لکھنوٴ میں امامِ حرم کی آمد اور مسافر امام کے پیچھے مقیم مقتدیوں کی چار رکعت والی فرض نمازیں

از:            مولانا عبدالعلی فاروقی

                یکم مئی ۲۰۱۲ء کی سہ پہر سے ۶/مئی ۲۰۱۲ء کی شب تک ۶/دن لکھنوٴ والوں کو موسم بہار کی حیثیت سے بہت دن تک یاد رہیں گے؛ کیوں کہ ان دنوں میں امام الحرمین شیخ خالد بن علی غامدی شہر لکھنوٴ کے مہمان کی حیثیت سے رہے، اور لکھنوٴ کے مسلمانوں کو ان کی اقتدا میں نمازیں ادا کرنے کے خوب خوب مواقع ملے۔ پہلے دن تو اپنی قیام گاہ ”ہوٹل تاج“ ہی کے گراوٴنڈ میں بہت مخصوص لوگوں کو صر ف ایک نماز عشاء ہی امام صاحب نے اپنی اقتدا میں ادا کرائی؛ لیکن ۲/مئی سے ۶/مئی تک ہر دن متعدد و مختلف عوامی مقامات میں خوش نصیب مسلمانوں کو کئی کئی نمازیں امام حرم مکی و مدنی کے پیچھے پڑھنے کے مواقع ملے، اور خوش بخت مسلمانوں نے بھی اپنی اپنی سہولت و گنجائش کے لحاظ سے بنٹتی اور لٹتی ہوئی اس نعمت کو حاصل کرنے میں یہ سوچ کر کوتاہی روا نہیں رکھی کہ نماز باجماعت جیسی عبادت، اور وہ بھی امام حرم بلکہ امام حرمین و امام مسجد خیف و مسجد قبا کی اقتدا میں ادا کرلینا ہر ایک کی قسمت میں کہاں؟ ع

ہر پھول کی قسمت میں کہاں نازِ عروساں

                لکھنوٴ کے مسلمان یقینا اس اعتبار سے ”مقدر کے سکندر“ کہلائے جانے کے حق دار ہیں کہ انھیں اتنی مرتبہ حرمین شریفین (زادھما اللہ مجدا و شرفاً) کے باوقار و باکمال اماموں کی اقتدا میں نمازیں ادا کرنے کے مواقع ملے کہ ملک کے کسی دوسرے شہر کے مسلمانوں کو شاید ہی اتنے مواقع مل سکے ہوں؟ اور ہم کیو ں کر فراموش کردیں اس موقع پر اپنے محسن، اور عالم اسلام کی ہر دل عزیز شخصیت حضرت مولانا علی میاں صاحب نوراللہ مرقدہ کو جن کی دعوت پر پچھلے چار مواقع پر ائمہ کرام تشریف لائے اور لکھنوٴ و اطراف لکھنوٴ کے خوش نصیب مسلمانوں کو ان کی اقتدا میں نمازیں ادا کرنے کی توفیق ملی۔ وذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء اور اب یہ پانچواں موقع (یکم تا ۶/مئی ۲۰۱۲ء) بھی حضرت مولانا علی میاں صاحب کے جانشین حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ کے طفیل ہی لکھنوٴ والوں کے ہاتھ آیا کہ ان ہی کی خصوصی دعوت پر امام صاحب لکھنوٴ تشریف لائے اور لکھنوٴ والوں کو اپنی زیارت و فیوض سے شادکام کیا۔

                امام حرم مدت فیوضھم کا حالیہ دورہ اس اعتبار سے خصوصی اہمیت کا حامل رہا کہ کسی ایک شہر میں امام حرم جیسی مقتدر شخصیت کا پہلی مرتبہ اتنا طویل قیام رہا، اور بفضلہ تعالیٰ مسلمانان لکھنوٴ نے ان سے استفادہ کرنے میں بھی کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اس مدت میں امام صاحب نے متعدد اداروں اور تنظیموں کی طرف سے منعقد ہونے والے پروگراموں میں شرکت فرمائی اور کہیں مختصر تو کہیں مفصل عالمانہ و سحرانگیز خطابات سے لاکھوں سامعین کو مستفید فرمایا۔ امام محترم نے اپنے ان خطابات میں مجموعی طور پر تین نکات پر زور دیا۔

                (۱) اسلام نام ہی سلامتی میں داخل ہونے اور اسے قبول کرلینے کا ہے، لہٰذا حقیقی مسلمان وہی ہوسکتا ہے جو اپنے ملک، اپنے معاشرہ، اور اپنے سے وابستہ تمام افراد کے لیے امن و سلامتی کا پیغام براور اس کی عملی تصویر بن کر رہے۔

                (۲) اسلام کو حقیقی طور پر قبول کرلینے والوں کے لیے الگ سے کسی ”دعوت اتحاد“ کی کوئی ضرورت نہیں ہے، نہ ہی ہمارے روشن اور تابناک ماضی میں اس کی کبھی ضرورت محسوس کی گئی؛کیوں کہ اسلامی کلمہ کے حقوق اور اس کے تمام تقاضوں کو ملحوظ رکھنے والے خود ہی ایک ڈور میں باہم منسلک ہوجاتے ہیں۔ اور دوسروں کے جان و مال اور عزت و وقار کا لحاظ، اور اس کی خاطر ہر قسم کے ایثار اور ہر طرح کی قربانی دینے کا جذبہ ان میں اس طرح سرایت کرجاتا ہے کہ وہ فاصبحتم بنعمتہ اخواناً کی تفسیر بن جاتے ہیں۔

                (۳) پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین اور ان کی دعوت سے کوئی حقیقی اور سچا رشتہ صحابہٴ کرام، تابعین  و تبع تابعین ، ائمہٴ کرام خصوصاً ائمہ اربعہ حضرت امام ابوحنیفہ حضرت امام مالک حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل ، اور پھر اسی طرح محدثین عظام اور فقہاء کرام سے تعلق جوڑے اور ان کے احسانات کو تسلیم کیے بغیر قائم نہیں ہوسکتا ہے۔ آج سارے عالم میں مسلمان اختلاف و انتشار اور اختلال و افتراق کے اسی لیے شکار ہیں کہ انہوں نے اپنے اسلاف کرام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے و لائق اعتماد و ارثوں سے اپنا ناتہ توڑ لیا ہے۔

                امام حرم شیخ الغامدی نے اپنے خطابات و مذاکرات میں علمائے ہند خصوصاً خانوادہٴ ولی اللہی، علمائے فرنگی محل، علمائے دیوبند، اور علمائے ندوہ کی دینی خدمات، اور ان میں بھی خاص طور پر ناموں کی صراحت کے ساتھ حضرت مولانا عبدالحی فرنگی محلی، حضرت مولانا انور شاہ کشمیری، اور حضرت مولانا ابوالحسن علی حسنی ندوی کی دینی و دعوتی خدمات کا بھرپور انداز میں اعتراف کرتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں کو اپنے ان اسلاف کے نقوش قدم پر گامزن ہونے کی تلقین فرمائی۔

                ظاہر ہے کہ امام حرم کے یہ تمام خطابات و فرمودات ان کی اپنی مادری زبان عربی ہی میں ہوئے، جن کا خلاصہ مختلف علمائے کرام نے ہماری مادری زبان اردو میں اپنے اپنے انداز سے پیش تو کردیا؛ لیکن بہرحال نہ وہ امام حرم کی زبان تھی اور نہ اس میں امام صاحب والا جذب اندروں اور جوش و جذبہ تھا؛ اس لیے مناسب ہوگا کہ امام صاحب کے ان تمام خطبوں کو ان کے اصل متن، اور کم از کم اردو و ہندی ترجمہ کے ساتھ شائع کیا جائے؛ تاکہ وسیع پیمانہ پر ان سے استفادہ کی راہیں کھل سکیں۔

                اس میں کوئی شک نہیں کہ لکھنوٴ والوں، خصوصاً لکھنوٴ کے مسلمانوں کے لیے یہ چھ دن ایک عجیب قسم کے جوش و ولولہ سے بھرپور رہے۔ امام حرم کے استقبال، ان کی زیارت، ان سے مصافحہ، ان کی اقتدا میں نمازیں ادا کرنے، اور ان کے بیانات میں شریک ہونے کے سلسلہ میں لکھنوٴ و اطراف لکھنوٴ کے عام مسلمانوں نے جس جوش و خروش اور جس عقیدت و محبت کا اظہار کیا، اس سے خود امام صاحب بھی بے حد متاثر ہوئے۔ اور ان کو کئی بار اس کا اعتراف کرنا پڑا کہ  ع

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

                جمعہ ۴/مئی کو امام حرم کی اقتدا میں دارالعلوم ندوة العلماء کی مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کا تو اس قدر اہتمام کیا گیا کہ شب جمعہ ہی سے ہزاروں کی تعداد میں شہر و بیرون شہر کے مسلمانوں نے ندوہ اور اس کے جوار میں پڑاوٴ ڈال دیا، اور پھر نماز فجر کے بعد سے نماز جمعہ تک انسانوں کا وہ سیلاب نظر آیا کہ جیسے لکھنوٴ کی ہر سڑک ندوہ ہی پر جاکر ختم ہورہی ہو؟ محتاط اندازہ کے مطابق کم و بیش پانچ لاکھ مسلمانوں نے امام حرم شیخ غامدی کی اقتدا میں نماز ادا کی اورظاہر ہے کہ اس میں بڑی تعداد ان ہی لوگوں کی تھی جنہوں نے خوشی خوشی دھوپ کی تمازت بھی برداشت کی۔ چاہت اور کوشش کے باوجود وہ اپنے امام کی ایک جھلک بھی نہ پاسکے، پھر بھی وہ یہ سوچ کر شاداں و فرحاں تھے کہ انہوں نے امام حرم کی اقتدا میں نماز ادا کرلی۔ حرم، ارضِ حرم، اور مسجد الحرام اور اس کے امام سے یہ عقیدت و محبت، اور جذباتی لگاوٴ، مسلمانوں کا بیش قیمت سرمایہ ہے، اور یہ وابستگی انشاء اللہ اجر سے خالی نہیں رہ سکتی ہے۔

                ان تمام پایابیوں کے دوش بدوش ایک بہت ہی اہم، اور بھرپور توجہ حاصل کرنے والا خالص دینی مسئلہ یہ ہے کہ ان چھ دنوں کے دوران جہاں جہاں جن جن حنفی مسلک کے پابند مسلمانوں نے (جن کی تعداد یقینی طور پر لکھنوٴ میں کم از کم ۹۵ فیصد رہی) امام صاحب کی اقتدا میں چار رکعت والی نمازیں (ظہر، عصر اور عشاء) فرض نماز کی نیت سے ادا کیں، کیا ان کی وہ نمازیں ہوگئیں؟ اور ان کے ذمہ سے فریضہ ساقط ہوگیا؟ اور وہ گناہ گار نہیں ہوئے؟

                یہ سوال راقم الحروف نہیں اٹھا رہا ہے، بلکہ یہ سوال اہل علم، خصوصاً علمائے دین کے چرچا میں ہے اور صرف راقم الحروف سے کم از کم دس ذی فہم و باشعور مسلمان یہ سوال کرچکے ہیں، جس کا اب تک راقم الحروف کوئی ایسا واضح اور تسلی بخش جواب نہیں دے سکا ہے جس سے ”دینی ضمیر“ بھی سلامت رہے، اور ”پگڑیوں“ پر بھی کوئی آنچ نہ آئے؟

                اس سوال کی جواب دہی کی سوفی صد ذمہ داری علمائے دین، خصوصاً ان علماء کی ہے جنہوں نے امام صاحب کی اقتدا میں ان (چار رکعت والی) نمازوں کی ادائیگی کا انتطام بھی کیا اور تشہیر و تحریض کے ذریعہ کثیر سے کثیر تر تعداد میں حنفی مسلمانوں کو امام صاحب کی اقتدا میں ان نمازوں کی ادائیگی پر آمادہ بھی کیا؟ کیوں کہ مسلم عوام کو عموماً یہ تفصیل نہیں معلوم ہوتی کہ مسافر کے لیے نمازوں میں قصر عزیمت ہے یا رخصت؟ اور قصر کرنے یا نہ کرنے میں اختیار ہے یا وجوب؟ اور پھر اس سلسلہ میں فقہاء کے مسالک کیا ہیں؟

                جہاں تک مسئلہ کی بات ہے تو فقہ حنفی کی مشہور، معتبر و متداول کتاب ہدایہ میں مسافر کی نماز کا یہ حکم بیان کیا گیا ہے:

                و فرض المسافرفی الرباعیة رکعتان لا یزید علیھما و قال الشافعی فرضہ الأربع و القصر رخصة اعتباراً بالصوم و لنا أن الشفع الثانی لا یقضی و لا یأثم علی ترکہ و ھذا اٰیة النافلة بخلاف الصوم لانہ یقضی․ و ان صلی أربعاً و قعدفی الثانیة قدر التشھد أجزأتہ الأولیان عن الفرض و الأخریان لہ نافلة․ اعتباراً بالفجر و یصیر مسیئاً لتاخیر السلام․ (ہدایہ، ج۱، کتاب الصلوٰة، ص۱۷۴)

                مسافر پر چار رکعت والی نمازوں میں دو رکعت ہی فرض ہیں، اس سے زیادہ نہیں پڑھے گا، اور امام شافعی نے فرمایا (اور یہی امام مالک، اور ایک روایت کے مطابق امام احمد کا بھی مسلک ہے) کہ مسافر کے لیے بھی فرض تو چار ہی رکعت ہیں، (یعنی عزیمت اس کے لیے بھی چار رکعت ہی میں ہے) اور قصر (چار کے بجائے دو رکعت) رخصت ہے۔ جیسا کہ روزہ کے معاملہ میں ہے (کہ مسافر رمضان میں نہ رکھ کر بعد میں اس کی قضا کرسکتا ہے) اور ہماری دلیل یہ ہے کہ مسافر شفع ثانی (دوسری دو رکعت) کی قضانہیں کرتا نہ ہی ایسا کرنے سے وہ گنہگار ہوتا ہے، یہ اس بات کی نشانی ہے کہ اس کے حق میں شفع ثانی کی حیثیت نفل کی ہے، بہ خلاف روزہ رمضان کے کہ اس کی (رمضان کے بعد) قضا کی جاتی ہے۔

                اور اگر (مسافر نے) چار رکعت ہی پڑھ لی اور دوسری رکعت کے قعدہ میں وہ تشہد پڑھنے کی مقدار بیٹھا ہے تب تو اس کی پہلی دو رکعتیں فرض میں شمار ہوجائیں گی اور آخر کی دو رکعتیں نفل ہوجائیں گی، فجر کی نماز کی طرح (کہ یہ اسی طرح بجائے دو کہ چار پڑھ لینے پر ادا ہوجاتی ہے) البتہ اس صورت میں (یعنی دو کے بجائے چار رکعت پڑھنے میں) مسافر گنہگار ہوگا؛ کیوں کہ اس نے سلام پھیر کر نماز ختم کرنے میں تاخیر کی ہوگی۔

                مسافر کی نماز میں قصر (دو رکعت) یا اتمام (چار رکعت) کے تعلق سے یہ ایک حوالہ محض اس لیے دیا گیا کہ بات گھماپھر اکر اور گول مول انداز میں نہ کی جاسکے، اور اس حکم کی پوری طرح وضاحت ہوجائے کہ حنفی مسلک کے مطابق مسافر کے لیے چار رکعت والی نمازوں میں قصر کرنا(یعنی دو رکعت پڑھنا) ضروری ہے اور اسے دو کے بجائے چار رکعت پڑھنے کی اجازت نہیں ہے؛ بلکہ وہ اگر حکم عدولی کرکے دو کے بجائے چار رکعت پڑھے گا تو گنہگار ہوگا؛ کیوں کہ اس کے حق میں دو رکعت ہی فرض ہیں؛ اسی لیے اگر چار پڑھ بھی لے تو فرض پہلی دو کعت ہی شمار ہوں گی اور بعد والی دو رکعتیں نفل ہوں گی۔

                یہ تو ہوا خود مسافر کے منفرد ہونے کی صورت میں اس کی اپنی چار رکعت والی نمازوں کے حکم کا بیان کہ اگر وہ دو کے بجائے چار رکعت پڑھے گا تو گنہگار بھی ہوگا، اور بعد والی دو رکعتیں بھی فرض نہ ہوکر نفل شمار ہوں گی؛ کیوں کہ اس کے اوپر مسافر ہونے کی وجہ سے چار کے بجائے دو رکعت ہی فرض تھی اب اگر یہی مسافر امام ہوکر دو کے بجائے چار رکعت پڑھائے اور اس کی اقتدا میں وہ لوگ نماز پڑھیں جن پر چار رکعت ہی فرض ہیں تو ان کی نماز کیوں کر درست ہوگی؟ کیوں کہ ان کے امام نے چار رکعت تو پڑھائی ہیں؛ مگر ان میں سے پہلی دو رکعتیں ہی فرض ہیں اور بعد والی دو رکعتیں نفل ہیں جب کہ مقتدی کو چاروں رکعت فرض ہی ادا کرنا ہے؟

                اس جگہ فقہاء کے اقوال، ان کے دلائل، اور پھر ان میں راجح و مرجوح کی بحث نہیں کرنا ہے، نہ ہی ان حنبلی مسلک کے پیروامام صاحب کے چار رکعت نماز پڑھانے پر کوئی اعتراض جتانا ہے جن کے امام (احمد بن حنبل) کی ایک روایت کے مطابق مسافر کے لیے چار رکعت والی فرض نماز میں چار رکعت اد اکرلینے کی اجازت ہے۔ سارا معاملہ تو ان حنفی مسلک کے پیرو ہزارہا ہزار مقتدیوں کی نمازوں کا ہے، جنہوں نے اپنے علماء پر اعتماد کرتے ہوئے بڑی عقیدت و احترام کے ساتھ امام حرم کی اقتداء میں چار رکعت فرض پڑھ کر یہ اطمینان کرلیا کہ ہماری چار رکعت کا یہ فریضہ نہ صرف یہ کہ ادا ہوگیا؛ بلکہ امام حرم کی اقتدا میں ادا کرنے کی وجہ سے کچھ اجرو ثواب زائد ہی ملے گا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ا ن کی یہ نماز ہی خطرہ میں پڑگئی، اورنفل ادا کرنے والے کی امامت میں فرض ادا کرنے والے کی نماز ہی درست نہیں ہوئی اور حنفی مسلک کے متبع ایسے تمام ہزارہار ہزار مقتدیوں کو اپنی فرض نمازیں پھر سے ادا کرنا چاہیے؛ کیوں کہ امام صاحب کی اقتدا میں ادا کی گئی چار رکعتیں ان کے لیے نفل تو ہوسکتی ہیں؛ لیکن اس سے ان کا ظہر، عصر، یا عشاء کا فریضہ ساقط نہیں ہوا ہے۔

                یہ ایک ایسا دینی و شرعی مسئلہ ہے جس کا براہِ راست تعلق نماز جیسی اہم اسلامی عبادت سے ہے، اور جس کے سلسلے میں کسی بھی چھوٹے بڑے، مشہور یا غیرمشہور عالم کو اپنی انفرادی رائے ظاہر کرنے کا حق نہیں ہے۔

                ہم اپنے حسنِ ظن کی بنیاد پر یقین کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ خود دارالعلوم ندوة العلماء کے مفتی صاحب، اور وہاں کے دیگر فقہاء و معتبر علماء سے استفتا کیا جائے تو وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ چار رکعت پڑھانے والے مسافر امام کی اقتدا میں نماز پڑھنے والے مقیم مقتدیوں کی فرض نماز ادا نہیں ہوئی اور ان کا فریضہ ان کے ذمہ سے ساقط نہیں ہوا یہی وجہ ہے کہ بعض محتاط اور مسئلہ سے واقفیت رکھنے والے حضرات نے یا تو امام صاحب کی اقتدا میں پڑھنے والی ان چار رکعت کے لیے شروع ہی سے فرض کے بجائے نفل کی نیت کی، یا پھر اپنی فرض رکعتیں پھر سے دوہرالیں لیکن ظاہر ہے کہ ایسا کرنے والوں کی تعداد بہت کم اور آٹے میں نمک کے برابر ہوگی تو پھر بقیہ ہزارہا ہزار لوگوں کی فرض نمازوں کا کیا ہوگا؟

                کیا اس اہم مسئلہ کا حل تلفیق (اس اصطلاح سے علماء بہ خوبی واقف ہیں) ہے؟ یا کسی ایک دو غیرذمہ دار و غیرمحتاط لوگوں کا یہ کہہ دینا کہ ”سب کی نماز ہوگئی“ کافی ہوگا؟ کیا دینی اور خالص دینی مسائل میں اپنی رائے اور نفسانی خواہشوں کے مطابق بات کرنے کو ”بے جا جسارت اور مداخلت فی الدین“ کے سوا کسی دوسرے عنوان سے یاد کیا جاسکتا ہے؟ کیا دین کو بازیچہٴ اطفال بنتے دیکھ کر بھی علمائے حق کا خاموش رہنا مناسب ہے؟

                مسئلہ کسی مسلک کو کسی دوسرے پر تھوپنے کا نہیں ہے؛ بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ جس مسلک کا جو متبع ہے اسے کیا اپنی خواہش، اپنی مصلحت، یا اپنے منافع و سہولت کے مطابق اپنے امام اور اپنے مسلک کے خلاف کرنے کی بھی اجازت دے دی جائے گی؟ اور وہ بھی ”کار ثواب“ اور عبادت سمجھ کر؟

                اللہ ہی بہتر جاننے والا ہے کہ حرم کے امام محترم کے ہمارے ملک میں پہلی مرتبہ اتنے طویل قیام، اور پھر اس قیام کے دوران ان سے ہر جگہ نمازیں پڑھوانے کی مصلحت کیا تھی؟ اور بلا کسی عذر شرعی و منفعت دینی کے ہزارہاہزار حنفی مسلک کے متبع مسلمانوں کی ظہر، عصر یا عشاء کی فرض نمازیں غیراصولی و غیرشرعی طریقہ پر ادا کرانے کی ذمہ داری کن لوگوں پر ہوگی؟

                امام صاحب کی تمام تر سہولیات اور ان کے وقار و اعزاز کو ملحوظ رکھ کر بھی یہ ہوسکتا تھا کہ ان سے صرف مغرب کی نماز کی امامت کرائی جاتی، اور ان کے چھ روزہ قیام کے دوران وہ چھ الگ الگ مقامات پر صرف مغرب کی نمازیں پڑھاتے تو ان کی اقتدا میں نمازیں ادا کرنے والوں کے لیے کسی قسم کا خلجان بھی نہ رہتا؛ لیکن اب جب کہ ایسا نہیں ہوا ،بلکہ امام صاحب سے ایک ایک مقام پر کئی کئی نمازیں پڑھوائی جاچکیں تو سوال یہ ہے کہ ”علماء“ کی ذمہ داری پر جن حنفی مسلمانوں کی فرض نمازیں واجب الاعادہ ہیں، انھیں ”یہ علماء“ اپنے تساہل و ”تجاہلِ عارفانہ“ کی اطلاع کیوں کر دیں گے؟ اور اتنی بڑی تعداد میں مسلمانوں کی فرض نمازوں کی درستگی کا کیا انتظام کریں گے؟

اللہ بس——— باقی ہوس

——————————————

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 6 ‏، جلد: 96 ‏، رجب 1433 ہجری مطابق جون 2012ء

Related Posts