از: حکیم عبدالحمید صاحب ، ناظم کتب خانہ دارالعلوم دیوبند
حضرت مولانا حکیم عزیز الرحمن صاحب سابق استاذ جامعہ طبیہ دارالعلوم دیوبندو سابق رفیق شیخ الہند اکیڈمی دارالعلوم دیوبند ایک ایسی شخصیت کے مالک تھے جو اپنی ذات میں ایک انجمن تھے وہ ایک عالم ،صوفی، شاعر ،حکیم ، اور کہنہ مشق مدرس تھے۔
حضرت حکیم صاحب (جنہیں آج رحمتہ اللہ علیہ لکھنا پڑرہا ہے )سے میرا تعارف ۱۹۶۷ء مطابق ۱۳۸۷ھ میں اسوقت ہوا جب میں نے دارالعلوم سے درس نظامی سے فراغت کے بعد جامعہ طبیہ میں داخلہ لیا اسوقت سے (۱۰/ ستمبر ۲۰۰۹ء مطابق ۱۹/رمضان ۱۴۳۰ھ) ۴۲ سال تک نیازمندانہ تعلق رہا جسے بیان کرنے کیلئے ایک کتاب درکارہے۔
حکیم صاحب کا تقرر بحیثیت مدرس طب جامعہ طبیہ دارالعلوم میں ماہ اپریل ۱۹۶۳ء میں ہوا تھا اور تقریباً چھبیس سال تک جامعہ طبیہ میں پوری تندہی اور انہماک کیساتھ درس دیتے رہے اور بحمد اللہ مرحوم کا درس بہت مقبول رہا جبکہ حکیم صاحب موصوف باضابطہ کسی طبی درسگاہ کے سند یافتہ نہیں تھے لیکن یہ انعام خداوندی تھا جو انہیں اپنے مرشد حضرت شاہ وصی اللہ صاحب رحمة الله عليه کی دعاوٴں کی برکت سے حاصل تھا جس کا اظہار مختلف طبی مضامین کی تدریس وتصنیف میں نمایاں نظر آتا تھا۔
۱۹۸۶ء میں جامعہ طبیہ دارالعلوم کے تحلیل ہوجانے کے بعد دارالعلوم کے تصنیفی،تالیفی اور تحقیقی شعبہ شیخ الہند اکیڈمی سے وابستہ ہوکر تصنیفی، وتالیفی خدمات انجام دیتے رہے اور اکتوبر ۱۹۸۸ء مطابق ربیع الاول ۱۴۰۹ھ کو اکیڈمی سے بھی بوجہ کبر سنی سبکدوش ہوگئے، مگر احقر سے ہمیشہ استاذی وشاگردی کا تعلق برقرار رہا اور احقر نے حکیم صاحب کی خدمت کو اخلاقی فریضہ سمجھ کر انجام دیا اور حکیم صاحب کو جو وظیفہ کبر سنی دارالعلوم کی طرف سے ملتا رہا اسے ۱۹۸۸ء سے ۲۰۰۹ء تقریباً بائیس سال تک دارالعلوم سے حاصل کرکے حکیم صاحب کی خدمت میں بھیجتا رہا اور اس خدمت کو بوجھ نہیں باعث فخر سمجھتا رہا۔
حضرت حکیم صاحب نے ایسے خاندان میں تربیت پائی تھی جس کی خمیر میں تعلیم، دینداری، شرافت ، ضیافت ، وجاہت،خورد نوازی کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔
حکیم صاحب موصوف کے والد ماجد حضرت مولانا محمد ایوب صاحب رحمة الله عليه سابق شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل تھے جو محدث جلیل حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی رحمتہ اللہ علیہ کے رفقاء میں سے تھے اور آپ کے منجھلے بھائی مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن صاحب اعظمی مہتمم دارالعلوم ندوة العلماء ومدیر البعث الاسلامی لکھنوٴ اور چھوٹے بھائی جناب ڈاکٹر مسیح الرحمن صاحب سابق پروفیسر نیشنل شبلی ڈگری کالج اعظم گڑھ اپنے اپنے حلقوں میں معروف ومشہور شخصیتوں کے حامل ہیں۔
حکیم صاحب کے معمولات کاحال یہ تھا کہ روزانہ کم ازکم ایک منزل کلام پاک کی تلاوت کرتے اور دلائل الخیرات پڑھتے میرا قیام حضرت حکیم صاحب کے حجرہ کے برابر تھا دیکھتا کہ تہجد پابندی سے پڑھتے تھے ،پھر اشراق، چاشت ، اورنماز باجماعت بالخصوص دارالعلوم کی قدیم مسجد میں خواہ سردی ہویا گرمی یا موسلادھار بارش ہو مسجد میں حاضر ہوتے اسی طرح اگر کسی مجلس میں ہوتے اور نماز کا وقت ہوگیا تو اٹھکر مسجد چلے جاتے چاہے کیسی ہی مجلس ہوتی ۔
حکیم صاحب بعد نماز عشاء جلدی سوتے تھے تاکہ سحر خیزی میں رکاوٹ نہ ہوا ہاں دوپہر میں نہیں سوتے تھے بلکہ اپنے لکھنے پڑھنے کا کام کرتے رہتے تھے۔
حکیم صاحب چھوٹے بڑے سب سے خندہ پیشانی سے ملتے تھے اورسبھی کی خیر خواہی پیش نظر رکھتے تھے اور اچھا و نیک مشورہ دیتے جسکی زندہ مثال خود احقر کی ذات ہے۔ ہوا یوں کہ جب احقر جامعہ طبیہ دارالعلوم سے فارغ ہوا تو اسی سال حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمة الله عليه سابق مہتمم دارالعلوم نے یہ تجویز منظور فرمائی کہ جوطالب علم جامعہ طبیہ کے آخری سال میں اول نمبرسے پاس ہوگا دارالعلوم اسے عملی مشق کیلئے ہاوٴس فزیشین رکھے گااس سے طلبہ میں اچھا پیغام جائے گا اور اچھے ا طباء تیار ہونگے بحمد اللہ احقر کے نام یہ قرعہ فال نکلا اور ہاوٴس فزیشین کے طور پر جامعہ طبیہ حاضر ہوا اتفاق سے اس سال حکیم محمد عمر صاحب سابق پرنسپل جامعہ طبیہ حج کیلئے گئے ہوئے تھے مزید براں ایک استاذ کی جگہ خالی تھی اسلئے چند اسباق بند چل رہے تھے۔تو اسوقت احقر نے عبوری پرنسپل استاذی المکرم قبلہ ڈاکٹر شمیم احمد صاحب سعیدی کے کہنے پر قانونچہ وغیرہ کے اسباق پڑھائے اسوقت نیابت اہتمام کے منصب پر حضرت مولانا معراج الحق صاحب فائز تھے انھوں نے ڈاکٹر صاحب موصوف سے فرمایا کہ عبدالحمید سے کہہ دوکہ پڑھاتا رہے اور مجلس شوری سے اسکی توثیق ہو جائے گی مگر احقر نے کہا کہ کچھ خانگی مجبوریاں ہیں جس کی وجہ سے دیوبند نہیں رہ سکتا اور وجہ یہ تھی کہ والد صاحب کا انتقال ہو گیا تھااور احقر ہی گھر میں بڑا تھا اسلئے دیوبند رہنے میں پریشانی تھی چنانچہ میں نے انکار کردیا تو دارالعلوم نے اخبار میں اشتہار دیا کہ دارالعلوم کو ایک مدرس طب کی ضرورت ہے جب حکیم صاحب کو یہ معلوم ہوا کہ دارالعلوم نے اشتہار شائع کیا ہے تو موصوف نے بلایا اور کہا کہ تم کیوں نہیں پڑھانا چاہتے تو احقر نے مذکورہ وجہ بیان کی مگر حکیم صاحب نے مشفقانہ طور پر سمجھایا اور جب نہ مانا تو پدرانہ ڈانٹ پلائی اور ایک درخواست لکھ کر احقر کو تھمادی اور کہا کہ انٹر ویو دو جب یہ درخواست لیکر قبلہ ڈاکٹر شمیم احمد صاحب کے پاس گیا تو بے حد خفا ہوئے اور فرمایا کہ جب بلا مقابلہ رکھے جارہے تھے تب تو انکار کردیا اور اب انٹر ویو میں بیٹھوگے میں نے کہا جی ہاں تو فرمانے لگے چلو درخواست دو اور قسمت آزمائی کرو چنانچہ انٹرویو دیا جس میں اٹھارہ اطباء شریک ہوئے بحمد اللہ میں کامیاب ہوا یہ ۱۹۷۲ء کا واقعہ ہے اس وقت سے ۱۹۸۶ء تک تدریسی خدمات انجام دی اور ۱۹۸۶ء میں جامعہ طبیہ کے تحلیل ہونے کے بعد ناظم کتب خانہ کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہا ہوں مادرِ علمی سے یہ تعلق حکیم صاحب کے نیک مشورہ ودعا کا اثر ہے۔
حکیم صاحب کی مہماں نوازی کا عالم یہ تھا کہ دارالعلوم کی معمولی تنخواہ کے باوجود انکا اسٹو صبح سے شام تک بہت کم بجھتا تھا کھانے یا چائے سے تواضع ہوتی رہتی تھی عربی کی کہاوت تو پڑھی تھی کثیر الرماد یعنی جس کے زیادہ چولھا جلنے کی وجہ سے راکھ کا ڈھیر ہووہ اسکے سخاوت کی نشانی ہوتی تھی لیکن اس جدید دور میں حکیم صاحب کا اسٹو دیکھ کر یہ کہاوت یادآتی تھی اور پڑوس کیوجہ سے احقر بھی گاہے بگاہے مستفید ہوتارہتا تھا۔حکیم صاحب موصوف نے دارالعلوم سے چلے جانے کے بعد احقر سے بیان فرمایا کہ دارالعلوم سے آنیکے بعد محلہ کی مسجد کی بجلی کا بل میں ادا کرتا ہوں اور حضرت والا قاری مبین صاحب داماد مرشدی حضرت شاہ وصی اللہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو ہر مہینہ کچھ رقم بھیجتا رہتا ہوں جبکہ مدرسہ کا وظیفہ کبر سنی شروع میں چارسو اور انتقال کے وقت سات سو بیس روپئے تھا اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حکیم صاحب کی شخصیت کس صفتِ قلندری سے آراستہ وپیراستہ تھی ۔
اور میں نے خاندانی صفت اسلئے بیان کی ہے کہ احقر کی حاضری ندوة العلماء لکھنوٴ میں برادرعزیز مولانامحی الدین محمدطیب سلّمہ کی دور طالب علمی میں ہوئی اور ساتھ میں مولانا ابو العاص صاحب وحیدی بھی تھے اسوقت قبلہ حضرت مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن صاحب ندوی مہتمم دارالعلوم ندوة العلماء کے مہمان ہوئے اور خورد نوازی کا منظر دیکھا اور پھر کچھ عرصہ کے بعد جناب ڈاکٹر مسیح الرحمن صاحب سابق پروفیسر شبلی کالج اعظم گڑھ سے ملاقات پر اسکا تجربہ ہوا اللہ تعالیٰ نے اس خاندان کو دینی، علمی،ودنیوی وجاہت سے نوازاہے ۔
رجال سازی
حکیم صاحب کے اندراللہ رب العزت نے ایک خاص وصف یہ بھی رکھا تھا کہ آپ اپنے مخاطب سے مل کر اس کی افتادِ طبع کا احساس کرلیتے تھے ، اور جو جس طبیعت اور مزاج کا حامل ہوتا تھا اسے اپنے مفید مشوروں سے اسی طرح کے مشغلوں سے وابستہ کردیتے تھے ۔ ایسے کتنے حضرات اس وقت میرے سامنے ہیں جنہیں حکیم صاحب نے قلم پکڑنا سکھایا اور کتنے ایسے ہیں جن کو ان کے مشوروں اور صحبتوں سے مہمیز ہوئی اور صاحب تصانیفِ کثیرہ ہو گئے اس مختصر تحریر میں اس وقت صرف ایک نام پیش خدمت ہے وہ ہیں جناب مولانا قاری ابوالحسن صاحب اعظمی استاذ تجوید وقرأت دارالعلوم دیوبند جن کی ۸۰ سے زیادہ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔
ایک صاحب قلم شخصیت:
حکیم صاحب جب سے جامعہ طبیہ دارالعلوم تشریف لائے تھے اسیوقت سے تدریسی کام کے ساتھ ساتھ تصنیفی وتالیفی کام کرتے رہے چنانچہ کچھ قلمی کاوشیں انکی اسطرح ہیں ”مآثر امام اعظم“،”طب نبوی“ ،”امراض صدروریہ“، ”میڈیکل انگلش اردو ڈکشنری“، ”سنگم“ کے نام سے اردو،عربی،انگریزی ڈکشنری، ”سوانح فراہی“ ، ”سوانح عطار“، ”سوانح ابوہریرہ“ ،”کتاب الرحمہ“، ”شاداب افریقہ“ اور بہت سی غیر مطبوعہ کتابیں اور مسودے یادگار ہیں، جنہیں باری تعالیٰ مرحوم کیلئے صدقہ جاریہ بنائے، (آمین)
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
حضرت حکیم صاحب کی کمی کا احساس جہاں گھر والوں اور متعلقین کو ہوگا وہیں انکی رحلت سے احقر کا ذاتی نقصان یہ ہوا کہ ایک مشفق ومخلص مربی سے محروم ہوگیا احقر کو حضرت حکیم صاحب کی مخلصانہ ومربیانہ دعائیں تادم واپسیں یاد رہیں گی۔
موصوف کا انتقال ۱۹/ رمضان ۱۴۳۰ھ مطابق ۱۰ ستمبر ۲۰۰۹ء بروز جمعرات دن میں آٹھ نو بجے کے درمیان ہوا اور اسی روز بعد نماز عشاء تجہیز وتکفین ہوئی اورنماز جنازہ حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب استاذِ حدیث دارالعلوم دیوبند نے پڑھائی۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
***
ماهنامه دارالعلوم ، شماره 2 ، جلد: 94 صفر – ربیع الاول 1431 ھ مطابق فروری 2010 ء