(رباعیات)
نتیجہٴ فکر: ولی اللہ ولی قاسمی بستوی،استاذ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم
اکل کوا، نندور بار، مہاراشٹر
نمونہٴ اسلاف، پیکرِ علم وعمل، جناب حضرت مولانا نصیر احمد خاں صاحب بلندشہریؒ
سابق شیخ الحدیث، صدرالمدرسین ونائب مہتمم دارالعلوم دیوبند
————————-
پیکرِ علم وعمل تھے ، شیخ مولانا نصیر مشعلِ راہِ عمل تھے ، شیخ مولانا نصیر
گلشنِ علم وہنر کے اک شگفتہ پھول تھے ایک تابندہ کنول تھے ، شیخ مولانا نصیر
——————-
حاملِ فیضانِ رحماں ، زینتِ دارالحدیث رونقِ محفل رہے وہ ، رنگتِ دارالحدیث
مسندِ علم وہنر کو وہ لگائے چار چاند ان سے دوبالا رہی ہے ، عظمتِ دارالحدیث
——————-
میکشوں کو دے رہے تھے ، بادئہ علم وہنر دے رہے تھے طالبوں کو ، علم کے لعل وگہر
قیمتی موتی لٹاتی تھی زبانِ دُر فشاں شامِ ظلمت کے لئے تھے ، علم کی نوری سحر
——————-
نازشِ صحنِ چمن تھے ، رونقِ باغ علوم ناز فرماتا تھا ان پر گلشنِ دارالعلوم
وہ تھے قندیلِ فروزاں ، مطلعِ نورِ عمل مادرِ علم وہنر میں ہر طرف ان کی تھی دھوم
——————-
وہ رہے ہیں مدتوں ، قسّامِ میراثِ رسول گلشنِ علم وہنر کے وہ رہے خوش رنگ پھول
تھی طبیعت میں نفاست ، تھے مدرس کامیاب تھے کشادہ دل ، وسیع العلم ، پابندِ اصول
ان کا سینہ علم وفن کا موجہٴ ذخّار تھا ہاں وجودِ پاک ان کا رونقِ گلزار تھا
عشق کی گرمی سے جو معمور تھا آٹھوں پہر ان کے سینے میں دھڑکتا وہ دلِ بیدار تھا
——————-
ان کی پیشانی پہ روشن ، معرفت کا نور تھا ان کا باطن ، عشق کے اسرار سے معمور تھا
دل تھا فکرِ آخرت میں ہر گھڑی ڈوبا ہوا اور دنیا کی محبت سے وہ کوسوں دور تھا
——————-
درس اور تدریس تھا محبوب ان کا مشغلہ دینِ رحمت کی اشاعت کا رہا ہے حوصلہ
نامِ حق پر زندگانی کا رہا جاری سفر خیریت سے کررہے تھے طے وہ ہر ہر مرحلہ
——————-
خوش ادا ہر موڑ پر تھے ، قیمتی ہر بات تھی ان کی ہر مجلس میں ارزاں علم کی سوغات تھی
جلوئہ باری سے روشن ، دن کے سب اوقات تھے معرفت کے نور سے معمور ان کی رات تھی
——————-
ہے ”ولی“ کی یہ دعا اے خالقِ ربّ قدیر قبر میں آرام پائیں خوب ، مولانا نصیر
تربتِ مرحوم میں ، فردوس کی آئے بہار حشر کے میدان میں بن جائے تو ان کا نصیر
——————-
***
ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 5 ، جلد: 94 ، جمادی الاول – جمادی الثانی 1431ہجری مطابق مئی 2010 ء