آپریشن انتخابات ۲۰۱۴ء شازشوں اورنفرتوں کے سایہ میں

از: ڈاکٹر ایم․ اجمل فاروقی‏، ۱۵-گاندھی روڈ، دہرہ دون

آسام فسادات کے بعد حالیہ شہری آبادی کے سروے میں ٪۴۲ شہریوں نے جس طرح مودی کو بہ طور وزیراعظم پسند کیا ہے اور اس کے مقابلہ راہل گاندھی ٪۲۹ اور نتیش کمار ٪۱۴-۱۲ رہے ہیں، یہ جائزہ ایک بار پھر اس حقیقت کو اجاگر کررہا ہے کہ پڑھا لکھا، خوشحال، نوکری پیشہ اعلیٰ ذات طبقہ دن بہ دن فرقہ پرست اور نفرت کی سیاست کے جال میں پھنس رہا ہے۔ اس سے کچھ دن پہلے ہی یوپی میں شہری انتظامیہ کے انتخابات میں فرقہ پرست کی زبردست جیت نے بھی اس حقیقت کو واضح کیاتھا؛ مگر ہمارا متعصب، مفاد پرست میڈیا اِن حقائق سے نظریں چراکر صرف دنیا بھر میں نام نہاد مسلم فرقہ پرستی اور طالبانائزیشن اور وہابی اسلام کا رونا روتا رہتا ہے؛ جب کہ دنیا بھر میں انتخابی نتائج اور فکری رجحانات تمام مذاہب اور ممالک کے عوام میں مذہب یا راشٹر کے نام پر تعصب، مظالم اور تنگ نظری کا شکار ہورہے ہیں۔ تمام یورپین ممالک کے انتخابات میں امیگریشن مخالف، غیرملکی مخالفت نسل پرست طاقتوں کی مضبوطی (برطانیہ، فرانس، جرمنی، ہالینڈ، اسپین) اس طرف واضح اشارہ ہے۔ میانمار میں مسلم مخالف جذبات کے پیچھے کیا عوامل ہیں؟ آسام میں بنگلہ دیشیوں کے نام پر مسلم مخالف پروگرام کیوں گذشتہ دو دہائیوں سے چلایا جارہا ہے؟ غیرمسلم بنگلہ دیشیوں سے کیا ہمارے وسائل پر دباؤ نہیں پڑتا؟ ہندوستان بھر میں تبتیوں کی کالونیاں اور آبادیاں ہیں کیا وہ ملکی وسائل پر بوجھ نہیں ہیں؟ ہندوستان بھر میں نیپالیوں کی کثیر تعداد جواَن پڑھ اور محنت مزدوری کرنے والی ہوتی ہے ہندوستانی وسائل اور ذرائع روزگار کو متاثر کرتی ہے؛ مگر اُس پر واویلا یہ نام نہاد نفرت پرست لوگ کیوں نہیں کرتے؟ غیرملکی طاقتوں کی شرانگیزیاں اپنی جگہ ہیں؛ مگر کیا اس سے ملکی نفرت پسندوں اور علاقائیت کے نام پر تشدد پھیلانے والوں کا جرم کم ہوجاتاہے؟ آج ہم ہندوستان میں بنگلہ دیشی مسلمانوں کو نشانہ بناکر اپنی سیاست چلانا چاہتے ہیں؛ مگر جب ہمیں برطانیہ، امریکہ، فرانس، کناڈا میں ٹھیک انھیں وجوہات کی بناء پر نشانہ بنایا جاتا ہے تو ہم احتجاج کرتے ہیں؟ آج ہم فخر سے کہتے ہیں دنیا بھر میں تقریباً ایک کروڑ NRI رہتے ہیں، جن میں اکیلے خلیج میں ۳۵ لاکھ ہندوستانی روزگار سے لگے ہوئے ہیں اور سالانہ ۶۰-ارب ڈالر ہندوستان بھیج رہے ہیں، جن میں اکثر خصوصاً خلیج میں بہت زیادہ باصلاحیت اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی نہیں ہیں اگر وہاں بھی ویساہی نفرت کا ماحول بنایا جائے جیسا ممبئی کے نفرت کے سوداگر بنارہے ہیں اور آج تک ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوئی تو کس منھ سے ہم بیرونی شازش کار دشمنوں کی شکایت کرسکتے ہیں؟ آؤٹ سورسنگ کے نام پر ہمارے نئے نئے اتحادی اُبامہ اور بُش کتنے ہندوستان مخالف ہیں؛ مگر ہمارا یہ ٪۴۲ مودی پرست ”دیش بھگت“ طبقہ خصوصاً اس کا میڈیا ان کے خلاف منھ کیوں نہیں کھولتا؟ ابھی تک تو مسلمان ہی سازش، تھیوری کو لے کر بدنام کیے جاتے تھے؛ مگر اب تو ہماری حکومت کے اعلیٰ ترین داخلہ افسران سارا الزام شازشیوں کے سرتھوپ کر ملکی نفرت پسندوں اور فرقہ پرستوں کو بچارہے ہیں۔ اگر آج کافساد SMS اور بگاڑی اور بنائی ہوئی تصاویر کا نتیجہ ہے تو ۱۹۸۳/ کا نیلی کا بھیانک فساد ؛ بلکہ مسلم نسل کشی کس شازش کا نتیجہ تھی اور اگر تھی تو پچھلے تیس سالوں میں نیلی فساد کے ذمہ داروں کے خلاف محکمہ داخلہ نے کیا کارروائی کی؟ بنگلہ دیش سے دراندازی اور اسمگلنگ کے لیے کیا ہم نے اپنی صفوں کا جائزہ لیا ہے کہ کس طرح بین الاقوامی سرحدوں پر انسانوں، جانوروں، سامانوں ہر شے کا ریٹ مقرر ہے اور آر پار سب کچھ آتا جاتا ہے اس کے لیے بھی صرف مسلمان ہی ذمہ دار ہیں؟ وہاں لاکھوں کی تعداد میں B.S.F کیا کرتی ہے۔ اگر وہیں سے نہ آنے دیا جائے تو مسئلہ کیسے پیدا ہو؟ سوشل میڈیا کے رول پر بھی یک طرفہ باہری لوگوں کو ذمہ دار بناکر انڈین ایکسپریس اور ٹائمس آف انڈیا کی خبروں کے مطابق کم سے کم ٪۲۰ ہندو تنظیموں کے رول کو نفرت اور بھگدڑ پھیلانے میں کیوں نظر انداز کیاگیاہے؟ ان کے خلاف کیا کارروائی ہورہی ہے؟ عید سے ایک روز پہلے بنگلور سے گوہاٹی جارہی ٹرین میں جس بے رحمی سے مسلم نوجوانوں کو I-Card کے ذریعہ شناخت کرکے لوٹ مار کرکے چلتی ٹرین سے G.R.P کی موجودگی میں پھینکا گیا اور ان میں سے ۱۴ لوگ شدید زخمی ہوئے دونوجوان شہید بھی ہوگئے؛ مگر اس ظلم کو حکمراں، وزارت داخلہ اور دیش بھگت میڈیا سب ہضم کرگئے اورمسلمانوں کی ہمدرد ترنمول کانگریس کے وزیر ریل بھی نہیں بولے۔ اور ہمارے ملی لیڈران اقلیتی کمیشن کے ذمہ داران اور لوک سبھا میں باریش اور بے ریش لیڈران بھی معاملہ نہیں اٹھاپائے۔ ریزرویشن کی حمایت میں سارے دلت لیڈر پونیا سے لے کر پاسوان تک سب اکٹھا ہوگئے اور سنسد بھون پر احتجاج کیا؛ مگر ہمارے رہنما اتنی جرأت نہیں دکھاسکے؛ کیونکہ ہائی کمان کا حکم نہیں تھا۔ اگر آسام کا موجودہ دور تشدد ونفرت سازش تھا تو سازش کی ابتداء دو مسلم طالب علم رہنماؤں کے قتل (شہادت) سے کیوں ہوئی؟ حکومت ابھی تک یہ پتہ نہیں لگاپائی کہ ان دوطالب علموں کے قاتل کون تھے؟ اس سے سازش کا فریب خود واضح ہوجائے گا۔ بوڈو اورمسلمانوں دونوں کی اکثریت مل جل کر رہنا چاہتی ہے؛ مگر نیشنل پارٹیوں کی ووٹ کی سیاست ان کونفرت کی آگ میں جھلساتی ہے اور ووٹ کی فصل کاٹتی ہے۔ ورنہ عین ۲۰۱۴/ الیکشن سے قبل اس باسی کڑھی میں ابال کیوں پیدا کیاجارہا ہے؟ اس کے بہانہ ملک بھر میں میڈیا اور متعصب افسران کی مدد سے خوف، دہشت اور شک وشبہ کا ماحول کون اور کیوں بنارہا ہے؟ حکومت لاء اینڈ آرڈر کے مسئلہ میں بھی ایک فرقہ کے فرقہ پرستوں پر احتجاج کے لیے ساری دھارائیں لگاتی ہے اور دوسرے فرقہ کے نفرت کے سوداگر کو کھلی چھوٹ دیتی ہے؛ حالانکہ ہمارے حکمراں وقتی فائدہ کے لالچ میں اندھے ہوکر اس اصول کو بھول جاتے ہیں کہ نفرت کی بیل پھر اسی درخت کو سکھادیتی ہے جس پر وہ پروان چڑھتی ہے۔ ممبئی کے نفرت کے سوداگر نے اسی لیے مسلمانوں کے فوراً بعد بہاریوں کو نشانہ پر لے لیا؛ کیونکہ مسلمانوں کے خلاف اس کی شرانگیزی کو حکومت، میڈیا اورعوام نے قبول کیا اور منظوری دی اس کی مانگ کے نتیجہ میں پولیس کمشنر کا تبادلہ کردیا؛ مگر اس پولیس حاکم کا کچھ نہیں ہوا جس نے پولیس کی اجازت کے بغیر مارچ نکالنے دیا؛ کیوں کہ اس کے ساتھ بھیڑہے، سوال یہ ہے کہ کیا بھیڑ کے زور پر قانون ۶/دسمبر ۱۹۹۲/ کی طرح مستقل توڑے جاتے رہیں گے اور خاطی، فسادی زیڈ پلس ٹو سیکورٹی میں گھومتے رہیں گے؟

                ان حالات میں مسلمانوں کو صبر اور شجاعت کے ساتھ ایمانی غیرت اور انسانیت کی محبت کے جذبہ سے غیرمسلم عوام سے سیدھا رابطہ بڑھانا ہوگا۔ صرف اپنے بڑے بڑے اجتماعات؛ مشاعرہ اور سمپوزیم کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ میدان میں آکر عوام الناس سے ربط کرکے مشترکہ مسائل؛ مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت، فحاشی، عریانیت، دختر کُشی، کرپشن، جہیز وغیرہ کے خلاف مہم چلائیں اور ان مسائل پر خصوصاً اسلامی حل اور اسلامی نقطئہ نظر کی وضاحت کی جائے۔ اسلام کی دعوت کے لیے مواقع پیدا کرکے بلاکم وکاشت دعوت پہنچانا ہی نفرت کے سوداگروں کی شرارتوں کا مستقل جواب بھی ہے اور خیرامت ہونے کے ناتے بنیادی ذمہ داری بھی ہے۔

                مسلمان اور دنیا کا ہر کمزور گروہ اس وقت انصاف پسند میڈیا نہ ہونے کی وجہ سے مات کھارہا ہے۔ ہمیں دنیا سے باخبر رہنے کے لیے مفاد پرست، متعصب اور زرپرست میڈیا کی غلامی برداشت کرنی پڑرہی ہے۔ چھوٹے بڑے اخبارات اور چیلنجز کے بغیر ہم اسی طرح غلط پروپیگنڈہ کاشکار بنتے رہیں گے۔ موجودہ میڈیا کا مقصد پیسہ کمانا اورمخصوص طبقات کی نمائندگی کرنا ہے اس لیے اس کی اصلاح کی بات کرنا بے کار ہے۔ میڈیا مستقلاً نئی نسل کو یا تو فحاشی اور عریانی اور مادہ پرست زندگی کی دعوت دے رہا ہے یا دین کے تصور اورنظریاتی بنیادوں توحید، رسالت، آخرت سے عورتوں کے فرائض وحقوق، آزادی نسواں، جمہوریت وغیرہ کے خلاف پُرفریب نعروں کے ذریعہ دین سے ورغلاکر دین مخالف بنارہا ہے۔ اس لیے فی الوقت میڈیا کے فروغ کے لیے ہر بڑی چھوٹی کوشش عند اللہ نہایت مقبول ہوگی۔ اس کے لیے کوشش کی جانی اس وقت فرض کفایہ کا درجہ رکھتا ہے۔ جس طرح بے گناہ نوجوان کی قانونی مدد کی گئی ہے اس کے اچھے نتائج سامنے آئے ہیں اسی طرح ذرائع ابلاغ کے میدان میں بھی کوشش کی جائے گی تو باقی میڈیا کے بھی دماغ درست ہوں گے۔

                فرقہ وارانہ فسادات کے تعلق سے جو انسداد فرقہ پرستی بل سرکار نے سردخانہ میں ڈال دیا ہے اس کے لیے علماء کرام، دانشوران اور سیاست دانوں کو دباؤ بناکر پاس کرانا ضروری ہے۔ اس کے لیے الگ سے مستقلاً مہم چلائی جانی ضروری ہے؛ تاکہ معاملہ کو سردخانہ میں نہ ڈالاجاسکے۔ مسلم قیادت اور سیاسی لیڈران خصوصاً عوامی نمائندوں کو ایثار وقربانی کا مظاہرہ کرکے اتحاد پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

٭٭٭

————————————-

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 1 ‏، جلد: 97 ‏، ربیع الاول 1434 ہجری مطابق جنوری 2013ء

Related Posts