از: مولوی نایاب حسن قاسمی
اسکالرشیخ الہند اکیڈمی دارالعلوم دیوبند

اسلام میں علم کی اہمیت
بلاشبہ علم شرافت وکرامت اور دارین کی سعادت سے بہرہ مند ہونے کا بہترین ذریعہ ہے، انسان کودیگر بے شمار مخلوقات میں ممتاز کرنے کی کلید اور ربّ الارباب کی طرف سے عطا کردہ خلقی اور فطری برتری میں چار چاند لگانے کا اہم سبب ہے؛ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ مقصدِ تخلیقِ انسانی تک رسائی علم ہی کے ذریعے ممکن ہے، علم ہی کی بہ دولت انسانوں نے سنگلاخ وادیوں، چٹیل میدانوں اور زمینوں کو مَرغ زاری عطا کی ہے، سمندروں اور زمینوں کی تہوں سے لاتعداد معدنیات کے بے انتہا ذخائر نکالے ہیں اور آسمان کی بلندیوں اور وسعتوں کو چیرکر تحقیق واکتشاف کے نت نئے پرچم لہرائے ہیں؛ بلکہ مختصر تعبیر میں کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں رونما ہونے والے تمام محیرالعقول کارنامے علم ہی کے بے پایاں احسان ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اپنے ظہور کے اولِ دن سے ہی پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر ”اقرأ“ کے خدائی حکم کے القاء کے ذریعہ جہالت کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں علم کی عظمت واہمیت کو جاگزیں کیا اور ”قرآنِ مقدس“ میں بار بار عالم وجاہل کے درمیان فرق کے بیان اور جگہ جگہ حصولِ علم کی ترغیب کے ذریعے اس کی قدر ومنزلت کو بڑھایا؛ چنانچہ قرآنِ کریم میں علم کا ذکر اسّی بار اور علم سے مشتق شدہ الفاظ کا ذکر سیکڑوں دفعہ آیا ہے، اسی طرح عقل کی جگہ ”الباب“ (جمع لب) کا تذکرہ سولہ دفعہ اور ”عقل“ سے مشتق الفاظ اٹھارہ جگہ اور ”فقہ“ سے نکلنے والے الفاظ اکیس مرتبہ مذکور ہوئے ہیں، لفظ ”حکمت“ کا ذکر بیس دفعہ اور ”برہان“ کا تذکرہ سات دفعہ ہوا ہے، غور وفکر سے متعلق صیغے مثلاً: ”دیکھو“ ”غور کرو“ وغیرہ، یہ سب ان پر مستزاد ہیں۔
قرآن کریم کے بعداسلام میں سب سے مستند،معتبر اور معتمد علیہ لٹریچر (Literature) احادیثِ نبویہ کا وہ عظیم الشان ذخیرہ ہے، جسے امت کے باکمال جیالوں نے اپنے اپنے عہد میں انتہائی دقتِ نظری، دیدہ ریزی اور جگر کاوی کے ساتھ اکٹھا کرنے کا ناقابلِ فراموش کارنامہ انجام دیا ہے، جب ہم اس عظیم الشان ذخیرے کا مطالعہ کرتے ہیں، تو ہمیں قدم قدم پر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم زبانِ مقدس علم کی فضیلت، حاملینِ علم فضیلت اور اس کے حصول کی تحریض وترغیب میں سرگرم نظر آتی ہے؛ چنانچہ تمام کتبِ حدیث میں علم سے متعلق احادیث کو علیحدہ ابواب میں بیان کیا گیا ہے۔

مشتے نمونہ از خروارے
چنانچہ امام بخاری کی صحیح میں ابوابِ وحی و ایمان کے بعد ”کتاب العلم“ کے عنوان کے تحت ابواب میں حافظ الدنیا ابن حجر عسقلانی کے بہ قول چھیاسی مرفوع حدیثیں (مکررات کو وضع کرکے) اور بائیس آثارِ صحابہ وتابعین ہیں، اسی طرح صحاحِ ستہ کی دیگر کتب اور ”موطا مالک“ میں بھی علم کا علیحدہ اور مستقل باب ہے ”مسند امام احمد بن حنبل“ کی ترتیب سے متعلق کتاب الفتح الربانی“ میں علم سے متعلق اکاسی احادیث ہیں، حافظ نورالدین ہیثمی کی ”مجمع الزوائد“ میں علم کے موضوع پر احادیث بیاسی صفحات میں پھیلی ہوئی ہیں، ”مستدرک حاکم“ میں علم سے متعلق حدیثیں چوالیس صفحات میں ہیں، مشہور ناقد حدیث اور جلیل القدر محدث حافظ منذری کی ”الترغیب والترہیب“ میں علم سے متعلق چودہ احادیث ہیں اور علامہ محمد بن سلیمان کی ”جمع الفوائد“ میں صرف علم کے حوالے سے ایک سو چون حدیثیں بیان کی گئی ہیں۔

اسلام میں خواتین کی تعلیم کی اہمیت
یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم کو مجموعی طور پر دین سے روشناس کرانے، تہذیب وثقافت سے بہرہ ور کرنے اور خصائل فاضلہ وشمائلِ جمیلہ سے مزین کرنے میں اس قوم کی خواتین کا اہم؛ بلکہ مرکزی اور اساسی کردار ہوتا ہے اور قوم کے نونہالوں کی صحیح اٹھان اور صالح نشوونما میں ان کی ماؤں کا ہم رول ہوتا ہے؛ اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ ماں کی گود بچے کا اولین مدرسہ ہے؛ اس لیے شروع ہی سے اسلام نے جس طرح مردوں کے لیے تعلیم کی تمام تر راہیں وا رکھی ہیں ان کو ہر قسم کے مفید علم کے حصول کی نہ صرف آزادی دی ہے؛ بلکہ اس پر ان کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے، جس کے نتیجے میں قرنِ اول سے لے کر آج تک ایک سے بڑھ کر ایک کج کلاہِ علم وفن اور تاجورِ فکر وتحقیق پیدا ہوتے رہے اور زمانہ ان کے علومِ بے پناہ کی ضیاپاشیوں سے مستنیر و مستفیض ہوتا رہا، بالکل اسی طرح اس دین حنیف نے خواتین کو بھی تمدنی، معاشرتی اور ملکی حقوق کے بہ تمام وکمال عطا کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی حقوق بھی اس کی صنف کا لحاظ کرتے ہوئے مکمل طور پر دیے؛ چنانچہ ہر دور میں مردوں کے شانہ بہ شانہ دخترانِ اسلام میں ایسی باکمال خواتین بھی جنم لیتی رہیں، جنھوں نے اطاعت گزار بیٹی، وفاشعار بیوی اور سراپا شفقت بہن کا کردار نبھانے کے ساتھ ساتھ دنیا میں اپنے علم وفضل کا ڈنکا بجایا اور ان کے دم سے تحقیق و تدقیق کے لاتعداد خرمن آباد ہوئے۔

خواتین کی تعلیم سے متعلق روایات
(۱) بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”ثَلاَثَةْ لَھُمْ أَجْرَانِ: رَجُلٌ مِنْ أھْلِ الکِتَابِ آمَنَ بِنَبِیِّہ، وَآمَنَ بِمُحَمَّدٍ، وَالعبدُ المَمْلُوکُ اذَا أدّی حقَ اللہ، وحَقَّ مَوَالِیْہِ، وَرَجُلٌ لَہ اَمَةٌ، فَأدَّبَھَا فَأحْسَنَ تَأدِیْبَھَا، وَعَلَّمَھَا، فَأحْسَنَ تَعْلِیْمَھَا، ثُمَّ اَعْتَقَھَا، فَتَزَوَّجَھَا، فَلَہ أجْرَانِ“(۱) اس حدیث کے آخری جزء کی شرح میں ملاعلی قاری لکھتے ہیں کہ: ”یہ حکم صرف باندی کے لیے نہیں؛ بلکہ اپنی اولاد اور عام لڑکیوں کے لیے بھی یہی حکم ہے۔“(۲)
(۲) ایک صحابیہ حضرت شفاء بنت عدویہ تعلیم یافتہ خاتون تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ: ”تم نے جس طرح حفصہ کو ”نملہ“ (پھوڑے) کا رقیہ سکھایا ہے، اسی طرح لکھنا بھی سکھادو۔“(۳)
(۳) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی عورتوں کی تعلیم کا اہتمام فرماتے تھے اور ان کی خواہش پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باضابطہ ان کے لیے ایک دن مقرر کردیا تھا، حضرت ابوسعید خدری کی روایت ہے: ”قَالَتْ النِّسَاءُ لِلنَّبِيّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ”غَلَبْنَٓ عَلَیکَ الرِّجَالُ، فَاجْعَلْ لَّنَا یَوْمًا مِنْ نَفْسِکَ، فَوَعَدَھُنَّ یَوْماً لَقِیَھُنَّ فِیْہِ، فَوَعَظَھُنَّ، وَأمَرَھُنَّ“(۴)۔
(۴) حضرت اسماء بنت یزید بن السکن انصاریہ بڑی متدین اور سمجھدار خاتون تھیں، انھیں ایک دفعہ عورتوں نے اپنی طرف سے ترجمان بناکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کریں کہ : ”اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مردو عورت ہر دو کی رہ نمائی کے لیے مبعوث فرمایا ہے؛ چنانچہ ہم آپ پر ایمان لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی، مگر ہم عورتیں پردہ نشیں ہیں، گھروں میں رہنا ہوتا ہے، ہم حتی الوسع اپنے مردوں کی ہر خواہش پوری کرتی ہیں، ان کی اولاد کی پرورش وپرداخت ہمارے ذمے ہوتی ہے، ادھر مرد مسجدوں میں باجماعت نماز ادا کرتے ہیں، جہاد میں شریک ہوتے ہیں، جس کی بنا پر انھیں بہت زیادہ ثواب حاصل ہوتا ہے؛ لیکن ہم عورتیں ان کے زمانہٴ غیبوبت میں ان کے اومال واولاد کی حفاظت کرتی ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کیا ان صورتوں میں ہم بھی اجر وثواب میں مردوں کی ہمسر ہوسکتی ہیں؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء کی بصیرت افروز تقریر سن کر صحابہ کی طرف رخ کیا اور ان سے پوچھا: ”اسماء سے پہلے تم نے دین کے متعلق کسی عورت سے اتنا عمدہ سوال سنا ہے؟“ صحابہ نے نفی میں جواب دیا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء سے فرمایا کہ: ”جاؤ اور ان عورتوں سے کہہ دو کہ: ”انَّ حُسْنَ تَبَعُّلِ احْداکُنَّ لِزَوْجِھَا، وَطَلَبِھا لِمَرْضَاتِہ، وَاِتِّبَاعِھَا لِمُوافَقَتِہ، یَعْدِلُ کلَّ مَا ذَکَرْتِ لِلرِّجَالِ“۔(۵)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے یہ عظیم خوش خبری سن کر حضرت اسماء کا دل بلّیوں اچھلنے لگا اور تکبیر وتہلیل کہتی ہوئی واپس ہوگئیں اور دیگر عورتوں کو بھی جاکرسنایا۔
تاریخ اسلامی کی ان چند جھلکیوں سے بہ خوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتوں کے اندر حصولِ علم کے تئیں کس قدر شوق اور جذبہٴ بے پایاں پایا جاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے شوقِ طلب اور ذوقِ جستجو کی قدر کرتے ہوئے، ان کی تعلیم وتربیت کا کتنا اہتمام فرماتے تھے۔

تعلیم وتربیت کے عمومی ماحول کا اثر
تعلیم وتربیت کے اسی عمومی ماحول کا اثر ہے کہ جماعتِ صحابیات میں بلند پایہ اہل علم خواتین کے ذکرِجمیل سے آج تاریخ اسلام کا ورق ورق درخشاں وتاباں ہے؛ چنانچہ یہ امر محقق ہے کہ امہات المومنین میں حضرت عائشہ وحضرت ام سلمہ فقہ وحدیث و تفسیر میں رتبہٴ بلند رکھنے کے ساتھ ساتھ تحقیق ودرایت کے میدان کی بھی شہہ سوار تھیں، حضرت ام سلمہ کی صاحبزادی زینب بنت ابوسلمہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پروردہ تھیں، ان کے بارے میں تاریخ کا بیان ہے کہ:
”کَانَتْ أَفْقَہَ نَسَاءِ أھْلِ زَمَانِھَا“(۶)
حضرت ام الدردادء الکبری اعلیٰ درجے کی فقیہ اور عالمہ صحابیہ تھیں۔(۷)
حضرت سمرہ بنت نہیک اسدیہ کے بارے میں لکھا ہے کہ: ”وہ زبردست عالمہ تھیں، عمر دراز پائیں، بازاروں میں جاکر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیا کرتی تھیں اور لوگوں کو ان کی بے راہ روی پر کوڑوں سے مارتی تھیں۔“(۸)
پھر یہ زریں سلسلہ دورِ صحابیات تک ہی محدود نہیں رہا؛ بلکہ تابعیات اور بعد کی خواتین کے زمانوں میں بھی ہمیں اس طبقے میں بڑی بڑی عالمہ، زاہدہ اور امت کی محسنہ وباکمال خواتین ملتی ہیں؛ چنانچہ مشہور تابعی، حدیث اور فن تعبیر الرؤیا کے مستند امام حضرت محمد بن سیرین کی بہن حفصہ نے صرف بارہ سال کی عمر میں قرآنِ کریم کو معنی ومفہوم کے ساتھ حفظ کرلیا تھا(۹) یہ فن تجوید وقراء ت میں مقامِ امامت کو پہنچی ہوئی تھیں؛ چنانچہ حضرت ابن سیرین کو جب تجوید کے کسی مسئلے میں شبہ ہوتا، تو شاگردوں کو اپنی بہن سے رجوع کرنے کا مشورہ دیتے۔(۱۰)
نفیسہ جو حسن بن زید بن حسن بن علی بن ابی طالب کی صاحبزادی اور حضرت اسحاق بن جعفر کی اہلیہ تھیں، انھیں تفسیر وحدیث کے علاوہ دیگر علوم میں بھی درک حاصل تھا، ان کے علم سے خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کی بھی معتد بہ تعداد نے سیرابی حاصل کی، ان کا لقب ”نفیسة العلم والمعرفہ“ پڑگیا تھا، حضرت امام شافعی جیسے رفیع القدر اہل علم دینی مسائل پر ان سے تبادلہٴ خیال کرتے تھے۔(۱۱)

اف! یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم
مذکورہ حقائق سے یہ بات تو الم نشرح ہوجاتی ہے کہ اسلام جس طرح صنفِ لطیف کو دیگر حقوق بخشنے میں بالکل عادلانہ؛ بلکہ فیاضانہ مزاج رکھتا ہے، ویسے ہی اس کے تعلیمی حقوق کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے؛ بلکہ عملی سطح پر انھیں عطا کرنے کا بھی حد سے زیادہ اہتمام کرتا ہے۔
لیکن جہاں تک بات ہے خواتین کے موجودہ نظامِ تعلیم کی جسے (co-education) سے یاد کیا جاتاہے، جو مغرب سے درآمد (Import) کردہ ہے اور جو دراصل مغرب کی فکر گستاخ کا عکاس، خاتونِ مشرق کو لیلائے مغرب کی طرح ہوس پیشہ نگاہوں کی لذت اندوزی کا سامان بنانے کی ہمہ گیر اور گھناؤنی سازش اور اس کی چادرِ عصمت وعفت کو تار تار کرنے کی شیطانی چال ہے، اس کی مذہب اسلام تو کبھی بھی حوصلہ افزائی نہیں کرسکتا، نیز عقل دانا بھی اس سے پناہ مانگتی ہوئی نظر آتی ہے۔

مخلوط تعلیم․․․․ ایک ہمہ گیر جائزہ
مخلوط تعلیم کے حوالے سے دو پہلو نہایت ہی توجہ اورانتہائی سنجیدگی سے غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں:
۱- یہ کہ لڑکو ں اور لڑکیوں کا نصاب تعلیم ایک ہونا چاہیے یا جداگانہ؟
۲- لڑکے اور لڑکیوں کی تعلیم ایک ساتھ ہونی چاہیے یا الگ الگ؟ جہاں تک نصابِ تعلیم کی بات ہے ، تو گرچہ کچھ امور ایسے ہیں، جو دونوں کے مابین مشترک ہیں او ران کا نصاب لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے یکساں رکھا جاسکتا ہے مثلاً: زبان وادب، تاریخ، معلوماتِ عامہ (General knowledge) جغرافیہ، ریاضی، جنرل سائنس اور سماجی علوم (Socialscience) وغیرہ؛ لیکن کچھ مضامین ایسے ہیں جن میں لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان فرق کرنا ہوگا، مثلاً: انجینئرنگ کے بہت سے شعبے، عسکری تعلیم، اور ٹیکنکل تعلیم؛ کیوں کہ ان کی لڑکیوں کو قطعاً ضرورت نہیں؛ البتہ میڈیکل تعلیم کا اچھا خاصا حصہ خواتین سے متعلق ہے؛ اس لیے ”امراضِ نسواں“ زمانے سے طب کا مستقل موضوع رہا ہے، یہ لڑکیوں کے لیے نہایت ضروری ہے، اسی طرح لڑکیوں کی تعلیم میں امورِ خانہ داری کی تربیت بھی شامل ہونی چاہیے، کہ یہ ان کی معاشرتی زندگی میں انتہائی اہمیت رکھتے ہیں، سلائی، کڑھائی، پکوان کے مختلف اصول اور بچوں کی پرورش کے طریقے بھی ان کے نصابِ تعلیم کا حصہ ہونے چاہئیں، ان سے نہ صرف لڑکیاں گھریلو زندگی میں بہتر طور پر متوقع رول ادا کرسکتی ہیں؛ بلکہ ازدواجی زندگی کی خوش گواری، اہل خاندان کی ہردل عزیزی اور مشکل اور غیرمتوقع صورتِ حال میں اپنی کفالت کے لیے یہ آج بھی بہترین وسائل ہیں، ساتھ ہی لڑکیوں کے لیے ان کے حسبِ حال آدابِ معاشرت کی تعلیم بھی ضروری ہے؛ کیوں کہ ایک لڑکی اگر بہترین ماں اور فرماں بردار بیوی نہ بن سکے تو سماج کو اس سے کوئی فائدہ نہیں؛ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جیساکہ ذکر ہوا) عورتوں کی تذکیر کے لیے علیحدہ دن مقرر فرمادیا تھا، جس میں عورتیں جمع ہوتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں ان کے حسب حال نصیحت فرماتے؛ چنانچہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: ”خواتین کی دل بہلائی کا بہترین مشغلہ سوت کاتنا ہے۔“(۱۲) کیوں کہ سوت کاتنا اس زمانے میں ایک گھریلو صنعت تھی؛ بلکہ آج سے نصف صدی پیشتر تک بھی بہت سے گھرانوں کا گزرانِ معیشت اسی پر تھا۔
غور کیجیے کہ جب قدرت نے مردوں اور عورتوں میں تخلیقی اعتبار سے فرق رکھا ہے، اعضاء کی ساخت میں فرق، رنگ وروپ میں فرق، قوائے جسمانی میں فرق، مزاج ومذاق، حتیٰ کہ دونوں کی پسند اور ناپسند میں بھی تفاوت ہے، پھر اسی طرح افزائشِ نسل اوراولاد کی تربیت میں بھی دونوں کے کردار مختلف ہیں، تو یہ کیوں کر ممکن ہوسکتا ہے کہ معاشرے میں دونوں کے فرائض اور ذمہ داریاں بھی الگ الگ نہ ہوں؟ اور جب دونوں کی ذمہ داریاں علیحدہ ٹھہریں، تو ضروری ہے کہ اسی نسبت سے دونوں کے تعلیمی وتربیتی مضامین بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوں، اگر تعلیمی نصاب میں دونوں کے فطری اختلاف کو ملحوظ نہ رکھا جائے اور تعلیم کے تمام شعبوں میں دونوں صنفوں کو ایک ہی قسم کے مضامین پڑھائے جائیں، تو جہاں یہ طریقہٴ تعلیم انسانی معاشرے پر منفی اثر ڈالے گا، وہیں خود عورت کے عورت پن کے رخصت ہونے کا بھی انتہائی منحوس سبب ہوگا؛ لہٰذا صنفِ نازک کی فطری نزاکت کے لیے یہی زیب دیتا ہے کہ وہ وہی علوم حاصل کرے، جو اسے زمرئہ نسواں ہی میں رکھے اور اس کے فطری تشخص کی محافظت کرے، نہ کہ وہ ایسے علوم کی دل دادہ ہوجائے، جو اسے زن سے نازن بنادے۔
قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے: ”وَلاَ تَتَمَنَّوا مَا فَضَّلَ اللہُ بِہ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ، لِلرِّجَالِ نصیبٌ مِمَّا اکْتَسَبُوا وَلِلنِّسَاءِ نَصِیْبٌ مِمَّا اکْتَسَبْنَ، وَاسْئَلُو اللہَ مِنْ فَضْلِہ انَّ اللہَ کَانَ بِکلِّ شَیْءٍ عَلِیْما“ (۱۳) (اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ایک دوسرے کو جو فطری برتری عطا فرمائی ہے، اس کی تمنا مت کرو! مردوں کے لیے ان کے اعمال میں حصہ ہے اور عورتوں کے لیے ان کے اعمال میں اور اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل وکرم مانگتے رہو، بے شک اللہ ہر چیز سے واقف ہے)
یہ آیت دراصل معاشرتی زندگی کے آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے، اس میں یہ حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ اللہ نے انسانی سماج کو اختلاف اور رنگارنگی پر پیدا کیا ہے، کسی بات میں مردوں کو فوقیت حاصل ہے، تو کسی معاملے میں وہ عورتوں کے تعاون کا دست نگر ہے، قدرت نے جو کام جس کے سپرد کیا ہے،اس کے لیے وہی بہتر اور اسی کو بجالانا اس کی خوش بختی ہے؛ کیوں کہ خالق سے بڑھ کر کوئی اور مخلوق کی ضرورت اور فطرت وصلاحیت سے واقف نہیں ہوسکتا، یہ مغربی ہوس کاروں کی خود غرضی اور دنائت ہے کہ انھوں نے عورتوں سے ”حقِ مادری“ بھی وصول کیا اور ”فرائضِ پدری“ کے ادا کرنے پر بھی ان بے چاریوں کو مجبور کیا، پھر جب انھوں نے اپنی ذمہ داری کا بوجھ عورتوں پر لادنے کی ٹھان لی، تو ایسا نظامِ تعلیم وضع کیا،جس میں عورتوں کو مرد بنانے کی پوری صلاحیت موجود ہو، پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے خوب ارشاد فرمایا کہ: ”تین افراد ایسے ہیں، جو کبھی جنت میں داخل نہ ہوں گے“ اور ان تینوں میں سے ایک کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ”الرَّجُلَةُ مِنَ النِّسَاءِ“ (۱۴) یعنی عورتوں میں سے مرد، دریافت کیاگیا: ”عورتوں میں سے مرد سے کون لوگ مراد ہیں؟“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ عورتیں، جو مردوں کی مماثلت اختیار کریں“ جیساکہ بخاری کی روایت ہے: ”وَالْمُتَشَبِّھَاتُ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ“(۱۵) علماء نے ایسی عورتوں کو جو مردوں والی تعلیم وتربیت اختیار کرتی ہیں اور پھر عملی زندگی میں مردوں کی ہم صف ہونا چاہتی ہیں، اسی وعید کا مصداق قرار دیا ہے۔

فرنگی نظامِ تعلیم پر اقبال اوراکبر کی تشویش
بیسویں صدی کے عظیم مفکر وفلسفی، سوزِ دروں سے سرشار، اسرارِ خودی ورموزِ بے خودی کو واشگاف کرنے والے اور تاحیات حجازی لے میں نغمہٴ ہندی گنگنانے والے شاعرِ اسلام، جو خود عصری تعلیم گاہ کے پرداختہ تھے اور مغربی نظامِ تعلیم کا انتہائی قریب سے اور عمیق مطالعہ کیا تھا، انھیں عورتوں کے حوالے سے مغرب کے پرفریب نعروں پر، جن کی صدائے بازگشت اسی وقت مشرق میں بھی سنی جانے لگی تھی، کافی بے چینی اور اضطراب تھا، ان کی نظر میں ان نعروں کا اصل مقصد یہ تھا کہ مشرقی خاتون کو بھی یورپی عورتوں کی طرح بے حیائی وعصمت باختگی پر مجبور کردیا جائے اور مسلم قوم بھی مجموعی طور پر عیش کوشی وعریانیت کی بھینٹ چڑھ جائے اور مسلمانوں کی روایتی خصوصیات شجاعت ومردانگی، حمیت وایثار، مروت اور خداترسی، مدہوشی کی حالت میں دم توڑ جائیں؛ تاکہ وہ یورپ کی غلامی کے شکنجے سے کبھی بھی رہائی نہ پاسکیں؛ اس لیے انھوں نے اپنی مثنوی ”اسرار‘ و ”رموز“ ”جاویدنامہ“ ”ارمغانِ حجاز“ اور ”ضربِ کلیم“ میں متعدد مقامات پر مخلوط سوسائٹی اور مخلوط طریقہٴ تعلیم کے تئیں انتہائی نفرت وبیزاری کا اظہار کیاہے؛ چنانچہ ”ضرب کلیم“ میں کہتے ہیں:
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسہٴ زن
ہے عشق ومحبت کے لیے علم وہنر موت
اور تہذیب مغرب نے جس طرح عورت کو اس کے گھر سے زبردستی اٹھاکر بچوں سے دور کارگاہوں اور دفتروں میں لابٹھایا ہے، اس پر ”خردمندانِ مغرب“ کو اقبال یوں شرمندہ کرتے ہیں۔
کوئی پوچھے حکیمِ یورپ سے
ہند ویونان ہیں جس کے حلقہ بگوش
کیا یہی ہے معاشرت کا کمال
مرد بے کار زن تہی آغوش
مغربی تعلیم نسواں کے حامی مشرق کے مستغربین کی روش پر اقبال اپنے کرب وبے چینی کا اظہاریوں کرتے ہیں: ”معاشرتی اصلاح کے نوجوان مبلغ یہ سمجھتے ہیں کہ مغربی تعلیم کے چند جرعے مسلم خواتین کے تنِ مردہ میں نئی جان ڈال دیں گے اور اپنی ردائے کہنہ کو پارہ پارہ کردیں گی، شاید یہ بات درست ہو؛ لیکن مجھے یہ اندیشہ ہے کہ اپنے آپ کو برہنہ پاکرانھیں ایک مرتبہ پھر اپنا جسم ان نوجوان مبلغین کی نگاہوں سے چھپانا پڑے گا۔“(۱۶)
بہ قول فقیر سید وحیدالدین: ”اقبال زن ومرد کی ترقی، نشوونما اور تعلیم وتربیت کے لیے جداگانہ میدانِ عمل کے قائل تھے، کہ اللہ نے جسمانی طور پر بھی دونوں کو مختلف بنایا ہے اور فرائض کے اعتبار سے بھی؛ چنانچہ موصوفِ محترم عورتوں کے لیے ان کی طبعی ضروریات کے مطابق الگ نظامِ تعلیم اور الگ نصاب چاہتے ہیں۔“(۱۷)
”شذرات“ میں لکھتے ہیں: ”تعلیم بھی دیگرامور کی طرح قومی ضرورت کے تابع ہوتی ہے، ہمارے مقاصد کے پیش نظر مسلمان بچیوں کے لیے مذہبی تعلیم بالکل کافی ہے، ایسے تمام مضامین، جن میں عورت کو نسوانیت اور دین سے محروم کردینے کا میلان پایا جائے،احتیاط کے ساتھ تعلیم نسواں سے خارج کردیے جائیں۔“(۱۸)
اسی سلسلہ میں ”ملفوظاتِ اقبال“ میں ان کا یہ قول ہے: ”مسلمانوں نے دنیا کو دکھانے کے لیے دنیوی تعلیم حاصل کرنا چاہی؛ لیکن نہ دنیا حاصل کرسکے اور نہ دین سنبھال سکے، یہی حال آج مسلم خواتین کا ہے، جو دنیوی تعلیم حاصل کرنے کے شوق میں دین بھی کھورہی ہیں۔“(۱۹)
دراصل اقبال کے نزدیک امتِ مسلمہ کے لیے قابلِ تقلید نمونہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کا اسوہ ہے؛ چنانچہ اسی نسبت سے وہ خواتین کو تلقین کرتے ہیں کہ وہ حضرت فاطمہ الزہراء کی پیروی کریں اور اپنی آغوش میں ایسے نونہالوں کی پرورش کریں، جو بڑے ہوکر شبیر صفت ثابت ہوں، ”رموزِ بے خودی“ میں فرماتے ہیں:
مزرعِ تسلیم را حاصل بتول
مادراں را اسوئہ کامل بتول
اور ارمغانِ حجاز میں خواتین کو یوں نصیحت کرتے ہیں:
اگر پندے زدُرویشے پذیری
ہزار امت بمیرد تو نہ میری
بتولے باش وپنہاں شو ازیں عصر
کہ در آغوش شبیرے بگیری
(ایک دُرویش کی نصیحت کو آویزئہ گوش بنالو، تو ہزار قومیں ختم ہوسکتی ہیں؛ لیکن تم نہیں ختم ہوسکتیں، وہ نصیحت یہ ہے کہ بتول بن کر زمانے کی نگاہوں سے اوجھل (پردہ نشیں) ہوجاؤ؛ تاکہ تم اپنی آغوش میں ایک شبیر کو پال سکو)
دوسرے لسان العصر حضرت اکبر الہ آبادی ہیں، اقبال کی طرح وہ بھی عصری تعلیم سے باخبر ہیں اور انھیں کی طرح ان کی بھی ساری فکری توانائی اور شاعرانہ صلاحیت وقوت کی تان تہذیب فرنگ کو لتاڑنے اوراس کی زیاں کاریوں سے خبردار کرنے پر ہی ٹوٹتی ہے، ان کی شاعری پوری تحریکِ مغربیت کے خلاف ردّ عمل ہے، ان کی شاعری بھی اقبال کی طرح اول سے لے کر آخر تک اسی مادیت فرنگی کا جواب ہے اور ان کی ترکش کا ایک ایک تیر اسی نشانے پر لگتا ہے، بس دونوں میں فرق یہ ہے کہ اقبال بہ راہِ راست تیشہ سنبھال کر تہذیب نو کو بیخ وبُن سے اکھاڑ پھینکنے کے درپے نظر آتے ہیں، جبکہ حضرتِ اکبر طنز کی پھلجھڑیوں کو واسطہ بناکر مغرب کے مسموم افکار وخیالات پر پھبتیاں کستے ہیں۔
مغربی نظامِ تعلیم بھی حضرت اکبر کا خاص موضوع تھا اوراس کی طرف خواتین کے روز افزوں بڑھتے ہوئے رجحانات سے بھی وہ بہت ملول اور کبیدہ خاطر تھے؛ چنانچہ ایک جگہ مغرب کی طرف سے اٹھنے والی تعلیمِ نسواں کی تحریک اور بے پردگی کو لازم وملزوم بتاتے ہوئے فرماتے ہیں:

مجلسِ نسواں میں دیکھو عزتِ تعلیم کو
پردہ اٹھا چاہتاہے علم کی تعظیم کو
مشرق میں بہترین عورت کا تخیل یہ ہے کہ وہ شروع سے نیک سیرت، بااخلاق اورہنس مکھ رہے، وہ جب بات کرے تو اس کے منھ سے پھول جھڑے، وہ دینی تعلیم حاصل کرے اور خانہ داری کے طور طریقے سیکھے، کہ آگے چل کر اس کو گھر کی ملکہ بننا ہے، بچپن میں والدین کی اطاعت اور شادی کے بعد شوہر کی رضامندی کو پروانہٴ جنت خیال کرے؛ تاکہ خانگی شیرازہ اس کی ذات سے بندھا رہے، خاندان کی مسرتیں اس کے دم سے قائم رہیں اور وہ صحیح معنی میں ”گھر کی ملکہ“ ثابت ہو، اس کے برخلاف فرنگیوں کے یہاں عزت کا معیار بدلا ہوا ہے، وہ عورت ہی کیا؟ جس کے حسن گفتار، حسن رفتار، حسن صورت، زیب وزینت، خوش لباسی، گلے بازی اور رقاصی کے چرچے سوسائٹی میں عام نہ ہوں، اخبارات میں اس کے فوٹو شائع ہوں، زبانوں پر جب اس کا نام آئے، تو کام ودہن لذت اندوز ہوں، اس کا جلوہ آنکھوں میں چمک پیدا کردے، اور اس کا تصور دلوں میں بے انتہا شوق، بہترین عورت وہ نہیں، جو بہترین بیوی اور بہترین ماں ہو؛ بلکہ وہ ہے، جس کی ذات دوست واحباب کی خوش وقتیوں کا دلچسپ ترین ذریعہ ہو اور ایسی ہو کہ اس کی رعنائی ودل ربائی کے نقش ثبت ہوں کلب کے درودیوار پر، پارک کے سبزے زار پر، ہوٹلوں کے کوچ اور صوفوں پر، ”ہمارے“اور ”ان کے“ تخیل کے اس بُعد المشرقین کو اقلیم لفظ ومعنی کا یہ تاجدار دو مصرعوں میں جس جامعیت اور بلاغت کے ساتھ بیان کرجاتا ہے، یہ اسی کا حصہ تھا:
حامدہ چمکی نہ تھی انگلش سے جب بے گانہ تھی
اب ہے شمع انجمن، پہلے چراغِ خانہ تھی
”چمکی“ میں وہ بلاغت ہے کہ سننے والا لوٹ لوٹ جائے اور یہ ”چمک“ مخصوص ہے ”نئی روشنی“ کی چمنیوں کے ساتھ۔
حسن وناز کی دنیا میں قابل داد وتحسین اب تک کم سخنی، کم گوئی اور بے زبانی تھی، مشرقی شوہر ”چاندسی دلہن“ اس لیے بیاہ کر لاتا تھا کہ وہ اسے اپنے گھر کا چراغ بنادے اور تخیل ”خانہ آبادی“ کا غالب رہتا، مگر مغربی نظامِ تعلیم کی دَین کہ محفل کے طور ہی کچھ اور ہوگئے، نقشہ بالکل ہی بدل گیا، اب تو ٹھاٹھ بزم آرائیوں کے جمے ہوئے، حجاب کی جگہ بے حجابی، سکوت کی جگہ طوفانِ تکلم، مستوری کی جگہ نمائش، عاشق بے چارہ اس کایا پلٹ پردنگ، حیران، گم صم، کل تک جو نقش تصویر تھا، وہ آج گراموفون کی طرح مسلسل وقفِ تکلم۔
خامشی سے نہ تعلق ہے،نہ تمکین کا ذوق
اب حسینوں میں بھی پاتا ہوں ”اسپیچ“ کا شوق
شانِ سابق سے یہ مایوس ہوئے جاتے ہیں
بت جو تھے دیر میں ناقوس ہوئے جاتے ہیں
اکبر کے اسی مرقع کا ایک اور منظر۔
اعزاز بڑھ گیا ہے، آرام گھٹ گیا ہے
خدمت میں ہے وہ لیزی اور ناچنے کو ریڈی
تعلیم کی خرابی سے ہوگئی بالآخر
شوہر پرست بیوی پبلک پسند لیڈی
ایک دوسری جگہ اس مرقع میں آب ورنگ ذرا اور زیادہ بھردیتے ہیں؛ چنانچہ ارشاد ہے:
اک پیر نے تہذیب سے لڑکے کو سنوارا
اک پیرنے تعلیم سے لڑکی کو سنوارا
کچھ جوڑ تو ان میں کے ہوئے ہال میں رقصاں
باقی جو تھے گھر ان کا تھا افلاس کا مارا
بیرا وہ بنا کمپ میں، یہ بن گئیں آیا
بی بی نہ رہیں جب، تو میاں پن بھی سدھارا
دونوں جو کبھی ملتے ہیں گاتے ہیں یہ مصرعہ
”آغاز سے بدتر ہے سرانجام ہمارا“
یہ خیال نہ گزرے کہ اکبر سرے سے تعلیم نسواں کی مخالفت کرتے تھے اور لڑکیوں کو بالکل ہی ناخواندہ رکھنے کے حامی تھے، وہ تعلیم نسواں کے حامی تھے؛ لیکن تعلیم تعلیم میں بھی تو زمین آسمان کا فرق ہے، وہ اس تعلیم کی تائید میں تھے، جو رابعہ بصریہ نہ سہی دورِ مغلیہ کی جہاں آراء بیگم ہی کے نمونے پیدا کرے، نہ کہ اس تعلیم کی، جو زینت ہوا پکچر پیلس اور نمائش گاہوں کی، اس تعلیم کو وہ رحمت نہیں، خدا کا قہر سمجھتے تھے، جس پر بنیادیں تعمیر ہوں ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی، وہ آرزومند تھے، اس نظامِ تعلیم کے، جو مہربان مائیں، وفاسرشت بیویاں اور اطاعت شعار لڑکیاں پیدا کرے، نہ کہ اس کے، جو تھیٹرمیں ایکٹری اور برہنہ رقاصی کے کمالات کی طرف لے جائے، وہ ملک میں حوریں پیدا کرنا چاہتے تھے، کہ دنیا جنت نظیر بن جائے، وہ پریوں کے مشتاق نہ تھے، کہ ملک ”راجہ اندر“ کا اکھاڑا ہوکر رہ جائے ان کا قول تھا کہ:
دو شوہر واطفال کی خاطر اسے تعلیم
قوم کے واسطے تعلیم نہ دو عورت کو
مزید توضیح ملاحظہ ہو:
تعلیم لڑکیوں کی ضروری تو ہے، مگر
خاتونِ خانہ ہوں وہ سبھا کی پری نہ ہوں
ذی علم ومتقی ہوں، جو ہوں ان کے منتظم
استاذ ایسے ہوں، مگر ”استاد جی“ نہ ہوں
”استاذ اور استاد“ کے لطیف فرق کو جس خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے، وہ بس انہی کا حصہ ہے، استاذ تو دینی واخلاقی تعلیم و تربیت دینے والے کو کہتے ہیں، جبکہ استاد جی اربابِ نشاط کو تعلیم دینے والے کو کہتے ہیں۔
ایک اور طویل نظم میں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے اپنا پورا مسلک وضاحت کے ساتھ بیان کردیا ہے، چند اشعار نظر نواز ہوں:
تعلیم عورتوں کو بھی دینی ضرور ہے
لڑکی جو بے پڑھی ہے، وہ بے شعور ہے
ایسی معاشرت میں سراسر فتور ہے
اور اس میں والدین کا بے شک قصور ہے
لیکن ضرور ہے کہ مناسب ہو تربیت
جس سے برادری میں بڑھے قدر ومنزلت
آزادیاں مزاج میں آئیں نہ تمکنت
ہو وہ طریق، جس میں ہو نیکی ومصلحت
ہرچند ہو وہ علم ضروری کی عالمہ
شوہر کی ہو مرید تو بچوں کی خادمہ
عصیاں سے محترز ہو، خدا سے ڈرا کرے
اور حسنِ عاقبت کی ہمیشہ دعا کرے
آگے حساب کتاب، نوشت وخواند، اصولِ حفظانِ صحت، کھانا پکانے اور کپڑے سینے وغیرہ کو درسِ نسوانی کا لازمی نصاب بتاکر فرماتے ہیں:
داتا نے دَھن دیا ہے، تو دل سے غنی رہو
پڑھ لکھ کے اپنے گھر کی دیوی بنی رہو
مشرق کی چال ڈھال کا معمول اور ہے
مغرب کے ناز و رقص کا اسکول اور ہے
دنیا میں لذتیں ہیں، نمائش ہے، شان ہے
ان کی طلب میں، حرص میں سارا جہان ہے
اکبر سے یہ سنو! کہ یہ اس کا بیان ہے
دنیا کی زندگی فقط اک امتحان ہے
حد سے جو بڑھ گیا، تو ہے اس کا عمل خراب
آج اس کا خوش نما ہے، مگر ہوگا کل خراب(۲۰)
مخلوط تعلیم کا دوسرا پہلو
مخلوط تعلیم کا دوسرا پہلو لڑکو اور لڑکیوں کی مشترک تعلیم گاہ ہے،اس سلسلے میں یہ امر ملحوظِ خاطر رہے کہ ابتدائی عمر، جس میں بچے صنفی جذبات سے عاری ہوتے ہیں اور ان میں ایسے احساسات پیدا نہیں ہوتے، مخلوط تعلیم کی گنجائش ہے اورآٹھ، نو سال کی عمر تک ابتدائی درجات کی تعلیم میں تعلیم گاہ کا اشتراک رکھا جاسکتا ہے؛ اسی لیے اسلام نے بے شعور بچوں کو غیرمحرم عورتوں کے پاس آمد ورفت کی اجازت دی ہے اور قرآن مقدس نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے(۲۱)؛ لیکن جب بچوں میں جنسی شعور پیدا ہونے لگے اور ایک حد تک بھی (کلی طور پر نہ سہی) ان میں صنفی جذبات کی پہچان ہوجائے، تو ایک ساتھ ان کی تعلیم آگ اور بارود کو ایک جگہ جمع کرنے کی مانند ہے اور اس کا اعتراف (گودیر سے سہی) آج یورپ وامریکہ کے بڑے بڑے ماہرین نفسیات (Psychology) وحیاتیاتِ بشری (Humanbiology)کررہے ہیں؛ چنانچہ انھوں نے لکھا ہے کہ عورت اور مرد میں کشش جنسی بالکل طبعی اور فطری ہے اور دونوں جب باہم ملیں گے اور کوئی مانع نہیں ہوگا، تو رگڑسے یکبارگی بجلی کا پیدا ہوجانا یقینی ہے۔
اور اسلام کا نقطہٴ نظر اس حوالے سے بالکل واضح، بے غبار، ٹھوس اور سخت ہے، کہ ایک مرد یا عورت کے لیے کسی غیرمحرم کے ساتھ مل بیٹھنا کجا ایک دوسرے کی طرف نگاہ اٹھاکر دیکھنے کی بھی قطعاً گنجائش نہیں؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تاریخی سفرِ حج میں فضل بن عباس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اونٹنی پر سوار ہیں، قبیلہ ”بنو خثعم“ کی ایک لڑکی ایک شرعی مسئلے کی دریافت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور فضل بن عباس کی نگاہ اچانک اس لڑکی پر پڑجاتی ہے، تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم فوراً ان کا رخ پھیردیتے ہیں۔
جلیل القدر صحابی حضرت جریر بن عبداللہ بجلی فرماتے ہیں: ”شَأَلْتُ رَسُوْلَ اللہِ عَنْ نَظْرِ الفُجَائَةِ فقال: ”اِصْرِفْ بَصَرَکَ“۔(۲۲)
حضرت علی بن ابی طالب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یَا عَلِیْ! لاَ تَتْبَعِ النَّظْرَةَ النَّظْرَةَ؛ فَانَّ لَکَ الأُوْلٰی، وَلَیْسَتْ لَکَ الآخِرَة“(۲۳)
مردوں کی طرح عورتوں کے لیے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعتی حکم جاری فرمایا: چنانچہ ایک دفعہ حضرت ام سلمہ اور حضرت میمونہ (بعض روایات کے مطابق حضرت عائشہ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھیں،اچانک حضرت عبداللہ بن ام مکتوم تشریف لے آئے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے فرمایا کہ ان سے پردہ کرو! تو حضرت ام سلمہ نے قدرے تحیر زدہ ہوکر کہا: ”یہ تو نابینا ہیں! نہ ہمیں دیکھ سکتے ہیں اور نا ہی پہچان سکتے ہیں“ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم دونوں بھی نابینا ہو؟ کیا تم انھیں نہیں دیکھ رہی ہو؟“(۲۴)
پھر اسلام کا یہ نظریہ کسی خاص شعبہٴ حیات سے متعلق نہیں؛ بلکہ سنِ شعور کو پہنچنے کے بعد سے تاحیات اس کا یہی حکم ہے؛ چنانچہ جب ہم اہلِ علم خواتینِ اسلام کی تاریخ اور ان کی تعلیم وتربیت کے طریقوں کا مطالعہ کرتے ہیں، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ میمون میں خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کا غایت درجہ اہتمام فرماتے کہ لڑکوں اور لڑکیوں میں اختلاط کی کیفیت پیدا نہ ہونے پائے؛ تاکہ یہ شیطان کی طرف سے کسی غلط کاری کی تحریک کا باعث نہ ہو؛ چنانچہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ : ”حضور صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کی صف سے نکلے اور حضرت بلال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز عورتوں تک نہیں پہنچی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی صف تک تشریف لے گئے، انھیں نصیحت فرمائی اور صدقہ کرنے کا حکم دیا، تو کوئی عورت اپنی بالی پھینکنے لگی اور کوئی انگوٹھی اور حضرت بلال اپنی چادر میں انھیں سمیٹنے لگے۔“(۲۵)
ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں اور عورتوں کو خلط ملط دیکھا، تو عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ”پیچھے ہٹ جاؤ! تمہارا بیچ راستے پر چلنا مناسب نہیں لبِ راہ چلا کرو“۔(۲۶)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کے ادوار میں بھی عورتوں کی تعلیم وتربیت کے تعلق سے عدمِ اختلاط کا خصوصی اہتمام رہا؛ چنانچہ حضرت مولانا قاضی اطہرمبارک پوری قرنِ اوّل اور اس کے بعد طالبات کے تعلیمی اسفار اور ان کے طریقہٴ تعلیم وتربیت کا تذکرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ”عام طور سے ان تعلیمی اسفار میں طالبات کی صنفی حیثیت کا پورا پورا لحاظ رکھا جاتا تھا اور ان کی راحت وحفاظت کا پورا اہتمام ہوتا تھا، خاندان اور رشتہ کے ذمہ دار اُن کے ساتھ ہوتے تھے، امام سہمی نے ”تاریخ جرجان“ میں فاطمہ بنت ابی عبداللہ محمد بن عبدالرحمن طلقی جرجانی کے حالات میں لکھا ہے کہ: ”میں نے فاطمہ کو اس زمانے میں دیکھا ہے، جب ان کے والد ان کو اٹھاکر امام ابواحمد بن عدی جرجانی کی خدمت میں لے جاتے تھے اور وہ ان سے حدیث کا سماع کرتی تھیں،فاطمہ بنت محمد بن علی لخمیہ اندلس کے مشہور محدث ابومحمد باجی اشبیلی کی بہن تھیں، انھوں نے اپنے بھائی ابومحمد باجی کے ساتھ رہ کر طالب علمی کی اور دونوں نے ایک ساتھ بعض شیوخ واساتذہ سے اجازتِ حدیث حاصل کی۔“(۲۷)
آگے لکھتے ہیں: ”ان محدثات وطالبات کی درس گاہوں میں مخصوص جگہ ہوتی تھی، جس میں وہ مردوں سے الگ رہ کر سماع کرتی تھیں اور طلبہ وطالبات میں اختلاط نہیں ہوتا تھا۔“(۲۸)
ان تصریحات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ شریعت نے جہاں عورتوں کو تعلیم وتربیت کے حصول کی پوری آزادی بخشی ہے، وہیں اس کے نزدیک مرد وعورت کے درمیان اختلاط کی کوئی گنجائش نہیں؛ بلکہ دونوں کے لیے علیحدہ تعلیم گاہ ہونی چاہیے، جہاں وہ یک سوئی اور سکونِ خاطر کے ساتھ تعلیم حاصل کرسکیں،اور ہر نوع کے ممکن فتنے کا سدِّ باب ہوسکے، خاص طور سے موجودہ دور میں، جب کہ مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب مخلوط تعلیم کی فحش کاریاں اور زیاں کاریاں ظاہر وباہر ہوچکی ہیں اور خود یورپ وامریکہ کی تعلیم گاہوں کے ماہرینِ تعلیم وسماجیات وعمرانیات کی رپورٹس اس کا بین ثبوت ہیں؛ چنانچہ مشہور فرانسیسی عالم عمرانیات ”پول بیورو“(Poulbureou) اپنی کتاب (Towardsmoral Bankruptcy)میں لکھتاہے کہ: ”فرانس کے متوسط طبقے کی تعلیم یافتہ لڑکیاں، جو کسی فرم میں کام کرتی ہیں اور سائستہ سوسائٹی میں اٹھتی بیٹھتی ہیں، ان کے لیے کسی اجنبی لڑکے سے مانوس ہوجانا کوئی تعجب خیز امر نہیں ہے، اوّل اوّل اس طرزِ معاشرت کو معیوب سمجھا گیا، مگر اب یہ اونچے طبقے میں بھی عام ہوگیا ہے اوراجتماعی زندگی میں اس نے وہی جگہ حاصل کرلی ہے، جو کبھی نکاح کی تھی۔“(۲۹)
امریکہ کی تعلیم گاہوں کے نوجوان طبقہ کے بارے میں جج بن لنڈ سے (Benlindsey) جس کو ڈنور (Denver)کی عدالت جرائم اطفال (Juentlecourt) کا صدر ہونے کی حیثیت سے امریکہ کے نوجوانوں کی حالت سے واقف ہونے کا بہت زیادہ موقع ملا، اپنی کتاب (Revolt of Modern youth) میں لکھتا ہے کہ: ”امریکہ میں ہائی اسکول کی کم از کم ۴۵ فیصد لڑکیاں اسکول سے الگ ہونے سے پہلے خراب ہوچکتی ہیں اور بعد کے تعلیمی مدارج میں اوسط اس سے کہیں زیادہ ہے، لڑکیاں خود ان لڑکوں سے اس چیز کے لیے اصرار کرتی ہیں، جن کے ساتھ و تفریحی مشاغل کے لیے جاتی ہیں اور اس قسم کے ہیجانات کی طلب ان میں لڑکوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں، گرچہ زنانہ فطرت ان اقدامات پرفریب کاری کے پردے ڈالتی ہے۔“(۳۰)
انگلینڈ کے مرکزی شہر لندن (جو تہذیب جدید کا صاف شفاف آئینہ ہے، اسی آئینے میں اس کی تمام تر گل کاریوں کا عکسِ قبیح نظر آتاہے) کی ”غیرشادی شدہ ماؤں اور ان کے بچوں کی نویں کونسل“ سے خطاب کرتے ہوئے انگلینڈ کی مشہور مصنفہ ”مس مارگانتا لاسکی“ یہ دھماکہ خیز انکشاف کرتی ہے کہ: ”انگلستان کی تقریباً ۷۰ فیصد لڑکیاں شادی سے قبل ہی اپنے دوستوں سے جنسی تعلقات قائم کرلیتی ہیں اور ۳۳ فیصد لڑکیاں شادی سے قبل ہی حاملہ ہوجاتی ہیں۔“(۳۱)
لندن کے ایک سماجی کارکن نے اپنی مطالعاتی رپورٹ میں وہاں کی مخلوط تعلیم گاہوں کی صنفی آوارگی اور جنسی انارکی (Anarchy)کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: ”اسکول میں آج کل چودہ برس کے لڑکے اور لڑکیاں عام طور پر مانعِ حمل اشیاء اپنے اپنے بیگ میں لیے پھرتے ہیں کہ جانے کب کہاں ضرورت پڑجائے؟ اس معاملے میں وہ اپنے ماں باپ سے کہیں زیادہ ہوشیار ہیں۔“(۳۲)
خیر! یہ تو نافِ تمدن اور مرکز تہذیب کی بات ہے، خود مشرق میں بھی (جس کے رگ وپے میں گویا خوانِ مغرب کی زلہ خواری سرایت کرچکی ہے اور مغرب کی ”عطاکردہ“ ہر ”نعمت غیرمترقبہ“ کا والہانہ استقبال کرنا اور اسے ہاتھوں ہاتھ لینا اس کی جبلت بن چکا ہے اور جس کے فرزندوں میں مستغربین کی ٹولی کی ٹولی جنم لے رہی ہے) مخلوط تعلیم کے انتہائی مضرت رساں نتائج مشاہدے میں آرہے ہیں؛ بلکہ صورتِ حال تویہ ہوچکی ہے کہ۔
مے خانہ نے رنگ وروپ بدلا ایسا
مے کش مے کش رہا، نہ ساقی ساقی
غور کیجیے کہ مخلوط تعلیم گاہوں میں جہاں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ایک ساتھ تعلیم حاصل کررہے ہوں، پھر دونوں کی نشست گاہیں بھی ایک ساتھ ہوں اور ان سب پر طرفہ یہ کہ عریاں ونیم عریاں بازو، لب ہائے گلگوں، چمکتے ہوئے عارض، چشم ہائے نیم باز، بکھری ہوئی زلفیں؛ بلکہ سارا سراپا ”انا البرق“ کا منظر پیش کررہا ہو،تو کیا فریق مقابل اپنے ذوقِ دید اور شوقِ نظارہ کو صبر وشکیبائی کا رہین رکھے گا یا بے تابانہ اپنی نگاہوں کی تشنگی دور کرنے کی سوچے گا؟ پھر جب جمالِ جہاں آرا پوری تابانیوں کے ساتھ دعوتِ نظارہ دے رہا ہو، تو اس کی دید کی پیاس بجھے گی کیوں؟ وہ تواور تیز تر ہوجائے گی اور جام پر جام چڑھائے جانے کے باوصف اس کا شوقِ دیدار ”ھَلْ مِنْ مَزِید“ کی صدائے مسلسل لگائے گا۔
ساقی جو دیے جائے یہ کہہ کر کہ پیے جا
تو میں بھی پیے جاؤں یہ کہہ کر کہ دیے جا
اور شیطان ایسے موقعوں پر کبھی نہیں چوکتا، جب اس کا شکار پوری طرح اس کے قبضے میں آجائے؛ چنانچہ معاملہ صرف دید ہی تک محدود رہ جائے، یہ ناممکن ہے، اس سے بھی آگے بڑھ کر گفت وشنید تک پہنچتا ہے، پھر بوس وکنار اورہم آغوش ہونے اور بالآخر وہاں تک پہنچ کر دم لیتا ہے، جس کے بیان سے ناطقہ سربہ گریباں اور خامہ انگشت بہ دنداں ہے اور اس قسم کے حادثات کوئی ضروری نہیں کہ یونیورسٹیز اور کالجز کے احاطوں ہی میں رونما ہوں؛ بلکہ رسل ورسائل اورآئے دن کے مشاہدات یہ ثابت کرتے ہیں کہ کالجز کے کلاس روم، شہروں کے پارک اور پبلک مقامات تک کی بھی کوئی قید نہیں ہے۔#
بوئے گل، نالہٴ دل، دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا
پس چہ باید کرد؟
ایسے پر آشوب اورہلاکت خیز ماحول میں بھی اگر ہوش کے ناخن نہ لیے گئے، اور لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کو بھی ”مُثَقَّف“ اور ”روشن خیال“ بنانے کا مخلوط طریقہٴ کار یوں ہی برقرار رہا، تو ہرنیاطلوع ہونے والا سورج بنتِ حوا کی عزت وناموس کی پامالی کی خبرنو لے کرآئے گا اور پھر دنیا بہ چشم عبرت نگاہ دیکھے گی کہ وہ مقامات، جو انسان کو تہذیب وشائستگی اور انسانیت کا درس دینے، قوم ووطن کے جاں سپار خادم اور معاشرے کے معزز وکامیاب افراد تیار کرنے کے لیے منتخب کیے گئے تھے؛ محض حیوانیت وبہیمیت اور شہوت رانی وہوس کاری کے اڈے بن کر رہ گئے۔ (لاقَدَّر اللّٰہ ذلک)
خواتین کو تعلیم دی جائے، اسلام قطعاً اس کی مخالفت نہیں کرتا؛ بلکہ وہ تو اس کی حد درجہ تاکید کرتا ہے، جیساکہ ماقبل میں بتایاگیا؛ لیکن یہ ملحوظ رہے کہ ان کی تعلیم وہی ہو، جو ان کی فطرت، ان کی لیاقت اور ان کی قوتِ فکر وادراک کے مناسب ہو اور ان کی عفت کی حفاظت میں ممدومعاون ہو، نہ کہ ایسی تعلیم، جو انھیں زمرئہ نسواں ہی سے خارج کردے اور شیاطینُ الانس کی درندگی کی بھینٹ چڑھا دے، اللہ تعالیٰ سود وزیاں کی صحیح فہم کی توفیق بخشے۔ (آمین)


حواشی
(۱) صحیح بخاری، کتاب العلم، باب تعلیم الرجل امتہ واہلہ، ج:۱، ص:۲۰، صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب وجوب الایمان برسالة نبینا الخ، ج:۱، ص:۸۶۔
(۲) مرقات، ملا علی قاری، ج:۱،ص:۷۹۔
(۳) فتوح البلدان، بلاذری، ج:۱،ص:۴۵۸۔
(۴) صحیح بخاری، کتاب العلم، باب ہل یجعل للنساء یوما علی حدة فی العلم ج:۱،ص:۵۷۔
(۵) الاستیعاب، ابن عبدالبر، ج:۲،ص:۷۲۶۔
(۶) الاستیعاب، ابن عبدالبر، ج:۲،ص:۷۵۶۔
(۷) تہذیب التہذیب، ابن حجر عسقلانی ج:۱۱، ص:۴۰۹۔
(۸) الاستیعاب، ابن عبدالبر، ج:۲،ص:۷۶۰۔
(۹) تہذیب التہذیب، ابن حجر عسقلانی، ج:۱۱، ص:۴۰۹۔
(۱۰) صفة الصفوہ، ابوالفرج عبدالرحمن ابن الجوزی، ج:۴،ص:۱۶۔
(۱۱) تاریخ اسلام کی چار سو باکمال خواتین، طالب الہاشمی ص:۱۲۲-۱۲۳۔
(۱۲) کنزل العمال، باب اللہو واللعب والغنی، حدیث:۴۰۶۱۱۔
(۱۳) سورہٴ نساء آیت:۳۲۔
(۱۴) مجمع الزوائد، نورالدین ہیثمی، ج:۴، ص:۳۲۷۔
(۱۵) صحیح بخاری، کتاب اللباس، باب المتشبہین بالنساء والمتشبہات بالرجال، ج:۲، ص:۸۷۴۔
(۱۶) شذراتِ فکر اقبال، علامہ اقبال، ص:۱۴۷۔
(۱۷) روزگارِ فقیر، ج:۱، ص:۱۶۶۔
(۱۸) ص:۸۵۔
(۱۹) ص:۲۰۸۔
(۲۰) اکبرنامہ، عبدالماجد دریابادی، ص: ۱۰۵-۱۰۷ ، و ۱۱۰-۱۱۳ ملخصاً۔
(۲۱) النور آیت: ۵۸۔
(۲۲) سنن ابی داؤد، کتاب النکاح، باب ما یوٴمر من غض البصر، ج:۱، ص:۲۹۲، صحیح مسلم، کتاب الأدب، باب نظر الفجاء ة، ج:۲، ص:۲۱۲۔
(۲۳) سنن ابی داؤد، کتاب النکاح، باب مایوٴمر من غض البصر، ج:۱، ص:۲۹۲۔
(۲۴) سنن ترمذی، ابواب الاستیذان والأدب، باب ما جاء فی احتجاب النساء من الرجال، ج:۲، ص:۱۰۶۔
(۲۵) صحیح بخاری، کتاب العلم، باب عظة النساء وتعلیمہن، ج:۱،ص:۲۰۔ صحیح مسلم، کتاب صلوة العیدین، فصل فی الصلوٰة قبل الخطبة، ج:۱،ص:۲۸۹۔
(۲۶) سنن ابی داؤد، کتاب الأدب، باب فی مشی النساء فی الطریق، ج:۲، ص:۷۱۴۔
(۲۷) خواتین اسلام کی دینی وعلمی خدمات، قاضی اطہر مبارک پوری، ص:۲۳، تاریخ جرجان، امام سہمی، ص:۴۶۳۔
(۲۸) خواتین اسلام کی دینی وعلمی خدمات، قاضی اطہر مبارک پوری، ص:۳۳۔
(۲۹) پردہ، سید ابوالاعلیٰ مودودی، ص:۵۴۔
(۳۰) فریب تمدن،اکرام اللہ ایم اے، ص:۱۵۸، افکارِ عالم، اسیر ادروی، ج:۱، ص:۲۲۶۔
(۳۱) صدقِ جدید، عبدالماجد دریابادی، ۲۶/دسمبر ۱۹۶۰/، فریب تمدن، اکرام اللہ ایم ایے، ص:۱۸۷،افکارِ عالم، اسیرادروی ج:۱،ص:۲۲۸۔
(۳۲) صدق جدید، عبدالماجد دریابادی، ۶/جنوری ۱۹۵۶/، فریب تمدن، اکرام اللہ ایم اے، ص:۱۸۹، افکارِ عالم، اسیرادروی، ج:۱،ص:۲۲۹۔

***

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 2 ، جلد: 96 ‏، ربیع الاول 1433 ہجری مطابق فروری 2012ء

Related Posts