از: ڈاکٹر عبدالخالق استاذ علی گڑھ مسلم یونیوسٹی، علی گڑھ
انسانوں کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء ورسل کا سلسلہ جاری فرمایا۔ احادیث (مشکوٰة: کتاب الانبیاء) کے مطابق اللہ تعالیٰ نے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء ورسل مبعوث فرمائے، جن میں تقریباً تین سو تیرہ رسول تھے، باقی تمام نبی تھے۔ عام طور پر ہر ایک نبی اپنے سے پہلے نبی کی تصدیق کرتا چلا آیا اور اپنے سے بعد میں آنے والے نبی کی پیش گوئی کرتا چلا آیا۔ یعنی ”مُصَدِّقٌ لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ“ کی صدا ہمیشہ گونجتی رہی، اس سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء ورسل سے نبی آخر الزماں سید الانبیاء فخرالرسل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید کرنے اور تصدیق کرنے کا عہد لیا، جیساکہ قرآن کریم کی سورئہ آل عمران کی آیت نمبر۸۱ سے ثابت ہے کہ، الفاظ قرآن اس طرح سے ہے: ”واذ أخذ اللہ میثاق النبیین لما آتیتم من کتاب وحکمة ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتوٴمنن بہ، ولتنصرنہ قال أ أقررتم وأخذتم علٰی ذلکم اصری قالوا أقررنا قال فاشھدوا وأنا معکم من الشاھدین“
ترجمہ: اور جب لیا اللہ تعالیٰ نے عہد نبیوں سے کہ جو کچھ میں نے تم کو دیا کتاب اور علم پھر آوے تمہارے پاس کوئی رسول جو سچا بتادے تمہارے پاس والی کتاب کو تو اس رسول پر ایمان لاؤگے اور اس کی مدد کروگے۔ فرمایاکہ کیا تم نے اس کا اقرار کیا اور اس شرط پر میرا عہد قبول کیا؟ بولے ہم نے اقرار کیا، فرمایا کہ تم اب گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔
یعنی وہ وقت بھی قابل ذکر ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرات انبیاء علیہم السلام سے عہد لیا کہ جو کچھ تم کو کتاب اور علمِ شریعت وغیرہ دوں اور پھر تمہارے پاس کوئی پیغمبر آوے جو مصدق اور موافق ہو اس علامت کا جو تمہارے پاس کی کتاب اور شریعت میں ہے یعنی دلائل معتبرہ عند الشرع سے اس کی رسالت ثابت ہوتو تم ضرور اس رسول کی رسالت پر دل سے اعتقاد بھی لانا اورہاتھ پاؤں سے اس کی مدد بھی کرنا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ عہد بیان کرکے فرمایا کہ آیا تم نے اقرار کیا اور لیا اس مضمون پر میرا عہد اور حکم قبول کیا وہ بولے کہ ہم نے اقرار کیا۔ ارشاد فرمایا تو اپنے اس اقرار پر گواہ بھی رہنا؛ کیوں کہ گواہی سے پھرنے کو ہر شخص ہرحال میں سمجھتا ہے، بخلاف اقرار کرنے والے کے کہ بوجہ صاحب غرض ہونے، اس کا پھرجانا شاید مستبعد نہیں ہوتا ہے، اسی طرح تم صرف اقرار ہی نہیں؛ بلکہ گواہ کی طرح اس پر قائم رہنا اور میں بھی اس مضمون پر تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔ میں اس واقعہ کی اطلاع اور علم رکھنے والا ہوں، سو جو شخص امتوں میں سے روگردانی کرے گا اس عہد سے بعد اس کے کہ انبیاء تک سے عہد لیاگیا اورامتیں تو کس شمار میں ہیں، تو ایسے ہی لوگ پوری نافرمانی کرنے والے یعنی کافر ہیں۔
اس میثاق انبیاء علیہ السلام کے باعث حضرات انبیاء علیہ السلام نے اپنی اپنی امتوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت دی، بطور خاص حضرت موسیٰ وعیسیٰ نے اپنی اپنی امتوں کو صاف وواضح ہدایات دی ہیں، جیساکہ قرآن کریم کے سورہٴ اعراف کی آیت: ۱۵۷، اور تورات کی کتاب استثناء کے باب: ۱۸، آیت: ۱۷ تا ۲۲ اور انجیل یوحنا کے باب: ۱۴،۱۵ اور ۱۶ میں مذکور ہے۔
سورئہ اعراف کی اسی آیت کی تفسیر میں مفتی محمد شفیع عثمانی نے بیہقی کی دلائل نبوت سے ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ حضرت انس فرماتے ہیں کہ ایک یہودی لڑکا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا وہ اتفاقاً بیمار ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے، تو دیکھا کہ اس کا باپ اس کے سرہانے کھڑا ہوا تورات پڑھ رہاہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا کہ اے یہودی میں تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں جس نے حضرت موسیٰ پر تورات نازل فرمائی ہے کہ کیا تو تورات میں میرے حالات وصفات اور میرے ظہور کا بیان پاتا ہے؟ اس نے انکار کیا تو بیٹا بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ غلط کہتا ہے، تورات میں ہم آپ کاذکر اور صفات پاتے ہیں اور میں شہادت دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہٴ کرام کو حکم دیا کہ اب یہ مسلمان ہے، انتقال کے بعد اس کی تجہیز وتکفین مسلمان کریں۔ باپ کے حوالے نہ کریں (مظہری) اور حضرت علی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ ایک یہودی کا قرض تھا، اس نے آکر اپنا قرض مانگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس وقت میرے پاس کچھ نہیں، کچھ مہلت دو، یہودی نے شدت کے ساتھ مطالبہ کیا اور کہا کہ میں آپ کو اس وقت تک نہ چھوڑوں گا؛ جب تک میرا قرض ادا نہ کردیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں اختیار ہے میں تمہارے پاس بیٹھ جاؤں گا؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی جگہ بیٹھ گئے اور ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور پھر اگلے روز کی صبح کی نماز یہیں ادا فرمائی۔ صحابہٴ کرام یہ ماجرا دیکھ کر رنجیدہ اور غصب ناک ہورہے تھے اور آہستہ آہستہ یہودی کو ڈرادھمکا کر یہ چاہتے تھے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو تاڑ لیا اور پھر صحابہٴ کرام سے پوچھا یہ کیا کرتے ہو، تب انھوں نے عرض کیا یارسول اللہ! ہم اس کو کیسے برداشت کریں کہ ایک یہودی آپ کو قید کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”مجھے میرے رب نے منع فرمایا ہے کہ کسی معاہد وغیرہ پر ظلم کروں۔
یہودی یہ سب ماجرا دیکھ اور سن رہا تھا، صبح ہوتے ہی یہودی نے کہا ”اشھد أن لا الٰہ الا اللہ واشھد أنَّکَ رسولُ اللہ“ اس طرح مشرف بہ اسلام ہوکر اس نے کہا: یا رسول اللہ! میں نے اپنا آدھا مال اللہ کے راستے میں دے دیا اور قسم ہے خدا کی کہ میں نے اس وقت جو کچھ کیا اس کا مقصد یہ امتحان کرنا تھا کہ تورات میں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات بتلائی گئی ہیں، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں صحیح طور پر موجود ہیں یا نہیں؟ میں نے تورات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ الفاظ پڑھے ہیں: ”محمد بن عبداللہ، ان کی ولادت مکہ میں ہوگی اورہجرت طیبہ کی طرف اور ملک ان کا شام ہوگا، نہ وہ سخت مزاج ہوں گے نہ سخت بات کرنے والے نہ بازاروں میں شور کرنے والے، فحش اور بے حیائی سے دور ہوں گے۔“
اب میں نے ان تمام صفات کا امتحان کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں صحیح پایا؛ اس لیے شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، اور یہ میرا آدھا مال ہے آپ کو اختیار ہے کہ جس طرح چاہیں خرچ فرمائیں، اور یہ یہودی بہت مالدار تھا، آدھا مال بھی ایک بڑی دولت تھی، اس روایت کو تفسیر مظہری میں بحوالہ دلائل النبوة بیہقی نقل فرمایا ہے۔
اور امام بغوی نے اپنی مسند کے ساتھ کعب احبار سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ تورات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ لکھا ہے کہ ”محمد اللہ کے رسول اور منتخب بندے ہیں، نہ سخت مزاج ہیں اور نہ بے ہودہ گو،اور نہ بازاروں میں شور کرنے والے، بدی کا بدلہ بدی سے نہیں دیتے ہیں؛ بلکہ معاف فرمادیتے ہیں اور درگذر کرتے ہیں، ولادت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ میں اور ہجرت مدینہ طیبہ ہوگی، ملک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شام ہوگا اور امت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ”حمّادِین“ ہوگی، یعنی راحت وکلفت دونوں حالتوں میں اللہ تعالیٰ کی حمد وشکر ادا کرے گی، ہر بلندی پر چڑھنے کے وقت وہ تکبیر کہا کرے گی، وہ آفتاب کے سائیوں پر نظر رکھے گی؛ تاکہ اس کے ذریعہ اوقات کا پتہ لگاکر نمازیں اپنے وقت میں پڑھا کرے، وہ اپنے نچلے بدن پر تہبند استعمال کرے گی اور اپنے ہاتھ پاؤں کو وضو کے ذریعہ پاک وصاف رکھے گی، ان کا اذان دینے والا فضا میں آواز بلند کرے گا، جہاد میں ان کی صفیں ایسی ہوں گی جیسی نماز جماعت میں، رات کو ان کے تلاوت کی آوازیں ایسی گونجا کریں گی جیسے شہد کی مکھیوں کا شور ہوتا ہے۔
اسی طرح ابن سعد اور ابن عساکر نے حضرت سہیل مولیٰ خیسمہ سے سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ حضرت سہل نے فرمایا ”میں نے خود انجیل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ صفات پڑھی ہیں (وہ نہ پستہ قد ہوں گے اور نہ بہت دراز قد، سفید رنگ دو زلفوں والے ہوں گے، ان کے دونوں شانوں کے درمیان ایک مہرنبوت ہوگی، صدقہ قبول نہ کریں گے، حمار اور اونٹ پر سوار ہوں گے، بکریوں کا دودھ خود دوھ لیا کریں گے، پیوند زدہ کرتا استعمال فرمائیں گے اور جو ایسا کرتا ہے، وہ تکبر سے بری ہوتا ہے، وہ اسماعیل کی ذریت سے ہوں گے، ان کا نام احمد ہوگا)۔
مزید براں ابن سعد نے طبقات میں، دارمی نے اپنی مسند میں، بیہقی نے دلائل النبوة میں، عبدالسلام بن سلام سے روایت نقل کی ہے کہ جو یہودی کے سب سے بڑے عالم اور تورات کے ماہر مشہور تھے، انھوں نے فرمایا کہ تورات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ الفاظ مذکور ہیں: ”اے نبی! ہم نے آپ کو بھیجا ہے امتوں پرگواہ بناکر اور نیک عمل کرنے والوں کو بشارت دینے والا، برے اعمال والوں کو ڈرانے والا بناکر اور امیین یعنی عرب کی حفاظت کرنے والا بناکر، آپ میرے بندے اور رسول ہیں، میں نے آپ کا نام متوکل رکھا ہے، نہ آپ سخت مزاج ہیں نہ جھگڑالو اور نہ بازار میں شور کرنے والے، برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے؛ بلکہ معاف کردیتے ہیں اور درگزر کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو اس وقت تک وفات نہیں دیں گے؛ جب تک کہ ان کے ذریعہ ٹیڑھی قوم کو سیدھا نہ کردیں، یہاں تک وہ لا الٰہ الا اللہ کے قائل ہوجائیں اور اندھی آنکھوں کو کھول دے اور بہرے کانوں کو سننے کے قابل بنادیں اور بندھے ہوئے دلوں کو کھول دیں۔“
اس جیسی ایک روایت بخاری میں بروایت عبداللہ بن عمرو بن عاص مذکور ہے اور کتاب سابقہ کے بڑے ماہر عالم وہب بن منبہ سے بیہقی نے دلائل النبوة میں نقل کیا ہے کہ ”اللہ تعالیٰ نے زبور میں حضرت داؤد کی طرف یہ وحی فرمائی کہ اے داؤد! آپ کے بعد ایک نبی آئیں گے، جن کا نام احمد ہوگا، میں ان پر کبھی ناراض نہ ہوں گا اور وہ کبھی میری نافرمانی نہ کریں گے اور میں نے ان کے لیے سب اگلی پچھلی خطائیں معاف کردی ہیں، ان کی امت امت مرحومہ ہے، میں نے ان کو وہ نوافل دی ہیں، جو انبیاء کو عطا کی تھیں اور ان پر وہ فرائض عائد کی ہیں جو پچھلے انبیاء پر لازم کیے گئے تھے؛ یہاں تک کوہ محشر میں میرے سامنے اس حالت میں آئیں گے کہ ان کا نور انبیاء کے نور کے مانند ہوگا۔ اے دواؤد! میں نے محمد اوران کی امت کو تمام امتوں پر فضیلت دی ہے، میں نے ان کو چھ چیزیں خصوصی طور پر عطا کی ہیں جو دوسری امتوں کو نہیں دی گئیں:
اوّل: خطا ونسیان پر ان کو عذاب نہ ہوگا، جو گناہ بغیر قصد کے صادر ہوجائیں گے اگر وہ اس کی مغفرت مجھ سے طلب کریں تو میں معاف کردوں گا اور جو مال وہ اللہ کی راہ میں بطیبِ خاطر خرچ کریں گے تو میں دنیا میں ان کو اس سے زیادہ دوں گا اور جب ان پر کوئی مصیبت آپڑے اور وہ ”انا للہ وانا الیہ راجعون“ کہیں تو میں ان پر اس مصیبت کو صلوة ورحمت اور جنت کی طرف ہدایت بنادوں گا، وہ جو دعا کریں گے میں قبول کروں گا، کبھی اس طرح کہ جو مانگا ہے وہی دے دوں گا اور کبھی اس طرح کہ اس دعاکو ان کی آخرت کا سامان بنادوں گا (روح المعانی)۔
موجودہ بائبل کے تورات والے حصہ میں کتاب استثناء کے باب: ۱۸، آیت: ۱۷ تا ۲۲ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا مجھے ارشاد ہوا کہ جو ان لوگوں نے کہا وہ صحیح ہے، میں تمہارے بھائیوں میں سے تم جیسا ایک نبی مبعوث کروں گا اور میں اپنے الفاظ اس کے منھ میں رکھوں گا، یعنی وہ میرے الفاظ کو ہی اپنی زبان سے ادا کرے گا، وہ میرے تمام تر احکامات ان کو بتلائے گا اور جو کوئی اس کی بات کو نہیں سنے گا جو میری طرف کہے گا تو اس کی جڑ کاٹ دی جائے گی، یہی نہیں؛ بلکہ جو کوئی میری طرف سے یعنی میری طرف منسوب کرکے جھوٹی بات کہے گا یا دوسرے دیوی دیوتاؤں کی ترجمانی کرے گا وہ موت کے انجام کو پہنچے گا، وہ نبی حقیقی ہے یا نہیں؟ اس کا ثبوت یہ ہوگا کہ جو بات وہ میری طرف منسوب کرکے کہے گا اگر وہ صحیح نکلی تو وہ سچا نبی مانا جائے گا میری طرف سے مبعوث ہوگا اور اگر میری طرف منسوب باتیں سچی نہ نکلی تو وہ جھوٹا نبی ہوگا، اس کی عزت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اور نہ مرعوب ہونے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح انجیل یوحنا باب: ۱۴،۱۵ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے بعد آنے والے نبی کا ذکر فرماتے ہیں کہ اگر تم مجھے محبوب رکھتے ہوتو میرے احکامات کی اتباع کرو اور میں ابا سے درخواست کروں گا اور وہ تمہیں دوسرا نجات دہندہ عطا فرمائے گا، جو تمہارے ساتھ ہمیشہ رہے گا وہ سراپا صدق وحق کی روح ہوگا، دنیا اسے اس وقت خوش آمدید نہیں کہہ سکتی؛ کیوں کہ دنیا تو دیکھ ہی رہی ہے اور نہ ہی اس کو جان رہی ہے؛ لیکن تم اس کو جانتے ہو وہ تمہارے ساتھ رہے گا․․․․
میں تم سے زیادہ باتیں نہیں کروں گا؛ کیوں کہ دنیا کے شہزادے کا وقت بہت قریب آگیا ہے، وہ مجھ پر کوئی حق نہیں رکھتا؛ لیکن دنیا کو یہ دکھایا جانا ضروری ہے کہ میں ابا کو پیار کرتا ہوں اور کلیتاً وہی کرتا ہوں جس کا وہ مجھے حکم دیتا ہے؛ اس لیے ہم کو آگے بڑھانا چاہیے․․․․
لیکن جب تمہارا نجات دہندہ یا وکیل آپ کا ہوتا، جس کو میں ابا کی طرف سے بھیجوں گا جو حق وصداقت کی روح ہوگی اور اللہ تعالیٰ سے اس کا براہِ راست رشتہ ہوگا، وہ میری گواہی دے گا (حالاں کہ لوگ مجھے اس وقت جھٹلارہے ہیں) اور تم بھی میرے گواہ ہو؛ کیوں کہ تم ابتداء سے میرے ساتھ ہو․․․․
اور اگر میں نہیں جاؤں گا تمہارا وکیل نہیں آئے گا اور جیسا ہی میں جاؤں گا میں اس کو بھیج دوں گا جب وہ آئے گا تو دنیا سے مقابلہ کرے گا اور دنیا کو دکھلا دے گا کہ حق کیاہے اور باطل کیا ہے؟ اور انصاف کس چیز کا نام ہے؟ وہ میری صداقت کی گواہی دے گا، اہل دنیا کو میرا حق ہونے کے لیے جتلائے گا (یعنی دنیا کو میرا حق ہونا تسلیم کرنا پڑے گا)۔
مندرجہ بالا قرآنی، توراتی اورانجیلی اقتباسات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ذریعہ لائے گئے دین کا تذکرہ ان تمام کتب میں موجود ہے اور میثاق انبیاء اور احادیث نبوی سے یہ بھی ظاہر ہے کہ انبیاء اہل کتاب نے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کرتے ہوئے اپنی اپنی امتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے کی ہدایت بھی کی تھی۔ پس امن عالم اس امر پر منحصر ہے کہ اممِ سابقہ بطورِ خاص یہود ونصاریٰ اپنے انبیاء کی نصیحتوں کو حق سمجھ کر نبی آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کریں۔ اگر واقعی وہ حضرت موسیٰ وعیسیٰ پر ایمان لانے والے ہیں اور ان کو حق سمجھتے ہیں، تو ان کی نصائح کو حق سمجھ کر اس پر عمل پیرا بھی ہوں یا کم از کم ”لکم دینکم ولی دین“ کے اصول کے تحت اپنے اپنے دائرہ میں اپنے اپنے انبیاء کے نصائح کے موافق کام کریں اور نتیجے کو خدا کے ہاتھ میں چھوڑ دیں، وہ سب کچھ حق وباطل کو جانتا ہے، جس شخص نے حضرت عیسیٰ یا موسیٰ کی نصیحتوں پر عمل کیا اس کے ذریعہ سے امن قائم ہوا اور جس نے حضرت عیسیٰ یا موسیٰ کی بات کو تسلیم نہیں کیا اس کی وجہ سے فتنہ وفساد اور بدامنی پیدا ہوئی، جیساکہ تاریخ کے سیکڑوں واقعات سے ظاہر ہے۔ ذیل میں، مذکورہ بالا نصائح پر عمل کرنے اور عمل نہ کرنے کی صورت میں رونما ہونے والے نتائج کی تاریخ مختصراً تحریر کی جارہی ہے:
۱- جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم غار حراء سے سورہٴ اقراء کی ابتدائی آیات سے سرفراز ہوکر حضرت خدیجہ کے ساتھ مکہ معظمہ کے مشہور نصرانی عالم ماہر انجیل ورقہ بن نوفل کے پاس تشریف لے گئے تو انجیل کی روشنی میں ورقہ نے دعویٰ کیا کہ اگر غار حراء کا واقعہ ایسا ہی ہے، جیساکہ اے میرے بھتیجے تونے بیان کیا ہے تو تواقعی اللہ کا رسول منتخب ہوگیا ہے اور غار میں آنے والا خدا کا فرشتہ یعنی جبرئیل تھا اور وہ وقت قریب ہے، جب تجھے تیری قوم مکہ سے نکال دے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعجب سے سوال کیا کہ کیا واقع میں میری قوم مجھے نکال دے گی؟ حالاں کہ وہ مجھے صادق وامین کہتے ہیں! ورقہ بن نوفل نے کہا کہ ہاں، واقعی ہر وہ شخص جو اس چیز کو لے کر اپنی قوم کے پاس آیا اس کے ساتھ اس کی قوم نے یہی معاملہ کیا اور اگر میں اس وقت زندہ رہوں تو میں تمہاری ضرور مدد کروں گا۔ ہائے افسوس! تھوڑے عرصہ کے بعد ورقہ کا انتقال ہوگیا اور مکہ سے مدینہ ہجرت کے وقت ورقہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد نہ کرسکے۔
۲- جب اہل اسلام دورِ نبوی کے آغاز میں قریش کے ہاتھوں ہر قسم کی پریشانی برداشت کررہے تھے، زندگی دوبھر ہوگئی تھی تو اس وقت حبشہ کے ذی رحم (رحم دل) بادشاہ حق وانصاف کے علمبردار نجاشی (اصحمہ) کے پاس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے پہنچے، حضرت جعفر بن ابی طالب کی تقریر سے مطمئن ہوکر اسلام کی حقانیت حضرت عیسیٰ کی تعلیمات اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی یکسانیت کو تسلیم کرتے ہوئے مسلمانوں کو امن عطا کیا اورہر قسم کی اس فتنہ وفساد کو رفع کردیا، جو بصورت دیگر حق نہ ماننے کی صورت میں رونما ہوتا، جیساکہ بعض دوسرے علماء اہل کتاب یا شاہان عالم نے اپنی باطل پرستی کے سبب کیا جس سے فتنہ وفساد برپا ہوا، جس کی تفصیل کتب تواریخ میں بھری پڑی ہیں اوراس مضمون میں مناسب مقام پر ان کی طرف مختصراً اشارہ کردیا جائے گا۔
حضرت جعفر بن ابی طالب کی تقریر کا بادشاہ حبشہ پر اثر
حضرت جعفر بن ابی طالب نے نجاشی کے دربار میں اسلام اور اس کی تعلیمات کا ایک مختصر جائزہ، جامعیت کے ساتھ بیان کیا، جس کی وجہ سے قریش کے وفد کو بڑی ناکامی ہوئی اور شاہِ حبشہ، وہاں کے حُکّام اور عوام کے دل میں اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت، صداقت اور محبت پیدا کردی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور وہاں آپ کا اور صحابہٴ کرام کا مطمئن ہوجانا معلوم ہوا اور مہاجرین حبشہ نے مدینہ طیبہ جانے کا عزم کیا تو نجاشی نے ان کے ساتھ اپنے ہم مذہب نصاریٰ کے بڑے بڑے علماء اور مشائخ کا ایک وفد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا جس میں ستر آدمی شامل تھے، جن میں ۶۲ حضرات حبشہ کے اور آٹھ ملک شام کے رہنے والے تھے۔
شاہ حبشہ کی حق پرستی اور قبول حق کی وجہ سے امن وامان قائم ہوا، مسلمانوں اور حبشہ کے نصاریٰ میں کبھی کوئی جنگ وجدل نہیں ہوا، اس کے برخلاف قیصرِروم کے اسلام اور پیغمبرِ اسلام اور اس کی حکومت کے ایک بڑے پادری کے اسلام اور پیغمبر اسلام کی حقانیت تسلیم کرنے کے باوجود، عوام وحکام کی بڑی تعداد کے حق تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے حق وباطل میں تنازع پیدا ہوا، جس کے سبب ہزاروں انسانوں کی جانیں گئیں، قیصر روم کی طرف سے ۹ھء کے وفدان مدینہ پر رومی حملے کی خبریں اتنا زور پکڑیں کہ پیغمبر اسلام کو دفاع میں قدم اٹھانا پڑا، جیساکہ غزوئہ تبوک کی تفسیر سے معلوم ہوتا ہے۔ رومی عیسائیوں کے ساتھ مسلمانوں کے تنازع کی مختصر روداد یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے پوری دنیا کے لیے نبی بناکر بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرضِ منصبی کو پورا کرنے کے لیے حُکّامِ ممالک کو خط لکھے، جن میں سے ایک خط قیصر کے پاس بھی بھیجا گیا۔ قیصر کے پاس آپ کا خط حضرت دحیہ کلبی لے کر پہنچے، حضرت دحیہ کلبی کے خط کی وجہ سے ابوسفیان سے جو اس وقت ملک شام میں تھا، قیصر نے چند سوالات کیے جن کے جوابات سن کر قیصر نے یہ ردعمل کیاکہ اس نے اپنے تمام سرداروں کو اسلام لانے کی ترغیب دی، شاہ روم (ہرقل) نے ابوسفیان اور ان کے ساتھیوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بذریعہ ترجمان سوالات پوچھے کہ جو مکہ میں نبوت کا دعویٰ کررہا ہے ان کا نسب کیساہے؟ ابوسفیان نے جواب دیا کہ ان کا خاندان تو ہم سے بڑا ہے، نبوت کا دعویٰ اس سے پہلے تم میں سے کسی نے کیا تھا؟ ابوسفیان نے جواب دیا، نہیں نہیں۔ کیا ان کی دعوت امیرلوگ قبول کررہے ہیں یا غریب لوگ؟ جواب دیا کہ غریب لوگ! ان کے تابع دار روز بروز بڑھ رہے ہیں یا گھٹ رہے ہیں؟ جواب دیا کہ بڑھ رہے ہیں۔ کیا ان کو کبھی بھی جھوٹ بولتے دیکھا ہے؟ ابوسفیان نے جواب دیا کبھی انھوں نے جھوٹ نہیں بولا۔ وہ تمہیں کس چیز کاحکم کرتا ہے؟ وہ حکم دیتا ہے کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور باپ دادا کی (شرک) کی باتیں چھوڑ دو۔
بعد میں مترجم کے ذریعہ ابوسفیان کو کہلوایا کہ میں نے تجھ سے پوچھا تھا کیا ان کو جھوٹ بولتے دیکھا ہے، تونے کہا نہیں تو میں نے سمجھ لیا کہ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا وہ لوگوں پر جھوٹ باندھنے سے پرہیز کرے اوراللہ پر جھوٹ باندھے۔ میں نے پوچھا کہ وہ تمہیں کیا حکم کرتا ہے تو تونے کہا کہ ایک اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور بت پرستی سے تم کو منع کرتے ہیں اور نماز اور سچائی (حرام کاری سے) بچنے کا حکم دیتا ہے۔ پھر جو تو کہتا ہے اگر سچ ہے تو عنقریب اس جگہ کا مالک ہوجائے گا، جہاں میرے یہ دونوں پاؤں ہیں (یعنی ملک شام کا) اور میں جانتا تھا کہ پیغمبر آنے والا ہے؛ لیکن میں نہیں سمجھتا تھا کہ وہ تم میں سے ہوگا۔ پھر اگر میں جانوں کہ میں اس تک پہنچ جاؤں گا تو اس سے ضرور ملنے کی کوشش کروں گا اور اگر میں اس کے پاس (مدینہ میں)ہوتا تو اس کے پاؤں دھوتا (خدمت کرتا)۔
قیام امن کا انحصار بہت حد تک مسلم عیسائی تعلقات پر منحصر ہے۔ اگر نصاریٰ اپنے نبی اور ان کے مطابق نعوذ باللہ خداکے بیٹے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے فرمودات اور دیگر مسیحی بزرگوں کی مصدق مبشر پیشین گوئیوں پر عمل کریں تو امن عالم بڑی آسانی سے قائم ودائم ہوسکتا ہے؛ کیوں کہ تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا واقعہ ہو جہاں پر مسلمانوں نے ایسا کام کیا ہو جو حضرت عیسیٰ یا عیسائی مملکت کے خلاف رونما ہوا ہو، جب جب بھی نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں پیش گوئیوں پر عمل کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ویسے ہی عزت دی، جیسے وہ عزت حضرت عیسیٰ یا موسیٰ اور دیگر انبیاء کو دیتے ہیں، یا کم از کم اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت بھی نہیں کی؛ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں کوئی برا لفظ نہیں کہا یا قرآن کریم کی بے حرمتی نہیں کی یا اسلامی ممالک پر بلا وجہ حملہ نہیں کیا یا مسلمانوں کو بلاوجہ پریشان نہیں کیا، تو دونوں قوموں میں تعلقات صحیح رہے اور دونوں قوموں کے عالمگیرحیثیت کی مالک ہونے کی وجہ امن عالم کو نقصان نہیں پہنچا۔ اور جب جب مذکورہ بالاتعلقات خراب ہوئے اور امن عالم خطرہ میں پڑگیا، مثلاً ورقہ بن نوفل نے شاہ حبشہ نجاشی (اصحمہ) نے قرآن کریم اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں حضرت عیسیٰ کی پیشین گوئیوں پر عمل کیا تو مسلم اور مسیحی تعلقات برقرار رہے اور امن عالم خطرہ میں نہیں پڑا؛ بلکہ امن قائم ہوگیا، اور جب نجاشی کے بھیجے ہوئے ستر نصاریٰ نے مدینہ پاک میں قرآن شریف سن کر حق کو پہچان کر قدم اٹھایا تو دونوں قوموں میں مودت وشفقت میں اضافہ ہوا، نصاریٰ کے اس کے برعکس عمل سے دونوں قوموں کے آپسی تعلقات خراب ہوئے، آپس میں امن وامان کے بجائے جنگ وجدال برپا ہوگیا اور امن عالم برباد ہوگیا۔ مثلاً قیصر روم (ہرقل) نے ابوسفیان قریشی سے بہت سے سوالات کے جوابات سن کر یہ دعویٰ کیا تھا کہ اے ابوسفیان (پھر جو تو کہتا ہے وہ عنقریب اس جگہ کامالک ہوجائے گا جہاں میرے دونوں پاؤں ہیں، اور اس نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر میں جانوں کہ اس کے پاس پہنچ جاؤں گا تو ان سے ضرور ملنے کی کوشش کروں گا، اور اگر میں اس کے پاس ہوتا تو اس کے پاؤں دھوتا اور جب ہرقل نے اس کے پاس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خط بذریعہ دحیہ کلبی ۶ھ میں بھیجے تو خط کو پڑھا اور اس خط کے مضمون کے سلسلے میں اپنے ایک دوست سے رائے طلب کی، اور اس نے جو رائے دی وہ بھی ہرقل کے موافق تھی، تو ہرقل نے روم کے سرداروں کو اسلام میں داخل ہونے کو فرمایا: حق کو پہچاننے کے باوجود حق کا ساتھ نہ دینے کی وجہ سے ہی حق نے اہل روم کا ساتھ چھوڑ دیا، نتیجتاً ذلت مقدر بن گئی۔
الغرض نصاریٰ نے جب جب دین اسلام کو حق مان کر حق کا ساتھ دیا، دونوں اقوام کے تعلقات صحیح خطوط پر قائم رہے۔ دونوں قومیں بھی امن سے رہیں اور باقی دنیا بھی چین وسکون سے رہی، آج بھی اگر اہل کلیسا، ارباب حل وعقد نصاریٰ، حق کو پہچان کر قدم اٹھائیں تو امن عالم برقرار رہ سکتا ہے، نہ عراق برباد ہوتا اور نہ افغانستان اور نہ بنی اسرائیل، ورنہ خلفشار دنیا، دنیا کی تقدیریں بنتی جارہی ہیں۔
***
———————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 7 ، جلد: 96 ، شعبان-رمضان 1433 ہجری مطابق جولائی 2012ء