از: محمد شاہ نواز عالم قاسمی
جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
چودہ سو برس سے زیادہ زمانہ گذرا کہ رب العالمین نے ظلمت کدہ عالم کو نور بخشنے والا وہ پیغمبر بھیجا جس کے ہاتھ میں سیادت رسل کا علم اور سرپرخاتمیت انبیاء کا تاج تھا۔ اللہ جل جلالہ نے اپنے پیغمبر کو ایسی شریعت کاملہ عطا فرمائی کہ اس کے بعد قیامت تک نوع انسانی کے لیے کسی مذہبی قانون اور نئی شریعت کی ضرورت درپیش نہ ہوگی۔
مگر مسلمانوں نے اس شریعت مطہرہ پرکاربند ہونے کی بجائے ایسے رسوم وقیود اپنالیے جو ہندؤوں اور غیرمسلم اقوام سے درآمد شدہ ہیں جومسلمانوں میں غیرمسلموں کے ساتھ میل جول اوراسلامی تعلیم کے فقدان کے سبب پیدا ہوگئے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ عام سادہ لوح مسلمان ان باطل رسوم کو اسلام کا نام دے رہے ہیں اور اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ یہ دین ہے۔!!
افسوس ان حضرات پر ہے جوبدعات و رسوم کی حقیقت سے آگاہی کے باوجود محض دنیوی اغراض اور عاجلانہ مقاصد کے حصول اور سیم وزر کی لالچ میں بدعتوں وجاہلانہ روایتوں کو سنت کا نام دے کر عوام کو تاریکی کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں؛ بلکہ ان بدعتوں و خرافات کو سنت ثابت کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں۔
آج کل ہمارے معاشرے میں بدعات و خرافات کارواج ہے، باطل نظریات اور غلط عقائد وافکار کی حکمرانی ہے، اہل باطل ان بدعتوں پر دین کا لیبل چسپاں کرکے عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں اور عوام اس پر عمل پیرا ہوجاتے ہیں، رفتہ رفتہ وہ بدعتیں پھیل جاتی ہیں اور معاشرے میں اس کی جڑیں مضبوط ہوجاتی ہیں۔ ان بدعتوں میں سرفہرست ”عیدمیلاد النبی“ ہے، جسے معاشرے کے اکثر افراد دین تصور کرتے ہیں اور عبادت سمجھ کر منائی جاتی ہے، جلوس نکالے جاتے ہیں، جلسوں کا اہتمام کیاجاتا ہے، محفل میلاد منعقد کی جاتی ہے۔
یہ ایک سچائی ہے کہ اسلام میں حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کا مقام انتہائی اونچا ہے، کوئی دوسرا وہاں تک رسائی نہیں حاصل کرسکتا، نیز حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کے حالات سے مسلمانوں کو آگاہ کرنا اسلام کا اہم ترین فریضہ ہے اوراس میں مسلمانوں کی کامیابی کا راز مضمر ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کی ولادت خوشی کا باعث ہے۔ مسلمانوں کے دلوں میں حضور صلى الله عليه وسلم کی پیدائش کی خوشی ہونا فطری اور طبعی بات ہے؛ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حضور صلى الله عليه وسلم کی ولادت کی خوشی میں بدعات وخرافات کا سلسلہ شروع کردیا جائے جیساکہ آج کل کیاجاتا ہے۔ آں حضور صلى الله عليه وسلم نے صاف ارشاد فرمایا: تم پر میری اور میرے خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرنا لازم ہے، ان کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور نئی نئی باتوں سے دور رہو؛ اِس لیے کہ دین میں ہر نئی بات (جس کا حکم نہ دیاگیا ہو) بدعت ہے۔ (مستدرک حاکم، ج:۱، ص:۹۶)
اس مروّجہ میلاد کا اسلام میں کہیں ثبوت نہیں ہے؛ بلکہ یہ مروّجہ میلاد ساتویں صدی ہجری کی پیداوار ہے۔ پوری چھ صدی تک اِس بدعت کا مسلمانوں میں کہیں رواج نہ تھا؛ نہ کسی صحابی رضى الله تعالى عنه نے، نہ تابعی رحمة الله عليه نے، نہ تبع تابعین رحمة الله عليه نے عید میلاد نبی منائی، نہ کسی محدث نے، نہ مفسر نے، نہ فقیہ نے؛ بلکہ سب سے پہلے میلاد منانے والی شخصیت موصل کے علاقے اربل کا ظالم، ستم شعار اور فضول خرچ بادشاہ ملک مظفرالدین ہے۔ ۶۰۴ھ میں سب سے پہلے اس کے حکم سے محفل میلاد منائی گئی۔ (دول الاسلام، ج:۲، ص:۱۰۴) امام احمد بن محمد مصری اپنی کتاب ”القول المعتمد“ میں لکھتے ہیں:
اس ظالم اورمسرف بادشاہ (ملک مظفرالدین) نے اپنے زمانے کے علماء کو حکم دیاکہ وہ اپنے اجتہاد پر عمل کریں اور اس میں کسی غیر کے مذہب کا اتباع نہ کریں تو اس وقت کے وہ علما جو اپنے دنیوی اغراض ومقاصد کی سرتوڑ کوششیں کررہے تھے اُن کی طرف مائل ہوئے، جب اُنھیں موقع ملا تو ربیع الاوّل کے مہینے میں عیدمیلاد النبی منانا شروع کیا۔ مسلمانوں میں سب سے پہلے عیدمیلادالنبی منانے والا شخص ملک مظفرالدین ہے جوموصل کے علاقے اربل کا بادشاہ تھا۔“
علامہ انور شاہ کشمیری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: یہ شخص ہر سال میلاد پر لاکھوں روپیہ خرچ کرتا تھا اس طرح اُس نے رعایاکے دلوں کو اپنی طرف مائل کرنا شروع کیا اوراس کے لیے ملک وقوم کی رقم کو محفل میلاد پر خرچ کرنا شروع کیا اوراس بہانے اپنی بادشاہت مضبوط کرتا رہا اور ملک وقوم کی رقم بے سود صرف کرتا رہا۔(فیض الباری، ج:۲، ص:۳۱۹)
علامہ ذہبی رحمة الله عليه رقم طراز ہیں: اس کی فضول خرچی اور اسراف کی حالت یہ تھی کہ وہ ہر سال میلادالنبی پر تقریباً تین لاکھ روپے خرچ کیا کرتا تھا۔ (دول الاسلام، ج:۲،ص:۱۰۳)
ذرا اُس باطل پرست اور کج فکر کی حالت بھی سن لیجئے جس نے محفل میلاد کے جواز پر دلائل اکٹھے کیے اور بادشاہ کو اس محفل کے انعقاد کے جواز کا راستہ بتایا اس کا نام ابوالخطاب عمرو بن دحیہ تھا۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة الله عليه اُس شخص کے بارے میں فرماتے ہیں: وہ شخص ائمہ کی شان میں گستاخی کیا کرتاتھا، زبان دراز، بے وقوف اور متکبر تھا اور دینی امور میں سست اور بے پرواہ تھا۔ (لسان المیزان،ج:۴،ص:۲۹۶)
یہ تو میلاد کی ابتدائی تاریخ اور اُس کے موجد پر بحث تھی اب آئیے! علماے متقدمین ومتأخرین اس محفل میلاد کے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں۔
علامہ عبدالرحمن مغربی رحمة الله عليه لکھتے ہیں: میلاد منانا بدعت ہے؛ اِس لیے کہ اِس کو حضور صلى الله عليه وسلم نے کیا ہے نہ اِس کے کرنے کو کہا ہے۔ خلفائے کرام نے میلاد منائی ہے اورنہ ائمہ نے۔ (الشریعة الالٰہیہ بحوالہ حقیقت میلاد،ص:۴۱)
علامہ سیوطی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں: اس میلاد کے بارے میں کوئی نص وارد نہیں ہوئی ہے؛ لیکن اس میں قیاس آرائی پر عمل کیا جاتا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ حرّانی دمشقی رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب ”اقتضاء الصراط المستقیم“ میں تحریر فرماتے ہیں: نصاری میلاد عیسیٰ علیہ الصلاة والسلام مناتے تھے، جب مسلمانوں کی اس طرف نظر ہوئی تو دیکھا دیکھی مسلمانوں نے یہ رسم اختیار کی؛ حال آں کہ سلف صالحین سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اگر یہ جائز ہوتی اوراس کے منانے میں خیر ہوتی، تو پہلے کے لوگ جو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے زیادہ محبت رکھتے تھے اوراچھے کام کرنے کے زیادہ حریص تھے؛ وہ مناتے؛ لیکن سلف صالحین کا میلاد نہ منانا یہ اس بات کابیّن ثبوت ہے کہ میلاد مروّجہ طریقے پر منانا درست نہیں ہے۔“
اس میں لوگوں کا یہ اعتقاد ہوتا ہے کہ یہ بڑی عبادت ہے حال آں کہ یہ بدعت ہے اوراس میں محرمات کا ارتکاب ہوتا ہے اور دیگر لوگوں کو اس کی طرف دعوت دی جاتی ہے۔ اگرمیلاد منائی جائے اور اس میں محرمات کا ارتکاب نہ ہو اور وہ تمام مفاسد نہ ہوں جو اس کے منانے میں ہوتے ہیں، تب بھی میلاد منانا بدعت ہے؛ کیوں کہ یہ دین میں زیادتی ہے اوراسلاف کا عمل نہیں ہے۔ اگر یہ کارِ خیر اور کارِ ثواب ہوتا تو سب سے پہلے سلف صالحین مناتے؛ لیکن اُن کا میلاد نہ منانا اس کا ثبوت ہے کہ یہ صحیح نہیں ہے۔ (مدخل، ج:۱، ص:۳۶۱)
مجدّد الف ثانی رحمة اللہ علیہ اپنے مکتوبات میں لکھتے ہیں: بالفرض اگر آں حضور صلى الله عليه وسلم اس دنیا میں زندہ ہوتے اور یہ مجلس منعقد ہوتی تو آیا وہ اس پر راضی ہوتے اوراس اجتماع کو پسند فرماتے تو اس سلسلے میں بندے کایقین یہ ہے کہ وہ ہرگز اسے قبول نہ فرماتے۔ (دفتر اوّل مکتوب،ص:۱۷۳)
علامہ نصیرالدین الاودی الشافعی علیہ الرحمہ سے کسی نے سوال کیا کہ میلاد منانا کیسا ہے؟ تو انھوں نے جواب میں فرمایا: محفل میلاد نہ منائی جائے؛ کیوں کہ سلف صالحین نے اختیار نہیں کیا ہم اسے کیسے اختیار کرلیں۔ (القول المعتمد)
علامہ شرف الدین رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: بعض امیر لوگ ہر سال محفل میلاد مناتے ہیں، اس میں بہت سے ناجائز تکلّفات پائے جاتے ہیں اور یہ محفل نفس پرستوں کی ایجاد کی ہوئی ہے جن کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ حضور صلى الله عليه وسلم نے کس چیز کا حکم دیا اور کس چیز سے منع کیا؟ اِس لیے یہ بدعت ہے۔ (القول المعتمد)
حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: مروّجہ میلاد اور اس میں مروّجہ قیام محدثہ، ممنوعہ ہیں، جو ناجائز اور بدعت ہیں۔ (عزیزالفتاوی:۹۹)
قطب ارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہ محفل چونکہ زمانہٴ فخردوعالم صلى الله عليه وسلم میں اور زمانہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور زمانہٴ تابعین وتبع تابعین اور زمانہٴ مجتہدین میں نہیں ہوئی، اِس محفل کا موجد چھ سو سال بعد کا ایک بادشاہ ہے جس کو اکثر اہل تاریخ فاسق لکھتے ہیں؛ لہٰذا یہ مجلس بدعت اور گمراہی ہے۔ عدم جواز کے واسطے یہ دلیل کافی ہے کہ قرونِ خیر میں اس کو کسی نے نہیں کیا۔ (فتاویٰ رشیدیہ،ص:۴۰۹)
حضرت مفتی محمد شفیع رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: موجودہ مروّجہ میلاد ہمارے نزدیک ناجائز اور بدعت ہے۔ (امداد المفتیین،ص:۷۹)
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ رقم طرازہیں: ذکر ولادتِ نبوی شریف صلى الله عليه وسلم مثل دیگر اذکارِ خیر کے ثواب اور افضل ہے اگر بدعات وقبائح سے خالی ہو۔ اس سے بہتر کیا ہے کما قال الشاعر:
وذکرک للمشتاق خیر شراب * وکل شراب دونہ کسراب
البتہ جیسا ہمارے زمانے میں قیودات اورشنائع کے ساتھ مروّج ہے اس طرح بے شک بدعت ہے۔ (امداد الفتاویٰ،ج:۵،ص:۲۴۹)
سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: میلاد منانا کسی کے لیے بھی جائز نہیں؛ اِس لیے کہ یہ بدعت ہے اور رسول اللہ صلى الله عليه وسلم، صحابہ اور تابعین سے ثابت نہیں۔ (فتاویٰ عبداللہ بن باز،ج:۱،ص:۲۶)
ایک اور جگہ شیخ رحمة الله عليه رقم طراز ہیں: عید منانا خواہ حضور صلى الله عليه وسلم کی پیدائش پر ہو یا کسی اور کی پیدائش پر ناجائز ہے؛ کیوں کہ حضور صلى الله عليه وسلم نے اِس طریقے پر عید نہیں منائی اورنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ عید منائی ہے، سلف امت کا بھی یہی فیصلہ رہا ہے اور خیراُن کی اتباع میں مضمر ہے۔
مولانا بدرعالم میرٹھی رحمة اللہ علیہ رقم طراز ہیں: مروّجہ میلاد حرام ہے؛ اِس لیے کہ یہ میلاد معاصی ظاہرہ وباطنہ پر مشتمل ہوتا ہے اور اس میں محرمات کا ارتکاب ہوتاہے موضوع روایات پڑھی جاتی ہیں، جن کی کوئی اصل نہیں ہوتی ہے اور سب سے بڑی غلطی یہ کہ آں حضرت صلى الله عليه وسلم کو عالم الغیب مانا جاتا ہے اور یہ عقیدہ رکھا جاتا ہے کہ آں حضرت صلى الله عليه وسلم اس محفل میلاد میں تشریف لاتے ہیں ان تمام امور کی وجہ سے اس محفل کا انعقاد حرام ہے۔
تمام علما، ائمہ، محدثین، مفسرین اور مفتیان کا اس پر اتفاق ہے کہ عید میلاد النبی منانا ناجائز اور بدعت ہے۔
عید میلاد النبی کے منانے والوں پر اگر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تواکثر ایسے افراد ملیں گے جو دین سے ناواقف اور احکام شریعت سے نا آشنا ہوتے ہیں؛ لیکن جوں جوں ربیع الاوّل کا مہینہ قریب آتا ہے ان افراد میں جوش وخروش پیداہوتا جاتا ہے اور یہ عیدمیلاد النبی منانے کی تیاری شروع کردیتے ہیں۔ اس کو اپنے تمام گناہوں کا کفارہ گردانتے ہیں۔ ان مجالس میں جن منکرات کاارتکاب ہوتا ہے اس سے اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائیں۔
یہ تھی عیدمیلاد النبی کی حقیقت اور مروّجہ میلاد کی مجالس کے منکرات کہ اس بے دینی کو دین کہا جارہا ہے اور اسے اسلام اور مسلمانوں کے نام سے پیش کیا جارہا ہے اور سادہ لوح عوام بھی پوچھے بغیر اس کو کرنے میں مصروف ہیں اور ان مجالس کے لیے زرکثیر صرف کررہے ہیں۔
خدارا! خواب غفلت سے بیدار ہوجائیے اوران ظاہری دل آویزیوں پر نہ جائیے، ان خرافات کی ظاہری چمک دمک دیکھ کر دھوکے میں نہ آئیے۔ ان بدبختانہ عقائد سے اپنا دامن چھڑائیے اور اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل پیرا ہونے کا عہد کیجئے، پھر آپ یہ کہہ سکیں گے کہ ہم ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہیں اور فلاح وکامیابی ہمارا مقدر ہے۔
اگر اس کے برعکس عمل کیاتو یاد رکھئے کہ زندگی ایک کتاب کی مانند ہے، ہر روز اس کتاب کا ایک صفحہ پلٹتا ہے اور پورے دن کی کارروائی اس پر محفوظ ہوجاتی ہے جب زندگی کی اس کتاب کے صفحات ختم ہوں گے تو آپ کے اعمال کی یہ کتاب بند ہوجائے گی اور آپ کو قبر میں اتارا جائے گا جہاں بیٹا ہوگا نہ بیوی، بھائی نہ بہن، والد نہ والدہ۔ وہاں آپ اکیلے ہوں گے جہاں آپ کا خاندان آپ کے کام نہیںآ ئے گا، آپ کے ساتھی کام نہ آئیں گے، اگر وہاں کوئی چیز فائدہ دے سکتی ہے تو وہ آپ کے نیک اعمال ہوں گے۔ اس سے ایک قدم آگے میدان حشر میںآ پ کو جواب دہ ہونا ہوگا۔ یہی کتاب اگر آپ کو دائیں ہاتھ میں ملی تو کامیاب خدانخواستہ اگر یہ کتاب بائیں ہاتھ میں ملی تو خسارہ ہی خسارہ ۔
ایسے وقت کے آنے سے پہلے اپنے کیے پر نادم ہوکر توبہ کیجئے اور آیندہ کے لیے حق کو حق کہیے اورحق کا ساتھ دیجئے۔ وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَنْصُرُہ. (۴۰/۱۷)
***
===================================
ایک تحقیقی کتاب
حسن صحیح فی جامع الترمذی / دراسة وتطبیق
طلبہ علم حدیث اور فضلاء کرام کو یہ جان کربے حد خوشی ہوگی کہ ”شیخ الہنداکیڈمی“ اور ”مکتبہ دارالعلوم دیوبند“ کے زیراہتمام اپنے موضوع پر انوکھی کتاب ”حسن صحیح“ تین جلدوں میں طبع ہوکر منظرعام پر آچکی ہے۔
ترمذی شریف کی اصطلاحات ”حسن“، ”حسن غریب“ اور ”حسن صحیح“ وغیرہ شروع سے اہل علم کے درمیان موضوع بحث اور معرکة الآراء رہی ہیں ضرورت تھی کہ ان اصطلاحوں پر بھرپور طریقہ سے بحث و تحقیق کرکے کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد کیا جائے۔
الحمدللہ مادرعلمی دارالعلوم کے اہم شعبہ ”تخصص فی الحدیث“ کے ذریعہ یہ کام اکابر اساتذہ کی نگرانی میں انجام پایا ہے، اس سلسلہ کی کتابیں ”الحدیث الحسن“ اور ”حسن غریب“ پہلے ہی شائع ہوکر علمی حلقوں میں مقبول ہوچکی ہیں، یہ تیسری اور سب سے اہم کڑی اب پیش خدمت ہے امید کہ حدیث شریف سے دلچسپی رکھنے والے طلبہ وفضلاء اسے جلد از جلد حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
عام قیمت: 700/= روپے مکمل تین جلدیں
ملنے کا پتہ: مکتبہ دارالعلوم بالمقابل جامع رشید، دیوبند
ماهنامه دارالعلوم ، شماره 3 ، جلد: 94 ربيع الاول – ربيع الثانى 1431 هـ مطابق مارچ 2010 ء