تعارف و تبصرہ
تبصرہ از: مولانا سرفرازاحمد قاسمی ، استاذ جامعہ ربانی منوروا شریف
اسلامی قانون ایک انتہائی مشکل موضوع ہے جس میں ہر دور کے بہترین دماغ خرچ ہوئے ہیں اور امت کے ذہین ترین لوگوں نے اس پرکام کیاہے، دیگر علوم وفنون کی طرح اس کی فنی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے لیکن اصل چیز جس نے ہر دور میں اس کو زندہ فن کے طورپر باقی رکھا ہے اور جس میں دنیا کا کوئی علم وفن اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا وہ ہے حالات زمانہ پراس کی تطبیق کا مسئلہ، یہ محض ایک فن نہیں ہے جو تحقیق وریسرچ کی چہاردیواری میں محدود رہے؛ بلکہ دنیا کی قیادت اس کے ہاتھ میں ہے، احوال زمانہ پر اس کی نظر ہے، سوسائٹی کا نظم وضبط اس کے ذمہ ہے، نظام اخلاق کی باگ ڈور اس کے پاس ہے، احوال وظروف کی تشکیل میں اس کا بڑا حصہ ہے،اگر معاشرہ پر اسلامی قانون کی حکمرانی نہ ہوتو انسان اور حیوان میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جائے گا، اسلامی قانون اخلاق اورانسان کی پرائیوٹ لائف سے بھی بحث کرتا ہے اور سیاسی اور اجتماعی نظام سے بھی،اسلامی قانون انسانی دنیا کے لئے خدا کا شاندار عطیہ ہے، انسانوں کا بنایا ہوا کوئی قانون اس کی ہمسری نہیں کرسکتا، جب تک دنیا پر اسلامی قانون کی حکمرانی قائم رہی دنیا میں امن وسکون اور خوشحالی وفارغ البالی بھی پورے طور پر باقی رہی لیکن جب سے دنیا اس قانون کے سایہ سے محروم ہوئی ہے بدامنی، بدچلنی، غربت وبھوک مری عام ہوئی، محبت ورواداری نے دم توڑدیا، انسانی قدریں پامال ہوئیں، سارا فلسفہ اخلاق کتابوں کے اوراق تک محدود ہوکر رہ گیا، عام زندگی سے اس کا کوئی تعلق باقی نہیں رہ گیا، قانون کو بازیچہٴ اطفال بنادیاگیا، دنیا کے کہترین دماغوں نے بھی اس پر دماغی زور آزمائی شروع کردی، جو قانون کے تعلق سے خود مخلص نہیں تھے ان کو عوامی انتخابات کے ذریعہ قانون سازی کا اختیار دے دیاگیا اس طرح قانون کو اپنی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ بنالیاگیا، دنیا نے اسلامی قانون سے محرومی کیا گوارا کی، زندگی کی ساری نعمتوں سے محروم ہوگئی، آج دنیاکو پھر اسی قانون کی ضرورت ہے، آج دنیا جس امن وسکون کی متلاشی ہے وہ صرف اور صرف قانون اسلامی کی نگرانی ہی میں حاصل کی جاسکتی ہے دنیا کے تمام تر قوانین اس کے سامنے بونے اور ادھورے ہیں سب نے اسلامی قانون سے خوشہ چینی کی ہے اور سینکڑوں برسوں سے ہزاروں دماغ اس کی ترتیب و تہذیب میں لگے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اپنے دور طفولیت سے بھی نہیں نکل سکے ہیں۔ (مستفاد ازکتاب ”قوانین عالم میں اسلامی قانون کا امتیاز۔ مصنفہ مولانا مفتی اختر امام عادل قاسمی)
آج دنیا کے سنجیدہ لوگ دوبارہ اسلامی قانون کے تعلق سے غور کرنا چاہتے ہیں، مگر کچھ ہمارے اپنوں کی نادانی اور کچھ غیروں کی عیاری کہ یہ بات صرف نظر یہ و تفکیر کی حد تک رہ جاتی ہے کوئی عملی صورت نہیں بن پاتی، ان حالات میں ہمارے ذہین اور مخلص لوگوں کو اس موضوع پر کام کرنے کی سخت ضرورت ہے، ادھر چند دہائیوں سے اسلامی علوم پر کام کرنے والوں میں یہ رجحان بڑھا ہے اوراس سلسلے کی بعض کاوشیں بھی سامنے آئی ہیں لیکن ابھی اس پرکوئی بہت بڑا کام نہیں ہوسکا ہے اورنہ اس کے لئے ہمارے یہاں کوئی خاص تیاری نظرآتی ہے چونکہ اس میدان میں آمدنی کم اور محنت زیادہ ہے اس لئے آرام پسند طبیعتیں اس کے لئے آمادہ نظر نہیں آتیں اورہر انسان مادہ اور سستی ترقی کی طرف بھاگتا نظر آتا ہے بلکہ المیہ یہ ہے کہ اس سلسلے کی جو بعض چیزیں آئی ہیں ان کو پڑھنے تک کو تیار نہیں ہیں، یہ بہت زیادہ اندیشہ کی بات ہے۔
عہد جدید میں اس موضوع پر جو کام ہوئے ہیں ان میں بہترین اور جامع ترین کام معروف فقیہ ومحقق حضرت مولانا مفتی اختر امام عادل قاسمی سابق استاذ حدیث اور صدر کلیة الشریعہ دارالعلوم سبیل السلام حیدر آباد وموجودہ مہتمم جامعہ ربانی منوروا شریف سمستی پور بہار کی شاہکار کتاب ”قوانین عالم میں اسلامی قانون کا امتیاز“ ہے، یہ میرے علم کی حد تک اس موضوع پر ایک جامع ترین کتاب ہے کئی ماہرین قانون اور علماء نے اس کو اس موضوع کا انسائیکلوپیڈیا قرار دیدیا ہے، یہ اس عہد کا شاندار علمی تحفہ ہے،اسلامی قانون کی تاریخ،اس کی روح واساس اور ذوق ومزاج، اصول وقواعد، امتیازات و خصوصیات،اسلامی قانون پر ہونے والے اعتراضات وشبہات کے تشفی بخش جوابات، فقہ اسلامی پر اب تک ہونے والے کاموں کا جامع اور دلچسپ تذکرہ، دنیا کے بڑے اور مشہور ملکوں کے قوانین کا تعارف اور خصوصیات، اسلامی قانون اور اصول قانون پر لکھی جانے والی مشہور کتابوں کی مکمل فہرست اور ضروری تعارف، اسلامی قانون کی مشہور عربی اصطلاحات کا ترجمہ اور ضروری تشریح (اردو اور انگریزی زبانوں میں) اور ان کے علاوہ بھی بہت کچھ،جو اس کتاب کے علاوہ کسی دوسری کتاب میں یکجا طور پر موجود نہیں ہے، عربی میں اس موضوع پر بہت کچھ لکھا گیاہے لیکن کوئی ایک کتاب ایسی موجود نہیں ہے جو تنہا ان مباحث کے لئے کافی ہو،اسی لئے متعدد اصحاب علم و تحقیق نے عربی اورانگریزی زبانوں میں اس کتاب کے ترجمہ کی سفارش کی ہے، ہم ذیل میں کتاب کے تعلق سے بعض مشہور اہل علم و تحقیق کی آراء اور خیالات کے اقتباسات پیش کرتے ہیں جوانھوں نے مصنف کتاب کو خط لکھ کر یا اپنے رسالوں اور مضامین میں تبصرہ کے ذریعہ اظہار فرمایاہے، تاکہ عام قارئین کتاب کی اہمیت کا اندازہ کرسکیں:
* امیرالہند حضرت مولانا سیداسعد مدنی رحمة الله عليه سابق صدر جمعیة علماء ہند:
”آپ نے جس وسیع علمی موضوع کو اپنی تصنیف کے لئے منتخب کیاہے اسے میں حسن انتخاب کہے بغیر نہیں رہ سکتا دور حاضر میں اس طرح کے موضوع پرکام کرنے کی جس قدر ضرورت ہے وہ بین الاقوامی حالات پر نظر رکھنے والوں سے مخفی نہیں ہے۔ (مکتوب گرامی مطبوعہ درکتاب)
* خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحب دامت برکاتہم
مہتمم دارالعلوم (وقف) دیوبند:
”پیش نظر کتاب میں موٴلف محترم نے جس بالغ نظری سے اسلامی قانون پر فقیہانہ کلام کیا ہے وہ نہ صرف حضرت مفتی صاحب کے کمال علم پر شاہد عدل ہے بلکہ قانون کے بیشمار ظاہر و مخفی گوشوں کے منفرد طرز وانداز اور عصر حاضر کی بڑی حد تک نفسیات شناشی پر مبنی ہے“ (اقتباس از تقریظ کتاب)
* فقیہ کبیر حضرت مولانا مفتی محمد ظفیرالدین صاحب مفتاحی
سابق مفتی دارالعلوم دیوبند ومرتب فتاویٰ دارالعلوم دیوبند
”دنیا کے تمام قوانین مولانا کے پیش نظر ہیں اوراسلامی قوانین کی خصوصیات پر اور انکی پائیداری اور انسانوں کی نفسیات کو سامنے رکھ کر جوکچھ لکھا ہے وہ تمام اہل علم کے پڑھنے کے لائق ہے، جو بحث کی ہے وہ سب عالمانہ اور منصفانہ ہے اس میں کہیں انگلی رکھنے کی گنجائش نہیں ہے“ (از مقدمہٴ کتاب)
* امیرشریعت حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب دامت برکاتہم
جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ورکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند
”یہ کتاب اسی سلسلة الذہب کی ایک کڑی ہے جس میں ہمارے فاضل عزیز مولانا اخترامام عادل نے جدید تقاضوں اورنئے ذہن کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی قانون کی معنویت پر روشنی ڈالی ہے اپنے موضوع پر ایک جامع اورمستند کتاب ہے۔“ (از تقریظ کتاب)
* محدث کبیر حضرت مولانا سید انظرشاہ کشمیری رحمة الله عليه
سابق صدرالمدرسین وشیخ الحدیث دارالعلوم (وقف) دیوبند
”عزیز موصوف کی زیر نظر تالیف گراں قدر مباحث پر مشتمل اور ایک اہم ضرورت کی تکمیل، محاورہ اپنی جگہ مسلم وبامعنی ”مشک آن کہ خود ببوید نہ کہ عطار گوید“ (از تقریظ کتاب)
* موٴرخ وادیب حضرت مولانا ڈاکٹرعبداللہ عباس ندوی رحمة الله عليه
سابق استاذ ام القریٰ مکہ مکرمہ وسابق معتمد تعلیم دارالعلوم ندوة العلماء لکھنوٴ
”اس سلسلہ میں جن دستاویزوں اورمسودات پرمیری نظر پڑی ہے ان میں جناب مولانا مفتی اخترامام عادل حفظہ اللہ کا کام خاصا وقیع اور قابل قدر ہے مولانا کا کام پیش رو کاموں کی بہ نسبت اگر زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہے اور اس کی ضرورت تھی۔“ (از تقریظ کتاب)
* محدث وفقیہ حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری صاحب دامت برکاتہم
صدر المدرسین وشیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند
”یہ ایک جامع انسائیکلوپیڈیا بن گیا ہے اوریہ تونہیں کہا جاسکتا کہ یہ کتاب اس موضوع پر حرف آخر ہے لیکن یہ بات ضرور ہے کہ اس موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں میں یہ کتاب سب سے زیادہ مبسوط اور جامع ہے۔“ (از تقریظ کتاب)
* بحرالعلوم حضرت علامہ مولانا محمد نعمت اللہ صاحب دامت برکاتہم
محدث دارالعلوم دیوبند
”مولانا اختر امام عادل کی یہ کتاب بڑی محنت اورہمہ جہت مطالعہ کے بعد لکھی گئی ہے، ماشاء اللہ ان کی یہ خدمت ہم علماء کے لئے یادگار ثابت ہوگی اور امت کی طرف سے ہم پر جو قرض ہے وہ بحسن وخوبی ادا ہوجائے گا۔“ (از تقریظ کتاب)
* ادیب شہیر حضرت مولانا سید محمد رابع ندوی صاحب دامت برکاتہم
ناظم دارالعلوم ندوة العلماء لکھنوٴ و صدرآل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ
”آپ کا علمی تحفہ جو فقہ اسلامی کے تقابلی مطالعہ کے سلسلہ میں ایک سیرحاصل اور محققانہ کام کی صورت میں سامنے آیا ہے اور بہت قابل ستائش ہے موصول ہوا،… میں اظہار قدردانی کرتا ہوں اوراس علمی کام کو فقہ اسلامی سے خصوصی تعلق رکھنے والوں کے لئے خصوصی مدد کی حیثیت سے دیکھتا ہوں…“(مکتوب گرامی- ۳/۱۲/۲۰۰۸/)
* ادیب کبیر حضرت مولانا سعیدالاعظمی صاحب دامت برکاتہم
مہتمم دارالعلوم ندوة العلماء لکھنوٴ ومدیر البعث الاسلامی
”آنجناب کی تالیف مبارک ”قوانین عالم میں اسلامی قانون کا امتیاز“ اسلامی شریعت کے موضوع پر ایک نادر تحفہ ہے، جو آپ کی علمی وشریعتی بصیرت کی علامت ہے،… میرا خیال ہے کہ یہ کتاب عربی زبان کے ساتھ انگریزی اورہندی میں بھی منتقل ہونی چاہئے یہ اسلامی کتب خانے میں ایک اضافے کی حیثیت رکھتی ہے، تمنا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی اس علمی کاوش کو قبول فرماکر اس کو نفع عام کا ذریعہ بنائیں اور وہ اسلامی مدارس وجامعات میں علمی کوششوں کی بنیاد بن سکے اور شریعت کے نئے گوشے سامنے آئیں۔“ (مکتوب گرامی- ۷/۶/۱۴۳۰ھ)
* حضرت مولانا اسرارالحق قاسمی صاحب دامت برکاتہم
سابق ناظم عمومی جمعیة علماء ہند، صدرآل انڈیا ملی وتعلیمی فاؤنڈیشن دہلی ورکن پارلیمنٹ
”بحمد اللہ تعالیٰ آپ نے موجودہ عہد کے اس اہم تقاضہ کی اپنی اس موقر تصنیف میں نہایت عالمانہ، فقیہانہ اورمحققانہ شان،معروضی انداز فکر،شستہ اور شگفتہ طرز نگارش کے ذریعہ تکمیل کرکے آج کی سسکتی انسانیت کی بروقت اور صحیح رہنمائی کی ہے، ذلک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء“ (مکتوب گرامی- ۱۴/نومبر ۲۰۰۸/)
* خادم القرآن حضرت مولانا غلام محمد وستانوی صاحب دامت برکاتہم
رئیس جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا، مہاراشٹر ورکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند
”مولانا اخترامام عادل قاسمی نے ”قوانین عالم میں اسلامی قانون کا امتیاز“ نامی کتاب تحریر فرماکر یہی دکھانے کی کامیاب کوشش کی ہے کہ اسلامی قوانین کے سامنے دنیا بھرکے قوانین ظلمت ونور کی سی نسبت رکھتے ہیں، کتاب بڑی عمدہ طویل اور سیرحاصل بحثوں پر مشتمل ہے،… واقعی کتاب ”دریا بکوزہ“ کا مکمل اور صحیح مصداق ہے۔“ (مکتوب گرامی ۳/رجب المرجب ۱۴۳۰ھ)
* معروف صاحب قلم حضرت مولانا عزیزالحسن صدیقی صاحب دامت برکاتہم
مہتمم مدرسہ دینیہ غازی پور ومدیر اعلیٰ ”تذکیر“ غازی پور، یوپی
”یہ ایک وسیع دائرة المعارف (Encyclopedia) ہے جس میں اسلامی قانون کی خصوصیات کا بھی بیان ہے اور امتیازات کا بھی، فاضل مصنف نے ان غلط فہمیوں کے ازالہ کی بھی کامیاب سعی کی ہے جو اسلامی فقہ کے بارے میں پائی جاتی ہے دنیا کے مختلف ممالک کے قوانین کا اسلامی قانون کی روشنی میں تقابلی مطالعہ اور قانون اسلامی پر لکھی گئی اہم بنیادی کتابوں کا تذکرہ بھی ہے اور فقہی اصطلاحات کا ذخیرہ بھی،… ہم سمجھتے ہیں کہ فاضل مصنف نے موجودہ دور کے تقاضوں کو بخوبی محسوس کیاہے اور اس چیلنج کا معقول جواب دے دیا ہے جو اسلام کو درپیش ہے… لائق تبریک ہیں مولانا اخترامام عادل صاحب جنھوں نے ایک اکیڈمی کا کام تن تنہا کرڈالا۔ یقینا ان کی علمی کاوش کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا…
ہندوستانی علماء ہی کی یہ خصوصیت ہے کہ فقر وفاقہ اور تنگی ومفلسی کی زندگی بسر کرتے ہوئے بڑے بڑے علمی کارنامے انجام دے ڈالتے ہیں،اس سے ان کی دنیاوی غرض اور جاہ ومنصب کے حصول کی نیت بھی نہیں ہوتی، زیرنظر کتاب اس لائق ہے کہ اس پر فاضل مصنف کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض کی جائے۔
علماء کی نئی صف میں فاضل نوجوان مولانا اختر امام عادل کو نمایاں مقام پر فائز دیکھ کر ہمارا دل باغ باغ ہوا جاتا ہے اور پرانی صف کے لوگ یاد آتے ہیں جن کی خصوصیت ہواکرتی تھی کہ وہ بیک وقت مقرر بھی ہوتے تھے اور مصنف وادیب بھی، حق گوئی کی روایات بھی ان کے دم سے زندہ رہا کرتی تھیں۔“ (تذکیر سیریز ۶۴ ص:۴۴،۴۵)
علماء کی آراء کے چند نمونے تھے ورنہ آراء کی فہرست طویل ہے جو آئندہ انشاء اللہ حسب موقع ہم پیش کریں گے، ہمیں امید ہے کہ ہندوپاک کے مسلمان اپنی حسین روایت کے مطابق اس عظیم علمی خدمت کی قدر کریں گے اوراسلامی قانون کے تعلق سے آج جس حساسیت کا پیغام اس کتاب کے ذریعہ دیاگیا ہے اس پر توجہ دیں گے، ہم عظیم مصنف کو بھی دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتے ہیں جنھوں نے ملت اسلامیہ کو بیدارکرنے کی کوشش کی فجزاہ اللّٰہ احسن الجزاء عنا وعن جمیع المسلمین.
***
ماهنامه دارالعلوم ، شماره 3 ، جلد: 94 ربيع الاول – ربيع الثانى 1431 هـ مطابق مارچ 2010 ء