از: سہیل اختر قاسمی
دینی مدارس، اور اسلامی اداروں کا وجود افادیت کا حامل ہے یا مضرت کا؟ اس عنوان سے مکمل جہات کو محیط متعدد نظریات پیش کئے جاچکے ہیں، جو اپنی معتبریت، موزونیت کے اعتبار سے مکمل اور کامل ہیں۔ آج کا ہر رسالہ، اخبار اور ان سرناموں اور عنوانوں کی توضیح و تشریح کرتے ملتے ہیں کہ آیا موجودہ مدارس اپنے جلو میں امن کا کارواں رکھتا ہے یا فساد وتباہی کا آتش فشاں، اب تک مجموعی طور پر جو نظریات سامنے آئے ہیں وہ سب کے سب مدارس اسلامیہ کی شبیہ کو متوازن، امن پسند اور قومیت پسند ماننے کی تعبیر ہیں۔
اپنے وضوح (clarity) اور ایمانداری کے باوجود دینی مدارس کے دامن پر، تشدد پسندوں کی جانب سے جو الزام (دینی مدارس دہشت گرد اور امن مخالف ادارے ہیں) لگاہے وہ واقعی تناظر میں صرف ایک تہمت کی حیثیت رکھتا ہے دراصل مدرسہ مشن سے جس خاص طبقہ (اسلام مخالف طبقہ) کو تکدر اور انقباض ہے وہی، مدرسہ مخالف کاز اور حرکات میں مساعد ومعاون ہوتا ہے، اس جہت سے اس کے افعال واعمال، مدارس مخالف ہی ہوتے ہیں،چونکہ نظریاتی سطح پر اس مفروضے کو تشہیر دی جاتی ہے اور اسے عوامی مقامات پر نمایاں کیاجاتا ہے جس سے ذہن سازی اور فکرسازی کی راہیں بھی ہموار ہوجاتی ہیں مگر تشہیرکا سہارا اسے ناقابل تکذیب سچ بنادیتا ہے اور غالباً اسی منہج عمل نے مدارس اسلامیہ کے پر امن ہونے کے حوالے سے غور وفکر کی راہ کھول دی ہے اور یہ دعوت دی ہے کہ مدارس کی امن پسند شبیہ کو سامنے لایا جائے اور ان کی خدمات کو اس تناظر میں جانچا جائے تاکہ زہرزدہ فضاء میں مدارس کے کردار کو زہریلی ہواؤں سے محفوظ رکھاجاسکے۔
مدارس اسلامیہ کی خشت اول امن کے گارے سے تیار ہوتی ہے اور اس کے مقاصد واہداف میں سلامتی اور تحفظ کا سایہ فگن ہوتا ہے اس واقعیت کے باوجود یہ پروپیگنڈہ کہ مدارس اسلامیہ دہشت گردی کے اڈے اور انتہاپسندی کے مراکز ہیں، معروضیت مخالف ہیں۔
پوری دنیا میں جس مدرسہ کی بنیاد سب سے پہلے پڑی تھی وہ رحمة للعالمین کی زیر سرپرستی صفہ کے نام سے قائم ہوئی تھی، رحم جس کا کام، سلامتی جس کا اعلان اور تحفظ جس کا نظام تھا، اسی روشنی سے جلاپانے والے ہزاروں مدارس دینیہ گزرے دور سے لے کر آج تک اسی اساس پر قائم ہیں ہندوستان میں دینی مدارس بھی اسی نظام امن کے پیامبر اور محافظ ہیں، دینی مدارس کی بنیاد ہی امن وسلامتی کے عنوان سے بنتی ہے اوراس کی تشکیل بھی خیروخوبی کے صدائے عام سے ہوتی ہے۔
اجتماعی اقدار کی تشکیل میں دینی مدارس کے بنیادی کردار سے انکار، ایک برملا حقیقت کا انکار ہوگا! جن بنیادوں پر ان کا قیام عمل میں آیا ہے اس کا نتیجہ اور ہدف صالح اقدار کی تشکیل و تعمیر ہے، ان مدارس کا پس منظر یا ان کی تگ و دو (Works) کا نتیجہ، بہترین علماء، صاحب کردار فضلاء اور انسانیت کے علمبردار، حاملین اسلام کی پیداواری اور معاشرہ کی برائیوں، قباحتوں اور داخلی شورشوں کا انسداد ہے درحقیقت ان مدارس کا جو اساسی منثور اور بنیادی ہدف (Main target) ہے وہ ہے ”عالمی ضرورتوں کی اسلامی تکمیل“ یہی وہ دائرہ ہے جس کے تحت سارے مدارس کا وجود عمل میںآ یا ہے، گویا اپنے عمومی اور اساسی مفہوم میں مدارس دینیہ کی تاسیس عالمی ضرورتوں کی اسلامی تحصیل و تکمیل اورانسانی احتیاجوں کی بھرپائی ہے۔ یہی مدارس کا خاص ہدف ہے اور عام ہدف بھی، ان سے گریز، یا دامن کشی، اپنی اساس سے اعراض ہوگا، اوراگرایسا ہے تو واقعی یہ المیہ اور نامسعود (Unfortunate) ہے ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ، حقائق کا صحیح اور مناسب جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ہمارے دینی مدارس اپنے اساسی منشور سے تھوڑے بہت گریزاں ہیں، یہ کوئی خواہ مخواہ کا قیاس اور رائے زنی نہیں، بلکہ موجودہ دینی اداروں کے اقدامات، رویوں اور عمل سے یہ بات معلوم ہوتی اور واقعی یہ بڑی تکلیف دہ ہے، اس حوالے سے دینی جامعات کو غور وفکر کی ضرورت ہے۔
جہاں تک میں سمجھتاہوں وہ یہ ہے کہ ہماری دینی جامعات کی گریزپائی یا دامن کشی، فقط یونہی نہیں، اس میں دینی مدارس کی جدیدکاری کے عنوان سے چلنے والی تحریکات کے ردعمل کی نفسیات اور خوف کارفرما ہے اور شاید اس معاملہ میں مسلم علماء اور قدامت پسند ماہرین شرعیات کا عناد اور ہٹ دھرمی قابل معافی ہے کیونکہ وہ رد عمل کی نفسیات ہے، اگرچہ یہ ردعمل انتہا پسندانہ اور منفی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ایسے رد عمل سے مسلم امة کا نقصان ہے،اس حوالے سے غور وفکر اور تدبر کے مظاہرہ کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔
بہرکیف ان نقائص (جوکہ کچھ خاص حالات کے پیداوار ہیں) کے باوجود دینی مدارس کی افادیت، تعمیری حیثیت، اخلاقی ساکھ، تشکیلی امیج اور بنیادی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، آج بھی وہ مشعل راہ اور نقوش ہیں، اسے اپناکر، اقدار کی اصلاح کرسکتے ہیں، اخلاقیات کی اشاعت ہوسکتی ہے، تعلیم کی ضرورت پوری ہوسکتی ہے، ناخواندگی کا انسداد ہوسکتا ہے، برائیوں کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور ہر طرح کی قباحتوں کو فنا کے گھاٹ اتارا جاسکتا ہے۔
درحقیقت دینی مدارس کا سارا نظام، عملہ طلبہ اور فاضلین جس کام اور مشن پر مامور ہیں وہ لاتفسدوا فی الارض کی تمثیل اطاعت پر مبنی ہے اس کا بنیادی مشن ہی معاشرے میں امن وسلامتی کی اشاعت ہے، جس قرآن وحدیث کی تعلیم ان مدارس میں ہوتی ہے اس کی خمیر ہی معاشرہ سازی اور انسانی نسل کی اصلاح وتعمیر ہے، مدارس دینیہ کے پورے مقاصد صرف اور صرف بنی نوع انسان کی اصلاح و تعمیر کے ارد گرد گھومتے نظر آتے ہیں، ان مدارس کا تعلیمی جائزہ یہ بتلاتا ہے کہ دنیا کا سب سے معتدل، اور متوازن نصاب مدارس اسلامیہ میں رائج ہے جس نصاب میں تشدد، انتہا پسندی اور غلو آمیزی کا درس نہیں ہوتاہے بلکہ امن وسلامتی، اصلاح وتعمیر اور معاشرہ سازی کی تعلیم دی جاتی ہے درحقیقت مدارس اسلامیہ کا نصاب وہ بہترین مشعل راہ ہے جس کی روشنی میں نصاب سازی اور ازسر نو تعلیمی نظام کی تخلیق پوری دنیا کو امن وسلامتی کی راہ پر لاکھڑا کرے گا، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سورج جیسے روشن حقیقت کو سمجھا جائے اوراسے برتاجائے۔
الغرض مدارس اسلامیہ کا مکمل تعلیمی، تربیتی، اخلاقی، انتظامی، معاشی اور سماجی نظام اعتدال و توازن کا مظہر ہے اس کا ہرحصہ قابل اعتماد،اور ہر شعبہ اعتدال وامن پسندی کا داعی ہے مدارس کے صرف وبذل میں جس اعتدال کا مظاہرہ کیا جاتا ہے وہ اقتصاد وتوازن کا اعلیٰ ترین مظہر ہے جس میں عیاشی، عیش کوشی اور سامان عیش وطرب کی فراہمی کے لئے سرمایہ دارانہ لوٹ کھسوٹ کا شائبہ تک نہیں ہوتا بلکہ بنی نوع انسان کے لئے سامان درس ہوتاہے،اس کا متوازن معاشی نظام ان تمام کالجوں اور یونیورسٹیوں کو یہ درس دیتا ہے کہ کھربوں اور کروڑوں روپے خرچ کرنے اور سامان تزئین کے بے پناہ استعمال کرنے کی وجہ سے آنے والے تعلیمی خرچ میں جو اچھال پیدا ہے اور جس طرح تعلیم کو مہنگا بناکر پیش کیا گیا ہے جس کی بناء پر ہزاروں اور لاکھوں غریب بچوں کی دسترس سے تعلیمی حصولیابی دور ہوگئی ہے وہ افسوس ناک ہے کاش کہ یہ عیاشی اور دھماچوکڑی ختم کی جائے تاکہ غریب سے غریب بچہ تعلیمی اسلحہ سے لیس ہوسکے اور علوم وفنون کا حاصل کرنا آسان ہوسکے۔
مدارس دینیہ کا انتظامی نظام وقار وسنجیدگی اور عدل ومساوات کا بہترین نمونہ ہے اگر یہ نقوش ہماری ہم عصری، عصری یونیورسٹیاں اپنالیں توطلباء کی جانب سے ہونے والے احتجاجات اور اس کے نقصان میں ہونے والے ہرجوں سے محفوظ رہنا آسان ہوجائے گا۔
مدارس اسلامیہ کا اخلاقی نظام، اخلاق ومروت کے مظاہرہ کی دعوت دیتا ہے، سچ یہ ہے کہ طلباء علوم دینیہ کا حسن سلوک اور طرز معاشرت اتنا بلند اور ارفع ہے کہ اسے ہم سماوی رفعتوں سے تعبیر کرسکتے ہیں آج ضرورت ہے کہ دینی مدارس کے ان نقوش کو اپنایا جائے اور ریکنگ کی انتہاء پسندی جوکہ اخلاقی دہشت گردی کی ہی ایک نوع ہے، اسکا سدباب کیا جاسکے۔
الغرض دینی مدارس، سراپا امن وسلامتی ہیں اس کا کردار ماضی میں بھی صاف ستھرا اور روشن تھا آج بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گا درحقیقت دینی مدارس، ایک ایسا مشعل ہیں جس کی روشنی میں امن کا شہر قائم کیاجاسکتا ہے اورپرامن معاشرہ کی تکمیل ہوسکتی ہے آج اس کی ضرورت ہے اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ اس ضرورت کو ضروری اور لازم سمجھاجائے۔
***
_________________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 9-10 ، جلد: 93 رمضان-شوال 1430 ھ مطابق ستمبر-اكتوبر 2009ء