از: ڈاکٹرمحمد اجمل فاروقی ۱۵- گاندھی روڈ، دہرہ دون
دہلی کے اردو روزناموں میں مورخہ ۲/۴/۲۰۱۱/ کی اشاعت میں انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر I.I.C.Cکی پریس ریلیز شائع ہوئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ مورخہ ۱/۴/۲۰۱۱/ کو بھارت میں امریکی سفیر ٹموتھی رومر اور ان کی مددگار محترمہ عذرا ضیاء نے سنٹر کا دورہ کرکے سنٹر میں جاری سکل ڈیولپمنٹ کورس Skill Devlopment course کی کلاس کے طلباء سے ملاقات کی اور طلباء وکلچرل سنٹر کے چیئرمین محترم سراج الدین قریشی صاحب کی تعریف کی وغیرہ۔ خبر پڑھتے ہی مورخہ ۱۹/۳/۲۰۱۱/ کے انگریزی اخبار ”دی ہندو“ The Hindu میں شائع شدہ وکی لیکس کے انکشافات کی سیریز کا مراسلہ (۸۲/۳/۲۰۰۸/) ذہن میں گھوم گیا، جس میں امریکی سفیر ڈیوڈ ملفورڈ نے اپنی حکومت کو مطلع کیا تھا کہ اسرائیل نے ہندوستان میں بڑے پیمانے پر عوامی رابطہ کی مہم شروع کی ہے جس میں اس نے عوام کے مختلف طبقات کے ساتھ مذاکرات اور ملاقات کا سلسلہ رکھا، اس کے نتیجہ میں ہندوستانی عوام کی بڑی تعداد مسلمانوں سے نبٹنے کے معاملہ میں اسرائیل کو ماڈل مانتی ہے اور حکومت ہند کو مشورہ دیتی ہے کہ وہ اسرائیل کے طرز پر مسلمانوں سے معاملہ کرے۔ امریکی سفیر نے اپنی حکومت کومشورہ دیا تھا کہ (۴/مئی ۲۰۰۸/ میں) کہ وہ بھی اسرائیل کی طرح کی مہم بھارت میں چلاکر اپنی پالیسیوں کے لیے حمایت حاصل کرے۔
چنانچہ نتیجتاً ہم پچھلے دو تین سالوں سے امریکی سفارت کاروں، نام نہاد مسلم نمائندوں، علمی شخصیات کے مسلم اداروں، مدارس اور تنظیموں نیز اردو اخبار ورسائل کے دفتروں کے چکر خوب لگ رہے ہیں، ان اداروں کے ذمہ داروں کو بھی امریکہ اپنے شیشہ میں اتارنے کے لیے بلایا جارہا ہے، اور امت مسلمہ کے ”مفاد“ ”تعلیمی، معاشی رہنمائی“ کے لیے بزعم خود ہمارے یہ ذمہ داران خوب استعمال ہورہے ہیں؛ جبکہ ہم مغربی سامراج کی ۳۰۰ سالہ تاریخ کو دنیا بھر میں تجربہ کرچکے ہیں کہ ان کی بھلائی میں بھی کوئی نہ کوئی فتور چھپا رہتا ہے۔ ان کی نیت ہمیشہ ایمان پر رہتی ہے، معاشی خوشحالی کی آڑ میں انھوں نے مسلمانوں میں میکالے کے ”بابو“ پیدا کیے اور یہ عمل آج بھی جاری ہے۔
اس طرح کی رابطہ عامہ کی کوششوں کے ذریعہ امریکہ یا اسرائیل اپنی اسلام دشمن، مسلم دشمن پالیسیوں کو بدلے بغیر مسلمانوں کے ان کے بارے میں خیالات کو کیسے بدل سکتے ہیں؟ اداروں کے سربراہ امریکہ کی کتنی انسان دشمن، اسلام دشمن حرکتوں پر پردہ ڈال سکتے ہیں؟ اوبامہ کی قاہرہ تقریر کے بعد سے امت مسلمہ کے ساتھ زبانی جمع خرچ کے علاوہ کیا کیاگیا؟ افغانستان میں ایک حملہ میں (۴۰) معصوم بچے شہید ہوئے، سیکورٹی کونسل میں اسرائیل کے خلاف ریزولیوشن کو ویٹو کیاگیا، سوڈان کے عیسائی حصہ کو دباؤ ڈال کر دو ٹکڑوں میں تقسیم کردیاگیا، لیبیا پر غیر ضروری بمباری جاری ہے، سب سے اہم بات جس کا جواب قریشی صاحب اور ان کے امریکی مہمان پر بھی قرض ہے کہ دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی مقدس ترین کتاب قرآن پاک کو پیشگی وارننگ کے باوجود کیسے جلانے دیاگیا؟ کیا امریکہ میں مذہبی کتب کی بے حرمتی کے خلاف کوئی قانون نہیں ہے؟ صرف یہودیوں کو برا کہنا جرم ہے، مگر قرآن جلانا جرم نہیں؟ اگرجرم ہے تو پادری ٹیری جونز اور پاسٹروین سپ کے خلاف کیا کارروائی ہوئی ہے؟ مسلم عوام اور خواص سے گذارش ہے کہ تعلیمی، سائنسی، تجارتی، ثقافتی ترقی کی آڑ میں ایمان پر ڈاکہ ڈالنے والوں سے ہوشیار رہیں۔ ایمان کی قیمت پر ہر ترقی جہنم کی طرف ہی لے جائے گی۔
***
———————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 5 ، جلد: 96 ، جمادی الثانیہ 1433 ہجری مطابق مئی 2012ء