از: حبیب الرحمن الاعظمی ، متعلّم دارالعلوم دیوبند
دہشت گردی آج کے دَور میں ایک ایسی اصطلاح بن چکی ہے جس سے ہر طبقہ کے انسانوں کے کان آشنا ہیں۔ یہ لفظ سنتے ہی ذہن میں ایک خوفناک تصور قائم ہوجاتا ہے۔ وہ تصور کسی دلفریب وخوش گوار وادی کا نہیں۔ کسی پارٹی یا عدالت کا نہیں بلکہ انسانی احترام وعظمت کی پامالی کا، انسانیت کے تقدس کو بالائے طاق رکھ کر انسانوں کے لہو سے تربتر دامنوں کا، سڑکوں پر بہتے اور منجمد خونوں کا، بم دھماکوں اور سفاکیت کے اعلیٰ مظہر عراق، افغانستان اور فلسطین میں بے گناہ، معصوم بچوں اور عورتوں کے ساتھ وحشت وبربریت، ظلم وستم اور ناجائز طور پر ان کے حقوق کی پامالی کا ایک وحشت بھرا دردناک تصور انسانی ذہن میں قائم ہوکر ذہن ودماغ کے تاروپور کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔
دہشت گردی کی اس مسموم فضا میں صرف یہی نہیں بلکہ ظلم وجبر کے ایسے ایسے روح فرسا مناظر دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھے کہ سینے میں پتھرجیسے دل رکھنے والوں کی بھی چیخیں نکل گئیں۔ سینوں میں ہمدردی اورانسانیت کی محبت اوراس کے نام پر دھڑکنے والا دل رکھنے والے انسانوں کی سسکیاں احساس کے کانوں سے سنی جاسکتی ہیں۔
دہشت گردی اصطلاح پر ہوئے واقعات میں جہاں انسانی ذہن خاک و خون میں تڑپتی لاشوں، کشت وخون، ظلم وبربریت اور تباہی و بربادی کے عریاں رقص میں ہلاکت و بربادی کے گھاٹ پر قربان ہوتے انسانوں کی جائداد، اموال اور مکانوں کی بربادی کاتصور قائم کرتا ہے۔ وہیں انسانی ذہن پر واقعات کی وہ بھیانک تصویر بھی ابھرآتی ہے جو مسلم وغیرمسلم ملکوں سے بہت سے مسلمانوں، خصوصاً لکھے پڑھے اور دین دار نوجوانوں کو گرفتار کرکے، اندرونِ افغانستان وعراق اور ”گوانٹاناموبے“ کے بدنام زمانہ جیل خانوں میں ڈال کر ان کے ساتھ جسمانی، جنسی، ذہنی اور فکری طور پر ایسی مجرمانہ حرکتیں کی گئیں اور اذیت رسانی اور توہین و تذلیل کے ایسے ایسے طریقے وضع کیے گئے جن سے حقوقِ انسانی کے نام پر ساری دنیا نے آنسو بہادیے اور جس نے سارے انسانی ضمیر کو ہلاکر رکھ دیا۔
چاہے وہ افغانستان، عراق، لبنان اور فلسطین کے معصوموں کے خون سے ہولی کے واقعات ہوں یا اپنے ملک میں بمبئی فسادات اور گودھرا حادثہ کے واقعات ہوں، گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی اور ظلم و تشدد کی ایسی سنگین مثال جس نے اچھے اچھے ظالموں اور سفاکوں کو بھی رلادیا۔ حالیہ واقعات میں تاریخ نے وحشت وبربریت اور جبر وتشدد کا ایسا ننگا ناچ اپنے سینے پر رقم نہیں کیا ہوگا۔ ان سب کے پیچھے ہمیں ایک بڑا ہاتھ، وسائل سے بھرپور جبر و تشدد اور ظلم و ستم کا پیکر کسی بہت بڑے مقصد کے لیے کارفرما نظر آتا ہے۔
کیا وجہ ہے کہ آتش وآہن کی بارش مسلم ممالک افغانستان اور عراق وفلسطین پر ہی برسائی جارہی ہے، کشت و خون کا یہ سارا کھیل اور ظلم و بربریت کا یہ ننگا ناچ مسلمان قوم کے ساتھ ہی کیوں خاص ہے؟ دہشت گردی کے جو واقعات پیش آرہے ہیں یا جنھیں کسی مقصد کے تحت برپا کیاجارہا ہے ان کی تہہ تک منصفانہ طور پر پہنچنے کے بجائے بے قصور مسلمانوں اور مسلم تنظیموں کے سرکیوں تھوپ دیا جاتا ہے؟ مصنوعی واقعات کے جھوٹے الزام میں کہیں سے کسی وقت بھی مسلم نوجوانوں کو کیوں اٹھالیا جاتا ہے انھیں طرح طرح کے بھیانک الزامات ومقدمات کے سہارے جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے کیوں ستایا جاتا ہے۔ جیل خانوں کے جہنم نما تہہ خانوں میں انہیں کیوں رکھ کر سڑایا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ درندگی و درماندگی کا سلوک اور یہ وحشیانہ رویّہ کیوں اپنایاجاتا ہے؟
ان سوالوں کا جواب دیا جاسکتا ہے تو صرف یہی کہ وہ مسلمان ہیں۔ اسلام کا کلمہ پڑھنے والے ہیں اور وہ فرزندانِ توحید اور شمع محمدی کے پروانے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی، کا لیبل اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ چسپاں کرنے کا کھیل عالمی سازش کا حصہ ہے۔ جس کی خاکہ سازی اور انھیں برپا کرنے کی عملی تدابیر میں عالمی صہیونیت اور اسلام دشمن عناصر یہودیت کا پورا پورا ہاتھ ہے۔ جن کی چاپلوسی اور حکم برداری میں مسلم ممالک کے بعض اسلام بے زار حکمراں اور دیگر ممالک کی مسلم دشمن تنظیمیں پورے شدومد کے ساتھ اس کو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کررہی ہیں اور وہ اسلام کو ”دہشت گرد“ مذہب اور مسلمانوں کو ”دہشت گرد“ قوم ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
یہاں ہم اس بات کو بھی واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اسلام کو دہشت گردی کا مذہب اور مسلمانوں کو دہشت گرد قوم ثابت کرنے کا اصل مقصد کیا ہے۔ اور اس کے بہانے مسلم نوجوانوں، دینی اداروں، اسلامی تنظیموں ، مسلم دانشوروں اورعلماء کرام کی مقدس ہستیوں کو دیدہ ودانستہ طور پر اس کا نشانہ بنانے کا مقصد کیا ہے ….؟
اسلام جو خدا تعالیٰ کا آخری اور پسندیدہ دین ومذہب ہے، جس کے ہر ہر احکامات انسانی طبیعت کے عین مطابق اور نظام کائنات کی سلامتی و ترقی کیلئے بنیاد اور سرچشمہ ہیں، حیات انسانی پر مشتمل سارے شعبوں میں رہ نمائی اور زندگی کی صحیح ڈگر سے ہٹے ہوئے لوگوں کی دستگیری کرتے ہیں، اس کی تعلیمات بڑی پاکیزہ، صاف و شفاف حقوق انسانی کی محافظ، امن وسلامتی کی ضامن اور مرضیٴ حق کے عین مطابق ہیں۔ نیز اسلام نے بڑی قلیل مدت میں اپنی صداقت و حقانیت پر صدہا ہزار مستحکم دلائل اور اپنی تلوار امن ومحبت اور مساوات وخوش اخلاقی کے ذریعہ پورے عالم کے حق پسند، حق جو اور حق شناس لوگوں کے قلوب میں جو غیرمعمولی اور بے پناہ مقبولیت اورعظمت حاصل کرلی ہے اس پر معاندین اسلام کی حیرانی اور بوکھلاہٹ بے جا نہیں ہے۔ گرچہ وہ اسلام دشمن، خبیث ذہنیت کے حامل، دل سے اس کی صداقت وسچائی اور حقانیت کو تسلیم کرتے ہیں، مگر ان کی بے جا دشمنی اور عناد نے انھیں حق کو تسلیم وقبول نہ کرنے اور اس کی مخالفت پر کمر کس لینے، نیز اسے دبانے اور مٹانے کیلئے آمادہ کردیا ہے۔
گرچہ امت مسلمہ عرصہٴ دراز سے مغربی استعمار کاشکار ہے، مگر عصر حاضر میں مغرب اپنے تمام تر وسائل اور حربوں کو اسلام کے خلاف داؤ پر لگادینے کیلئے آمادہ و برسرپیکار نظر آتا ہے۔ جس کا مشاہدہ ہمیں مختلف فتنوں کی شکل میں آئے دن نظر آتا رہتا ہے، اور اگر اس طوفانی موجوں کے رخ کے پھیرنے اور سفینہٴ اسلام کو بھنور میں پھنسنے سے بچانے کیلئے کوئی ناخدا پیدا ہوتا ہے اور ظلم وستم کے ان پہاڑوں سے ٹکرلینے کی سعی کرتا ہے تو وہ موج حوادث کے تھپیڑوں میں الجھ کر طوفان بلاخیز کی سازشی لہروں کا شکار ہوجاتا ہے۔ یا اسے بحرظلمات کی ان کشتیوں کے حوالے کردیا جاتاہے جہاں سے انسان سوائے موت کے اور کسی طرح رستگاری نہیں پاسکتا۔
اس جگہ یہ بات بھی مناسب معلوم ہوتی ہے جو باعث رنج اور تکلیف دہ ہے۔ وہ یہ ہے کہ عالمِ اسلام کے بعض بے حس اوراسلام بیزار حکمراں جو اسلام دشمن عناصر، صہیونیت اور یہودیت کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنے کھیل رہے ہیں اور وہ بے حس نام نہاد مسلم حکمراں ان خبیث ذہنیت دشمنان اسلام کی رضامندی کی خاطر ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہتے ہیں جو کسی طرح بھی اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کے مطابق نہیں۔ ان حکمرانوں کا کسی لالچ یا خوف یا بیک وقت دونوں باتوں کی وجہ سے ان معاندین اسلام اور یہودیوں کی سازش میں ہاں میں ہاں ملانا نیز مسلم ممالک کی بربادی اور بے گناہ مسلم عوام، معصوم بچوں، عورتوں اور نوجوانوں کی قتل وغارتگری پران کا خاموش تماشائی بنا رہنا، بلکہ ان میں سے متعدد بدبختوں کا اسلام دشمن طاقت امریکہ کا ساتھ دینا اوراس پر فخر کرنا کس چیز کا ثبوت اور کس بات کی غمازی وعکاسی کرتا ہے….؟
مضمون کا عنوان اس کی طوالت کے خوف سے ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ مذکورہ بالاسطور کی تفصیل کی جائے ورنہ یہاں اس بات کو حقائق کے آئینہ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ امریکی واسرائیلی حواریین اورنام نہاد بے حس اور بے غیرت مسلم حکمرانوں نے امریکی اشارات و احکامات کے سامنے کیسے سرتسلیم خم کیا اور پھر عالم اسلام کے مسلمانوں کی دینی روح اور اسلامی حمیت اور اسلامی جوش وجذبات کو مجروح کرنے، مسلمانوں کو ذہنی وفکری طور سے عیاش اور مذہب سے آزاد، اسلام سے بیزار بنانے، اسلامی تعلیمات کو مٹانے، مسلم نوجوانوں میں یورپین تعلیمات کو پروان چڑھانے، ظلم وتشدد، کفروالحاد اور فرعونیت ونمرودیت کے فروغ کیلئے ان کا ساتھ دینے نیز اسلامی تہذیب وتمدن، ثقافت وکلچر، مسلمانوں کے دینی اداروں، تعلیم گاہوں اور ان کی ماضی کے شاندار وقار کو تہہ وبالا کرنے اوراسلامی تاریخ پر بدنما داغ لگانے میں ان دنیا پرستوں نے جو جو گل کھلائے وہ ناقابل بیان اور قوم مسلم کیلئے باعث صدننگ وعار ہے۔
آج دنیا کی نگاہیں بڑی حسرت وامید کے ساتھ پھر کسی صلاح الدین ایوبی رحمة الله عليه، موسی بن نضیررحمة الله عليه، محمد بن قاسم رحمة الله عليه وغیرہ کا انتظار کررہی ہیں۔مساجد کی دلخراش شہادت ہمارے خودداری کے تار رباب کو جھنجھوڑ رہی ہے۔ وہ مسلم خواتین جن کی عزت وآبرو کو پامال کیاگیا، جن کے معصوم بچوں کو تلواروں اور نیزوں کی نوک پر لہرایاگیا وہ مائیں اپنی آنکھوں میں آنسو لیے بڑی شدت سے کسی صلاح الدین کو پکاررہی ہیں۔ ہماری وہ بہنیں جن کی عصمت وعفت کو داغدار کیاگیا، جن کے نازک معصوم سروں سے ان کی عزتوں کے آنچل کو نوچاگیا جن کی پاکیزہ زندگیوں کو بڑی بے دردی سے مسلاگیا…. وہ بوڑھے ماں باپ جن کی آنکھوں میں گرم لوہے کی سلائیاں پھیردی گئیں، جن کی پیاری زبانوں پر انگارے رکھ کر نگلوائے گئے، جن کی کمزور اور جھکی کمر پر کوڑوں سے سخت اذیت ناک پٹائی کی گئی۔ ان کی روحیں آج بھی سسک رہی ہیں، ان کی زبانیں ہماری مدد کو چیخ رہی ہیں۔ ان کی خاک وخون میں تڑپتی لاشیں ہمیں انتقام کیلئے پکاررہی ہیں۔ کیا ہماری غیرت ایمانی کو جوش نہیں آتا؟ کیا ان معصوم بچوں اور ماؤں، ان پاکباز دوشیزاؤں کی چیخ وپکار اورآہ وفریاد پر ہماری رگِ حمیت نہیں پھڑکتی؟
اے ارض فلسطین کے فریادی مسلمانو! صبر کرو تمہارے اوپر ہوئے ظلم وستم کا انتقام لیا جائے گا۔ افغانستان اور عراق کے لاکھوں بے گناہ مسلمان شہیدوں کا خون رائگاں نہیں جائے گا۔ ظالم امریکہ و اسرائیل سے اس کا بدلہ لیاجائے گا اور اے ظلم و بربریت اور فساد و سفاکیت کی چکیوں میں بڑی بے دردی سے پیسے گئے انسانو! اے گجرات کے مظلوم شہید مسلمان نوجوان مرد عورتیں اور بچے! تم دیکھو ذرا اب ہم کیسے ان سفاک ظالم مجرموں سے تمہارے بے گناہ خون کا بدلہ لیتے ہیں۔ تم دیکھتے رہنا اور ہمارے لئے دعا کرتے رہنا۔ وہ وقت قریب ہے جب ان ظالموں سے تمہارے لہو کا انتقام لیا جائے گا اوران مجرموں کو انصاف کی عدالت میں کھڑا کرکے ان کی سفاکیت اور ظلم کی سزا دلائی جائے گی۔
میں اس تحریر کے ذریعہ ان نام نہاد مسلم حکمرانوں کو یہ بات بتلادیتا ہوں کہ مذہب اور قوم کے ساتھ غداری کرنے والا کبھی نیک انجام کو نہیں پہنچ سکتا۔ ماضی کی داستانوں سے عبرت حاصل کریں اور محض چند روزہ عیش وتنعم کے واسطے پوری قوم وملت سے غداری اور خدا کی ناراضگی کا سبب نہ بنیں۔
ہمارے انھیں حُکاّم کی کمزوری، بزدلی اور اسلام سے دوری کا نتیجہ ہے کہ آج امت مسلمہ پر ہر چہار سو سے ظلم واستبداد کے ناگ پھن پھیلائے انھیں نگلنے کی کوشش کررہے ہیں اور اسلام کو صفحہٴ ہستی سے مٹادینا چاہتے ہیں۔
مسلمانوں کو اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے اولاً اپنی قیادت کو مستحکم کرنا ہوگا۔ اور قیادت کی مضبوطی کیلئے اتحاد ضروری ہے۔ آج ضرورت ہے کہ مسلمانوں کی قیادت کو مضبوط و مستحکم کرنے کیلئے علماء کرام میدان میںآ ئیں۔ آرام طلبی کو بالائے طاق رکھ کر مسلمانوں کی جان ومال کے تحفظ اور قوم وملت کی حفاظت کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔ کیونکہ
ع یہ دَور اپنے براہیم عليہ السلام کی تلاش میں ہے۔
حالیہ دنوں میں اسی عظیم ترین مقصد کو لے کر ہندوستان میں مسلمانوں کے تہذیب وتمدنی ورثے کا امین، اسلام کا مایہٴ ناز قلعہ ام المدارس ازہر ہند مادرعلمی دارالعلوم دیوبند نے اپنی آغوش محبت وشفقت سے ایک ایسی معنی خیز اور مضبوط تحریک کو وجود بخشا ہے جس نے مسلمانوں کی جانب دہشت گردی کا اشارہ کرنے والوں کو حیران وششدر اور سوچنے پرمجبور کردیا ہے۔ بلاشبہ اس طرح کی دہشت گردی مخالف کانفرنسوں کے مثبت نتائج اس ملک کے مسلمانوں کے لیے برآمد ہونگے۔
اسی سلسلہ کی ایک کڑی جمعیة علماء ہند کے زیر اہتمام دہلی میں منعقد دہشت گردی مخالف کانفرنس سے قبل پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے قائد ملت، جانشین شیخ الاسلام، محدث جلیل حضرت مولانا سید ارشد مدنی مدظلہ نے فرمایاتھا:
”دہشت گردی اور تشدد اسلام کی قیام امن پالیسی سے متصادم ہے، لیکن کچھ شرپسند مفاد پرست عناصراور مغربی طاقتیں یہ تأثر دینا چاہتی ہیں کہ موجودہ بدامنی اور تشدد کیلئے اسلامی تعلیمات ذمہ دار ہیں۔ اس سازش میں امریکہ پیش پیش ہے۔ صہیونی طاقتیں اور اسلام دشمن عناصر اسلام کی بڑھتی مقبولیت سے اپنے وجود کو خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ اس وقت جبکہ دنیا کے مختلف خطوں میں امریکی اور مغرب نواز طاقتوں کی دہشت گردی عروج پر ہے ہمارے جمہوری اور سیکولر ہندوستان میں بہت سے ایسے فرقہ پرست عناصر موجود ہیں جو ملک کے اتحاد و یکجہتی کا شیرازہ بکھیرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ملک کی آزادی کے لئے جس طبقہ کے لاکھوں جیالوں نے تختہٴ دار کو چوما اور گلی گلی کوچہ کوچہ اپنا خون بہا کر ملک کو آزاد کرایا ان ہی کو آج ملک دشمن قرار دیاجارہا ہے۔“ (صحافت دہلی ۹/۵/۸۰)
دہشت گردی ایک ناسور ہے جس کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں۔ چونکہ اسلام دشمن عناصر کو اسلام کی بڑھتی مقبولیت سے اپنا وجود خطرہ میں نظر آیا۔اس لیے انھوں نے دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنے کی مذموم کوشش کی ہے۔ انھوں نے ہدایت کی روشنی کو چھوڑ کر ظلمت و تاریکی کی وادیوں میں بھٹکنا گوارا کرلیا اور دشمنی، ضد اور عناد میں آکر دنیا کو بھی اس منارئہ ہدایت سے محروم رکھ کر چاہِ ضلالت میں رکھنا پسند کرلیا۔
دہشت گردی کا یہ ناسور دنیا کو آہستہ آہستہ اپنی زد میں لے کر تباہی کے دہانے پر پہنچا رہا ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب کے رہ نماؤں نے اس کی مذمت کی ہے۔ عالمی برادری اپنے اپنے طورپر اس کے تدارک کی کوشش کررہی ہے اس کے باوجود اس میں روز بروز شدت ہی آرہی ہے۔ سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اسے اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ چسپاں کیاجارہا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذہب اسلام کو ہی دہشت گردی کا مذہب کیوں قرار دیا جارہا ہے….؟
بنیادی طور پر یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ اسلام ظلم و استبداد کا مخالف اور عدل وانصاف کا حامی اور سرچشمہٴ آب حیات ہے۔ اس کا ابتدائی قانون عدل وانصاف کی ترازو میں جبر وتشدد اور شروفساد کے آہنی پنجوں کو تول کر شروع ہوتا ہے۔ انسانیت کا احترام اور حقوق انسانی کی ادائیگی اس کی بلند وبالا تعلیمات میں ہیں۔ یہ زمین پر فساد اور بگاڑ کو پسند نہیں کرتا۔ منکرات ومنہیات اور برائیوں سے دور رہنے شرور وفتن سے بچنے اور جرائم کی گرم بازاری سے محفوظ رہنے کی بڑی سختی سے تلقین کرتا ہے اور بار بار قرآنی الفاظ کے ذریعہ لوگوں کو عذاب الٰہی کی گرفت سے ڈراتا ہے۔اور یہی بات کہ اسلام برائیوں سے منع کرکے زرپرستی، مادی ہوس رانی، مال ودولت اور عیش وعشرت کے بے تحاشا پوجا، فحاشی، عریانیت، بے حیائی، بدکاری، جنسی بے راہ روی، جنسی جذبات کو ہوا دینے والے گانوں، فلموں، عریاں تصویروں اور شب و روز برپا ہونے والی محفلوں میں مردوزن کے بے محابا اختلاط اور جنسی عمل کی مشاقی اور ماورائے ازدواج لڑکوں اور لڑکیوں کے زن وشوہر کی طرح آزادی سے ملنے کی طاقت وَر دعوتوں اور عوامل اور مغربی تہذیب کے روز بروز پیدا ہونے والے فتنوں کے طوفان بلاخیز (ماخوذ) سے بچانے کی بھرپور سعی پیہم کرتا ہے اور ان تمام برائیوں سے روکنے میں کوئی کَسَر نہیں چھوڑتا حتیٰ کہ بعض کے ارتکاب سے سزا بھی جومناسب سمجھتا ہے تجویز کرتا ہے تاکہ وہ بھیانک اور خطرناک صورت حال اہل اسلام کی نہ ہوجائے جس کی خطرناک تصویر اور بھیانک صورتِ حال یوروپ کے برے اور گندے لوگوں نے وہاں کے ممالک میں بنا رکھی ہے۔ العیاذ باللہ ۔ امریکہ واسرائیل کے ہم نوا ہونے کی وجہ سے عرب ممالک اور ایشیا میں بھی اس کے گندے جراثیم اپنا قدم جمالینے کی پوزیشن میں ہیں۔
چونکہ آج دنیا میں ہواپرستی اور نفسانی خواہشات کی تکمیل کی وبا عام ہوچکی ہے۔ معاشرہ میں برائیوں کا غلبہ اور شروفساد کا راج ہے۔ اور اسلام بیک قلم ان تمام برائیوں اور شرور وفتن کی جڑوں کو جڑسے اکھاڑ پھینکنا چاہتا ہے جسے طاؤس ورباب کی جھنکار پر مچلنے والے، راگ باجے کے دلکش ساز پر تھرکنے والے اور برائیوں کی آغوش کراہت میں زندگی کی رنگ رلیاں منانے والے بے حس اور شقی القلب افرادناپسند اور خراب سمجھتے ہیں۔ کیوں کہ اسلامی تعلیمات کے سبب انھیں برائیوں اور فحاشیوں، عریانیت و بے حیائی اور صنف نازک سے عشرت ومستی کے تمام تردروازے بند کرنے پڑیں گے اور زندگی کے اس مقام پر پہنچ کر جہاں وہ صرف حسن وعشق کی وادیٴ سرسبز وشاداب میں سیر وتفریح کرتے پھررہے ہیں۔ پارکوں میں بیٹھ کر کسی گل رو پری پیکر سے اپنے دلی جذبات کی کہانی سنارہے ہیں۔ ہوٹلوں، قہوہ خانوں اور دیگر تفریح گاہوں میں جاکر وہ اپنے جوش وجذبات کی باگ بے لگام کررہے ہوں، شیطنت کے مراکز فلم ہالوں میں، دنیا کی بدترین جگہ شراب خانوں میں جہاں وہ عیش وطرب کی دنیا آباد کررہے ہوں اور میکدئہ عشق میں جام و ساغر چھلک رہے ہوں جن کے نشہ میں چور، عقل سے دور ہوکر یہ لطف اندوز ہورہے ہوں وہاں بھلا اسلام کی تعلیمات کو وہ گوارا کریں گے اور کیا وہ اس مقام کو چھوڑ کر حق کی سچی راہ اپنالیں گے…؟
جامعہ ازہر مصر کے پروفیسر ڈاکٹر عبدالغنی شامہ اپنے ایک مضمون میں یوں رقم طراز ہیں:
”… چونکہ اسلام ہی وہ واحدمذہب ہے جس کی تعلیمات نسل انسانی کو لغویات اور جہالت سے نکال کر رشدوہدایت کی روشن راہ پر گامزن کردیتی ہیں۔
ظاہر سی بات ہے کہ اگر اسلام کی یہ فکریں مغربی معاشرے میں عام ہوگئیں تو یوروپ کے بازاروں میں لہوولعب کی دکانیں سجائے ہوئے ساہوکاروں کے کاروبار چوپٹ ہوجائیں گے۔ ان کے شراب کے اڈے سنسان اور جوئے و قحبہ خانے ویران ہوجائیں گے۔ غور کیجئے پھر یوروپ میں ان یہودی اور نصرانی کا روباریوں کے روزانہ کی اربوں ملین ڈالر کی آمدنی کا کیا ہوگا…؟ اور کیا یہ مغربی اقوام اس بات کو گوارہ کرسکتی ہے کہ ان فضاؤں میں اسلام متعارف ہو۔ جس کی وجہ سے ان کی دکانیں بند ہوجائیں۔“ (ہندوستان ایکسپریس دہلی ۲۹/۱۱/۲۰۰۷/)
یہی وہ باتیں ہیں جن کے سبب وہ اسلام کی مخالفت اور مسلمانوں سے عداوت پر کھل کر اتر آئے ہیں۔ اور جدید ذرائع ابلاغ میڈیا وانٹرنیٹ وغیرہ پر اسلام کو تشدد وبدامنی پھیلانے والا مذہب اور مسلمانوں کو ظالم، جابر اورجاہل اوباش نیز حملہ آور ولٹیرے کہہ کر پورے زور وشور کے ساتھ اس پروپیگنڈے کی تشہیر کی جارہی ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر شامہ آگے لکھتے ہیں:
”اسلام کی مثبت تعلیمات کومغربی اقوام کی نظروں سے پوشیدہ رکھنے کیلئے ایسی تحریک چلائی جارہی ہے جس سے وہاں کے باشندوں میں ایسا پیغام عام ہوجائے کہ وہ اسلام کے قریب بھی پھٹکنا نہ گوارا کریں۔ اسی وجہ سے اسلام کو مذہب امن واخوت کے بجائے نفرت ودہشت قرار دے کر یوروپ وامریکہ میں اس کی تبلیغ کی جارہی ہے۔“
اسلام کو دہشت گردی و بدامنی کی تعلیم دینے والا مذہب ثابت کرنے کی بھیانک سازش رچ لینے کے بعد اس کے اہل کاروں اور نام لیواؤں کے گرد قید وبند اور صعوبتوں کا حصار قائم کردیاگیا۔ ان کو دہشت گرد کہتے ہی دنیا کی ترچھی نگاہیں ان کاتعاقب کرنے لگیں۔ دنیا پر ان کے کیے ہزارہا احسانات کو فراموش کرکے ان کے دینی مدارس اور علماء کرام کی طرف انگلیاں اٹھائی جانے لگیں۔ جنھوں نے دہشت و بربریت اور جبر وتشدد کی تلوار کبھی ہاتھ میں نہ لی بلکہ ظلم کی تلوار سے ہمہ آن ذبح کیے جاتے رہے۔ مگر مظلوم ومقہور ہونے کے باوجود حق پر قائم اورانصاف کی راہ پر گامزن رہے۔ اوردنیاکو سکھ چین کا گہوارہ بنانے کی خاطر سدا ظلم کامقابلہ کرتے رہے۔ انہیں کی گردنوں پر دہشت گردی کی تلوار لٹکی ہوئی ہے۔اور دہشت گردی کے پلڑے میں انہیں ہی تولا جارہا ہے۔
اب ذرا ان کی خانہ تلاشی کی جائے جو دہشت گردی کے خلاف ڈنکے کی چوٹ پر نعرہ لگاکر اس کے مٹانے اور ختم کرنے کی جنگ لڑرہے ہیں۔ دہشت گردی کی یہ خطرناک اصطلاح وضع کرنے والا اور دنیا کے رخ کو اس سمت پھیرنے والا کون ہے…؟ جس نے دہشت گردی کے نام پر اسلام اورمسلمانوں کو ختم کرنے کی سوچ رکھی ہے۔ مگر کفرو اسلام، حق وباطل کی متعدد جنگوں میں اسلام کی فتح نے یہ حجت تام کردی ہے کہ یہ خدا کاآخری اور پسندیدہ دین ہے جو مٹنے کے لیے نہیں بلکہ دیگر تمام باطل مذاہب کی بیخ کنی اور لوگوں کے غلط اعتقادات کو مٹانے کیلئے آیا ہے۔ غزوئہ بدر کی پہلی اسلامی جنگ نے یہ ثابت کردیا کہ کفر کے تندوتیز سیلاب اور مہیب طوفانوں کے سامنے اسلام کا تناور پودا پورے تزک واحتشام اور پوری شان وشوکت اور آب وتاب کے ساتھ ہمیشہ قائم رہے گا۔ اور کفر کی بھیانک آندھیاں اس چراغ کو بجھانے کی کوشش میں اپنے ہی نشیمن کی تباہی کا باعث بنیں گی۔
دراصل اسلام کو مٹانے کی سازش کے تحت دہشت گردی کے خلاف عَلَم و آواز بلند کرنے والے یہودی اور عیسائی حکمراں ہی اس کے ”بانی“ اور ”پیشوا“ ہیں۔چور اپنی چوری چھپانے کی خاطر دوسروں پر چوری کا الزام تھوپنے کی کوشش کرتا ہے مگر مشہورمثل کے مطابق کہ ”چور کی داڑھی میں تنکا ہوتا ہے“ پکڑا جاتا ہے۔ یہ صرف امکان تک بات نہیں بلکہ حقیقت یہی ہے اوراس پر بے شمار بیّن دلائل اور پختہ ثبوت ہیں۔ اس لیے ہم پورے یقین کے ساتھ یہ بات کہتے ہیں کہ ”دہشت گردی کو مسلمانوں کے ساتھ جوڑنے والے اور دنیا کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے دعوے دار ہی ”اصلی دہشت گرد“ ہیں۔
ورنہ کیا وجہ ہے کہ جھوٹی سچی کہانیاں گڑھ کر افغانستان میں لاکھوں بے گناہ مردوں عورتوں اور معصوم بچوں کو فنا کے گھاٹ اتار دیاگیا۔ تاریخ حقوق انسانی کے منہ کو سیاہ کرکے انسانیت کے سینے میں خنجر گھونپ دیاگیا۔ پھراسی زخم کے قریب عراق میں انسانیت پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں لاکھوں افراد لقمہٴ اجل بن گئے۔ ہزاروں لاشیں خاک وخون میں تڑپ کر پیوند خاک ہوگئیں۔مگر اس حملہ کا کوئی سچا ثبوت اور واقعی جواز نہ پیش کیا جاسکا۔ صرف تیل کی قدرتی دولت پر قبضہ کی ہوس نے اقوام متحدہ کو اپنے ہاتھوں میں نچاکر انسانی قدروں کو پامال کردیا۔اور اسرائیل کے پٹھو امریکہ نے کشت وخون اور آتش وآہن کا ایسا وحشیانہ کھیل کھیلا جس سے تاریخ کا کلیجہ دہل اٹھا۔
فلسطین میں یہودیوں کی آمد کے ساتھ ہی کشت وخون اور قتل وغارت گری کا وہ بھیانک سلسلہ شروع ہواجس کی داستان بڑی المناک ہے۔ حضرت مولانا نور عالم خلیل الامینی ایک موقع پر لکھتے ہیں:
”اس دیار کے اصل مکینوں یعنی فلسطینیوں کو (اسرائیل کی مغرب اور امریکہ کی طرف سے پشت پناہی کی وجہ سے) آفاقی یہودیوں کے ہاتھوں، خانما بربادی، نسل کشی، روز روز کے کشت وخون کے ساتھ ساتھ معاشی بدحالی اور تعلیمی پسماندگی کا جو سامنا رہا اس کی داستان ناقابل بیان حد تک الم انگیز ہے۔ فلسطین میں یہودیوں کو زبردستی لابسانے کی سازش، اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ، عالمی طاقتوں کی ہمہ گیر دشمنی کا جلی عنوان تھی۔ عالمی طاقتوں نے اپنے سارے آپسی اختلافات کے باوجود، متحد ہوکر جسم اسلامی میں ایساگہرا اور کاری زخم لگایا، جو روز اول سے اب تک رس رہا ہے اورنہ معلوم کب تک رستا رہے گا…؟“ (رسالہ دہشت گردی کا عالمی منظرنامہ،ص۴)
لبنان اور چیچنیا میں ہوئے اور ہورہے ظلم وستم میں بھی انہیں کا ہاتھ ہے اوریہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ہونے والے فسادات اور بم دھماکوں کے دل اندوہ اور وحشت ناک واقعات بھی، انہیں کی پشت پناہی میں سطح زمین سے ابھرتے ہیں اور انسانیت کے سینے میں ایک خوفناک خنجر گھونپ کر تاریخ کے صفحات پر نقش ہوجاتے ہیں۔
اسرائیل اور اس کے پٹھو امریکہ کی یہ اصلی دہشت گردی یقینا سارے عالم کے لیے خطرناک ہے، مگر جس فریب کے ساتھ وہ دہشت گردی کا نعرہ بلند کررہے ہیں اور عوام کو بے وقوف بنانا چاہتے ہیں وہ مکاری رفتہ رفتہ سب پر عیاں ہوچکی ہے۔ مگر چور چور کہنے والوں کا یہ ریلہ اس روانی سے بڑھتا آرہا تھا کہ لوگ پہلے سمجھ ہی نہ سکے کہ ہمیں وہمی اور فرضی چور کے پیچھے ہانک کر اصل چور اور حقیقی دہشت گرد سے انہیں دھوکہ میں رکھا جارہاہے۔
چونکہ اسرائیل کے پٹھو اور اسلام کے دشمن امریکہ نے دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے لڑائی لڑنے کے نام پر ”دہشت گردی“ کی اصطلاح کے ساتھ کھلواڑ کیاہے۔ اور دوسروں پر اس کے شکنجوں کو کسنے کے لیے بڑی ہوشیاری اور سنجیدگی سے قدم آگے بڑھایاہے۔ دہشت گردی کی جو تعریف ہم سمجھتے اور کرتے ہیں یعنی ”دہشت گردی ایسے وسائل کو استعمال کرنا ہے جن کا مقصد سماج میں خوف و دہشت کا ماحول پیدا کرنا ہو“ اس اصلی اور حقیقی تعریف کے برعکس امریکہ اور اس کے حواریوں نے دہشت گردی کی تعریف الٹی کی ہے ان کے ذہن کی تخریب کردہ یہ تعریف ہے یعنی ”دہشت گردی ایسے وسائل وذرائع کااستعمال کرنا ہے جن سے سماج میں امن وامان اور نظامِ اسلام قائم ہو۔“ پس وہ اپنی وضع کردہ اور سوچی سمجھی تعریف کے موافق جن لوگوں کو امن کا کارندہ اور امان قائم کرنے والے وسائل کااستعمال کنندہ پاتے ہیں بلاپس وپیش اسے مجرم بناکر دہشت گردی کے الزام میں (اپنی بری سوچ کے مطابق) دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے اس سے جنگ کرتے ہیں۔ اور اسے مٹادینے کے ارادے بناکر اس پر حملہ کردیتے ہیں۔
ان کے نزدیک جو حقیقتاً ظالم اور دہشت گرد ہیں وہ مظلوم اور بیچارے ہیں اور جو واقعتا مظلوم و معصوم ہیں۔ انصاف کی تلاش میں سرگرداں عدالتوں کا چکر لگاتے پھررہے ہیں۔ جنھیں طوقِ غلامی سے چھٹکارا حاصل کرنے کی سزا میں آتش وآہن کے ذریعہ کچلاجارہا ہے یعنی فلسطینی اور چیچنیائی مسلمان وغیرہ وہ ”دہشت گرد“ انتہا پسند اور ملک کی سلامتی کیلئے ”خطرہ“ ہیں۔ افسوس کہ ان لوگوں نے
ع خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
الحاصل اسلام، دہشت گردی کو اس کے صحیح اور حقیقی معنی مفہوم میں رکھتے ہوئے نہ تو دہشت گرد مذہب ہے نہ ہی دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ اسلام دہشت گردی اور ظلم وتشدد کا مخالف اور امن کا علم بردار ہے بلکہ فساد وبگاڑ، ظلم وتشدد اور دہشت گردی کو روکنے اور ختم کرنے کے ہر ممکنہ اسباب اختیار کرتاہے۔ چنانچہ حقیقی دہشت گردی سے، اسلام کی طرح دنیا کا نہ کوئی مذہب لڑا ہے نہ لڑسکے گا۔اور دہشت گردی کا وہ امریکی، صہیونی اور صلیبی مفہوم جو یہ ہے کہ ”ظالم مظلوم اور مظلوم ظالم ہے۔ حق باطل اور ناحق حق ہے اس کے علاوہ جوان کے عزائم کی راہ میں حائل ہو وہ دہشت گردی ہے۔“ اسلام اس مفہوم کی مذمت کرتا ہے اوراس کو بالکلیہ مسترد کرتا ہے۔ کیوں کہ اسلام ظلم کو کسی حالت میں کسی بھی نام اور عنوان سے برداشت نہیں کرسکتا۔
اسلام ہر برائی اور فحش کاری کا مخالف ضرور ہے مگر انسانیت کا سب سے بڑا ہمدرد مذہب ہے۔ اس وقت دنیا میں پھیلی سفاکیت، ظلم و بربریت اور ہربرائی کاخاتمہ اسلام ہی کی تلوارِ امن ومحبت سے کیاجاسکتا ہے۔
آج کے زمانے میں جب کہ ہر صبح طلوع ہونے والا سورج کسی نئی آزمائش اور ہر شام ڈوبتا آفتاب، دہشت گردی کے علم بردار اسرائیل اور امریکہ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کسی نئی سازش کی پیشین گوئی کرتا ہے۔ اہل اسلام اور فرزندان توحید کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ دشمنوں کی سازشوں کو بے نقاب کرنے اور ان کی چالوں سے پردہ ہٹانے والے رجال کار تیار کریں۔ اپنے دفاع کی پوزیشن مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام کی بے داغ، سچی اور صاف ستھری تصویر دنیا والوں کے سامنے پیش کریں۔ اسلام کا صحیح تعارف کرائیں اور اسلام کو معلوم کرنے، جاننے اور پرکھنے کے خواہش مند افراد اسلام کی حقیقی صورت سے واقف ہوجائیں جو ان کی نگاہوں سے چھپائی جارہی ہے۔ ہمارا کردار اسلام کیلئے عملی نمونہ ہو۔ تاکہ جب لوگ یہ سوال کریں کہ اسلام کیا ہے؟ تو انھیں اس کے تعارف کیلئے کتاب What is Islam? اور وعظ کی ضرورت نہ پڑے۔ بلکہ سوال سے پہلے ہی ہمارے عملی مظاہر دیکھ کر وہ اسلام کو پہچان جائیں۔ اپنے کردار کو کھرا بنانے کے ساتھ ساتھ کھرا ثابت کرنے کیلئے ہمارے پاس آج کے دور میں جدید ذرائع ابلاغ،میڈیا اور انٹرنیٹ وغیرہ کی سہولت ہو۔ اپنے حسن اخلاق سے دلوں کو فتح کرنے والے بنیں کہ یہی اسلام کی تعلیم، اسلاف کی تاریخ اور مسلمانوں کی کامیابی کا راز ہے۔
***
__________________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 9-10 ، جلد: 93 رمضان-شوال 1430 ھ مطابق ستمبر-اكتوبر 2009ء