از:مولانا نصیرالدین قاسمی ولیدپوری استاذِ مدرسہ دارالعلوم محمدیہ قصبہ گدرپور (اتراکھنڈ)

                حضرت عمر بن عبدالعزیز کی شخصیت تعارف سے بے نیاز ہے، عرب کے حکمرانوں کا عزم وجزم، عقل وتدبر پورے تناسب سے اس شخصیت کے دل ودماغ میں جمع ہوگیا تھا، عربی کتب، ادب وتاریخ ان کے تدبر کے واقعات سے لبریز ہیں، ہمیشہ ان کی سیاست کامیاب وکامران رہی، وہ اپنے زمانے کے اہل اللہ اور مقرب الی اللہ تھے۔

                جب خلیفہ ولید نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو مدینہ منورہ کا گورنر بنایا، تو آپ نے فرمایا کہ میں اسی شرط پر گورنری منظور کرتا ہوں کہ مجھے پہلے گورنروں کی طرح ظلم واستبداد پر مجبور نہ کیاجائے۔ خلیفہ نے کہا: ”آپ حق وعدل پر عمل کریں خواہ خزانہٴ شاہی کو ایک پائی بھی نہ ملے“ آپ نے مدینہ منورہ پہنچ کر سب سے پہلے علماء واکابر کوجمع کیا اور ان لوگوں کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایاکہ: ”اگر آپ لوگوں کو میری ریاست میں کہیں بھی، کسی پر بھی ظلم وستم ہوتا ہوا نظر آجائے، تو خدا کی قسم مجھے اس کی اطلاع ضرور کریں، جب تک آپ مدینہ کے گورنر رہے کسی شخص نے آپ سے عدل وانصاف، نیکی وبھلائی، سخاوت، فیاضی، ہمدردی وغمگساری اور خیرخواہی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔

                خلیفہ سلیمان کی آخری بیماری میں اس سراپا عدل وانصاف کے پیکر کو شک ہوا کہ وہ کہیں آپ کو اپنا نائب اور جانشین نہ مقرر کردے؛ چنانچہ افتاں وخیزاں ”رجاہ بن حیوة“ (وزیراعظم) کے پاس تشریف لے گئے اور یوں گویا ہوئے: ”مجھے خطرہ ہے کہ خلیفہ سلیمان نے کہیں میرے حق میں وصیت نہ کردی ہو؛ لہٰذا اگر اس نے وصیت کی ہوگی، تو آپ کے علم میں تو ضرور ہوگا، آپ مجھ کو بتادیں تاکہ میں استعفادے کر پہلے ہی سبکدوش ہوجاؤں اور وہ اپنی حیات میں ہی کوئی دوسرا انتظام کرجائیں“ رجاہ بن حیوة نے اس وقت آپ کو ٹال دیا؛ مگر جب وصیت نامہ منصہ شہود پر آیا، تو آپ کا خطرہ بالکل درست ثابت ہوا، اس وقت خلیفہ سلیمان دنیا سے رخصت ہوچکے تھے، اس واسطے آپ نے عام مسلمانوں کو جمع کرکے ارشاد فرمایا: ”اے لوگو! میری خواہش اور تمہارے استصواب کے بغیر خلیفہ بنایا گیا ہے، میں تمہیں اپنی بیعت سے خودہی آزاد کرتا ہوں تم جسے چاہو اپنا خلیفہ چن لو“ یہ سن کر مجمع سے بالاتفاق آواز آئی ”یا امیرَالمومنین! ہمارے خلیفہ آپ ہیں“ آپ نے ارشاد فرمایا: ”صرف اس وقت تک جب تک کہ میں اطاعت الٰہی کی حد سے باہر قدم نہ رکھوں“ اس گفتگوکے بعد شاہی سواریاں پیش کی گئیں؛ تاکہ آپ محل شاہی میں تشریف لے جائیں، آپ نے ارشاد فرمایا: ”انھیں واپس لے جاؤ! میری سواری کے لیے میرا خچر کافی ہے، جب علماء نے ممبر پر حسب رواج آپ کا نام لیا اور درود وسلام بھیجا، تو آپ نے فرمایا: ”میرے بجائے سب مسلمان بندوں میں مردوں اور عورتوں کے لیے دعاء کرو اگر میں بھی مسلمان ہوں گا، تو یہ دعاء مجھے بھی خود بخود پہنچ جائے گی۔ ان تمام کارروائیوں کے مکمل ہونے کے بعد آپ اداس چہرے، حیران آنکھوں اور اڑے ہوئے رنگ کے ساتھ گھر آئے، لونڈی نے دیکھتے ہی کہا: ”آپ آج اس قدر پریشان کیوں ہیں؟“ فرمایا: ”آج مجھ پر فرض عائد کیاگیا ہے کہ میں ہر مسلمان کا بغیر اس کے مطالبہ کے حق ادا کروں، آج میں مشرق ومغرب کے ہر یتیم ومسکین کا اورہر بیوہ ومسافر کا جواب دہ بنایاگیا ہوں، پھر مجھ سے زیادہ قابل رحم اور کون ہوسکتا ہے۔ پھر اپنی بیوی فاطمہ سے جو کہ خلیفہ عبدالملک کی نورِ نظر تھیں ارشاد فرمایا: ”اپنا وہ بیش قیمت جواہر جو تمہیں عبدالملک نے دیا تھا، بیت المال میں داخل کردو، یا مجھ سے اپنا تعلق ختم کرلو۔ یہ سن کر باوفا سیرچشم بیوی اٹھیں اور اپنے جواہرات کو بیت المال میں بھیج دیا، جب دامن پاک اور گھر صاف ہوچکا، تو آپ اہل خاندان کی طرف متوجہ ہوئے اور یزید اور معاویہ تک کے وارثوں کو ایک ایک کرکے پکڑا اور تمام غصب شدہ جائیداد اور اموال اصل وارثوں کو واپس کردیے، مال ودولت اس کثرت سے واپس ہوا کہ حکومتِ عراق کا خزانہ خالی ہوگیا اور اخراجات کے لیے دمشق سے وہاں روپیہ بھیجا گیا، بعض خیرخواہوں نے کہا: ”یاامیرَالمومنین! آپ اپنی اولاد کے لیے کچھ چھوڑدیں“ تو ارشاد فرمایا: ”میں انھیں اللہ کے سپُرد کرتا ہوں“۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے گھر والوں کے روزینے بند کردیے، جب انھوں نے تقاضا کیاتو فرمایا: ”میرے اپنے پاس کوئی مال نہیں ہے اور بیت المال میں تمہارا حق بھی اسی قدر ہے جتنا کہ اس مسلمان کا جو سلطنت کے آخری کنارے پر آباد ہے، پھر میں تمہیں دوسرے مسلمانوں سے زیادہ کس طرح دے سکتا ہوں؟ خدا کی قسم اگر ساری دنیا بھی تمہاری ہم خیال ہوجائے تو پھر بھی میں نہیں دوں گا۔

                حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنی سلطنت کے اندر مسلم اور غیرمسلم کے شہری حقوق کو یکساں کردیا، حیرہ کے ایک مسلمان نے ایک غیرمسلم کو کسی وجہ سے قتل کردیا، آپ نے قاتل کو پکڑکر مقتول کے وارثوں کے حوالے کردیا اور انھوں نے اسے قتل کردیا، ایک عیسائی نے خلیفہ عبدالملک کے بیٹے ہشام پر دعویٰ کردیا، جب مدعی اور مدعالیہ حاضر ہوئے تو آپ نے دونوں کو برابر کھڑا کردیا، ہشام کا چہرہ اس بے عزتی پر فرطِ غضب سے سرخ ہوگیا، آپ نے یہ دیکھاتو فرمایا: ”اس کے برابر کھڑے رہو، شریعتِ حقہ کی شانِ عدالت یہی ہے کہ ایک بادشاہ کابیٹا عدالت میں ایک نصرانی کے برابر کھڑا ہو۔

                حضرت عمر بن عبدالعزیز کا دورِ حکومت صرف ڈھائی سال ہے، اس مختصر اور قلیل مدت میں خلقِ خدا نے یوں محسوس کیا کہ زمین وآسمان کے درمیان عدل کا ترازو کھڑا ہوگیا ہے اور فطرتِ الٰہی خود آگے بڑھ کر انسانیت کو آزادی محبت اور خوشحالی کا تاج پہنارہی ہے، لوگ ہاتھوں میں خیرات لیے پھرتے تھے؛ مگر کوئی محتاج نہیں ملتا تھا کہ یہاں کوئی حاجت مند باقی نہیں رہا، اور عطیات کو واپس کردیتے تھے، عدی بن ارطاط (والیِ فارس) نے آپ کو لکھا کہ یہاں خوش حالی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ عام لوگوں کے کبروغرور میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہوگیا ہے، آپ نے جواب بھیجا لوگوں کو خدا کا شکر ادا کرنے کی تعلیم دینا شروع کردو۔

                ایک طرف لاکھوں اور کروڑوں لوگ امن ومسرت اور راحت وشادمانی کے شادیانے بجارہے تھے ، تو دوسری طرف وہ وجودِ مقدس جس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا تھا روز بروز لاغر وضعیف ونزار ہوتا چلا جارہا تھا، اسے دن کا چین میسر نہیں تھا، اسے رات کی نیند نصیب نہ تھی، جب حضرت عمر بن عبدالعزیز مدینہ کے گورنر بنائے گئے، تو اس وقت ان کا ذاتی سازوسامان اس قدر وسیع اور عظیم تھا کہ صرف اسی سے پورے تیس اونٹ لادکر مدینہ منورہ بھیجے گئے، جسم اس قدر تروتازہ تھا کہ ازار بند پیٹ کے پٹوں میں غائب ہوجاتا تھا، لباسِ تنعم وعطریات کے بے حد شوقین تھے، نفاست پسندی کا یہ عالم تھا کہ جس کپڑے کو دوسرے لوگ آپ کے جسم پر ایک دفعہ دیکھ لیتے تھے دوبارہ نہیں دیکھتے تھے، خوشبو کے لیے مشک اور عنبر استعمال کرتے تھے، رجاہ بن حیوة کا بیان ہے کہ ہماری سلطنت میں سب سے زیادہ خوش لباس، معطر اور خوش خرام شخص عمر بن عبدالعزیز تھے، آپ جس طرف سے گزرتے تھے گلیاں اور بازار خوشبو میں نہاجاتے؛ لیکن جس دن خلیفہٴ اسلام بنائے گئے، آپ نے ساری جاگیریں اصل مالکوں کو واپس کردیں اور فرش، لباس، عطریات، سازوسامان، محلات، لونڈی وغلام اور سواریاں سب بیچ دیے،اور قیمت بیت المال میں داخل کردی، آپ کے پاس صرف ایک جوڑا رہتاتھا جب وہ میلا ہوتا، اسی کو دھوکرپہن لیتے تھے، مرض الموت میں آپ کے سالے نے اپنی بہن فاطمہ یعنی حضرت عمر بن عبدالعزیز کی اہلیہ سے کہا: ”امیرالمومنین کی قمیص بہت میلی ہورہی ہے لوگ بیمارپرسی کے لیے آتے ہیں اسے بدل دو“ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی بیوی نے یہ سنا اور خاموش ہوگئیں، بھائی نے جب پھر یہی تقاضا کیا تو فرمایا: ”خدا کی قسم! خلیفہٴ اسلام کے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا کپڑا نہیں ہے، میں کہاں سے دوسرا کپڑا پہنادوں“ اور یہ جوڑا بھی خلیفہٴ وقت کے بدن پر جو تھا صحیح سالم نہ تھا، اس میں کئی پیوند لگے ہوئے تھے۔

                ایک دن آپ کو انگور کھانے کی تمنا ہوئی، آپ بیوی کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”کیا تمہارے پاس ایک درہم ہے؟ میں انگور کھانا چاہتا ہوں“ بیوی (فاطمہ) نے کہا: ”خلیفة المسلمین ہوکر کیا آپ میں ایک پیسہ خرچ کرنے کی بھی طاقت نہیں ہے“ فرمایا: ”میرے لیے جہنم کی ہتھکڑی سے زیادہ یہ آسان ہے“۔

                جب خلافت کی ذمہ داریوں کا پہاڑ آپ پر ٹوٹ پڑا، تو غذا اور خوراک کے علاوہ میاں بیوی کے تعلقات سے بھی علیحدگی اختیار کرلی، سارا دن سلطنت کی ذمہ داریاں نبھاتے اور رات کے وقت عشاء پڑھ کر تنِ تنہا مسجد میں بیٹھ جاتے اور ساری ساری رات جاگتے، سوتے، گریہ وزاری میں بسر کردیتے، بیوی سے ان کی یہ حالت دیکھی نہ جاتی، ایک دن انھوں نے تنگ آکر پوچھا، تو ارشاد فرمایا: ”میں نے ذمہ داری کے سوال پر بڑی اچھی طرح غور وخوض کیا ہے اور اس کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ میں اس امت کے چھوٹے بڑے اور سیاہ وسفید کاموں کا ذمہ دار ہوں، مجھے یہ یقین ہوچکاہے کہ میری سلطنت کے اندر جس قدر بھی غریب، مسکین، یتیم، مسافر اور مظلوم موجود ہیں ان سب کی ذمہ داری مجھ پر ہے، خدا تعالیٰ ان سب کے متعلق مجھ سے پوچھے گا، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کے متعلق مجھ پر دعویٰ کریں گے؛ اگر میں خدا اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جواب نہ دے سکا تو میرا انجام کیا ہوگا؟ جب میں ان سب باتوں کو سوچتا ہوں تو میری طاقت گم ہوجاتی ہے، دل بیٹھ جاتا ہے، آنکھوں میں آنسو بے دریغ بہنے لگتے ہیں۔“

                ۱۰۱ھ میں اموی خاندان کے بعض لوگوں نے آپ کے غلام کو ایک ہزار اشرفی دے کر آپ کو زہر دلوادیا، آپ کو اس کا علم ہوا تو غلام کو پاس بلایا، اس سے رشوت کی اشرفیاں لے کر بیت المال میں بھیجوادیا اور فرمایا: ”جاؤ میں تمہیں اللہ کے لیے معاف اور آزاد کرتاہوں“۔ پھر اپنے بیٹوں کو پاس بلایا اور فرمایا: ”اے میرے بچو! دو باتوں میں سے ایک بات تمہارے باپ کے اختیار میں تھی، ایک یہ کہ تم دولت مند ہوجاؤ اور تمہارا باپ دوزخ میں جائے، دوسری یہ کہ تمہارا باپ جنت میں داخل ہو، میں نے آخری بات پسند کرلی، اب میں تمہیں صرف خدا ہی کے حوالے کرتا ہوں۔

                ایک شخص نے کہا: ”حضرت کو روضہٴ نبوی کے اندر چوتھی خالی جگہ میں دفن کیا جائے یہ سن کر فرمایا: ”خدا کی قسم! میں ہرعذاب برداشت کرلوں گا؛ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے جسم پاک کے برابر اپنا جسم رکھواؤں، یہ جرأت مجھے برداشت نہیں۔“

                اس کے بعد آپ نے ایک عیسائی کو بلوایا اوراس سے اپنی قبر کی زمین خریدی، عیسائی نے کہا: ”میرے لیے یہ عزت کیا کم ہے کہ آپ کی ذات پاک میری زمین میں دفن ہو، میں اب عزت کی قیمت وصول نہیں کروں گا“۔ فرمایا: ”یہ نہیں ہوسکتا“ آپ نے اصرار کرکے قیمت اسی وقت ادا کردی، پھر فرمایا جب مجھے دفن کرو تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ”ناخن اور موئے مبارک“ میرے کفن کے اندر رکھ دینا، اسی وقت پیغام ربانی آگیا اور زبانِ مبارک پر یہ آیات جاری ہوگئیں: ﴿تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُھَا لِلَّذِیْنَ لاَ یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا وَلاَ فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ﴾  اور روحِ اطہر جسم سے پرواز کرگئی۔ اِنّا للہ وانا الیہ راجعون․

                بارگاہِ ایزدی میں احقر دعاء گو ہے کہ: اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو حضرت عمر بن عبدالعزیز جیسی زندگی اور موت نصیب فرمائے۔ آمین، یا ربَّ العالمین․

***

———————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 7 ‏، جلد: 96 ‏، شعبان-رمضان 1433 ہجری مطابق جولائی 2012ء

Related Posts