مولانا حبیب الرحمن اعظمی
ضرورت جتنی بڑھتی جارہی ہے صبحِ روشن کی
اندھیرا اور گہرا اور گہرا ہوتا جاتا ہے
افسوس کہ ۱۴/ربیع الاوّل ۱۴۳۳ھ مطابق ۷/فروری ۲۰۱۲ء یوم سہ شنبہ کو جہانِ علم کا ایک خورشید منور جو تقریباً پچاس سالوں سے علوم ومعارف کی روشنی بکھیر رہا تھا، ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا، یعنی وقف دارالعلوم دیوبند کے لائق وفائق قدیم استاذ اور شیخ الحدیث حضرت مولانا خورشید عالم عثمانی دیوبندی اس سرائے فانی سے ملکِ جاودانی کو رحلت کرگئے انّا لِلہِ وَانَّا الَیْہِ رَاجِعُوْنَ، اَللّٰھُمَّ ارْحَمْہُ، وَأکْرِمْ نُزُلَہ وَأنْزِلْ عَلَیْہِ شَآبِیْبَ غُفْرَانِکَ․
حضرت مولانا خورشید عالم رحمہ اللہ پاک طینت، نیک طبیعت اور خاموش مزاج انسان تھے، شہرت طلبی اور نام ونمود سے گریزاں، بس یکسوئی کے ساتھ طلبہٴ علوم کی تعلیم وتربیت میں منہمک رہتے تھے، مولانا مرحوم کی علمی استعداد نہایت پختہ اور ٹھوس تھی، اس کا کچھ اندازہ حضرت مولانا میاں اخترحسین رحمہ اللہ کے اس جملہ سے کیا جاسکتا ہے جو انھوں نے مولانا خورشید صاحب کے بارے میں فرمایا تھا کہ ”ان کے امتحانی پرچے اتنے اچھے ہوتے ہیں کہ بعض اوقات مجھے شک ہونے لگتا ہے گویا کتاب دیکھ دیکھ کر لکھ رہے ہیں۔“
مولانا مرحوم کی ودلات ۱۳۵۳ھ میں دیوبند کے ایک علمی ودینی گھرانے میں ہوئی۔ آپ کے جدِ عالی قدر مولانا منظور احمد رحمہ اللہ، دارالعلوم دیوبند کے درجہٴ فارسی اور ریاضی کے ماہر وباکمال استاذ تھے، اور والد بزرگوار مولانا ظہور احمد صاحب رحمہ اللہ، دارالعلوم دیوبند میں درجہٴ عُلیا کے کامیاب مدرس تھے، اسی علمی ماحول میں مولانا مرحوم نے ابتداء سے انتہاء تک مادرِعلمی دارالعلوم دیوبند میں پڑھا، اور ۱۳۷۶ھ میں حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی قُدِّسَ سِرُّہ سے مکمل بخاری پڑھ کر سندِ فراغت حاصل کی، مولانا مرحوم کے مخصوص اساتذہ میں خود ان کے والد ماجد اور حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی رحمہا اللہ ہیں؛ دیگر اساتذہ میں حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاوی رحمة اللہ علیہ اورحکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قُدِّسَ سِرُّہ، حضرت مولانا اخترحسین صاحب بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
درس وتدریس کا آغاز دارالعلوم کراچی پاکستان سے کیا، یہاں تقریباً پانچ چھ سال قیام رہا، اس مدت میں اکثر فنون کی متوسطات تک کتابیں پڑھائیں، پھر پاکستان سے واپس وطن لوٹ آئے اور ۱۳۸۳ھ مطابق ۱۹۶۳ء میں اپنی مادرعلمی دارالعلوم دیوبند سے بحیثیت معلم واستاذ وابستہ ہوگئے، اس خاکسار کا یہ دورئہ حدیث شریف کا سال تھا، مجھے خوب یاد ہے کہ مولانا مرحوم کا درس احاطہٴ مولسری کی شمالی درس گاہ میں ہوا کرتا تھا، آواز کی جاذبیت لب ولہجہ کی متانت زورِ تقریر کی سلاست کی وجہ سے جو طالب علم بھی ان کی درس گاہ کے قریب سے گذرتا، وہ ایک لمحہ کے لیے ضرور رُک جاتا تھا، اس طرح ان کے درس کے وقت احاطہ مولسری میں طلبہ کی ایک بھیڑ جمع ہوجایا کرتی تھی، اور ہر شخص ہمہ تن گوش ہوکر ان کی خوبیِ گفتار سے محظوظ ہوتا تھا۔
مولانا مرحوم اپنی مادرعلمی دارالعلوم دیوبند میں تقریباً سترہ اٹھارہ سال تدریسی اور بعض انتظامی خدمات انجام دے کر وقف دارالعلوم میں منتقل ہوگئے، جس کے بانیوں میں سے وہ بھی تھے، پھر پوری زندگی اسی کی تعمیر وترقی میں صرف کردی۔ حضرت مولانا انظرشاہ کشمیری رحمہ اللہ کی وفات کے بعد وہ اس کے شیخ الحدیث اور صدرمفتی مقرر ہوگئے تھے، اور تا دمِ زیست ان دونوں علمی منصب پر فائز رہے۔ مولانا مرحوم کی اپنی سلامتی طبع، حسنِ اخلاق، اور ممتاز علمی صلاحیت کی بناپر جہاں رہے مقبول ونیک نام؛ بلکہ ہردل عزیز رہے، وہ ایک بلندپایہ معلم ومدرس تھے اور درس و تدریس ہی اُن کا ذوق ومزاج تھا، اسی بناپر تقریر وخطابت اور تصنیف وتالیف کی جانب التفات نہیں ہوا، کتاب سازی کی بجائے اپنے اساتذہ واکابر کی طرح مردم سازی اور رجالِ کار کو تیار کرنے میں ہی ہمیشہ مصروف رہے، برصغیر ہندوپاک میں ان کے ہزاروں تلامذہ پھیلے ہوئے ہیں اور اپنے اپنے احوال وظروف کے مطابق علم ودین کی خدمت کررہے ہیں، جو حدیث پاک ”وَعِلْمٌ یُنْتَفَعُ بِہ“ کی رُو سے مولانا مرحوم کے حق میں ثوابِ جاری کا سبب بنیں گے، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کو علم اور علماء کی طرف سے جزائے خیر عطاء فرمائیں اور اپنے دین کے خادم کی بال بال مغفرت فرمائیں۔
***
۱۴/ربیع الاوّل کو حضرت مولانا خورشید عالم عثمانی دیوبندی دار آخرت کو سدھارے، ابھی ان کے غم آنسو رواں ہی تھے کہ ۱۵/ربیع الاوّل ۱۳۳۳ھ مطابق ۸/فروری ۲۰۱۲ء کو مولانا ابوبکر غازی پوری صاحب بھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔
مولانا غازی پوری بھوپال کے سفر سے واپس لوٹے تھے اور دفتر جمعیة علماء ہند ظفرمارگ نئی دہلی میں قیام پذیر تھے، طبیعت بالکل ٹھیک ٹھاک تھی، اگرچہ موصوف سوگر کے مریض تھے؛ مگر عادتاً ہشاش وبشاش رہتے تھے، اس دن بھی ان کے مزاج کی خوشحالی بدستور موجود تھی، رات میں ایک صاحب کے یہاں احباب کے ساتھ دعوت میں بھی گئے اور حسبِ معمول پوری بشاشت کے ساتھ کھانا کھایا، وہاں سے واپس مسجد عبدالنبی قیام گاہ پر آئے اور نماز عشاء سے فارغ ہوکر آرام کے ساتھ لیٹ گئے، رات کو تقریباً چار بجے سینے میں تکلیف محسوس ہوئی، ساتھ جو لوگ کمرے میں لیٹے تھے انھیں جگایا اور ان سے تکلیف کا ذکر کیا؛ لیکن ڈاکٹر کے پاس پہنچنے اور علاج ومعالجہ کی نوبت آنے سے پہلے ہی فرشتہٴ اجل ربِ کائنات کا بلاوا لے کرآگیا اور مولانا مرحوم نے لبیک کہتے ہوئے جان جانِ آفریں کے حوالہ کردی، یہ سب کچھ بس چند ساعت ہی میں پیش آگیا۔
مولانا ابوبکر مرحوم ضلع غازی پور کے ایک دینی گھرانہ کے چشم وچراغ تھے، ان کے والدماجد بڑے ہی نیک وصالح اور پابندِ اذکار ووظائف تھے، بنارس کی تدریس کے زمانہ میں ان سے بارہا ملنے کا اتفاق ہوا، بڑی گرم جوشی اور محبت سے ملتے تھے، مولانا ابوبکر مرحوم دارالعلوم دیوبند کے ہونہار اور لائق وفائق فُضلاء میں شمار ہوتے تھے، فراغت غالباً ۱۳۸۶ھ کی تھی، دارالعلوم دیوبند کے موجودہ مہتمم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی کے رفیقِ درس؛ بلکہ یارِغار تھے، تعلیم سے فراغت کے بعد ایک طویل عرصہ تک درس وتدریس میں مشغول رہے، جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل، دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد،جامعہ مظہر العلوم بنارس وغیرہ مدارس میں تدریسی خدمات انجام دیں، ادھر تقریباً بیس پچیس سال سے تدریس کے سلسلہ کو موقوف کرکے تصنیف وتالیف میں لگ گئے تھے اور ہندوپاک کے غیرمقلدین کی تردید میں متعدد اہم کتابیں تالیف کیں جو مقلدین کے حلقہ میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھی گئیں، اسی کے ساتھ ”زمزم“ نام سے ایک ماہ نامہ مجلہ بھی نکالتے تھے اور خطبات کے ذریعہ بھی ان کی تردید کرتے رہتے تھے، مولانا مرحوم جہاں علمی اعتبار سے ان کی مضبوط گرفت کرتے تھے، اسی کے ساتھ انھیں کے لب ولہجے، اور طرزِ گفتار میں ان کے پھیلائے مغالطات کا جواب دیا کرتے تھے؛ اس لیے ایک حلقے میں ان کی تحریر و تقریر کی بڑی پذیرائی ہوتی تھی، حالیہ دو دہائیوں میں مولانا ابوبکر غازی پوری مرحوم نے جس جوش اور ہوش کے ساتھ اس نوپید جماعت کا تعاقب کیا، یہ انھیں کا حصہ تھا اور بہ ظاہر اس میدان میں ان کا کوئی ہم رکاب نظر نہیں آتا ، ایسے فعال ومتحرک عالم کا اس طرح اچانک دنیا سے کوچ کرجانا بلاشبہ ایک غمناک سانحہ ہے، دعاء ہے کہ رب غفور ان کی لغزشوں کو اپنی رداے رحمت ومغفرت سے ڈھانپ دے، ان کے درجات کو بلند فرمائے۔
***
مولانا ابوبکر غازی پوری مرحوم کی رحلت کو ابھی تین دن ہی گذرے تھے کہ ۱۸/ربیع الاوّل کو وقف مظاہر علوم کے قدیم ترین استاذ بلکہ استاذ الاساتذہ مولانا سید وقار علی بجنوری بھی رہ گراے عالمِ جاودانی ہوگئے، مولانا وقار علی رحمہ اللہ نے پچاس سال سے زائد مظاہر علوم میں تدریسی خدمات انجام دیں، مولانا مرحوم جہاں ایک جیدالاستعداد وباصلاحیت عالم دین تھے، وہیں اپنی سلامتی طبع اور خوش اخلاقی میں بھی امتیازی شان کے مالک تھے۔ ادھر چند سالوں سے مولانا مرحوم درازیِ عمر کی بناء پر گوناگوں امراض کے شکار ہوگئے تھے، حواس بھی پورے طور پر کام نہیں کرتے تھے، جب تک ان کے قُویٰ کام کرتے رہے، بڑی مستعدی کے ساتھ درس دیتے تھے، ان کا شمار مظاہر علوم کے باصلاحیت اساتذہ میں ہوتا تھا، بالخصوص علمِ فرائض میں انھیں بڑی مہارت حاصل تھی، اس فن میں ان کی ایک تصنیف بھی ہے، خدائے رحیم وکریم، ان کی قبر پر اپنی رحمتوں کی بارش برسائے۔
صرف چار یوم کے وقفہ میں تین بافیض علماء کی رحلت بلاشبہ بڑا علمی خسارہ ہے، دعا ہے کہ ربِ کریم علم اور طالبینِ علم کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔آمین
***
————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 3-4 ، جلد: 96 ، ربیع الثانی ، جمادی الاولی 1433 ہجری مطابق مارچ ، اپریل 2012ء