از: مولانا محمد قمرالزماں ندوی، استاذ مدرسہ نورالاسلام کنڈہ، پرتاب گڑھ
تشبیہ وتمثیل ہر زبان میں تعبیر وتفہیم اوراظہار وبیان کا ایک موٴثر اور خوبصورت ذریعہ رہا ہے، نیز ہر قسم کی مادی تعلیم وتربیت کی تکمیل تشبیہ و تمثیل سے ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کا کوئی لٹریچر خواہ وہ انسانی ہو یا آسمانی ا سے خالی نہ رہ سکا؛ کیونکہ ایسا ہونا ممکن نہ تھا۔ کلام الٰہی کے بعد سب سے زیادہ اہم کلام کلام رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ کلام نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی کثرت سے اس ذریعہٴ تفہیم کو اختیار کیاگیا ہے اور بعض اہل توفیق نے ان تمثیلات و تشبیہات کو جمع بھی کیا ہے ہم بھی اس مضمون میں احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف چند تمثیلاتی نمونے پیش کررہے ہیں۔
مومن ایک مومن کے لیے آئینہ ہے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان أحدَّکُمْ مِرْاٰةُ أخِیْہ فانْ رَأن أذیً فَلْیُمِطْہُ عَنْہُ“ تم میں سے ہر کوئی ایک دوسرے کا آئینہ ہے، اگر اس میں کوئی برائی دیکھے تو اسے دور کرے۔ اس حدیث میں ایک مومن کو دوسرے مومن کے لیے آئینہ قرار دیاگیا ہے، انسان آئینہ کو اپنی ضرورت سمجھتا ہے، اس میں کوئی عیب ہو تو تقاضہٴ محبت ابھرتا ہے، نہ انسان اپنی غیبت کرتا ہے، نہ شکوہ شکایت؛ بلکہ اصلاح کی سعی کرتا ہے، یہی رویّہ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے ساتھ اپنانا چاہیے، اس تشبیہ کی گہرائی اور گیرائی اور معنویت پر غور کیجیے، اس کے بعد فیصلہ کیجیے کہ دین میں اس سے بہتر اور کوئی تشبیہ ممکن ہے؟
دنیا سے بے رغبتی اور لا تعلقی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر دنیا سے بے رغبتی اور بے اعتنائی کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: ”کُنْ فی الدنیا کأنَّکَ غریبٌ أوْ عَابِرِیْ سَبِیلٍ“ (بخاری) دنیا میں تم اس طرح رہو کہ گویا تم مسافر ہو یا راہ رو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں محسوس چیز کو محسوس سے تشبیہ دی ہے۔ دنیا سے انسان کے تعلق کی بے ثباتی اور ضرورت کے مطابق متاعِ دنیا سے نفع اٹھانے اور حرص وطمع سے اجتناب کی تلقین کے لیے اس سے بہتر شاید کوئی مثال نہیں ہوسکتی۔
واعظ بے عمل
اس کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت لطیف مثال دی ہے فرمایا: ”مثل الذی یُعَلِّمُ النَّاسَ الخَیْرَ وَیَنْسیٰ نَفْسَہ کَمَثَلِ السِّرَاجِ الَّذِيْ یُضِیُٴ النَّاسَ وَیُحْرِقُ نَفْسَہ“ جو شخص کسی کو نیکی کی تعلیم دے اور خود اس پر عمل نہ کرے اس کی مثال اس چراغ کی سی ہے جو اوروں کو تو روشنی دے اور اپنے آپ کو جلاتا رہے۔
حُبّ جاہ ومال
دنیا میں کون انسان ہے، جسے عزت اور دولت محبوب ومرغوب نہ ہو۔ یہ چیزیں صرف مرغوب ہی نہیں؛ بلکہ ان میں ہر روز اضافہ چاہتا ہے اور کوئی مقام ایسا نہیں جہاں یہ ہوس جاکر رک جائے۔ جب یہ محبت روح میں پیوست ہوجائے تو زندگی کا نصب العین بن جاتی ہے اور پھر ہر فتنہ وفساد اسی سے پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انسان سیاست ومذہب کے نئے نئے روپ دھارتا ہے اور ہر راہ سے اپنا یہ مقصد حاصل کرنے کی فکر میں لگا رہتا ہے۔ ہوسِ زر ہو یا ہوسِ اقتدار دونوں انسانیت اور دین کے لیے زہر ہیں؛ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تمثیل یوں فرمائی ”مَا ذِئْبَانِ ضَارِبَانِ فی حضیرةٍ یَأکلانِ ویُفْسِدان بأضرَّ فیھا مِنْ حُبِّ الشَرْفِ وحُبِّ المالِ فی دینِ المرءِ المسلم“ (رواہ بزار عن ابن عمر) دو خونخوار بھیڑیوں کا کسی زخم کو چاٹ چاٹ کر خراب کرنا زخم کے لیے اتنا مضر نہیں جتنا مضر ایک مسلمان کے دین کے لیے حب جاہ اور حُب مال ہے۔
نماز اور مغفرت گناہ
أوأیْتُمْ لَوْ اَنَّ نَھْرًا بِبَابِ أحدِکُمْ یَغْتَسِلُ فیہ کلَّ یومٍ خَمْساً ھَلْ یَبْقیٰ مِنْ دَرْنِہ شَيْءٌ قالوا: لا یَبْقَیٰ مِنْ دَرْنِہ شَيءٌ فذلک مَثَلُ صَلَواتِ الخَمْسِ یَمْحُو اللہَ بِھِنَّ الخطایا (رواہ البخاری عن ابی ہریرہ) حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے اگر تمہارے گھر کے سامنے سے نہر جاری ہو اور ہر روز اس میں پانچ مرتبہ غسل کیا جائے تو جسم پر ذرہ برابر میل رہ سکتا ہے، لوگوں نے کہا ہرگز نہیں رہ سکتا۔ فرمایا: یہی مثال نماز پنج گانہ کی ہے، جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ گناہوں کو دھو دیتے ہیں۔ مذکورہ حدیث میں جو تمثیل وتشبیہ ہے وہ نہایت اعلیٰ اور عمدہ ہے؛ مگر یہ صرف انھیں لوگوں کے لیے ہے، جو حقیقت صلاة سے واقف ہوں۔ نماز ہوتی ہی ہے تطہیر قلب ونگاہ کے لیے، اخلاق وسیرت کی بلندی کے لیے، نفس امّارہ کے تزکیہ کے لیے، جو دن رات میں کئی مرتبہ خدا کے سامنے حاضر ہوکر اپنی بندگی اور عبدیت کا اظہار کرے اوراس کے تقاضوں کو سمجھے اس کے گناہ دھل جانے میں کیا شک وشبہ ہوکتا ہے؛ لیکن اگر اس کے تقاضوں کو غلط طریقے سے سمجھا جائے تو پھر یہ ہوگا کہ نمازی دل کھول کر ارتکاب گناہ کرتا جائے گا اور دل ہی دل میں یہ خیال کرے گا کہ جہاں نمازیں پڑھ لیں گناہ معاف ہوگئے۔ یہ زاویہٴ نگاہ ایسا ہے جو بجائے پاک کرنے کے اور زیادہ ناپاک کرتا جاتا ہے اور نمازی مستحق رحمت ہونے کے بجائے وعید کا مستحق ہوتا جاتا ہے۔ قصور نماز کا نہیں، نمازی کی فطرت واستعداد کا ہے۔ کھانا توانائی کے لیے کھایا جاتاہے؛ لیکن اگر معدہ کی استعداد ہی صحیح نہ ہو تو وہی کھانا زہر بن جاتا ہے، قصور کھانے کا نہیں کھانے والے کی صلاحیت واستعداد کا ہوتا ہے۔
تلاوتِ قرآن اور اثرِ صحبت
تلاوت کرنے والوں کی قسموں کو یوں سمجھئے کہ کوئی قرآن مجید کی تلاوت کرتاہے اور کوئی نہیں کرتا۔ تلاوت کرنے والے اور نہ کرنے والے دونوں مومن متقی بھی ہوسکتے ہیں اور مومن وفاسق بھی، ان میں سے ہر ایک کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے الگ الگ تشبیہیں دی ہیں۔ ایک مومن قاری کی دوسری غیر مومن قاری کی تیسری فاسق قاری کی اور چوتھی فاسق غیر قاری کی اس کے ساتھ ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نیک وبد کی صحبت کے اثر کی بھی تمثیلیں بیان فرمائی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
جو مومن قرآن حکیم پڑھتا ہو، اس کی مثال اترج (لیموں یا نارنگی) جیسی ہے جس کا مزہ بھی اچھا اور خوشبو بھی اچھی اور جو مومن تلاوت قرآن پاک نہ کرتا ہو وہ گویا چھوہارا ہے، جس کا مزہ تو اچھا ہے؛ لیکن خوشبو کوئی نہیں؛ لیکن وہ فاجر جو قرآن پڑھتا ہو، ایساہے جیسا ریحانہ (چمبیلی) جس کی مہک اچھی اور مزہ کڑوا اور جو فاجر تلاوت قرآن پاک نہ کرتا ہو اس کی مثال حنظلہ (اندرائن) جیسی ہے، جس کا مزہ کڑوا اور بو کوئی نہیں اور صالح کا ہم نشین جیسے مشک پاس رکھنے والا یعنی اگر مشک میسر نہ آئے تو لپٹ تو آہی جائے گی اور بری صحبت میں رہنے والا ایسا جیسا بھٹی والا کہ اگر سیاہی سے بچ بھی گیا تو دھواں تو لگ ہی جائے گا۔ (رواہ ابوداؤد عن السنن)
مومن کی بہترین تمثیل
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن مخلص کو سونے کی ڈلی سے مشابہ قرار دیا ہے، حضرت عبداللہ بن عمر وبن العاص روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے مومن کی مثال اس سونے کی ڈلی کی سی ہے جس کے مالک نے اس کو تپایا پھر نہ تو اس کا رنگ بدلا اور نہ وزن گھٹا، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے مومن کی مثال ٹھیک اس شہد کی مکھی کی سی ہے جس نے عمدہ پھول چوسے، اچھا شہد بنایا اور جس شاخ پر وہ بیٹھی نہ تو اپنے وزن سے اس کو توڑا نہ خراب کیا(مسند احمد ۱۱/۴۵)۔
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں ایک مثال دے کر مومن کی چند صفتیں بیان فرمائی ہیں، اس کی پہلی صفت یہ ہے کہ اس میں کھوٹ بالکل نہیں نکلتا جتنا اس کو آزماؤ اتنا ہی اور کھرا نکلتا ہے وہ اس نقلی سونے کی طرح نہیں ہوتا جس کا تپانے سے رنگ بدل جاتا ہے یا اس کا وزن گھٹ جائے اس کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ شہد کی مکھی کی طرح صاف ستھری غذا کے سوا کوئی حرام اور مشتبہ کھانا نہیں کھاتا۔ اس کی تیسری صفت یہ ہے کہ وہ شہد کی مکھی کی طرح جہاں بیٹھتا ہے کسی کو ضرر نہیں پہنچاتا۔ ایک مومن مخلص کی اس سے بڑھ کر کوئی اور تمثیل ہوسکتی ہے؟
کھجور کی طرح
عن ابی عمررضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ انّ من الشجرة شجرةً لا یسقُطُ ورقُھا، وأنھا مثلُ المسلم فحدثونی ماھی؟ فوقع الناس فی شجرِ البوادی قال عبد اللہ ووقع فی نفسی انھا النخلةُ فا استحبتُ ثم قالوا: حدثنی ما ھی یا رسول قال ھی النخلة․ (فتح الباری ج۱، ص:۱۹۳ حدیث نمبر ۵۶۱)
حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ایک بار ان صحابہ سے جو مجلس میں موجود تھے) دریافت فرمایا ایک ایسا درخت ہے جس کے پتے جھڑتے نہیں ہیں وہ درخت مسلمان کی مانند ہے، کیا تم لوگ بتاسکتے ہو کہ وہ کون سا درخت ہوسکتا ہے؟ صحابہ سوچنے لگے اور ایک لمحے کے لیے گویا حاضرین جنگلوں اور صحراؤں میں گھومنے لگے ، حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ مجھے خیال ہوا کہ شاید کھجور کا درخت مراد ہو؛ لیکن چونکہ ہمارے بڑے خاموش تھے؛ اس لیے مجھے جواب دیتے ہوئے حیا محسوس ہوئی اور میں خاموش رہ گیا۔ پھر صحابہ نے عرض کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہی فرمادیں کون سا درخت مراد ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کھجور کا درخت۔
اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو کھجور کے درخت سے اس لیے مشابہ قرار دیا کہ کھجور کا درخت ہمیشہ ہرا بھرا اور خزاں نا آشنا رہتا ہے؛ اس لیے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سوال میں فرمایا کہ وہ درخت ایسا ہے جس کے پتے گرتے نہیں ہیں، گویا اس تشبیہ میں مسلمانوں کو متنبہ کرنا مقصود ہے کہ مسلمانوں کو بھی ہمیشہ ذکر و تسبیح کے ذریعہ ہرا بھرا رہنا چاہیے۔
دوسری بات یہ ہے کہ کھجور کا درخت بڑا ہی بابرکت اور نافع درخت ہے، کھجور کا پورا وجود انسان کے لیے نفع بخش ہے (اس کے پھل، پتے، بیج، تنہ، جڑ اور سایہ، یہ سبھی انسان کی ضرورت میں کام آتے ہیں) گویا مومن کو اس درخت سے تشبیہ دے کر اس کی نافعیت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ مومن کو اپنے سماج اور معاشرے کے لیے نافع ہونا چاہیے۔
صدیق و فاروق کی تمثیل
جنگ بدر میں ستر افراد قید ہوکر آئے تھے۔ ان قیدیوں کے متعلق جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ فرمایا، تو حضرت ابوبکر نے رائے دی کہ فدیہ لے کر ان سب کو رہا کردیا جائے، شاید اللہ تعالیٰ انھیں توبہ کی توفیق دے۔ حضرت عمر بولے کہ ان لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بے وطن کیا اور جھٹلایا، اس لیے سب کی گردنیں اڑادی جائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر! تمہاری مثال تو حضرت ابراہیم اور حضرت عیسیٰ جیسی ہے، حضرت ابراہیم نے فرمایا تھا کہ ”جو میری پیروی کرے، میرا ہے اور جو نافرمانی کرے، تو اللہ غفورالرحیم ہے“ اور عیسیٰ نے فرمایا کہ ”اگر تو انھیں سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں، اور اگر ان کی مغفرت فرمائے تو عزیز وحکیم ہے“ اور اے عمر! تمہاری مثال نوح اور موسیٰ جیسی ہے ، نوح نے یہ دعا کی تھی کہ ”ان کافروں میں سے کسی کو بھی زمین پر زندہ نہ چھوڑ“ اور موسیٰ نے یہ دعا کی تھی کہ ”ان کے دلوں میں اور سختی پیداکردے تاکہ عذاب الیم کو دیکھے بغیر یہ ایمان ہی نہ لاسکیں“ ابوبکر وعمر کی سیرتوں کے ساتھ سیدنا ابراہیم وعیسیٰ اور سیدنا نوح وموسیٰ کی سیرتوں سے جو واقف ہوگا، وہ یہ اقرار کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ان دونوں بزرگوں کے لیے اس سے بہتر تشبیہ وتمثیل ممکن نہیں۔
***
—————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 9 – 10 ، جلد: 97 ، ذیقعدہ – ذی الحجہ 1434 ہجری مطابق ستمبر – اکتوبر 2013ء