از: محمد تبریز عالم قاسمی ، معین مدرس دارالعلوم دیوبند
اس دنیا میں آنے جانے کا سلسلہ جاری ہے، لیکن کچھ آنے والے ایسے بھی ہوتے ہیں، کہ ان کی زندگی انفراد وامتیاز سے عبارت ہوتی ہے۔ دنیا ان کی صلاحیت واستعداد کو سلام کرتی ہے۔ دنیا والے اس کے ناقابل فراموش کارہائے نمایاں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ اس کے علم و عمل کی دلکشی، واقعی سحر انگیز ہوتی ہے۔ مگر ایسی سعید اور قابل فخر شخصیات کم ہوا کرتی ہیں۔ ان کا وجود مسعود، دنیا میں جب تک ہوتا ہے، قلوب ان سے مستفیض ہوتے ہیں۔ انھیں دیکھ کر، دیکھتے رہنے کے مشتاق ہوتے ہیں اور یہ بھی واقعہ ہے کہ اگر ایسی جماعت کا کوئی فرد کامل، اپنی آخری اور حقیقی منزل کیلئے، شدر حال کرلیتا ہے تو کچھ عجب سا سونا سونا لگنے لگتا ہے۔ کچھ؛ بلکہ بہت کچھ کھوجانے کا شدید احساس ہوتا ہے۔ طبیعت اضطراب و بے چینی سے دوچار ہوتی ہے۔
گرامی قدر، حضرت الاستاذ مولانا نصیر احمد خاں صاحب، نوراللہ مرقدہ، سابق شیخ الحدیث وصدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند (پیدائش ۲۱/ربیع الاوّل ۱۳۳۷ھ مطابق ۲۳/دسمبر ۱۹۱۸ء) بھی انھیں مرد حقانی میں سے ایک تھے، جو ۱۹/صفر ۱۴۳۱ھ مطابق ۴/فروری ۲۰۱۰ء بروز جمعرات رحمت الٰہی کے سائے میں پہنچ گئے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون.
حضرت الاستاذ، اس دور کے اکابر دارالعلوم دیوبند کے سلسلے کی آخری کڑی تھے۔ راقم الحروف نے دارالعلوم دیوبند میں جن موقر اساتذہ سے پڑھا، انہیں دیکھا اور حددرجہ متاثر ہوا، حضرت ان میں سرفہرست تھے۔ ۱۴۲۷ھ میں جب دورئہ حدیث شریف میں داخلے کے بعد، پہلے یا دوسرے ہی دن حضرت کا دیدار ہوا۔ عجیب نورانی سماں تھا۔ دارالحدیث میں چاروں طرف، طلبہ حدیث اور ان کے درمیان مسند حدیث پر ایک فرشتہ صفت اور روشن رخ، بزرگ وعظیم محدث، واقعی بڑا ہی مسحور کن منظر تھا۔ معلوم ہورہا تھا؛ کہ پررونق ستاروں کی جھرمٹ میں کوئی روشن ماہ کامل طلوع ہوگیا ہے۔ ایسا نورانی چہرہ کہ دیکھ کر ایمان تازہ ہوجائے۔
حضرت الاستاذ؛ استاذ ہی نہیں؛ بلکہ استاذ الاساتذہ تھے۔ دارالعلوم دیوبند میں ابتدائی مدرسین سے لے کر شیخ الحدیث تک، سب آپ کے شاگرد ہیں۔ شاید ہی کوئی مستثنیٰ ہو؛ بلکہ آج پوری دنیا میں قاسمی نسبت کے اساتذہ، یا تو حضرت کے شاگرد ہیں، یا شاگرد کے شاگرد۔ کچھ نہیں تو شاگرد کے درجہ کے تو ضرور ہیں۔ حد درجہ متین، طبیعت نہایت سلیم، سادہ مگر لطیف ونظیف لباس کے عادی، آواز بلند لیکن لب ولہجہ نہایت شیریں، علم نافع وعمل صالح کا سنگم، کم گو؛ لیکن بولتے تو کلام نہایت مرتب اور جامع ہوتا تھا، بوقت ضرورت اور بقدر ضرورت ہی کلام فرماتے، قلب، تقوی واخلاص سے لبریز، ملنساری وخاکساری میں اپنی مثال آپ، صحابہ، کی جیتی جاگتی تصویر، قدوقامت معتدل، آنکھوں پر ایک چشمہ، ہاتھ میں عصا، گردن اور نگاہیں نیچی، زندگی سادگی لیے ہوئے؛ لیکن خیالات وافکار اونچے، مزاج سنجیدہ وفہمیدہ؛ مگر رعب غضب کا، سلف وخلف کی یادگار، جملہ علوم وفنون کے ماہر، علم حدیث میں ماہر ترین، چھوٹوں پر ایسے شفیق؛ کہ کسی طالب علم کو جائز اور ضروری تنبیہ کے بعد دل جوئی کے کلمات کہنے میں ذرا بھی تامل نہ کرتے، مجھ جیسے ادنیٰ طالب علم کے ذہن میں حضرت کا یہی خاکہ مرتسم ہے۔
حضرت شیخ اوّل اور بخاری شریف
روئے زمین پر، کتاب اللہ کے بعد اگر کوئی کتاب اصحیت کا درجہ رکھتی ہے، تو وہ ہے محمد بن اسماعیل بخاری کی ”جامع صحیح“ جسے ہم بخاری شریف کہتے ہیں، جس کے مقام ومرتبہ سے علمی دنیا خوب واقف ہے۔ اس کے پڑھانے والے کو اپنے دیار میں ”شیخ الحدیث“ جیسے عظیم المرتبت لقب سے جانا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی صحیح ہے؛ کہ ایسے خوش بخت حضرات من جانب اللہ منتخب ہوتے ہیں اور بہت کم ہوتے ہیں، جو واقعی اس عظیم کتاب کو پڑھاسکیں اور اس کا حق ادا کرسکیں۔ یہ خوش نصیبی ہمارے شیخ کے حصے میں بھی آئی اور خوب آئی؛ کہ کم وبیش ۳۳ سالوں تک یہ کتاب آپ سے متعلق رہی۔ چنانچہ ایک طرف آپ اپنی قابلیت اور لیاقت کی وجہ سے ۱۳۹۷ھ میں ”مشیخیت“ کے بڑے اعزاز سے سرفراز ہوئے، جس کا سلسلہ محض علالت، ضعف اور پیری کی وجہ سے ۱۴۲۹ھ میں موقوف ہوگیا تو دوسری طرف ۱۴۱۲ھ میں صدارت تدریس کے پروقار عہدے پر بھی فائز کئے گئے، اور ۱۴۲۹ھ تک پورے سترہ سال اس عہدے پر رونق افروز رہے۔
کچھ یادیں کچھ باتیں
دارالحدیث میں، مولسری کے راستے نازک چھڑی کے سہارے، حضرت کی تشریف لانا، مائک کے سامنے آکر، سلام کرنا، پھر چہار زانو ایک ہی نشست پر بیٹھ کر درس میں مصروف رہنا ابھی بھی حافظے کا حصہ ہے، اکثر اوقات پروقار رہتے اور کبھی مسکراتے بھی تھے، آپ کے مسکرانے سے پوری دارالحدیث عطربیز ہوجاتی تھی، کبھی آخرت کے تذکرے یا سرکار دوعالم … کے مجاہدے اور تکالیف کے ذکر پر آبدیدہ ہوجاتے، آپ کے رونے پر پوری مجلس روپڑتی تھی، یہ تھا درس گاہ کا منظر۔ اختتام درس پر، پُروقار انداز میں اٹھنا، پیچھے پیچھے طلبہ کی بھیڑ اور ”اہتمام“ میں جانے والی سیڑھی کے سہارے رکشہ پر بیٹھنا اور بیٹھ کر موجود طلبہ کو ایسے مشفقانہ انداز میں سلام کرنا؛ کہ دیر تک اس کی خوشبو محسوس ہوتی، آج اس منظر اور اس کی یادوں سے دل بیٹھ جاتا ہے۔ شوال کی گہما گہمی میں آغاز تعلیم کے موقعہ پر، اولین کلیدی درس حضرت کا ہوتا، صبح سے ہی خوب رونق اور چہل پہل، طلباء قدیم و جدید میں جوش وخروش، شیخ کی آمد، اور پہلے دن کتاب بخاری اور صاحب کتاب پر دیر تک ٹھہرا ہوا اور دلکش بیان حافظے سے مٹانا بہت مشکل ہے۔ ایسی ہی ایک پررونق اور روحانی فضا، آخر سال میں ختم بخاری کے وقت ہوتی اور وہ منظر تو بڑا ہی اندوہ گیں، دل سوز اور رلانے والا ہوتا، آخری درس میں مختصر الواعی نصیحتیں فرماتے اور دعا فرماتے جس میں طلبہٴ دارالعلوم کے علاوہ اہلیان دیوبند اور دور دراز کے لوگ شریک ہوتے۔ ۱۴۲۷ھ ایسا سال تھا کہ حضرت نے اس سال آخری بار پوری بخاری جلد اوّل پڑھائی۔ اس کے بعد دوسالوں تک پڑھائی مگر بیچ بیچ میں طبیعت کی ناسازگی کی وجہ سے وقفہ ہوا، اس سال ہمیں آخری نصیحت کی کہ: ”اب آپ کا سفر الی العلم ختم ہوا اور سفر فی العلم شروع ہورہا ہے۔“ اور دعا میں ایک جملہ فرمایا کہ: ”بچو! جب میری وفات کی اطلاع ملے تو ایصال ثواب کرنا۔“ جس پر کوئی بھی روئے بغیر نہ رہ سکا۔ آج احاطہ مولسری کا وہ راستہ جو آپ کی آمد ورفت کا گواہ ہے، دارالحدیث کا وہ مسند،جس پر آپ ایک عرصے تک جلوہ افروز رہے اور وہ طلبا واساتذہ جو آپ کے دیدار کے متمنی رہا کرتے تھے بہ زبان حال وہ بات کہنے پر مجبور ہیں جو کبھی کسی باذوق نے شیخ الاسلام مولانا مدنی نوراللہ مرقدہ کی وفات کے بعد کہی تھی کہ:
نہیں ہے پیر مَے خانہ مگر فیضان باقی ہے
ابھی تک میکدہ سے بوئے عرفانی نہیں جاتی
مدرسے کی چہاردیواری میں ایک شعر بہت مشہور ہے کہ:
ہمیں دنیا سے کیا مطلب مدرسہ ہے وطن اپنا
مریں گے ہم کتابوں پر ورق ہوگا کفن اپنا
حضرت شیخ، اس شعر کی مکمل تفسیر تھے۔ پڑھنے پڑھانے کے علاوہ، دوسرا کوئی کام ہی نہیں تھا۔ نہ اسفار، نہ ہی جلسے جلوس میں شرکت، اخیر ایام میں تو ”خدا، خود آپ اور کتاب بخاری اور بس“ کے مصداق تھے۔
ایک واقعہ
سال گذشتہ، غالبا ربیع الاوّل میں کسی کام سے حضرت کے گھر گیا۔ حسن اتفاق حضرت ملاقاتی کمرے میں تشریف فرما تھے۔ نقاہت وکمزوری ظاہر تھی لیکن خوش روئی اور آواز حسب سابق تھی۔ راقم ناچیزنے سعادت سمجھ کر فوراً سلام ومصافحہ کیا۔ حضرت کے استفسار پر میں نے بتایا کہ امسال شعبہ تدریب المعلمین (معین مدرسی) میں ہوں بہت خوش ہوئے اور چائے منگوائی، اور راقم کو ”استاذ“ کہہ کر مخاطب فرمایا۔ جس کے ہم حقیقی طور سے مستحق نہیں تھے وہ بھی حضرت کی زبان سے، لیکن کیا کیجئے شفقت ومحبت اور پدرانہ معاملہ بھی تو اسی دنیا کی ایک چیز ہے۔ پھر نصیحت فرمائی کہ ”بھائی اب مارکاٹ کا زمانہ ختم ہوگیا۔ طلباء پیار ومحبت سے پڑھا کرتے ہیں تو محنت سے پڑھائیں اور محبت سے پڑھائیں“ حضرت سے یہ ملاقات آخری ملاقات ثابت ہوئی۔ تصور میں بھی نہیں تھا کہ ایک سال بعد ہی حضرت ہم سے جدا ہوجائیں گے۔
حضرت بلاواسطہ مولانا حسین احمد المدنی نوراللہ مرقدہ کے شاگرد تھے۔ کبھی دوران درس حضرت شیخ الاسلام کا تذکرہ آتا، تو آب دیدہ ہوجاتے۔ واقعی حضرت کا وجود کبھی ہمیں احساس دلاتا تھا کہ ہم بھی ”اکابر واسلاف“ کے دور میں جی رہے ہیں۔ ہمیں اس پر فخر ہے کہ ہم نے حضرت کی ذات میں خیرالقرون کے باکمال افراد کا نمونہ، اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ حضرت کی اولاد سب وہ نہیں ہیں جو ان کی صلب سے پیدا ہوئیں؛ بلکہ ان کے سارے شاگردان ان کی روحانی اولاد ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو صبر جمیل عطا فرمائے اور حضرت کی بال بال مغفرت فرمائے اور درجات بلند فرمائے، آمین۔ آپ نے اپنی روحانی اولاد کی، اتنی کثیر تعداد چھوڑی ہے کہ حساب و شمار مشکل ہے۔ یہ سب یقینا حضرت کے لئے صدقہٴ جاریہ ہیں۔ خدام حدیث کی جب بھی فہرست تیار ہوگی؛ تو حضرت الاستاذ کا نام اولین لوگوں کے ساتھ سرفہرست ہوگا۔ اورآپ نے اپنی علمی زندگی سے جو مثالیں قائم کی ہیں انھیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا اور علمی سطح پر جو چھاپ چھوڑی ہے اس کا نقش ہمیشہ علماء و طلباء کی راہنمائی کا کام انجام دیتا رہے گا اور آپ کی خدمات جلیلہ بالخصوص حدیث کے حوالے سے ہمیشہ یاد کی جائیں گی۔ مولانا دریابادی کی کسی کتاب میں، کبھی ایک شعر نظر سے گذرا تھا۔ حضرت کی زندگی دیکھنے پر ایسا لگتاہے کہ یہ شعر انھیں کے بارے میں کہا گیا ہے، جو واقعیت وحقیقت سے لبریز ہے۔
مقبول جو ہوں شاذ ہیں، قابل تو بہت ہیں
آئینہ کے مانند ہیں کم، دل تو بہت ہیں
ماهنامه دارالعلوم ، شماره 4 ، جلد: 94 ، ربيع الثانى – جمادى الاول 1431 هـ مطابق اپریل 2010 ء