حرفِ آغاز

مولانا حبیب الرحمن اعظمی

                پوری دنیا کے مسلمان ملتِ واحدہ اور آپس میں بھائی بھائی ہیں انَّمَا الْمُوٴمِنُوْنَ اخْوَةْ، ملکی وجغرافیائی تقسیم اس مرکزی عظیم قومیت میں خلل انداز نہیں ہوسکتی، اسی دینی اخوت ووحدت کے تحت ممالکِ اسلامیہ کی علمی وملی تقریبات میں علمائے دیوبند برصغیر (ہندوپاک بنگلادیش) کے اسلامی نمائندوں کی حیثیت سے شامل ہوتے رہے ہیں۔ مدینہ یونیورسٹی ہو یا جامع ازہر، موتمر اسلامی ہو یا رابطہٴ اسلامی غرضے کہ دنیا کے کسی بھی خطہ میں مسلمانوں کا کوئی علمی وملی اجتماع ہو، ملکی و جغرافیائی، مسلکی ومشربی تفریق و تقسیم کے ادنیٰ احساس کے بغیر علمائے دیوبند پورے ذوق وشوق کے ساتھ ان میں شرکت کرتے رہے ہیں، جو ان کی اعتدال پسندی فرقہ وارانہ رجحانات سے دوری اور ساری دنیا کے مسلمانوں کو ملتِ واحدہ سمجھنے کی واضح اور روشن دلیل ہے، اور پوری بصیرت اور ذمہ داری کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ برصغیر میں اہلِ علم کا یہی وہ طبقہ ہے جو تمام تر وسعتوں اور عصری ضرورتوں پر نظر رکھے ہوئے سلفِ صالحین سے مکمل طور پر وابستہ ہے اور احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کے ساتھ ساتھ قوم وملت کے اجتماعی مقاصد پر بھی اس کی نظر رہتی ہے۔ ذَلِکَ فَضْلُ اللہِ یُوٴتِیْہِ مَنْ یَّشَاءُ وَلَوْ کَرِہَ الْأعْدَاءُ مِنْ کُلّ حَاسِدٍ․

                اسلام کے تسلسلِ حیات اور حفظِ دین کی خصوصیات اس کا اسنادی پہلو ہے اور تاریخ کے ہر موڑ پر اسے تھامے رہنا اسلام کا معجزہ ہے، اسباب کی دنیا میں اس کا باعث وہ علمائے ربانی رہے ہیں، جو آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم تک زنجیر کی کڑیوں کی طرح باہم پیوست ہیں، دیوبندی مکتبِ فکربحمداللہ کوئی نوپید جماعت نہیں؛ بلکہ علمی، دینی اور سیاسی احکام ومعاملات میں علمائے دیوبند کا سلسلہٴ سند امام الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے گذرتا ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مربوط ہے۔

                برِصغیر میں جب مسلمانوں کے کاروانِ شوکت پر برطانوی سامراج نے شب خوں مارا، تو حکیمِ مطلق جَلَّ شَانُہ نے اسلامی تعلیمات واحکام اور تہذیب وثقافت کو بچانے کے لیے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور ان کی اولاد واَحفاد کو آگے کردیا، ان بزرگوں کے سامنے دو منزلیں تھیں: (۱) مسلمانوں کی لٹی شوکت کیسے واپس لی جائے؟ (۲) اور سیاسی تنزل کے اس دور میں اسلامی علوم واحکام کی گرتی دیوار کو کس طرح سہارا دیا جائے؟ پہلی منزل تک پہنچنے کے لیے محدث دہلوی نے معاشی انقلاب، صحابہ سے انتساب اور قوم کو جہدوجہاد کی راہ دکھائی، ان تینوں امور کو واضح کرنے کی غرض سے حجة اللہ البالغہ، مصفّٰی ومسوَّیٰ اور اِزالة الخفاء جیسی بلند کتابیں لکھیں اور ان کے پوتے شاہ اسمٰعیل شہید دہلوی، حضرت سید احمد شہید  اور حضرت شاہ عبدالحئی بڈھانوی کے ساتھ عملاًجہاد میں نکلے۔

                دوسری منزل تک پہنچنے کے لیے ان محدثین دہلی نے قرآن وحدیث کے درس اور اسلامی علوم وفنون کی اشاعت سے اسلامی اعمال واخلاق کی متزلزل دیوار کو سہارا دیا؛ چنانچہ عین اس وقت جب کہ سید احمد شہید اپنے جاں باز رفقاء کے ساتھ میدانِ کارزار میں دادِ شجاعت دے رہے تھے، حضرت شاہ عبدالعزیز کے نواسے اور تلمیذ وجانشین دہلی کی مسندِتدریس پر قَالَ اللّٰہُ قَالَ الرَّسُولُ کا غلغلہ بلند کیے ہوئے تھے۔

                علمائے دیوبند اسی علم وفکر کے وارث اور محدثین دہلی کے اسی خاندان سے وابستہ ہیں اور برِصغیر ہندوپاک اور بنگلہ دیش میں اہل السنہ والجماعہ کا مرکزیہی حضرات تھے۔

                علمائے دیوبند دین کے سمجھنے سمجھانے میں نہ تو اس طریق کے قائل ہیں، جو ماضی سے یکسر کٹا ہو؛ کیوں کہ وہ مسلسل رشتہ نہیں ایک نئی راہ ہے، اور نہ وہ اس افراط کے قائل ہیں کہ رسم ورواج اور تقلیدِ آباء کے تحت ہربدعت کو اسلام میں داخل کردیا جائے۔ جن اعمال میں تسلسل نہ ہو اور وہ تسلسل خیرالقرون سے مربوط نہ ہو وہ اعمالِ اسلام نہیں ہوسکتے۔ یہ حضرات اس تقلید کے پوری طرح قائل ہیں، جو قرآن وحدیث کے سرچشمہ سے فقہ اسلام کے نام سے چلتی آئی ہے۔ قرآن کریم تقلید آباء کی صرف اس وجہ سے مذمت کرتا ہے کہ وہ آباء عقل واہتداء کے نور سے عاری تھے۔ ”اَوَلَو کَانَ آبائُھُمْ لا یَعْقِلُون شیئاً وَلاَ یَھتَدُون“․

                ائمہ سلف اور فقہائے اسلام جو علم وہدایت کے نور سے منور تھے ان کی پیروی نہ صرف یہ کہ مذموم نہیں؛ بلکہ مطلوب ہے، ہمیں تعلیم دی گئی ہے کہ صرف حضرات انبیاء علیہم الصلاة والسلام ہی کی نہیں، صدیقین، شہداء اور صالحین کی راہ پر چلنے چلانے کی ہر نماز میں اللہ سے درخواست کریں؛ کیوں کہ یہی صراط مستقیم ہے۔ ”اِھدِنا الصِّراطَ المُسْتَقِیمَ صِراطَ الَّذِیْنَ أَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ“․

                اس منہج اعتدال کی بنا پر علمائے دیوبند مذہبی بے قیدی اور خودرائی سے محفوظ ہیں اور شرک و بدعت کے اندھرے انھیں اپنے جال میں نہ کھینچ سکے۔

                برصغیر میں کم وبیش نوے فی صد مسلمان فقہ حنفی پر عامل ہیں۔ فقہ حنفی امام ابوحنیفہ کے اجتہادات، ان کے تلامذہ کے استخراجات اور اصحابِ ترجیح کے فیصلوں کے مجموعہ کا نام ہے۔ ظاہر ہے کہ اس قدر بحث وتحقیق اور کاٹ چھانٹ کے بعد فقہ کا کوئی مسئلہ اصولِ شریعت کے خلاف باقی نہیں رہ سکتا؛ مگر اس طریقِ عمل میں ایک پہلو یہ بھی تھا کہ عمل کرنے والے کی نظر ائمہ وفقہاء کی تخریجات تک محدود رہتی، گو وہ عمل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابہ کے طریق سے مستنبط نہ ہوتا؛ اس طرح عمل کرنے والے کا شعور اتباعِ سنت کی لذت پوری طرح محسوس نہیں کرسکتا تھا۔ علمائے دیوبند کا یہ عظیم تاریخی کارنامہ ہے کہ انھوں نے اعمال و عبادات کو ان کے بنیادی مصادر کی طرف لوٹایا، احادیث کے دفاتر کھلے، رجال کی گہری نظر سے پڑتال ہوئی، معانی حدیث میں بحث کی گئی، گو ان حضرات کو اس علمی وتحقیقی کاوش سے فقہ کا کوئی مفتی بہ قول اصول شریعت سے معارض نہ ملا، تاہم اس راہ تحقیق نے (جو ظاہریت کی تفریط اور اہلِ بدعت کی افراط سے پاک سلف صالحین کے مقرر کردہ منہاج پر مبنی ہے) ایسی فضا پیدا کردی کہ پہلے جن مسائل پر فقہ سمجھ کر عمل کیا جاتا تھا، اب وہی مسائل سنت کی خنک روشنی دینے لگے اور ان اعمال میں اتباعِ حدیث کی وہ لذت محسوس ہونے لگی جو اس فکری تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں تھی۔

                علمائے دیوبند نے نہ صرف برِصغیر کے مسلمانوں ہی کو سنت کا شعور بخشا؛ بلکہ دیگر بلاد اسلامیہ مصر وشام وغیرہ بھی ان کے اس فکر سے متاثر ہوئے۔ دیوبندی مکتبہٴ فکر کا نصوص فہمی میں منہج مختار یہی ہے، جسے ان کی تالیفات مثلاً فیض الباری شرح بخاری، اللامع الدراری شرح بخاری، فتح الملہم شرح صحیح مسلم، الکوکب الدری شرح جامع ترمذی، معارف السنن شرح جامع ترمذی، بذل المجہود شرح سنن ابی داؤد، اوجزالمسالک شرح موطا امام مالک، امانی الأحبار شرح معانی الآثار للطحاوی، اعلاء السنن، ترجمانُ السنة، معارف الحدیث وغیرہ میں ان کے اس منہج مختار کو دیکھا جاسکتا ہے۔

                جیساکہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ علمائے دیوبند احکام شرعیہ فروعیہ اجتہادیہ میں فقہ حنفی کے مطابق عمل کرتے ہیں؛ بلکہ برصغیر میں آباد کم وبیش پچاس کروڑ مسلمانوں میں نوے فیصد سے زائد اہل السنہ والجماعہ کا یہی مسلک ہے؛ لیکن اپنے اس مذہب ومسلک کو آڑبناکر دوسرے فقہی مذاہب کو باطل ٹھہرانے یا ائمہ مذاہب پر زبانِ طعن دراز کرنے کو جائز نہیں سمجھتے؛ کیوں کہ یہ حق وباطل کا مقابلہ نہیں ہے؛ بلکہ صواب وخطا کا تقابل ہے۔ مسائلِ فروعیہ اجتہادیہ میں ائمہٴ اجتہاد کی تحقیقات میں اختلاف کا ہوجانا ایک ناگزیر حقیقت ہے، اور شریعت کی نظر میں یہ اختلاف صحیح معنوں میں اختلاف ہے ہی نہیں۔ قرآن حکیم ناطق ہے:

                شَرَعَ لَکُمْ مِنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہ نُوحاً وَالَّذِیْ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بہ اِبْرَاھِیْمَ وَمُوسٰی وَعِیسٰی أَنْ اَقِیمُوا الدِّیْنَ وَلاَ تَتَفَرَّقُوْا (الشوریٰ)

                ظاہر ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور تک شریعتوں اور منہاج کا کھلا ہوا اختلاف رہا، پھر بھی قرآن حکیم اس کو ایک ہی دین قرار دے رہا ہے اور شریعتوں کے باہمی وفروعی اختلاف کو وحدتِ دین کے معارض نہیں سمجھتا، اگر یہ فروعی اختلاف بھی افتراق واختلاف کی حد میں آسکتے تو پھر ”وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ“ کا خطاب کیوں کردرست ہوتا۔

                لہٰذا جس طرح شرائعِ سماویہ فروعی اختلاف کے باوجود ایک ہی دین کہلائیں اور ان کے ماننے والے سب ایک ہی رشتہٴ اتحاد میں منسلک رہے۔ تحزب وتعصب کی کوئی شان ان میں پیدا نہیں ہوئی؛ اسی لیے وہ ”وَکَانُوْا شِیَعاً“ کی حد میں نہیں آئے۔ ٹھیک اسی طرح ایک دین حنیف کے اندر فروعی اختلافات اس کی شان اجتماعیت ووحدث میں خلل انداز نہیں ہوسکتے۔

                مواقع اجتہاد میں اہلِ اجتہاد کا اجتہاد دین ہی کا مقرر کردہ اصول ہے، اسے دین میں اختلاف کیسے کہا جاسکتا ہے؟ رہا جماعتِ مجتہدین میں سے کسی ایک کی پیروی وتقلید کو خاص کرلینا تو دین کے بارے میں آزادیِ نفس سے بچنے اور خودرائی سے دور رہنے کے لیے امت کے سوادِ اعظم کا طریق مختار یہی ہے، جس کی افادیت وضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ باب تقلید میں علمائے دیوبند کا یہی طرز عمل ہے۔ وہ کسی بھی امام، مجتہد یا اس کی فقہ کی کسی جزئی کے بارے میں تمسخر، سوئے ادب یا رنگ ابطال و تردید سے پیش آنے کو خسران دنیا وآخرت سمجھتے ہیں، ان کے نزدیک یہ اجتہادات شرائع فرعیہ ہیں، شرائع اصلیہ نہیں کہ اپنے فقہ کو موضوع بناکر دوسروں کی تردید یا تفسیق و تضلیل کریں؛ البتہ اپنے اختیار کردہ فقہ پر ترجیح کی حد تک مطمئن ہیں۔

                اب رہا مسئلہ احکامِ اجتہادیہ میں ان کی ترجیحات اور طریقِ عمل کا تو کتاب وسنت اور امت میں متوارِث قواعدِ نصوص کی روشنی میں ان پر بحث وگفتگو کی جاسکتی ہے جس کا دروازہ ہمیشہ سے کھلا ہے، عہدِ صحابہ سے یہ تعامل چلا آرہا ہے کہ اس نوع کے مسائل میں اہلِ نظر علماء قواعد واصول کے تحت صواب وخطا اور راجح ومرجوح کی حد تک بحث کرتے رہے ہیں۔

                لیکن ان اجتہادی ومختلف فیہ مسائل کو آڑ بناکر ملتِ واحدہ میں انتشار اور تفرقہ پیدا کرنا اور انھیں حق وباطل کا معیار ٹھہراکر جماعت مسلمین کو ہدایت وضلالت کے متضاد خانوں میں تقسیم کردینا نہایت خطرناک رویہ ہے جس سے اہل السنہ والجماعہ کے سلف وخلف کا دامن پاک وصاف رہا ہے؛ بلکہ اس غیرمعقول ناروا روش کے دروازے کو بند کرنے کے لیے تاکہ امت مسلمہ کی وحدت برقرار رہے سلف صالحین وعلمائے راسخین نے نصوص فہمی اور تاویل اجتہاد کے سلسلے میں ایک علمی دستور اور منہاج مقرر کردیا، جس کے ذریعے انھوں نے نصوص و آراء میں جمع وتطبیق کی راہیں ہموار کیں اور امت کو ”مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا وَکَانُوْ شِیَعًا کُلُ حِزبٍ بِمَا لَدَیْھِمْ فَرِحُوْنَ“ کا مصداق بننے سے بچالیا۔

                حیف صد حیف کہ عصرِ حاضر کے اہل ظواہر (جو موحِّد، اہلِ حدیث، سلفی، اثری وغیرہ حسب موقع ومحل مختلف ناموں سے اپنا تعارف کراتے ہیں) نے سوادِ اعظم کے اس مُسَلَّمہ علمی دستور ومنہاج کو پسِ پشت ڈال کر اور اپنے علم وفہم کو حق کا معیار قرار دے کر ان اجتہادی مختلف فیہ مسائل کو حق وباطل اور ہدایت وضلالت کے درجہ میں پہنچادیا ہے اور ہر وہ فرد اور جماعت جو ان کے فکر ونظریہ سے ہم آہنگ نہیں وہ ہدایت سے عاری مبتدع، ضال ومضل اور فرقہٴ ناجیہ سے خارج ہے۔

فَالٰی اللہِ الْمُشْتَکیٰ

***

———————————————

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 12 ‏، جلد: 96 ‏، صفر 1434 ہجری مطابق دسمبر 2012ء

Related Posts