حبیب الرحمن اعظمی

علمی دنیا میں یہ بات معلوم ومعروف ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمة الله عليه اور ان کے متبعین علماء وفقہاء شرعی امور میں قرآن وحدیث کی جس قوت وشدت اور ہمہ گیری کے ساتھ پیروی کرتے ہیں وہ مذاہب فقہاء و محدثین میں ان کا ایک خاص امتیازی وصف ہے۔ کیوں کہ دیگر بہت سارے مجتہدین کی طرح امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه صرف مرفوع حدیث ہی کو حجت نہیں مانتے بلکہ وہ مرفوع احادیث کے ساتھ موقوف ومرسل حدیثوں کو بھی فقہی احکام ومسائل میں لائق استدلال مانتے ہیں، چنانچہ امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه نے اپنے اصول اجتہاد کو خود ان لفظوں میں بیان کیا ہے۔

اِنِّیْ آخُذُ بکتاب اللّٰہ اذا وجدتہ، فما لم اجدہ فیہ اخذت بسنة رسول اللّٰہ والآثار الصحاح عنہ التی فشت فی ایدی الثقات عن الثقات، فاذا لم اجد فی کتاب اللّٰہ ولا سنة رسول اللّٰہ اخذت بقول اصحابہ من شئتُ وادَعُ قولَ من شت، ثم لا آخرُج عن قولہم الی قولِ غیرہم.

واذا انتہی الامرُ الی ابراہیم، والشعبی، والحسن، وعطاء، وابن سیرین، وسعید بن المسیب – وعدَّدَ رجالا – فقوم قد اجتہدو فلی ان اجتہدَ کما اجتہدوا(۱)

(الانتقاء للامام الحافظ ابن عبدالبر مع تعلیق الشیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمة الله عليه، ص: ۲۶۴-۲۶۵)

ترجمہ: میں (شرعی احکام میں) اللہ کی کتاب پر عمل کرتا ہوں جب وہ احکام مجھے کتاب الٰہی میں مل جائیں، اور جو احکام مجھے قرآن میں نہیں ملتے تو پھر سنت رسول اللّٰہ اور ان صحیح آثار پر عمل کرتا ہوں جو ثقہ راویوں سے منقول ہوکر ثقہ راویوں میں پھیل چکے ہیں، اوراگر کتاب الٰہی اورحدیث نبوی (دونوں) میں نہیں پاتا تو آپ صلى الله عليه وسلم کے صحابہ کے اقوال میں سے جسے چاہتا ہوں لے لیتا ہوں اور جسے چاہتاہوں چھوڑ دیتا ہوں(البتہ حضرات صحابہ کے قول سے باہر نہیں جاتا کہ) سارے صحابہ کے قول کو چھوڑ کر دوسرے کے قول کو اختیار کرلوں۰

اور جب نوبت ابراہیم نخعی، عامر،شعبی، محمد بن سیرین، حسن بصری، عطاء اور سعید بن مسیب (رحمہم اللہ) وغیرہ متعدد حضرات تابعین کے نام شمار کئے) تک پہنچتی ہے تو ان حضرات نے اجتہاد کیا لہٰذا مجھے بھی حق ہے کہ ان حضرات کی طرح اجتہاد کروں۔ یعنی ان حضرات کے اقوال پر عمل کرنے کی پابندی نہیں کرتا بلکہ ان ائمہ مجتہدین کی طرح خدائے ذوالمنن کی بخشی ہوئی اجتہادی صلاحیتوں کو کام میں لاتا ہوں اور اپنے فکر واجتہاد سے پیش آمدہ مسائل کو حل کرتا ہوں۔

امام ابن حجر ہیثمی مکی امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه کا ایک قول یوں نقل کرتے ہیں:

”لیس لاحدٍ ان یقول برائہ مع کتاب اللّٰہ تعالٰی ولا مع سنة رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا ما اجمع علیہ اصحابہ“ (خیرات الحسان، ص:۲۷)

کسی شخص کو کتاب الٰہی، وسنت نبوی اور حضرات صحابہ کے اجماع کے مقابلے میں رائے زنی کاکوئی حق نہیں ہے۔

امام صاحب نے ان اقوال میں اپنے اصول اجتہاد کو واضح اور صاف لفظوں میں بیان کردیا ہے کہ وہ رائے واجتہاد سے اسی وقت کام لیتے ہیں جب انہیں کسی مسئلہ میں کتاب اللہ، سنت رسول اللہ، اور حضرات صحابہ کے اقوال میں کوئی حکم نہیں ملتا۔ پھر ان اجتہادی مسائل میں بھی وہ اس درجہ احتیاط برتتے ہیں کہ حدیث ضعیف کے مقابلے میں بھی اپنے فکر واجتہاد کو چھوڑ دیتے ہیں، چنانچہ علامہ ابن القیم اپنی مشہور وگرانقدر کتاب اعلام الموقعین میں لکھتے ہیں:

واصحاب ابی حنیفة رحمہ اللّٰہ مجمعون علی ان مذہب ابی حنیفة ان ضعیف الحدیث عندہ اولٰی من القیاس والرایٴ وعلی ذلک بنی مذہبہ“ (ج:۱،ص:۷۷)

امام ابوحنیفہ کے تلامذہ ومتبعین کا اس بات پر اتفاق واجماع ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه کا مذہب یہ ہے کہ ضعیف حدیث بھی ان کے نزدیک قیاس ورائے سے اولیٰ وبہتر ہے اسی نظریہ پر انھوں نے اپنے مذہب کی بنیاد رکھی ہے۔

اس موقع پر یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ اجتہادی مسائل میں امام صاحب احادیث وآثار سے آزاد ہوکر کبھی کوئی رائے قائم نہیں کرتے تھے بلکہ وہ اس کا خاص اہتمام کرتے تھے کہ شرعی احکام میں جو رائے بھی قائم کریں وہ سنت واثر کے تابع ہو۔ پس یوں سمجھنا چاہیے کہ ظاہر میں تو وہ امام صاحب کا قول ہوتا تھا لیکن حقیقت میں وہ حدیث کی تفسیر وتوضیح ہوتی ہے، اسی لیے سرتاج محدثین امام عبداللہ بن مبارک فرمایا کرتے تھے۔

ولا تقولو رأیُ ابی حنیفة رحمہ اللّٰہ تعالیٰ ولکن قولوا انہ تفسیر الحدیث“ (ذیل الجواہر المضیة، ج:۲،ص:۴۶۰)

لوگو یہ نہ کہا کرو کہ یہ ابوحنیفہ رحمة الله عليه کی رائے ہے بلکہ یوں کہو کہ یہ حدیث کی تفسیر وبیان ہے ایک دوسرے موقع پر انہی امام المحدثین عبداللہ بن مبارک رحمة الله عليه نے امام صاحب رحمة الله عليه کی اصابت رائے اوراس کی ضرورت واہمیت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے۔

”ان کان الاثر قد عرف واحتیج الی الرأی، فرأی مالک، وسفیان، وابی حنیفة، وابوحنیفة احسنہم وادقہم فطنة واغوصہم علی الفقہ، وہو افقہ الثلاثة“ (تاریخ بغداد للخطیب، ج:۱۳،ص:۳۴۳)

اگر حدیث معلوم ومعروف ہو اور (اس کی مراد کی تعیین میں) رائے کی ضرورت ہوتو امام مالک، امام سفیان ثوری اور امام ابوحنیفہ کی رائے (ملحوظ رکھنی چاہیے) اور امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه ان تینوں میں فہم وادراک میں زیادہ بہتر اور فقہ کی تہہ تک زیادہ پہنچنے والے تھے۔

اور امام المحدثین سفیان بن عیینہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه نے کوئی بات حدیث سے ہٹ کر نہیں کہی ہے بلکہ انھوں نے جو بھی کہا ہے اس کی تائید میں ایک دو حدیث موجود ہے۔ چنانچہ مشہور ثقہ محدث علی بن خشرم کا بیان ہے کہ:

”کنا فی مجلس سفیان بن عیینة فقال: یا اصحاب الحدیث تعلموا فقہ الحدیث لا یقہرکم اصحاب الرأی، ما قال ابو حنیفة شیئاً الا ونحن نروی فیہ حدیثا او حدیثین“ (معرفة علوم الحدیث للحاکم، ص:۶۶)

ہم سفیان بن عیینہ کی مجلس میں تھے تو انھوں نے کہا اے حدیث سے اشتغال رکھنے والو، حدیث میں تفقہ حاصل کرو ایسا نہ ہو کہ تم پر اصحاب فقہ غالب ہوجائیں، امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه نے کوئی بات ایسی نہیں بیان کی ہے کہ ہم اس سے متعلق ایک، دو حدیثیں روایت نہ کرتے ہوں۔

امام سفیان بن عیینہ نے اپنے اس ارشاد میں حاضرین مجلس کو دو باتوں کی طرف متوجہ کیا ہے ایک یہ کہ وہ الفاظ حدیث کی تحصیل و تصحیح کے ساتھ حدیث کے معنی وفقہ کے حاصل کرنے کی بھی سعی کریں دوسرے امام صاحب کی اصابت رائے اور بصیرت فقہ کی تعریف میں فرمایاکہ ان کی رائے وفقہ حدیث کے مطابق ہے کیوں کہ وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں اس کی تائید وتوثیق کسی نہ کسی حدیث سے ہوجاتی ہے۔ اس کمالِ اصابت رائے اور بے نظیر فقہی بصیرت کے باوصف تواضع وبے نفسی اور وسعت نظری وکشادہ ذہنی کا یہ عالم تھا کہ برملا فرماتے تھے۔

”ہذا الذی نحن فیہ رایٌ لا نُجبر احدا علیہ ولا نقول: یجب علی احد قبولہ بکراہة فمن کان عندہ شیء احسن منہ فلیات بہ“ (الانتقاء مع تعلیق شیخ عبدالفتاح ابوغدہ، ص:۲۵۸)

یہ بات جو ہم کہہ رہے ہیں یہ (ہماری) رائے ہے کسی کو اس پر ہم مجبور نہیں کرتے، اورنہ یہ کہتے ہیں کہ ناپسندیدگی کے باوجود کسی پر اس کا قبول کرنا واجب ہے۔ اور اگر کسی کے پاس اس سے بہتر رائے ہوتو وہ اسے پیش کرے۔ (یعنی ہم اسے بسر وچشم قبول کرلیں گے)

امام خطیب بغدادی نے اپنی سند سے امام صاحب کا یہ بیان نقل کیا ہے۔

”ہذا رأی ہو احسن ما قدرنا علیہ فمن جاء نا باحسن من قولنا فہو اولی بالصواب منّا“ (تاریخ بغداد، ج:۱۳، ص:۳۵۲)

یہ ہماری رائے ہے اور ہماری وسعت وقدرت کے مطابق یہ بہترین رائے ہے، اگر کوئی شخص ہمارے سامنے ہماری اس رائے سے بہتر رائے پیش کرے گا تو وہ ہمارے مقابلہ میں درستگی سے زیادہ قریب ہوگا۔

امام صاحب کی اسی اصابت رائے بے مثال فقہی بصیرت اور احادیث وآثار کی حد درجہ اتباع وپیروی پھر اس پر مستزاد کشادہ نظری اور تواضع وانکساری کا ثمرہ ہے کہ آج بھی جبکہ اعجاب کل ذی رأی برائہ کا ظہور اپنے شباب پر ہے اور خود پسندی وخودداری کا عام شیوع ہے پھر بھی عالم اسلام کی غالب اکثریت انہیں کی فقہ اور تفسیر نصوص کو حرز جان بنائے ہوئے ہے، ذلک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء.

***

———————————–

ماهنامه دارالعلوم ، شماره 11 ، جلد: 94 ذيقعده  – ذىالحجة 1431 ھ مطابق نومبر 2010 ء

Related Posts