از: مولانا توحید عالم قاسمی استاذ دارالعلوم /دیوبند
معلم انسانیت حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھیل، کود اور لہوولعب کے تعلق سے ایک ضابطہ بیان فرمایا: کُلُّ مَا یَلْھُوْبِہ المرءُ المُسْلِمُ بَاطِلٌ الاَّ رَمْیُہ بِقَوْسِہ وتَادِیْبُہ فَرَسَہ ومُلاَعَبَتُہ امْرَاتَہ فانَّھُنَّ مِنَ الْحَقِّ․ (سنن ترمذی) ہروہ لہوولعب جس میں مسلمان مشغول ہو باطل وناجائز ہے، صرف اس کا تیر اندازی کرنا، گھوڑسواری کرنا اور اپنی اہلیہ اور بیوی سے دل لگی کرنا؛ کیونکہ یہ امور جائز اور مباح ہیں۔ اسی روایت کو امام ابوداؤد نے اپنی سنن میں بھی ذکر کیا ہے، جس کی تشریح میں شارح ابوداؤد علامہ خطابی فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کھیلوں کا استثناء فرمایا ہے، ان میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کھیل جن سے حق میں تعاون اور مدد ملتی ہو وہ جائز ہیں، جیسے ہتھیار چلانا سیکھنا، دوڑنا وغیرہ ان کو انسان ورزش کے طور پر کرتا ہے اور ان سے بدن میں طاقت آتی ہے اور دشمن کے مقابلہ میں مدد ملتی ہے۔
مذکورہ کھیلوں کے علاوہ کام چوروں کے کھیل، مثلاً نرد، شطرنج اور کبوتر بازی وغیرہ ان سے کسی طرح بھی حق میں تعاون نہیں ملتا ہے اور نہ ہی ان سے کسی واجب کی ادائیگی میں انبساط پیدا ہوتا ہے؛ چنانچہ یہ سب ممنوع ہیں اور ان کی شریعت میں اجازت نہیں۔ (معالم السنن للخطابی)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے حجرے کے دروازے پر کھڑے ہوکر اپنی چادر سے میرے لیے پردہ کرلیتے تھے، حبشی لوگ مسجد نبوی میں اپنے ہتھیاروں سے کھیلتے تھے، میں اس کو دیکھتی اورجب تک سیر ہوکر ہٹ نہ جاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے کھڑے رہتے تھے، آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ مجھ جیسی کم سن اور کم عمر لڑکی کھیل کی شوقین کتنی دیر تک تماشا دیکھتی ہوگی۔ (مسلم شریف ج۲،ص۶۰۹)
امام بغوی شارح مسلم حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ: اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہتھیاروں کا کھیل مثلاً بندوق کی گولی، تیر کا نشانہ، بانک اورپٹہ وغیرہ جہاد کی نیت سے مسجد میں سیکھنا اور کھیلنا جائز ہے، اگر عورتیں مردوں کے ایسے کھیل دیکھیں توجائز ہے، بشرطیکہ مردوں کی نظر عورتوں پر نہ پڑے اوراگر عورت کی نگاہ کسی اجنبی پر شہوت سے پڑے تو بالاتفاق حرام ہے۔ (عصرحاضر کے نوجوان ص۵۲)
حکیم الامت مجدد ملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ: بعض لوگ غم غلط کرنے والی چیزوں میں مشغول ہوجاتے ہیں، جیسے شطرنج، کبوتر بازی، بٹیربازی اورجانوروں کو لڑانا وغیرہ انسان جب ان چیزوں میں مشغول ہوتا ہے تواس کو کھانے، پینے کی خبر نہیں رہتی؛ بلکہ بسا اوقات پیشاب روکے بیٹھا رہتا ہے اور وہاں سے نہیں ٹلتا، پھر اگر ایسی چیزوں میں مشغول رہنے کا دستور ہوجائے تویہ لوگ تمام شہروالوں پر بوجھ بن جائیں گے، اور اپنی جان کی ان کو خبر نہ رہے گی؛ اس لیے ان مشاغل سے منع کردیا جائے۔ (المصالح العقلیة للأحکام النقلیة ص۳۲۶، ۳۲۷)
عالمی منظرنامہ:
حالاتِ حاضرہ پر نظر رکھنے والے اور بین الاقوامی منظرنامے کو چشم بصیرت سے دیکھنے والے حضرات خوب جانتے ہیں کہ دورِ حاضر میں مختلف قسم کے کھیل مروّج ہیں، مثلاً کرکٹ، ہاکی، ٹینس، ٹیبل ٹینس، بیڈ منٹن، باکسنگ، والی بال، فٹ بال، واسکٹ بال، گولف، بھاگ دوڑ، کبڈی، نشانہ بازی، شطرنج، کبوتر بازی، پتنگ بازی، تاش بازی، کیرم بورڈ اور لوڈو وغیرہ، مذکورہ کھیلوں میں سے اکثرکھیل نہ ورزش سے تعلق رکھتے ہیں اورنہ ہی وہ جسمانی طاقت وقوت اور دماغی صلاحیت واہلیت میں اضافہ کا سبب اور ذریعہ بنتے ہیں، اسی لیے وہ مفید ہونے کے بجائے نوع بنوع کے نقصانات کا وسیلہ ثابت ہوتے ہیں؛ کیونکہ اب عالمی سطح پر ان کھیلوں کو ترقی اور فروغ دینے کے اسباب ووسائل اور ذرائع اختیار کیے جاتے ہیں اور بے تحاشہ دولت لُٹائی جاتی ہے، حکومتیں تمام ضرورتوں اور اہم کاموں کو پسِ پشت ڈال کر کھیلوں کا انعقاد کراتی ہیں اور پوری دنیا سے کام چوروں (کھلاڑیوں) کو اپنے اپنے ملک میں خصوصی دعوت دے کر مدعو کرتی ہیں، ان کو اعزاز دیا جاتا ہے، اہم اور اعلیٰ حکام کے برابر حفاظت (سیکورٹی) کرنے والے افراد مہیا کرائے جاتے ہیں، نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ امریکہ کے علاوہ تمام ممالک میں جس طرح تعلیم، صحت، زراعت، توانائی، خارجی امور، داخلی امور اور دفاعی معاملات وغیرہ ضروری کاموں اور اہم اہم امور ومعاملات کے لیے وزارتیں اور محکمے تجویز ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح کھیل، کود کے لیے بھی وزارت اور مستقل محکمہ کا تعین عمل میں آتا ہے، اور جس طرح دوسری وزارتیں سالانہ اپنا بجٹ منظور کراتی ہیں، اسی طرح وزارت کھیل کود بھی اپنا سالانہ بجٹ پاس کراتی ہے، ہر چھوٹا، بڑا ملک اس بیہودہ اور لایعنی بلکہ تباہ کن اور برباد کنندہ عمل یعنی کھیل پر ہرسال اربوں اور کھربوں ڈالر صرف کرتا ہے؛ جبکہ اِن ممالک میں بہت سے ملک ایسے بھی ہوتے ہیں، جن کے باشندوں کی اکثریت خطِ افلاس اور غربی کی ریکھا سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور ایک بڑی تعداد ایسے خاندانوں کی ہوتی ہے جو پیٹ بھرکھانا اور صاف پانی جیسی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں اور سرچھپانے کے لیے چھت نہیں؛ بلکہ کھلے آسمان کے نیچے گرمی، سردی کے سخت موسم میں رات ودن گزر، بسر کرنے پر مجبور ہیں، تعلیم یا معیاری زندگی کا کوئی بھی تصور اُن کے لیے محال و ناممکن ہے؛ لیکن اربابِ حکومت اور سرمایہ دار طبقہ کو کبھی بھی اِن پس ماندہ؛ بلکہ درماندہ افراد کی فکر لاحق نہیں ہوتی۔ اگر فکر ہوتی ہے تو بین الاقوامی کھیلوں کے انعقاد کی، دوسرے ممالک کے کھلاڑیوں کو اپنے ملک میں بلاکر کھیل کرانے کی اور اپنے ملک کے پیشہ ور کھلاڑیوں کو دوسرے ملکوں میں بھیج کر کھلانے کی، جس کے لیے اُن کے پاس اربوں ڈالر اور کھربوں روپے موجود ہی نہیں؛ بلکہ زائد از ضرورت ہوتے ہیں، کبھی کھیلوں کے لیے میدان اور کھیل گاہ (اسٹیڈیم) تیار کرنے، کرانے پر کروڑوں کی مقدار میں روپیہ صرف ہوتا ہے تو کبھی میڈیا اور ذرائع ابلاغ سے کھیلوں کی تشہیر واعلانات پر بے پناہ دولت بہائی جاتی ہے، آج کھلاڑیوں کی ٹریننگ اور تیاری پر ملک وملت کا قیمتی سرمایہ صرف ہورہا ہے، تو کل کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے انعامات اور اعزازات کی شکل میں خطیر رقم تقسیم کی جاتی ہے۔
نقصانات:
بین الاقوامی اور عالمی منظرنامہ کا بغور مطالعہ کرنے سے درج ذیل نقصانات سامنے آتے ہیں:
(۱) وقت کا ضیاع: وقت سب سے قیمتی سرمایہ ہے اور وہ ان کھیلوں کی نحوست سے مہینوں کے حساب سے برباد اور ضائع ہوتا ہے۔
(۲) تعلیمی انحطاط : کھیلوں کے انعقاد وغیرہ مسائل عام طور پر یہود ونصاریٰ کے قبضہ میں ہیں وہ مشرقی اور بالخصوص برصغیر (ایشیا) میں ایسے وقت کا انتخاب کرتے ہیں جو عین امتحان یا امتحان کے قریب تر ہو، پس تمام نوجوان اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو چھوڑ کر تمام تر دلچسپی کھیل میں لیتے ہیں جس کا براہِ راست اثر تعلیم اور اس کے نتیجہ پر پڑنا بدیہی امر ہے۔
(۳) اقتصادی زبوں حالی : سال کے اکثر حصے میں کھیل کسی نہ کسی صورت میں ہوتے رہتے ہیں اور تجارت پیشہ افراد اسی طرح ملازمین ومزدور حضرات کھیلوں کے اس قدر دلدادہ ہوتے جارہے ہیں کہ اپنے کاروبار اور ملازمت وغیرہ پر پوری توجہ نہیں دے پاتے ، پس بزنس مین لوگوں کی تجارت ٹھپ ہوجاتی ہے اور ملازمین کی ملازمت خطرے میں پڑجاتی ہے؛ چنانچہ اقتصادی اور معاشی حالت مضبوط ومستحکم ہونے کے بجائے کمزور سے کمزور تر ہوجاتی ہے۔
(۴) ملک وملت کی پستی: موجودہ دور سائنس وٹکنالوجی اور نئی نئی ایجادات واختراعات کا ہے، مغرب اس سلسلہ میں بازی مارچکا ہے اور ایشیائی ممالک ذہنی اور دماغی اعتبار سے مغرب سے دوہاتھ آگے ہی ہیں؛ لیکن قوم کا کریم اور مَکھَّن نوجوان طبقہ ہوتا ہے، وہی قوم کو ثریا پر لے جاسکتا ہے اور وہی تَحْتُ الثَّریٰ میں بھی ڈھکیل سکتا ہے، جب نوجوانوں کو کھیل، کود اور لہوولعب میں مست کردیا تو اس سے ایجادات واختراعات کی توقع رکھنا فضول ہے؛ اسی لیے ایشیائی ملکوں میں اس نوع کی ترقیات صفر کے درجہ میں ہیں۔
(۵) مذہب بیزاری: عصر حاضر کا نوجوان دین ومذہب سے دور کا بھی تعلق رکھنے کے لیے تیار نہیں ہے، دینی گھرانوں میں پیدا ہونے والا نوجوان بھی ضروریاتِ دین سے مکمل واقف نہیں ہے کہ نہ غسل کے فرائض اور اس کا طریقہ معلوم ہے اور نہ غسل واجب کرنے والی چیزیں معلوم ہیں، اسی طرح نہ وضو اور نماز کے ضروری مسائل سے واقف ہے، نہ زکوٰة اور فریضہٴ حج کا علم ہے،اور جب علم ہی نہیں، تو عمل کا تو پوچھنا ہی کیا؟ اور جونوجوان بے دین گھرانوں میں پیدا ہوئے ہیں ان کا حال تو ایسا ہے کہ بس ان کا اللہ ہی حافظ ہے،کفریہ کلمات و اعمال تک کی پرواہ نہیں کرتے۔
(۶) عزم وحوصلہ کا فقدان: جب جدوجہد اور محنت ومشقت سے کبھی واسطہ نہیں پڑتا تو جسم میں طاقت وقوت مفلوج ہوجاتی ہے، پس جہد مسلسل یا عمل پیہم کی اگر کبھی نوبت آجاتی ہے تو نوجوان ہمت جُٹانے میں ناکام ثابت ہوتا ہے اور نتیجتاً راہِ فرار اختیار کرلیتا ہے۔
(۷) فکر وتدبر کی کمی: ذہن ودماغ خدا کی دی ہوئی ایسی بے بدل اور بے نظیر دولت ہے کہ جتنا استعمال کرو بڑھتی ہے اور اسی دولت عظمیٰ کے ذریعہ انسان تمام مخلوقاتِ خدا سے بہتر اور اعلیٰ واشرف کہلانے کا حقدار ہے، پھر اسی دماغ کو بروائے کار لاکر یہ مٹی کا پتلہ ہرشے سے اپنے نفع اور فائدہ کے اجزاء حاصل کرلیتا ہے اوراس کے ضرر رساں مادے سے اجتناب کرتا ہے؛ لیکن یہ دولت اگر استعمال نہ کی جائے تو صاحبِ دماغ اپنی ذہنی صلاحیت ولیاقت سے محروم ہوجاتا ہے، پھر وہ فکر وتدبر اور سوچنے یا احساس کرنے کے لائق بھی نہیں رہتا، عصرِ حاضر کا نوجوان اس کی زندہ مثال ہے۔
(۸) بے راہ روی: کھیل، کود اور لہوولعب کو جب اس درجہ ترقی ہوجائے کہ وہ معیوب کے بجائے ہنرمندی باور کیا جانے لگے تو اُس کا لازمی نتیجہ ہے کہ اس سے وابستہ افراد اور بالخصوص نوخیز بچے خود کو باکمال تصور کرکے اپنے مستقبل کے فیصلے خود کریں گے، اپنے بڑوں کو بے وقوف اور پاگل سمجھیں گے، ان کی نافرمانیوں پر اُترآئیں گے پھر انسانیت سے گرے ہوئے عادات واخلاق میں گرفتار ہوجائیں گے اور بے راہ روی اور اخلاقی پستی کی دلدل میں پھنس جائیں گے۔
(۹) مال ودولت کی بربادی: کھیلوں پر ایک طرف تو حکومتیں بارش کی طرح دولت برساتی ہیں اور دوسری طرف عوام بھی خطیر رقم صرف کرتے ہیں، غیرملکی اسفار کرنا اور ہوٹلوں میں قیام کرنا پھر خود کھیل گاہ کے داخلہ کا ٹکٹ یہ سب بڑی رقم کے صرفے ہیں اور بعض کھیل تو بہت ہی مہنگے ہوتے ہیں جو متوسط طبقہ کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں۔
(۱۰) فحاشی اور عریانیت: وہ کھیل جن میں صرف مرد کھیلتے ہیں ان میں بھی وقفہ وقفہ سے نیم برہنہ عورتوں کا میدان میں آنا جانا اور ناچنا وڈانس کرنا اب شروع ہوتا جارہا ہے، اسی طرح دیکھنے والوں میں مرد وعورت کا اختلاط ہوتا ہے؛ کیونکہ نشست گاہیں مشترک ہوتی ہیں اور جن کھیلوں میں عورتیں کھیلتی ہیں، ان میں تو عریانیت ناقابل بیان ہے اور رفتہ رفتہ تمام کھیلوں میں عورتوں کو گھسیٹا جارہا ہے اور عورتیں ناقصات العقل ہوتی ہی ہیں وہ خوشی خوشی آزادیٴ نسواں کا نعرہ لگاکر میدان میں کودجاتی ہیں اور مرد وحشی ان کے لیے جیسا بھی چاہیں، لباس مقرر کردیں، وہ بخوشی اسی کو قبول کرلیتی ہیں اور اپنے مستور بدن کی برملا نمائش کرتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔
راہنما خطوط اور چند مشورے:
(۱) بین الاقوامی قائدین اور ملک کے اربابِ حل وعقد اور لیڈر حضرات اس سلسلہ میں پیش قدمی کریں اور آگے آئیں کہ تمام غیرمفید، لایعنی اور مُضر کھیلوں کو رواج و ترقی دینے کے بجائے ان پر رکاوٹ اور پابندی عائد کریں، ایسے کھیلوں سے وابستہ افراد کی حوصلہ افزائی نہ ہو؛ بلکہ ملک وملت کے تابناک اور روشن مستقبل کو تاریک کرنے کی پاداش میں جواب دہ بنایا جائے اور کھیلوں سے متعلق تمام اکیڈمیوں اور تنظیموں کا مالی تعاون بند کرکے انکا رجسٹریشن رد کیا جائے تاکہ قوم کا سرمایہ اور ملک کا مستقبل (نوجوان طبقہ) تباہ وبرباد ہونے سے محفوظ ہوجائے۔
(۲) ملکی حکومتیں اور ریاستی سرکاریں اپنے زیرانتظام اور زیرنگرانی ایسے کھیل اور کود کو بڑھاوا دینے کی سعی کریں جو جسمانی صحت اور دماغی بالیدگی میں معاون ثابت ہوں مثلاً ہتھیار چلانا سیکھنا، ہتھیار بنانے کی تربیت دینا، گھوڑسواری کرنا، دورِ حاضر میں پائی جانے والی گاڑیاں چلانا سیکھنا، کشتیاں کرانا، کبڈی کھیلنا اور بھاگنا دوڑنا وغیرہ یہ تمام اور ان جیسے کھیلوں سے جسم میں طاقت وقوت پیدا ہوتی ہے اور ذہن ودماغ میں وسعت اور گشادگی آتی ہے، اسی لیے حدیث شریف اور قرآن کریم سے بھی اس طریقہ کے کھیلوں کی اجازت ہی معلوم نہیں ہوتی ؛ بلکہ خاص خاص موقعوں پر یہ امور باعثِ اجر وثواب ہوجاتے ہیں؛ البتہ ان کھیلوں پر بھی بے دریغ اور بے تحاشہ دولت لٹانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، کفایت شعاری کے ساتھ پیسہ صرف کیا جائے، کھلاڑیوں کے اعزازات وانعامات بھی محدود ہوں جو صرف حوصلہ افزائی ہی ہوں، ایسا نہ ہو کہ پیسے کی ریل پیل کو دیکھ کر نادان لوگ ان کھیلوں کو بھی مقصدِ حیات بنالیں۔
(۳) والدین اپنے نونہالوں کی مکمل نگہداشت رکھیں بالخصوص مسلمان والدین؛ کیوں کہ اس عمر میں اگر بچوں کو آزاد چھوڑدیا جائے تو وہ انجام سے بے خبر اور نتیجہ کی پرواہ کیے بغیر اپنی منزل طے کرلیتے ہیں، اس لیے والدین کو چاہیے کہ ایسا وقت آنے سے پہلے ہی ان کی نگرانی کریں اور بُرے معاشرے اور غلط سوسائٹی کی بھینٹ چڑھنے سے قبل ہی اپنے جگرگوشوں کی بودوباش، نشست وبرخاست اور خلوت وجلوت پر نظر رکھیں۔ آپ کا نورِ نظر کہاں جاتا ہے؟ کیا کرتا ہے؟ کس کے ساتھ رہتا ہے؟ اور کس کے پاس آمد ورفت رکھتا ہے؟ ان تمام امور پرنظر رکھنے کا اہتمام ضرور کریں؛ کیوں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ادب سکھلانے کی فضیلت بیان فرمائی ہے، ارشاد نبوی ہے:
ما نحل والدٌ ولدًا أفضلَ من أدبٍ حسنٍ (ترمذی شریف رقم الحدیث ۱۹۵۲)
کوئی باپ اپنی اولاد کو اچھے ادب سے افضل اور بہتر تحفہ نہیں دے سکتا۔
(۴) بچوں کے شعور کی حد کو پہنچنے سے قبل ہی اُن کی دماغی اور ذہنی تربیت شروع ہوجانی چاہیے، جس طرح ان کی خورد ونوش کی اشیاء اور چیزوں میں اس بات کا خیال رکھا جاتاہے کہ ایسی چیزیں ہی کھلائی، پلائی جائیں جو دماغی بالیدگی اور ذہنی افتادگی میں معاون ثابت ہوں اور ایسی اشیاء سے اجنتاب برتا جاتا ہے جو ذہن ودماغ اور صحت جسمانی کے لیے مُضر اور نقصان دہ ہوں، اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ ضروری امر یہ ہے کہ ان کو کھیل وغیرہ میں ایسے کھیلوں کا عادی بنایا جائے جو جسم انسانی کے کسی بھی حصے اور جزء کو نقصان دینے کے بجائے ذہنی وسعت اور دماغی ترقی کے لیے مفید ہوں۔
(۵) عقل وشعور کی حد شروع ہوتے ہی بچوں کے دلوں کی سادہ اور صاف تختی پر دنیا کی بے فائدہ اور نقصان دہ باتوں کے ثبت ہونے سے پیشتر والدین اور مُرَبّی حضرات اللہ اور رسول اللہ، ایمان واسلام، دین ومذہب اور عقائد و اعمال سے متعلق ابتدائی باتوں سے ان کے قلوب کو مُوَحِّد اور مسلمان بنادیں، مثلاً اللہ ایک ہے، وہی عبادت کے لائق ہے، ہمیں اور پوری دنیا کو اسی نے پیدا کیا، وہی نفع ونقصان کا مالک ہے، وہی زندگی دیتا ہے، وہی مارتا ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول اور نبی ہیں، محمد اوراحمد دونوں اُن کے نام ہیں، آپ سب سے آخری نبی ہیں، آپ کے والد کا نام عبداللہ، ماں کا نام آمنہ ہے، دودھ پلانے والی والدہ کا نام حلیمہ سعدیہ ہے، دادا، چچا، پھوپیاں، بیٹیاں، بیٹے، بیویاں فلاں فلاں ہیں، عمر مبارک یہ ہوئی، کہاں پیدا ہوئے؟ مدفون کونسے شہر میں ہیں؟ اسلام کیسے پھیلا؟ اسلام کے چھ کلمے، ایمانِ مفصل، ایمانِ مجمل، نماز اور اس کا طریقہ، وضو کے فرائض اور اس کا طریقہ، غسل کے فرائض اور اس کا طریقہ، حج، روزہ اور زکوٰة سے تعلق رکھنے والی عام فہم باتیں بار بار بتائی جائیں۔ اسی طرح وہ مسنون دعائیں جو ہر وقت کام آتی رہتی ہیں، جیسے کھانے سے پہلے اور بعد کی دعا، ہر کام کے شروع کرنے کی دعا، مسجد میں داخل ہونے اور نکلنے کی دعاء، سونے سے پہلے اوراٹھنے کے بعد کی دعاء، بیت الخلاء میں جانے اور باہر نکلنے کی دعاء وغیرہ بھی ضرور یاد کرانی چاہئیں۔
(۶) اولاد کو پڑھانے، لکھانے کا شوق سبھی والدین کو ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے؛ لیکن مسلمان ہونے کی وجہ سے کچھ تقاضے بھی ہوتے ہیں جن کی رعایت کرنا اسلامی فریضہ ہے: (۱) یہ ہے کہ اگر آپ اپنی اولاد کو دینی علوم کے علاوہ دنیاوی اور عصری علوم میں ڈگریاں دلانا چاہتے ہیں تو دین ومذہب آپ کو روکتا نہیں، بس اتنا تقاضا رکھتا ہے کہ آپ بچوں کو ایسے ادارے میں داخل کریں، جس میں اسلام اور شریعت محمدیہ کے خلاف مضامین شاملِ درس اور داخلِ نصاب نہ ہوں، اسی طرح اس ادارے میں کوئی عمل ایسا ضروری نہ ہو جو اسلامی روح اور دینی مزاج کے منافی ہو (۲) اگر آپ اپنے بچوں کو حافظِ قرآن اور عالم دین نہ بھی بناسکیں تو اتنا ضرور کرلیں کہ آپ کے بچے قرآن کریم صحیح ادائیگی کے ساتھ دیکھ کر پڑھ لیں اور سوہ یٰسین، سورہ واقعہ، سورہ ملک، سورہ کہف اور آخری پارہ حفظ کرلیں۔
(۷) بچے اور بچیاں جب سات سال کے ہوجائیں تو نماز، روزہ کی عادت ڈالنے کے لیے نماز پڑھنے کا حکم کیا جائے اور بچوں کو باپ ساتھ لے کر مسجد جائے اور بچیوں کو ماں اپنے ساتھ گھر کی چہاردیواری میں نماز پڑھائے اور رمضان شریف آئے تو روزہ رکھوایا جائے، دس سال کی عمر میں نماز، روزہ میں کوتاہی کرنے پر تنبیہ کی جائے اور ہلکی پھلکی پٹائی بھی کی جائے؛ تاکہ تادیب ہوجائے اور آئندہ ایسی جسارت نہ کریں۔
(۸) بچوں کے کھیل، کود، سیر و تفریح، رہنے سہنے میں والدین اس بات پر ضرور توجہ رکھیں کہ دس سال عمر ہونے کے بعد بچوں اور بچیوں کو مخلوط نہ رہنے دیں، کھیل ہوتو بھی بچے اور لڑکے علیحدہ کھیل کھیلیں اور بچیاں بالکل الگ اپنا کھیل اختیار کریں، سیر وتفریح میں دونوں جنس ساتھ نہ ہوں حتی کہ حصولِ تعلیم وتربیت کے لیے بھی درسگاہ اور کلاس میں اختلاط نہ ہو؛ کیوں کہ حضور علیہ الصلوٰة والسلام نے دس سال کی عمر میں لڑکے اور لڑکیوں کے بستر علیحدہ کرنے کا حکم فرمایا ہے، اسی حدیث نبوی سے علماء کرام نے یہ مسئلہ بیان فرمایا کہ تعلیمی اداروں میں دس سال سے پہلے پہلے بچے اور بچیاں مخلوط پڑھ سکتے ہیں؛ لیکن اس کے بعد نہیں پھر خطرات شروع ہوجاتے ہیں پس والدین اس اسلامی ضابطہ پر عمل کریں کہ اسلام ایسا صاف، ستھرا دین ہے جو بے راہ روی سے بچاتا ہی نہیں ؛ بلکہ بے راہ روی کے راستے ہی بند کردیتا ہے۔
(۹) والدین اگر یہ خواہش اور تمنا رکھتے ہوں کہ ہماری اولاد کسی لائق بنیں اور ہر میدان میں بازی ماریں، دین ودنیا دونوں اعتبار سے فائق ہوں اور اُن کا مستقبل روشن وتابناک ہوتو والدین کے لیے ضروری ہے کہ اپنے گھر کا ماحول مہذب وشائستہ بنائیں اور ماحول ومعاشرے کی تہذیب وشائستگی کے لیے چند چیزوں سے گھر کو صاف کرنا اور ان کی آلائشوں اور گندگیوں سے گھر کو دھونا ہوگا، جیسے ٹی وی، وی سی آر، سی ڈی، ڈی سی، ڈی جے، ریڈیو، ٹیپ وغیرہ جب تک گھر کے کسی بھی گوشے اور کنارے میں یہ وبائیں موجود ہوں گی، اُس گھر میں سُدھار ناممکن ہے، اسی طرح موبائل، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے دائرے بھی محدود کرنے ہوں گے۔ ان تینوں کے استعمال میں والدین خود بھی محتاط رہیں، یعنی بے جا اور بے ضرورت بالکل استعمال نہ کریں، اسی طرح اپنے نونہالوں کو ان سے حتی الوسع دور رکھیں، بقدرِ ضرورت سکھانے میں اور استفادہ کی حد تک استعمال کرنے میں مضائقہ نہیں؛ لیکن فوائد اور ثمرات کے کھول اور لباس میں بے شمار نقصانات مضمر اور پوشیدہ ہیں، اُن سے بچانا ضروری ہے۔ نیز بچوں کی تربیت میں اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ ہمارا نوجوان بچہ غیرمحرم عورتوں بالخصوص نوعمر بچیوں سے دور رہے، کسی صورت بھی عورتوں اور لڑکیوں سے قربت پیدا نہ ہو، نہ وہ دوسروں کے گھر آمد ورفت رکھے اور نہ دوسرے گھروں کی لڑکیاں آپ کے گھر آمد ورفت پیداکریں اور نہ گھر کے باہر لڑکیوں سے اس کا کوئی تعلق اور راہ ورسم پیداہو، اسی طرح اپنی بچی پر سخت نظر اور توجہ رکھنے کی ضرورت ہے؛ کیونکہ اس وقت کی لاپرواہی اور بے توجہی والدین کو خون کے آنسو رُلادیتی ہے، پھر بعد میں والدین چار وناچار جوان العمر بچوں اور بچیوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے پرمجبور ہوجاتے ہیں۔
(۱۰) نوجوان بچوں کو دینی ماحول اور اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ اور قریب تر کرنے کی حد درجہ جدوجہد اور مفید سعی کرنی چاہیے کہ سیرتِ نبوی، اسلامی تاریخ، صحابہ کے واقعات، بزرگانِ دین کے قصے اور مفید وناصحانہ ملفوظات وغیرہ کی کتابیں خود بھی گھر میں گاہ بگاہ پڑھتے رہنا چاہیے اور بچوں کو تاکید کے ساتھ کہہ کر پڑھوائیں اور جوان ہونے کے بعد ان کی شادی میں تاخیر نہ کریں؛ کیونکہ شادی میں تاخیر بھی جوان لڑکوں اور لڑکیوں میں غلط راستہ اختیار کرنے میں تحریک پیدا کرتی ہے اور اس کا گناہ اور وبال باپ پر ہوتا ہے؛ کیوں کہ حدیث نبوی ہے:
من وُلِدَ وَلَدٌ فَلْیُحْسِنْ اسمَہ وأدبَہ فاذا بَلَغَ فَلْیُزَوِّجْہ فَانْ بَلَغَ وَلَمْ یُزَوِّجْہ فأصاب اثماً فانَّما اثمُہ علی أبیہ (شعب الایمان للبیہقی)
(حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کے یہاں کوئی بچہ پیدا ہوتو وہ اس کا اچھا سا نام رکھے، اس کی اچھی تربیت کرے اور جب بالغ ہوجائے تو اس کی شادی کردے، پس اگر بالغ ہونے کے بعد اس نے اس کی شادی نہیں کی اور وہ کسی گناہ میں مبتلا ہوگیا تو اس کا گناہ اس کے باپ پر ہوگا)
***
———————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 6 ، جلد: 96 ، رجب 1433 ہجری مطابق جون 2012ء