از: مولانا عمرفاروق لوہاروی
*صلح حدیبیہ کے موقع پر جب عروہ بن مسعود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:
”اگر یہ صورت ہوئی کہ قریش کو آپ پر غلبہ حاصل ہوگیا، تو واللہ! میں (آپ کے اردگرد) رلے ملے اور مختلف النوع لوگوں کو دیکھ رہا ہوں، جو اس لائق ہیں کہ آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں“۔
قبائل جب مخلوط ہوتے ہیں، تو مشکل گھڑی میں بعض کو چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں؛ لیکن جب مستقل ایک قبیلہ ہو، تو آدمی دوسرے افراد کو چھوڑ کر بھاگنے کو عار خیال کرتا ہے۔ عروہ بن مسعود نے قبائلی طور طریق کے پیش نظر مذکورہ جملہ کہا تھا۔ عروہ کو یہ پتا نہیں تھا کہ قرابت اور رشتہ داریوں سے بڑھا ہوا ایمان کا رشتہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ذریعہ موٴمنین کے دلوں کو باہم ایسا مربوط کیا تھا، جو نسبی رشتہ داریوں کے ربط و جوڑ سے یقینا کہیں زیادہ قوی ومستحکم تھا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عروہ کی بات سن کر فرمایا:
امْصَصْ بَظْرَ اللات، أنحنُ نَفِرُّ عنہ ونَدَعُہ․ (صحیح بخاری، کتاب الشروط، باب الشروط فی الجہاد، ص:۳۷۸، ج:۱، قدیمی: کراچی)
”تولات کی شرم گاہ چوس! کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے راہِ فرار اختیار کریں گے اور آپ کو چھوڑ دیں گے؟
’فتاویٰ دارالعلوم زکریا‘ میں اس کے متعلق حسبِ ذیل سوال وجواب درج ہے:
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول امصص بظر اللات کی تحقیق:
سوال: ”صحیح بخاری“ میں ہے کہ جب عروہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہا کہ اگر آپ اپنی قوم کا استیصال کریں گے اور اگر مغلوب ہوئے، تو یہ مختلف النوع لوگ آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے، تو اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:
”امصص بظر اللات“․
اس کے معنی شارحین لکھتے ہیں:
”چوستے رہو لات کی شرم گاہ“۔ (بخاری شریف ۱/۳۷۸، باب الشروط فی الجہاد)
یہ گالی بظاہر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان صدیقیت کے خلاف ہے۔ نیز قرآن کریم کی آیت ہے:
﴿وَلاَ تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ فَیَسُبُّوا اللہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ﴾
یہ اس کے بھی منافی ہے، اس اشکال کا کیا حل ہے؟
قادیانی اس جملہ سے مرزا کی مغلظات کی صحت پر استدلال کرتے ہیں۔ مثلاً مرزا نے اپنے نہ ماننے والوں کو کَنْجَریوں کی اولاد کہا ہے اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گوہ کاڈھیر اور اپنے دشمنوں کو بیابانوں کے خنزیر کہا ہے۔ یہ سب گالیاں مرزا قادیانی نے اپنی کتابوں میں لکھی ہیں۔ نیز شیعہ اس جملہ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بدزبانی پر استدلال کرتے ہیں۔
جواب: بظر کے دو معنی ہیں:
(۱) شرم گاہ کا ابھرا ہوا حصہ۔
(۲) ہونٹ کے درمیان کا ابھرا ہوا حصہ (القاموس الوحید:۱۷۱) چناں چہ بظر کے معنی ”الشفة العلیا“ بھی ہے۔ (المعجم الوسیط:۶۲)
اور یہاں دوسرے معنی مراد ہیں، جس کے قرائن یہ ہیں:
(۱) امصص کا لفظ قرینہ ہے؛ کیوں کہ چوسنے کی چیز ہونٹ ہے نہ کہ شرم گاہ۔
(۲) اسی حدیث میں مذکور ہے کہ صحابہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب منہ پر لگاتے یا بدن پر لگاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بقیہ پانی پیتے تھے۔ (بخاری شریف ۱/۳۷۹)
مطلب یہ ہے کہ تم لات کے لعاب کو چوسو، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لعاب کو منہ پر لگاتے اور چوستے رہیں گے۔
(۳) عروہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر سب وشتم کا الزام نہیں لگایا، معلوم ہوا یہ گالی نہیں تھی۔
(۴) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اُسے اچھے معنی پر محمول کیا جائے۔ واللہ اعلم (فتاویٰ دارالعلوم زکریا، کتاب الحدیث والآثار، ص:۳۳۸،۳۳۹، ج:۱، زمزم پبلشرز کراچی، تاریخ اشاعت: نومبر۲۰۰۷/)
بندہ کہتا ہے:
سائل کو امصص بظر اللات کے معنی ”تولات کی شرم گاہ چوس“ چند وجوہ سے ٹھیک معلوم نہیں ہوئے:
(۱) یہ گالی بظاہر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شانِ صدیقیت کے خلاف ہے۔
(۲) اِس آیت کے منافی ہے ﴿وَلاَ تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ فَیَسُبُّوا اللہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ﴾ (الانعام:۱۰۸)
ترجمہ:اور دشنام مت دو ان کو، جن کی یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں؛ کیوں کہ پھر وہ براہِ جہل حد سے گزرکر اللہ کی شان میں گستاخی کریں گے۔
(۳) قادیانی اس جملہ سے مرزا کی مغلظات کی صحت پر استدلال کرتے ہیں۔
(۴) شیعہ اس جملہ سے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بدزبانی پر استدلال کرتے ہیں۔
مذکورہ امور میں سے ہر ایک کا جواب بالترتیب حسبِ ذیل ہے:
(۱) صلح حدیبیہ کے موقع پر ابتداءً حالات سِلْم وصلح کے نہیں تھے؛ بلکہ حالات جنگ کا رُخ اختیار کیے ہوئے تھے؛ چناں چہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے سرپر خود(آہنی ٹوپی) کا ہونا بھی اس کا قرینہ ہے، جس کا ذکر خود اس روایت میں ہے اور ظاہر ہے کہ حالاتِ جنگ کے اَحکام صلح کے اَحکام سے مختلف ہوتے ہیں اور جب میدانِ جنگ میں قتال بالسِّنان شانِ صدیقیت کے خلاف نہیں، تو صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم جیسے معزز حضرات کی طرف فرار کی نسبت کرنے والے اور ان کے جذبہٴ صدق ووفا پر نکتہ چینی کرنے والے سے جنگی حالات میں قتال باللسان بہ طریق اولیٰ شانِ صدیقیت کے خلاف نہیں۔
(۲) حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ”امصص بظر اللات“ سے عروہ کو دشنام وگالی دی تھی، لات بُت کو نہیں، ہاں! لات بُت کے لیے ”بظر“ یعنی شرم گاہ کا اثبات ضرور پایاگیا ہے؛ لیکن جب مشرکین لات بُت کو موٴنث قرار دیتے تھے، تو موٴنث کے لیے ”بظر“ یعنی شرمگاہ کا اثبات گالی کیسے ہوا؟
جب یہ گالی لات بُت کو نہیں، تو آیتِ کریمہ ﴿وَلاَ تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ فَیَسُبُّوا اللہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ﴾․ (الأنعام:۱۰۸) کے منافی بھی نہیں۔
(۳) جنگی حالات میں نبیِ صادق ومصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں قتال باللسان سے نبوت کے جھوٹے مدی مرزا کی مُغلَّظات کی صحت پر استدلال کیسے ہوسکتا ہے؟ چہ نسبت خاک رابعالَمِ پاک؟
کارِ پا کاں را قیاس از خود مگیر
گرچہ ماند در نوشتن شیر و شیر
(۴) مذکورہ بالا امور سے اس کا جواب بھی ہوگیا۔
مجیب محترم نے ”بظر“ کے دو معنی ذکر کرکے ان میں سے بجائے ”شرمگاہ“ کے ”ہونٹ کے درمیان کا ابھرا ہوا حصہ“ یا ”اوپر کا ہونٹ“ والے معنی مراد لیے اور اس کے لیے چار قرائن پیش فرمائے ہیں۔ ”قولہ“ کے عنوان سے وہ قرائن اور ”یقول العبد الضعیف“ کے عنوان سے ان پر بندہ کی ناقص آراء ذیل میں درج ہیں:
(۱) قولہ: امصص کا لفظ قرینہ ہے؛ کیوں کہ چوسنے کی چیز ہونٹ ہے نہ کہ شرمگاہ۔
یقول العبد الضعیف:
اس کو قرینہ ٹھہرانا اس پر مبنی ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے گالی کا ارادہ نہیں فرمایا تھا؛ حالاں کہ اس مبنیٰ ہی میں کلام ہے۔
درحقیقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس جملہ سے گالی ہی کا قصد فرمایا تھا۔ عرب عادتاً اس سے گالی دیتے تھے؛ لیکن اُمّ کے لفظ کے ساتھ، یعنی ”امصص بظر أمک“ کہتے تھے؛ چوں کہ مشرکین لات بُت کی تعظیم کرتے تھے؛ اس لیے عروہ کی گالی میں مبالغہ کے قصد سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ”اُمّ“ کی بجائے اس معبودِ باطل کو ذکر کیا۔ قاضی عیاض، ابن بطال، علامہ کرمانی، ابن الملقن، بدرالدین زرکشی، حافظ ابن حجر عسقلانی، علامہ عینی، علامہ قسطلانی، شیخ الاسلام زکریا الانصاری، علامہ سیوطی، علامہ محمد تاؤدی، شیخ عبداللہ بن حجازی الشرقاوی،نواب صدیق حسن خاں قنوجی، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی رحمہم اللہ، شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اور حضرت مولانا صوفی محمد سرور صاحب مدظلہما نے مذکورہ جملہ کو گالی ہی کے معنی میں لیا ہے۔ طوالت کے اندیشہ سے کتابوں کی عبارات کی بجائے صرف حوالہ جات پر اکتفاء کیاجاتاہے:
(۱) مشارق الأنوار، ص:۱۳۹، ج:۱، العلمیة: بیروت
(۲) شرح صحیح البخاری لابن بطال، ص:۱۲۸،۱۲۹، ج:۸ مکتبة الرشید: الریاض
(۳) شرح البخاری للکرمانی، ص:۴۳، ج:۱۲، دار احیاء التراث العربی: بیروت
(۴) التوضیح لشرح الجامع الصحیح، ص:۵۹، ج:۱۷، وزارة الاوقاف: قطر
(۵) التنقیح لألفاظ الجامع الصحیح، ص:۴۲۹، ج:۲، نزار مصطفی الباز: مکة المکرمة
(۶) فتح الباری، ص:۴۰۱، ج:۵، دارالریان: القاہرة
(۷) عمدة القاری، ص:۱۰، ج:۱۴، دار احیاء التراث العربی: بیروت
(۸) ارشاد الساری، ص:۲۰۶، ج:۶، العلمیة: بیروت
(۹) منحة الباری بشرح صحیح البخاری المسمی تُحْفَةُ الباری، ص:۵۲۹، ۵۳۰، ج:۵، الرشید: الریاض
(۱۰) التوضیح علی الجامع الصحیح، ص:۲۰۲، ج:۳، العلمیة: بیروت
(۱۱) حاشیة التاودی بن سودة علی صحیح البخاری، ص:۹۶، ج:۳، العلمیة: بیروت
(۱۲) فتح المبدی بشرح مختصر الزبیدی، ص:۴۹۴، ج:۲، العلمیة: بیروت
(۱۳) عون الباری لحلّ أدلة صحیح البخاری، ص:۱۹۴، ج:۴، العلمیة: بیروت
(۱۴) ہامش لامع الدراری، ص: ۱۶۶، ج:۷، المکتبة الامدادیة: مکة المکرمة
(۱۵) آپ بیتی حضرت شیخ الحدیث صاحب نور اللہ مرقدہ، ص:۳۸، ح:۶، معہد الخلیل الاسلامی: کراچی
(۱۶) انعام الباری دروس بخاری شریف، ص:۹۷۹، ج:۷، مکتبة الحراء: کراچی
(۱۷) الخیر الجاری فی شرح صحیح البخاری، ص:۱۸۷، ج:۳، ادارہ تالیفاتِ اشرفیہ: ملتان
(۲) قولہ: اسی حدیث میں مذکور ہے کہ صحابہ آں حضورت صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب منہ پر لگاتے یا بدن پر لگاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بقیہ پانی پیتے تھے:
”قال: فَواللہ ما تنخم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نخامةً الّا وقعت فی کفِّ رجلٍ منھم فَدَلَکَ بھا وجھَہ وجِلْدَہ “․ (بخاری شریف ۱/۳۷۹)
مطلب یہ ہے کہ تم لات کے لعاب کو چوسو، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لعاب کو منہ پر لگاتے اور چوستے رہیں گے۔
یقول العبد الضعیف:
بلاشبہ حضرات صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب مبارک اور بلغم مبارک اپنے چہرے اور بدن پر مَلتے تھے؛ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہونٹ مبارک سے نہیں چوستے تھے؛ بلکہ اپنی ہتھیلیوں میں لے کر پھر چہرے اور بدن پر ملتے تھے؛ لہٰذا حدیثِ بالا کو بنیاد بناکر امصص بظر اللات کا مطلب ”تم لات کے لعاب کو چوسو“ نکالنا تکلف سے خالی نہیں۔
(۳) قولہ: عروہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر سب وشتم کا الزام نہیں لگایا، معلوم ہوا یہ گالی نہیں تھی۔
یقول العبد الضعیف:
صلح حدیبیہ والی اسی روایت میں معاً وارد ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ”امصص بظر اللات، أنحن نفرّ عنہ و نَدَعُہ“ فرمایا، تو عروہ بن مسعود نے دریافت کیا کہ یہ (کلام کرنے والا) کون ہے؟ حاضرین نے کہا: ابوبکر ہیں۔ عروہ نے کہا: سنیے! اس ذات کی قسم، جس کے قبضہ میں میری جان ہے! اگر آپ کا احسان مجھ پر نہ ہوتا، جس کا میں اب تک آپ کو بدلہ نہیں دے سکا ہوں، تو ضرور آپ کو جواب دیتا۔
فَقَالَ لَہ أَبُوْبَکْرٍ: اِمْصَصْ بَظْرَ اللَّاتِ، أَنَحْنُ نَفِرُّ عَنْہُ وَنَدَعُہ؟ فَقَالَ: مَنْ ذَا؟ قَالُوْا: أَبُوْبَکْرٍ․ قَالَ: أمَا وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہ، لَوْلاَ یَدٌ کَانَتْ لَکَ عِنْدِیْ لَمْ أجْزکَ بِھَا لَأجَبْتُکَ․ (صحیح بخاری، ص:۳۷۸، ج:۱، قدیمی: کراچی)
اس سے صاف معلوم ہوا کہ عروہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا کلام: امصص بظر اللات سُنا اور اس کو اپنے محمل میں رکھا، یعنی جس قصد وارادہ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ جملہ کہا تھا، عروہ نے اس کا مقصود، سب وشتم کو پالیا؛ لیکن دیت کی ادائیگی میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے مکّی دور میں عروہ کی دس اونٹنیوں سے مدد کی تھی، اب تک وہ احسان اتار نہ سکنے کی وجہ سے عروہ نے اس کا جواب نہ دیا؛ بلکہ اس نے بقولِ خود صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی گالی کا جواب نہ دے کراحسان اتارا۔
اگر امصص بظر اللات سے سب وشتم مقصود نہ تھا اور عروہ نے اس کو سب وشتم کے معنی میں نہیں لیا تھا؛ بلکہ اس کا مطلب وہ تھا، جو مجیب محترم نے ذکر فرمایا ہے، تو احسان اتار نہ سکنا جواب دینے میں مانع کیوں کر ہوا؟
(۴) قولہ: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اُسے اچھے معنی پر محمول کیا جائے۔
یقول العبد الضعیف:
ماقبل میں معلوم ہوچکا کہ جنگی حالات میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا یہ قتال باللسانپر مشتمل کلام ہرگز ان کی شانِ صدیقیت کے خلاف نہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم
***
——————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 7 – 8 ، جلد: 97 ، رمضان – شوال 1434 ہجری مطابق جولائی – اگست 2013ء