از: مولانامفتی رشید احمد فریدی
مذکورہ بالا عنوان کے تحت مضامین کی قسط اوّل ربیع الاول ۱۴۳۰ھ مطابق مارچ ۲۰۰۹/ کے شمارہ میں اور دوسری قسط جمادی الاولیٰ والثانیہ ۱۴۳۰ھ کے مشترکہ شمارہ میں شائع ہوئی ہے، تسلسل کے لیے قارئین کی خدمت میں اطلاعاً عرض ہے۔
صُحُفِ رَبّانیہ کی تعداد اور قرآن کی جامعیت:
امام ابوبکر احمد بن حسین البیہقی حسن بصری کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک سو چار کتابیں نازل فرمائیں اور اُن سب کے علوم چار کتابوں : توریت، انجیل، زبور اور فرقان میں جمع فرمادئیے، پھر مذکورہ تین کتابوں کے علوم قرآن پاک میں محفوظ کردئیے۔ (۱)
کتبِ سماویہ کا زمانہٴ نزول:
حضرت واثلہ بن الاسقع سے مروی ہے: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: تورات ۶/رمضان المبارک کو نازل ہوئی، انجیل ۱۳/رمضان کو، زبور ۱۸/رمضان کو اور قرآن مجید ۲۴/رمضان میں نازل ہوا۔ بعض روایات میں ہے کہ صحیفہٴ ابراہیم یکم رمضان کو نازل ہوا۔(۲) (اسباب النزول للواحدی،ص:۱۵)
کتبِ الٰہیہ کی زبان:
اہل جنت کی زبان عربی ہونے کی وجہ سے گویا وہی انسان کی اصلی زبان کہی جاسکتی ہے اور اس لیے وحی کے لیے بھی یہی زبان پسند کی گئی؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے دنیا میں عربی زبان کے علاوہ دوسری زبانیں بھی پیدا فرمائی ہیں تاکہ ہر انسان بہ سہولت اپنے مافی الضمیر کو ادا کرسکے اور اسی وجہ سے ہر نبی کو اللہ تعالیٰ نے ان کی اپنی قوم کی زبان میں مبعوث فرمایا – وَمَا اَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ اِلّا بِلسَانِ قَومِہ لِیُبَیِّنَ لَھُم -تاکہ وہ پیغام خداوندی جس کا نزول ان پر عربی زبان میں ہوتا ہے،اس کی ترجمانی اور توضیح اپنی قوم کے سامنے ان کی مادری زبان میں فرماتے رہیں؛ چنانچہ عَنْ سُفیانَ مَا نزَل مِنَ السَّمَاءِ وَحْيٌ الاَّ بِالعربیةِ وَکَانَتْ الأنْبِیَاءُ علیھمُ السلامُ تُتَرْجِمُہ لِقَوْمِھِمْ بِلِسَانِھِمْ(۳) سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ وحی تو عربی زبان میں ہی نازل ہوئی پھر ہر نبی نے اپنی قوم کی زبان میں اس وحی کی ترجمانی فرمائی۔ برخلاف قرآن مجید کے کہ وہ جس زبان میں نازل ہوا وہی نبی علیہ الصلاة والسلام اور قوم کی مادری زبان اور تمام انسانوں کی فطری اور اخروی زبان تھی؛ اس لیے قرآن جس طرح نازل ہوتا تھا، بعینہ اسی طرح قوم کے سامنے پیش کردیا جاتا اوراسی طرح زبانی وتحریری طور پر محفوظ کرلیا جاتا تھا۔
بتدریج نزول قرآن کی چند حکمتیں:
آسمانی کتاب کے نزول کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ پوری کتاب یکبارگی اُتار دی جائے تاکہ تمام احکام پر عمل درآمد ایک ساتھ شروع ہوجائے، (۲) دوسری صورت تھوڑا تھوڑا حسب ضرورت نازل ہو۔ آخری کلام الٰہی کے سوا تمام کتب سماویہ اور صحیفے یکبارگی نازل ہوئے۔(۴) اور قرآن مجید دونوں کیفیتوں کا جامع ہے؛ چنانچہ لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر دفعتہ ہی نازل ہوا ہے انا أنزلنٰہُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ جس کی حکمت علامہ سخاوی یوں بیان کرتے ہیں: قَالَ السَّخَاوِیُّ فِیْ جَمَالِ القُرَّاء: فِیْ نُزُوْلِہ الٰی السَّمَاءِ جُمْلَةً تَکْرِیْمُ بَنِیْ آدَمَ وَتَعْظِیْمُ شَأنِھِمْ عِنْدَ الْمَلاَئِکَةِ وَتَعْرِیْفُھُمْ عِنَایَةَ اللہِ بِھِمْ وَرَحْمَةً بِھِمْ(۵) یعنی فرشتوں کے نزدیک بنی آدم کی تعظیم وتکریم اور یہ بتلانا ہے کہ امتِ محمدیہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت وعنایت کی مستحق ہے۔ پھر سمائے دنیا سے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس ذات پر ضرورت کے مطابق بتدریج نازل کیاگیا، جس کی چند حکمتیں یہ ہیں:
(۱) حفظ آسان ہو۔
(۲) فہمِ معانی میں سہولت ہو۔
(۳) پورے کلام کا ضبط کرنا سہل ہو۔
(۴) لوگوں کے لیے عمل میں راحت ہو دشواری نہ ہو۔
(۵) شانِ نزول دیکھ کر معنی ومراد متعین کرنے میں اعانت ہو۔
(۶) ضرورت پر بروقت جواب ملنے سے پیغمبر اور مسلمانوں کے لیے باعثِ تسکینِ قلب ہو۔
(۷) ہرآیت کے نزول پر قرآن کا اعجاز اور عہدِ الست کی یاد تازہ ہو۔
(۸) باربار حضرت جبرئیل کی تشریف آوری سے برکت کا نزول اور مسرت حاصل ہو(۶)
قرآن مجید کے اوّلیات وآخریات:
اولیت وآخریت کسی چیز کی ایک ایسی حقیقت ہے جس سے اس شئی کی تأسیس وانشا، تکمیل وانتہاء کی تاریخ معلوم ہوتی ہے،اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ دو متعارض احکام یا واقعات میں ترجیح دینا آسان ہوتا ہے۔ ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ صاحبِ اولیت وآخریت کے لیے باعث فضیلت وشرف ہے؛ چونکہ یہ دونوں وصف محمود ہیں اور تمام محامد کا حقیقی مستحق اللہ رب العزت ہے اس لیے واقعی اولیت و آخریت تو اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ثابت ہے۔ دیکھیے حق تعالیٰ نے اپنے کمال کا اظہار جن اسمائے حسنیٰ سے فرمایاا ہے ان میں ھُوَ الأوَّلُ وَالْآخِرُ (الحدید) بھی نمایاں ہے۔ نبی آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مذکورہ فضیلت حاصل ہے، جسے آپ نے مختلف مواقع میں بیان فرمایاہے، مثلاً اَنَا اَوَّلُ النَّبِیِیْنَ خَلْقاً وَآخِرُھُمْ بَعْثاً، أنَا آخِرُ الأنْبِیَاءِ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ، أنَا أوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْہُ الأرْضُ․ وغیرہ۔
بہرحال قرآن پاک کے اولیات وآخریات سے متعلق علماء نے جو کچھ کلام کیا ہے اس کا خلاصہ درج کیا جاتا ہے۔(۷)
(۱) علی الاطلاق سب سے پہلی وحی جس کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبی بنائے گئے وہ قرآن پاک کی سب سے پہلی سورہ ”اقرأ“ کی ابتدائی پانچ آیتیں نازل ہوئیں، پھر تقریباً تین سال وحی کا سلسلہ مصلحتاً منقطع رہا، جس کو اصطلاح شریعت میں فترة الوحی کہتے ہیں (فضائل القرآن لابن کثیر)۔ اِس فترت کے بعد
(۲) سب سے پہلی آیت یا سورہ نازل ہوئی وہ یَا أیُّھَا الْمُدَّثِّرْ․․․ الی ․․․ وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ ہے۔
(۳) سب سے پہلی مکمل سورہ جو نازل ہوئی وہ سورہٴ فاتحہ ہے۔
(۴) سب سے پہلی سورہ جو مکہ میں نازل ہوئی وہ سورہٴ ”علق“ یعنی سورہٴ اقرأ ہے۔
(۵) سب سے پہلی سورہ جو کفار مکہ کے سامنے ظاہر ہوئی وہ سورہٴ ”النجم“ ہے۔
(۶) سب سے پہلی سورہ جو مدینہ میں نازل ہوئی وہ سورہٴ ”تطفیف“ ہے۔
———————
(۱) سب سے آخری سورہ قتال وجہاد کے اعتبار سے سورہٴ ”برأت“ ہے۔
(۲) سب سے آخری آیت میراث کے اعتبار سے یَسْتَفْتُوْنَکَ قُلِ اللّٰہُ یُفْتِیْکُمْ فِی الْکَلَالَةِ الخ ہے۔
(۳) سب سے آخری آیت احکام کے اعتبار سے، آیت رِبا ہے۔
(۴) سب سے آخری سورہ، سورہٴ ”نصر“ ہے۔
(۵) اور مطلقاً سب سے آخری آیت وَاتَّقُوْا یَوْماً تَرْجِعُوْنَ فِیْہِ الٰی اللہِ الخ ہے۔
حِصصِ قرآن کی تشریح:
سورتوں اور آیتوں کی تعداد نیز مضامین کی تفصیل وتکرار کے لحاظ سے مشہور قول کے مطابق قرآن پاک کے چار حصے بتائے گئے ہیں: طوال، مئین، مثانی، مفصلات۔ واثلہ بن الاسقع حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ سات لمبی سورتیں مجھے دی گئیں جو بمنزلہٴ تورات کے ہیں اورمجھے مئین، دی گئیں جو انجیل کے درجہ میں ہیں اور مجھے مثانی عنایت کی گئیں جو زبور کے قائم مقام ہیں اور مفصّلات مرحمت فرماکر مجھے دوسرے نبیوں پر فضیلت دی گئی ہے(۸)۔
(۱) السبع الطوال: سات بڑی سورتیں یعنی ایسی بڑی سورتیں کہ عموماً ان میں سے ہرایک میں دوسو یا زائد آیتیں ہیں۔ سورہٴ بقرہ، آلِ عمران، نساء، مائدہ، انعام، اعراف، انفال اورتوبہ۔
(۲) المئین : وہ سورتیں کہلاتی ہیں کہ ان میں ہر ایک میں کم وبیش سو آیات ہیں، یہ سورہٴ یونس سے لے کر سورہٴ فاطرتک ہیں۔
(۳) المثانی: وہ سورتیں کہلاتی ہیں جن میں واقعات وقصص اور نصیحتیں بار بار بیان کئے گئے ہیں، یہ سورہٴ یٰسین سے سورہٴ ق تک ہیں۔
(۴) المفصلات: جدا جدا مضامین والی سورتیں، یا ہردو سورتوں کے درمیان بسملہ کے ذریعہ فصل کی کثرت کی وجہ سے انھیں مفصّل کہا جاتا ہے، یہ سورہٴ حجرات سے آخر قرآن تک ہیں۔
مفصلات کی ابتداء کون سی سورہ سے ہوتی ہے،اس میں علامہ جلال الدین سیوطی نے بارہ اقوال نقل کیے ہیں۔ ان میں سے امام نووی نے حجرات سے ابتداء والے قول کی تصحیح کی ہے اوراحناف کے نزدیک بھی یہی راجح ہے۔(۹)
پھر اِن مفصلات کی تین قسمیں ہیں:
طِوالِ مفصل سورہٴ حجرات سے سورہٴ بروج تک
اوساطِ مفصل سورہٴ بروج سے سورہٴ لم یکن تک
قِصارِ مفصل سورہٴ لم یکن سے آخر قرآن تک(۱۰)
محیط میں اسی طرح تصریح ہے اور بالعموم فقہاء بھی اسی کو اختیار کرتے ہیں۔(۱۱)
پاروں اور منزل وغیرہ کی تعیین:
مذکورہ بالا حصص اور سورتوں کی تقسیم کے علاوہ وہ تقسیمات جن کی علامتیں قرآن مجید میں ہم پاتے ہیں منزل (حزب) سی پارہ (جزء) نصف، ثلث، ربع۔ عملاً ان سب کا وجود اگرچہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی تھا، مثلاً حضرت اوس بن حذیفہ فرماتے ہیں کہ میں نے صحابہ کرام سے پوچھا کہ آپ لوگ قرآن کو کتنے حصوں میں (یومیہ تلاوت کے لیے) تقسیم کرتے ہیں، تو صحابہ نے فرمایا: تین (سورتیں) پانچ، نو، گیارہ، تیرہ اور مفصلات کی سورتوں کا مجموعہ(۱۲)؛ لیکن متعین طور سے تقسیم و تحدید دورِ صحابہ کے اواخر یا قرنِ تابعین کے اوائل میں ہوئی جس کا منشاء قرآن کے حفظ وتلاوت اور اس کے معانی کی تعلیم وتدریس کو امت پر سہل کرنا ہے، جس طرح قرآن میں اعراب، نُقاط وغیرہ لگانے کا مقصد امت کو خطاء وگمراہی سے بچانا تھا دراصل یہ بھی وَاِنّا لَہ لَحٰفِظُوْنَ کی ایک عملی صورت تھی جو منجانب اللہ وجود میں آئی۔ حضرت فقیہ الامت لکھتے ہیں: ”قرونِ مشہود لہا بالخیر میں حفاظتِ قرآن پاک کے لیے یہ سب کچھ کردیاگیا؛ تاکہ لوگ غلط نہ پڑھیں اور تحریف نہ ہوجائے۔“(۱۳)
اس سلسلہ میں مشہور قول یہ ہے کہ حجاج بن یوسف ثقفی والیِ عراق نے اپنی ولایت کے زمانہ میں قرّاء وعلماء کی ایک جماعت کو جو صحابہ اور تابعین پر مشتمل تھی حصصِ قرآن کی تعیین اور اس کے کلمات وحروف کے شمار پر مامور کیا اور انھوں نے یہ عظیم کارنامہ انجام دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے حُسنِ قبول عطا کیا؛ چنانچہ امت اس پر عمل کرتی چلی آرہی ہے(۱۴)۔ صاحب تفسیرِ حقانی اپنے مقدمہ میں لکھتے ہیں: علماء نے سہولتِ حفظ کے لیے قرآن کو تیس حصوں میں بہ حساب مہینوں کے دنوں کے منقسم (کرکے کہ ہر ایک کو جزء یا پارہ کہتے ہیں پھر ہر پارہ کو چار حصوں میں منقسم) کیا ہے اور ان پر ربع، نصف، ثلث لکھ دیا ہے اور ہر حصہ کو رکوعات میں منقسم کیا ہے۔ (البیان فی علوم القرآن، ص:۲۶۸)
(۱) پاروں کی تقسیم: حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ: ہرمہینہ ایک ختم کیا کرو۔ اس ارشاد پر عمل کرنے کے لیے (قرآن پاک جب تیس دنوں میں تقسیم کریں گے تو) ہر رات ایک پارہ یعنی تیسواں حصہ کی مقدار قرأت ہواکرے گی(۱۵)؛ چنانچہ صحابہ کرام کی ایک جماعت ہر ماہ ایک قرآن ختم کرتی تھی(۱۶)۔
(۲) منزل کی تخصیص: مذکورہ فرمانِ نبوی کو تسلیم کرتے ہوئے حضرت عبداللہ بن عمرو نے جب مزید رغبت وقوت کا اظہار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے واسطے ہفتہ مقرر کیا یعنی ہر ہفتہ ایک ختم کیا کرو پھر اکثر صحابہ نے بھی اپنا یہی معمول بنالیا، جیساکہ شروع میں اوس بن حذیفہ کے حوالہ سے صحابہ کا معمول ذکر کیاگیا؛ چنانچہ پہلی شب میں فاتحہ کے بعد تین سورتیں، دوسری شب میں اس کے بعد پانچ سورتیں، تیسری شب میں سات، چوتھی شب میں نو، پانچویں شب میں گیارہ، چھٹی شب میں تیرہ سورتیں اور ساتویں شب میں بقیہ قرآن پورا کرتے تھے۔
ان منزلوں کو سہولت کے لیے ”فمی بشوق“ سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ ہر منزل کی پہلی سورہ کے نام کا پہلا حرف لے کر یہ جملہ بنایا گیا ہے(۱۷)۔
(۳) نصف، ربع، ثلثہ کی تقدیر: حضرت صحابہ کرام میں ایک جماعت ہر دوماہ میں ایک قرآن پاک ختم کیا کرتی تھی، امام نووی لکھتے ہیں فَکَانَ جَمَاعَةٌ مِنْھُمْ یَخْتُمُوْنَ فِیْ کُلِّ شَھْرَیْنِ خَتْمَةً(۱۸) لہٰذا روزانہ پارہ کا نصف تلاوت کرتے ہوں گے۔ پس ہر پارہ کے نصف کا سراغ لگ گیا۔
حضرت عبداللہ بن عمر نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کتنے دنوں میں قرآن ختم کرلیں، ارشاد فرمایا چالیس دنوں میں ختم کردیا کرو(۱۹) اس حدیث کے مطابق عمل کرنے کے لیے ضروی ہوجاتا ہے کہ قرآن مجید کو چالیس حصوں میں تقسیم کرکے روزانہ ایک جزء پڑھا جائے؛ چنانچہ نصف پارہ پر ایک ربع کا اضافہ کرلیا جائے تو پورے قرآن کا چالیسواں حصہ بن جاتا ہے؛ اس لیے ہرپارہ کوچار حصوں میں تقسیم کرکے حصہٴ اول پر ربع کی علامت اور دو ربع پر نصف اور تین ربع پر ثلثہ کی علامت مقرر کی گئی؛ تاکہ قرآن میں کہیں سے بھی تین چوتھائی کی قرأت کرنے سے چالیسواں حصہ کی تلاوت ہوجائے۔
(۴) رکوعات: نماز میں قرأت کی فرضیت ایک بڑی آیت یا تین چھوٹی آیتوں سے اداء ہوجاتی ہے؛ مگر واجب کی ادئیگی کے لیے سورہٴ فاتحہ کے ساتھ دوسری سورہ کا ملانا بھی ضروری ہے؛ چونکہ رکعت میں مکمل سورہ کا پڑھنا مستحب ہے، جیساکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے عموماً ایسا ہی منقول ہے(۲۰) چنانچہ چھوٹی چھوٹی سورتیں جو چند آیات پر مشتمل ہیں، مکمل پڑھ کر رکوع کیا جاتا تھا، اس لیے وہ ایک مقدارِ قرأت تھی جس کو رکوع سے تعبیر کیا گیا اور اسی طرح جہاں آیات کی تعداد زیادہ تھی، وہاں معانی کو ملحوظ رکھ کر اور طریقہٴ نزول کا اعتبار کرتے ہوئے چند آیات کے مجموعہ پر رکوع کی تعیین کردی گئی؛ تاکہ رکعتوں میں اس کا پڑھنا آسان ہو۔
آیات و سورتوں کی ترتیب وتقسیم:
سورہ کہتے ہیں قرآن پاک کی اس مخصوص ومحدود مقدار کو جس کی ابتداء وانتہاء متعین ہو اور کم از کم تین آیتوں پر مشتمل ہو، مثلاً سورہٴ کوثر۔
آیت کہتے ہیں قرآن کا ایک حصہ جس میں کم سے کم چھ حروف ہوں اور اس کا اول و آخر متعین ہو جیسے ثُمَّ نَظَرَ (۲۱)۔
اب جاننا چاہیے کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جو آیتیں نازل ہوتی تھیں، انھیں کاتبینِ وحی کے ذریعہ لکھواکر ارشاد فرماتے: اِن آیتوں کو فلاں سورہ کے فلاں مقام پر فلاں آیت کے بعد اور فلاں آیت سے پہلے رکھا جائے۔ نیز سورتوں کا موقع ومحل بھی مقرر فرماتے تھے کَانَ اِذَا نَزَلَ عَلَیْہِ الشَّیْءُ دَعَا بَعْضَ مَنْ کَانَ یَکْتُبُ فَیَقُوْلُ ضَعُوا ھٰذِہ الآیاتِ فِیْ السُّوْرَةِ الَّتِیْ یَذْکُرُ فِیْھَا کَذَا وَکَذَا(۲۲) اس طرح تمام آیات و سورتوں کی ترتیب سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم آگاہ فرماتے رہتے ؛ یہاں تک کہ پورا قرآن پاک تحریری شکل میں مرتب اور منضبط ہوگیا؛ غرض یہ کہ نفس آیت وسورہ کی معرفت جس طرح شارع کی طرف سے ہے(۲۳) اسی طرح آیات وسُوَر کی ترتیب و تقسیم بھی من جانب الشارع ہے(۲۴) ۔ یہ بندوں کا محض نتیجہٴ فکر یا اُن کی عقل کی دریافت نہیں ہے؛ بلکہ شارع کی طرف سے ہے اسی کو ”توقیف“ کہتے ہیں۔
پس قرآنی آیات اور سورتوں کی موجودہ ترتیب جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ ہر سال کے عرض (دور) اور عرضہٴ اخیرہ کی ترتیب کے عین مطابق ہے اور جو تواتر وتعامل سے منقول چلی آرہی ہے، یہی حق اور قطعی ہے(۲۵) صحابہ کرام نے قرآن مجید کو اسی ترتیب کے مطابق بغیر کسی کمی بیشی کے جمع کیا اور اسی طرح لکھا جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اپنی جانب سے نہ تو کچھ تقدیم وتاخیر کی اور نہ کوئی ایسی ترتیب قائم کی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ (حاصل) نہ کی ہو (البیان فی علوم القرآن،ص:۲۷۴)۔
جو قرآن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے زمانہ سے پوری دنیا میں آج تک بغیر کسی حرف یا حرکت کی تبدیلی کے بے شمار تعداد میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے رسم کے مطابق نقل ہوتا چلا آرہا ہے اور امت کے اَن گنت افراد اپنے سینوں میں محفوظ کرتے چلے آرہے ہیں اور قیامت تک ان شاء اللہ جمہورامت اسی طرح متفق رہے گی، وہی قرآن، قرآن ہے، حق ہے اس کے علاوہ باطل ہے۔
سورتوں کی ترتیب اور تقسیم میں بہت سی حکمتیں بیان کی گئی ہیں مثلاً (۱) ہر سورہ کو ایک مستقل معجزہ کی شکل میں پیش کرنا۔ (۲) پڑھنے اور حفظ کرنے والوں کے دل میں خوشی پیدا کرنا؛ تاکہ انھیں معلوم ہوجائے کہ ہم ایک حصہ ختم کرچکے۔ (۳) مربوط مضامین کو یکجا کرنا۔ (علوم القرآن للافغانی،ص:۱۴۲) (اتقان:۱/۸۸)
مکی ومدنی آیات وسُوَر کی توضیح:
قرآن مجید صحابہٴ کرام کے درمیان نازل ہورہا تھا؛ اس لیے وہ بہ خوبی واقف تھے کہ کون سی آیت یا سورہ کب، کہاں اور کس کے حق میں نازل ہوئی ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ واللہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں کتاب اللہ کی کوئی سورہ اور کوئی آیت جو بھی نازل ہوئی ہے میں خوب جانتا ہوں کہ کہاں اور کس سلسلہ میں نازل ہوئی ہے(۲۶)۔ ایک شخص نے حضرت عکرمہ (تلمیذ ابن عباس) سے کسی آیت کے متعلق پوچھاتو فرمایا وہ آیت فلاں پہاڑ (سلع) کے دامن میں اتری ہے۔(۲۷)
اور ظاہر ہے کہ قرآن مجید کا بیشتر حصہ جو ایمان وعقائد اور واقعات وتذکیر پر مشتمل ہے، مکی زندگی میں نازل ہوا اور احکام شرعیہ وسیاست مُلکِیہ سے متعلق قرآن کا حصہ مدنی زندگی میں نازل ہوا ہے، مکی ومدنی کی معرفت کا پورا دارومدار صحابہ و تابعین کی یاد داشتوں پر ہے(۲۸) مکی ومدنی کی توضیح کی ضرورت اس وقت لاحق ہوئی جب مجتہدینِ امت نے احکام شرعیہ کے استنباط کے موقع پر دلائل میں تعارض محسوس کیا اور اس کے رفع کے لیے ناسخ ومنسوخ جاننے کی ضرورت پڑی؛ چونکہ مکی زندگی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدم ہے مدنی زندگی پر، لہٰذا جو آیت مدنی ہوگی وہ لامحالہ متأخر ہوگی اور اسے ناسخ کا درجہ دیا جاسکے گا اور جو آیت مکی ہوگی وہ منسوخ قرار پائے گی؛ چنانچہ صحابہ کرام کے آثار اور تابعین کے اقوال کا تتبع کیاگیا تو اس تلاش وجستجو کے نتیجہ میں علماء کے تین نظریات سامنے آئے، جن میں زیادہ صحیح اور مشہور یہ ہے کہ جو سورہ یا آیت قبل الہجرت نازل ہوئی وہ ”مکی“ ہے، خواہ شہر مکہ میں یا اس کے قرب وجوار میں نازل ہوئی ہو اور جو آیت یا سورہ بعد الہجرت نازل ہو وہ ”مدنی“ ہے چاہے مدینہ میں یا اس کے اطراف میں حتی کہ مکہ ہی میں کیوں نہ اتری ہو، بہ بہرحال مدنی کہلائے گی(۲۹)۔
مکی ومدنی کی ظاہری علامتیں:
مکی ومدنی سورتوں میں امتیاز کے لیے کوئی حتمی قاعدہ نہیں ہے؛ البتہ علماء نے کچھ علامتیں ذکر کی ہیں مثلاً: (۱) ہر وہ سورہ جس میں لفظ ”کلاّ“ آیا ہو وہ مکی ہے۔ یہ لفظ پورے قرآن میں ۳۳ مرتبہ آیا ہے اور وہ بھی نصف اخیر میں۔ (۲) ہر وہ سورہ جس میں سجدہ ہے وہ مکی ہے۔ (۳) ہر وہ سورہ جس کے شروع میں حروف مقطعات ہیں وہ مکی ہے، سوائے سورہٴ بقرہ اور آل عمران کے کہ دونوں بالاتفاق مدنی ہیں۔ (۴) ہر وہ سورہ جس میں نبیوں کا قصہ ہے وہ مکی ہے سورائے بقرہ کے۔ (۵) ہر وہ سورہ جس میں حضرت آدم علیہ السلام اور شیطان لعین کا قصہ ہے وہ مکی ہے، سوائے بقرہ کے۔ (۶) ہر وہ سورہ جس میں حدود وفرائض کا ذکر ہے وہ مدنی ہے (۷) ہر وہ سورہ جس میں جہاد کی اجازت اور احکام جہاد کا بیان ہے وہ مدنی ہے۔ (۸) ہر وہ سورہ جس میں منافقین کا ذکر ہے وہ مدنی ہے (۳۰)
معنوی علامتیں:
ان ظاہری علامتوں کے علاوہ کچھ معنوی علامتیں بھی ہیں جنھیں خصوصیات کہنا چاہیے، صاحب ”مناہل العرفان“ نے مکی سورتوں کے چھ خواص اور مدنی سورتوں کے تین خواص بیان کیے ہیں۔ یہاں صرف ایک نمونہ کے طورپر لکھا جاتا ہے۔
مکی سورتوں میں اصولِ اخلاق اور اجتماعی حقوق کی تشریح اس انداز سے کی گئی ہے کہ کفر فسق، معصیت، جہل، طبعی سختی، قلب کی گندگی اور الفاظِ قبیحہ کی کراہت دل میں آجائے اور ایمان، طاعت، رحمت، اخلاص، والدین کے ساتھ حسن سلوک، پڑوسیوں کا اکرام، دوسروں کا احترام، قلوب کی طہارت، زبان کی نظافت وغیرہ دل میں اترجائے اور مدنی سورتوں میں احکامِ شرعیہ کی تفصیل اور اس کے دقائق، شہری وملکی، اجتماعی وجنگی، حکومت و جنایت کے قوانین، نیز حقوقِ شخصیہ اور دوسری عبادات اور معاملات کی تشریح کی گئی ہے۔(۳۱)
***
حواشی:
(۱) الاتقان:۲/۱۶۰۔
(۲) اتقان: ۱/۵۵۔
(۳) ارشادالساری:۱/۶۵، اتقان:۱/۶۰ مطبوعہ دہلی، دیکھیے فتاویٰ محمودیہ: ۱/۱۸ عن تفسیر ابن کثیر۔
(۴) اتقان:۱/۵۶۔
(۵) اتقان:۱/۵۵۔
(۶) اتقان:۱/۵۶، فوائد عثمانی پ ۱۹، بیان القرآن پ۱۵، پ۱۹۔
(۷) اتقان:۱/۳۹، مناہل العرفان:۱/۹۷، البرہان للزرکشی:۱/۲۶۳۔
(۸) برہان للزرکشی:۱/۳۰۷ عن تفسیر ابن کثیر۔
(۹) برہان:۱/۳۰۷، اتقان:۱/۸۵۔
(۱۰) شامی:۱/۲۶۱۔
(۱۱) اصول تفسیر لمالک:۴۶۔
(۱۲) احیاء العلوم:۱/۳۳۶۔
(۱۳) فتاویٰ محمودیہ (قدیم)۱/۱۹۔
(۱۴) تفسیر قرطبی:۱/۶۳،۶۴۔
(۱۵) تفسیر فتح العزیز:۱/۲۹۔
(۱۶) الاذکار للنووی:۱/۱۱۸۔
(۱۷) فتح العزیز:۱/۲۹۔
(۱۸) الاذکار۔
(۱۹) اتقان عن ابی داؤد۔
(۲۰) ومِن ثم کانتّ القراء ة فی الصلاة بسورةِ افضل، اتقان:۱/۸۸۔
(۲۱) شامی:۲/۲۵۶ ، طبع بیروت۔
(۲۲) البرہان للزرکشی۔
(۲۳) اتقان:۱/۸۸۔
(۲۴) ایضاً۔
(۲۵) فتح الباری:۹/۵۲۔
(۲۶،۲۷) مناہل العرفان:۱/۱۹۶۔
(۲۸) مناہل :۱/۱۹۶۔
(۲۹) مناہل واتقان وفضائل القرآن لابن کثیر۔
(۳۰) مناہل العرفان:۱/۱۹۶۔
(۳۱) ایضاً:۱/۲۰۳۔
***
————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 10-11 ، جلد: 96 ، ذی الحجہ 1433 ہجری، محرم 1434 ہجری مطابق اکتوبر – نومبر 2012ء