہیں؛ اللہ کا ذکر کرنے والا اللہ پاک کا ارشاد ہے: بھلا وہ جو بندگی میں لگا ہوا ہے رات کی گھڑیوں میں سجدہ کرتے ہوئے۔ اور کہا گیا کہ القانت کے معنی عابد کے ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وہ عبادت گذار عورتوں میں تھیں،لغت میں مشہور یہ ہے کہ قنوت کے معنی دعا کے ہیں۔

                قانت کے حقیقی معنی اللہ کے حکم کو کرنے والا، دعا کرنے والا۔ جب کھڑا ہوتو اس کے ساتھ اس کو خاص کردیا جاتا ہے اور اس کو قانت کہا جاتا ہے؛ کیونکہ وہ اللہ کا ذکر کھڑے ہوکر کرتا ہے، قنوت کی حقیقت عبادت اور کھڑے ہوکر اللہ سے دعا مانگنے کی ہے۔ تمام عبادتوں پر بھی اس کا اطلاق ہوسکتا ہے؛ کیونکہ عبادتیں اگرچہ سب کی سب قیام کی حالت میں نہیں ہوتیں؛ لیکن کم از کم نیت کے ساتھ بالارادہ ان کو کیا جاتا ہے، اس پر قنوت کا اطلاق کیا جاتا ہے۔(لسان العرب۲/۷۳)

                علامہ شامی نے لکھا ہے کہ دعاء القنوت یہ اضافتِ بیانیہ ہے۔ یعنی قنوت کے معنی بھی دعا کے ہیں اور کلام عرب میں اس طرح بولا جاتاہے۔

                قنوت کا وتر میں اور فرض نمازوں میں پڑھنے کا تذکرہ احادیث سے ثابت ہے۔

                برصغیر میں فرض نمازوں میں پڑھے جانے والے قنوت کو قنوتِ نازلہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ حنفیہ جس قنوت کو پڑھتے ہیں وہ سند کے ساتھ مندرجہ ذیل کتابوں میں ہے:

                (۱)           مصنف عبدالرزاق متوفی ۲۱۱ھ

                (۲)         مصنف ابن ابی شیبہ متوفی ۲۳۵ھ

                (۳)         المراسیل لابی داؤد سجستانی متوفی ۲۷۵ھ

                (۴)         مختصر قیام اللیل محمد بن نصر المروزی ۲۹۴ھ

                (۵)         شرح معانی الآثار امام طحاوی ۳۲۱ھ

                (۶)          الدعاء للطبرانی ۳۶۰ھ

                (۷)         الدعوات الکبیر للبیہقی ۴۵۸ھ

                (۸)         السنن الکبریٰ ۴۵۸ھ

                (۹)          کنزالعمال المتقی الہندی ۹۷۵ھ

                مندرجہ ذیل صحابہٴ کرام سے حنفیہ کا قنوت مروی ہے:

                ۱-            حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ

                ۲-           عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

                ۳-          اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ

                ۴-          علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ

                ۵-           حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ

                ۶-           خالد بن ابی عمران رضی اللہ عنہ

                ۷-          انس بن مالک رضی اللہ عنہ

                رکوع سے قبل قنوت پڑھنے کی روایات مندرجہ ذیل کتابوں میں ہے:

                الآثار للامام ابی یوسف رحمہ اللہ حدیث نمبر:۳۴۵

                الآثار للامام محمد بن الحسن الشیبانی رحمہ اللہ حدیث نمبر: ۲۱۱

                مصنف عبدالرزاق حدیث نمبر:۴۹۷۴

                مصنف ابن ابی شیبہ حدیث نمبر: ۶۹۰۵، ۶۹۷۲، ۶۹۷۵

                مسند احمد حدیث نمبر: ۱۲۷۲۸

                سنن الدارمی حدیث نمبر: ۱۶۳۷

                صحیح البخاری حدیث نمبر: ۹۵۷، ۲۹۹۹، ۳۸۷۰

                صحیح مسلم باب استحباب القنوت فی جمیع الصلاة رقم: ۳۰۱ (۶۷۷۰)

                سنن ابن ماجہ حدیث نمبر: ۱۱۸۲، ۱۱۸۳

                سنن ابی داؤد حدیث نمبر: ۱۴۲۹

                سنن نسائی حدیث نمبر: ۱۶۹۹

                شرح مشکل الآثار حدیث نمبر: ۴۵۰۰، ۴۵۰۱، ۴۵۰۳

          عن عطاء عن عبید بن عمیر أن عمر رضی اللہ عنہ قنتا بعد الرکوع: فقال: اللّٰھم اغفرلنا وللمومنین وللمومنات والمسلمین والمسلمات وألّف بین قلوبھم واصلح ذات بینھم وانصرھم علی عدوک وعدوھم․ اللّٰھم العن الکفرة اھل الکتاب الذین یصدون عن سبیلک ویکذبون رسلک ویقاتلون اولیائک․ اللّٰھم خالف بین کلمتھم وزلزل اقدامھم وانزل بھم بأسک الذی لا تردہ عن القوم المجرمین․

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

          اللّٰھم ایاک نعبد ولک نصلی ونسجد والیک نسعی نحفد ونخشی عذابک الجد نرجو رحمتک ان عذابک بالکافرین ملحق رواہ سعید بن عبد الرحمن بن ابزی عن ابیہ عن عمر فخالف ھذا فی بعضہ السنن الکبری للبیھقی: ۲/۲۹۸․

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

          اللّٰھم انا نستعینک ونستغفرک ونثنی علیک ولا نکفرک ونخلع ونترک من یفجرک․

          عبدالرحمن بن ابزی نے اپنے والد أبزی سے اس کو بیان کیا ہے۔ (الاتقان:۱/۲۲۶)

                علامہ شامی لکھتے ہیں:

                خصوص اللّٰھم انا نستعینک فسنة فقط حتی لو أتی بغیرہ جاز اجماعاً (الدرالمختار واجب الصلاة: ۴۶۸)

                اللّٰھم انا نستعینک کو خصوصی طور پر پڑھنا نماز وتر میں سنت ہے، اس کے علاوہ کوئی بھی دعا کرے تو جائز ہوجائے گا۔

                قنوت کے مختلف الفاظ احادیث میں مروی ہیں، سب سے قنوت کی سنت ادا ہوجائے گی۔

                حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اپنے تلامذہ کو مندرجہ ذیل قنوت سکھلاتے تھے۔

                حدثنا ابن فضیل عن عطا بن السائب عن ابی عبد الرحمٰن قال: علمنا ابن مسعود أن نقرأ فی القنوت:

                اللّٰھم انا نستعینک ونستغفرک ونثنی علیک الخیر ولا نکفرک ونخلع ونترک من یفجرک اللّٰھم ایاک نعبد ولک نصلی ونسجد والیک نسعی نحفد نرجو رحمتک ونخشی عذابک ان عذاب بالکفار ملحق (مصنف ابن ابی شیبہ رقم: ۶۹۶۵)

                ہمارے ہاں ہندوستان میں جو قنوت پڑھا جاتاہے اس میں کچھ الفاظ زیادہ بھی ہیں، قنوت صبح کی نماز میں اور وتر دونوں میں پڑھا جاتا ہے۔

                عن ابن جریج قال: اخبرنی من سمع ابن عباس ومحمد بن علی بالخیف یقولان کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقنت بھولاء الکلمات فی صلاة الصبح وفی الوتر باللیل․ (مصنف عبدالرزاق رقم: ۴۹۵۷)

                مجھ کو خبر دی حسن نے حضرت ابن عباس اور محمد بن علی سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر اور رات کی وتر میں مندرجہ ذیل دعا پڑھا کرتے تھے۔

قنوت سے قبل تکبیر کہی جائے گی اور پھر قنوت پڑھا جائے گا

                (۱) عن الثوری عن عبد الأعلیٰ عن ابی عبد الرحمن السلمی أن علیا کبر حین قنت فی الفجر ثم کبر حین رکع․

                ابوعبدالرحمن سلمی کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہی اور پھر صبح کی نماز میں قنوت پڑھی، پھر تکبیر کہی اوررکوع کیا۔ (مصنف عبدالرزاق حدیث نمبر: ۴۹۶۰)

                حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ قنوت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ قتال کے زمانہ میں پڑھی تھی۔

                (۲) عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کان اذا فرغ من القرأة کبر ثم قنت․

                حضرت ابن مسعود جب قرأت سے فارغ ہوتے تو تکبیر کہتے اور پھر دعاء قنوت پڑھتے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث:۶۹۴۸)؛

                ایک بار حضرت اقدس مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی رحمة اللہ علیہ کے پاس، حضرت مولانا ارشاد صاحب مبلغ دارالعلوم دیوبند تشریف لائے اور عرض کیا کہ حضرت قنوت کے بعد دُرود شریف پڑھا جائے گا؟ حضرت نے جواب دیا: ہاں، انھوں نے کہا کہ: آپ بھی پڑھتے ہیں؟ حضرت نے جواب دیا: ہاں! انھوں نے کہا: کب سے پڑھتے ہیں؟ حضرت نے جواب دیا: جب سے نورالایضاح پڑھی تھی۔

ملاحظہ: اللّٰھم نستعینک اور اللّٰھم اھدنا دونوں کو جمع کرنا مستحب ہے۔ دیکھیے (فتاوی ہندیہ: ۱/۱۱۱)

وصلی اللہ علی سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین․

***

———————————————

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 9 – 10 ‏، جلد: 97 ‏، ذیقعدہ – ذی الحجہ 1434 ہجری مطابق ستمبر – اکتوبر 2013ء

Related Posts