حرفِ آغاز
حبیب الرحمن اعظمی
ہمارا ملک ہندوستان آئین و دستور کی رو سے ایک سیکولر جمہوری ملک ہے، یہاں کا آئین اپنے ہر شہری کو آزادیٴ ضمیر اور آزادی سے مذہب قبول کرنے اور اپنے مذہبی امور و احکام پر عمل کرنے کی ضمانت دیتا ہے چنانچہ دستور ہند میں ”مذہب کی آزادی کا حق“ کے تحت صاف لفظوں میں درج ہے کہ
”تمام اشخاص کو آزادیٴ ضمیر، اور آزادی سے مذہب قبول کرنے،اس کی پیروی اور اس کی تبلیغ کا مساوی حق ہے، بشرطیکہ امن عامہ، اخلاق عامہ، صحت عامہ اور اس حصہ کی دیگر توضیعات متاثر نہ ہوں۔ (بھارت کا آئین حصہ۳ – بنیادی حقوق دفعہ ۲۵ ص۴۶)
چنانچہ اسی مذہبی آزادی کے تحت سکھ مذہب کے ماننے والے اپنی داڑھیوں اور دیگر مذہبی امتیازات کے ساتھ فوج اور پولیس میں بھرتی ہوتے ہیں، ان کی داڑھی پر نہ فوج کے کسی افسر کو اعتراض ہوتا ہے، نہ عدلیہ کو اور نہ ہی حکومت کی جانب سے اس پر کسی قسم کی قدغن عائد کی جاتی ہے۔
دستور کی اس بنیادی دفعہ، اور مضبوط ضمانت، نیز سکھ قوم کے ساتھ حکومت اور اس کے اہل کاروں کے اس معمول کے باوجود حکومت، اس کے ماتحت ادارے، حتی کہ عدلیہ تک کا رویہ مسلم اقلیت کے مذہبی امور کے بارے میں نہ صرف غیرمنصفانہ بلکہ جارحانہ ہے، ”بابری مسجد“ ہی کا معاملہ لے لیجئے جس کا مسجد ہونا تاریخ کے ٹھوس شواہد ہی سے نہیں خود سرکاری و عدالتی کاغذات سے بھی ثابت ہے، لیکن اس قدیم تاریخی مسجد کو کس آسانی کے ساتھ مندر میں تبدیل کردیاگیا، اس سے کون واقف نہیں ہے، کچھ اسی طرح کا رویہ مسلمانوں کی داڑھی کے بارے میں بھی اختیار کیاجارہا ہے۔ فوج اور پولیس میں مسلم ملازمین کو داڑھی منڈوانے پر مجبور کیا جاتا ہے اور ستم ظریفی کی حد ہے کہ اس غیرآئینی اور یکسر غیر منصفانہ عمل پر عدالت عالیہ کی جانب سے سند جواز بھی دیدی جاتی ہے، مسٹر بی، سی بال، کرشنا میننن جسٹس کیرلا ہائی کورٹ کا داڑھی کے عندیہ میں ۱۹۸۸/ کا فیصلہ ہمارے اس دعویٰ پر شاہد عدل ہے۔ ”انصاف کو آواز دو انصاف کہاں ہے“ جبکہ مذہب اسلام میں داڑھی رکھنا ایک خالص مذہبی و شرعی عمل ہی نہیں بلکہ اسلامی شعار ہے، جس طرح ہندو دھرم میں سرپرچوٹی رکھنا، جنیو پہننا، یا سکھ پنتھی میں سراور داڑھی کے بال بڑھانا، یا عیسائی مذہب میں گردن میں صلیب آویزاں کرنا مذہبی علامت اورپہچان ہے، جن پر کسی قسم کی بندش عائد کرنا اور قدغن لگانا آئین بھارت کے سراسر خلاف ہوگا، اور اس رویہ کو بجاطور پر خلافِ قانون، نا انصافی اور ظلم کہا جائے گا بالکل اسی طرح مذہب اسلام میں داڑھی کا رکھنا مذہبی شعار اور دینی علامت ہے، جس پر حکومت اور اس کے ماتحت اداروں کی جانب سے کسی طرح کی بھی بندش اور رکاوٹ ایک خالص مذہبی معاملہ میں دخل اندازی ہوگی جسے بجا طور پر دستور سے انحراف اور غیرمنصفانہ عمل قرار دیاجائے گا۔
مذہب اسلام سے معمولی واقفیت رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ داڑھی داعی اسلام نبی رحمت محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی سنت اور دائمی طریقہ عمل ہے اس دائمی عمل کے ساتھ آپ صلى الله عليه وسلم نے مذہب اسلام پر چلنے والوں کو تاکید کے ساتھ داڑھی رکھنے کا حکم بھی دیا ہے، چنانچہ صحیح بخاری شریف میں آپ کا فرمان ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: وفروا اللحی، واحفوا الشوارب، ایک دوسری جگہ یہی فرمان ان الفاظ میں ہے : انہکوا الشوارب واعفوا اللحی، اور صحیح مسلم میں یہ الفاظ ہیں جزوالشوارب وارخوا اللحی، ان سب احادیث کا حاصل یہی ہے کہ مونچھوں کو کتراجائے اور داڑھی کے بال بڑھائے جائیں، چنانچہ آپ کے اس تاکیدی حکم اور دائمی عمل کی بناء پر فقہائے اربعہ یعنی امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ کا متفقہ فیصلہ ہے داڑھی کا مونڈنا ناجائز و حرام ہے۔ اور یہی وہ فقہائے مجتہدین ہیں جن کی بیان کردہ کتاب وسنت کی تفاسیر اور تشریحات و تفصیلات کی روشنی میں صدیوں سے (بجز شرذمہٴ قلیلہ کے) پوری امت مسلمہ اپنے خدائے واحد کی عبادت اور شریعت اسلامی پر عمل کرتی چلی آرہی ہے۔
ذیل میں فقہائے اربعہ کی مشہور ومعروف اور علمائے اسلام میں متداول کتب فقہ کے مختصر حوالے ملاحظہ کیجئے:
فقہ حنفی کی مشہور فقہ کی کتابیں مثلاً درمختار، بحرالرائق، فتح القدیر وغیرہ میں داڑھی کی شرعی مقدار کو بیان کرتے ہوئے یہ تصریح موجود ہے ”واما الاخذ منہا وہی دون ذلک کما یفعلہ بعض المغاربة ومخنثة الرجال فلم یبحہ احد، واخذ کلہا فعل یہود الہند ومجوس الاعاجم اھ“ یعنی ایک مٹھی سے کم داڑھی کا چھانٹنا جیسا کہ بعض اہل مغرب،اور مخنث مردوں کا عمل ہے تو اس کو کسی نے بھی مباح اور جائز نہیں کیاہے، اور پوری داڑھی کا مونڈنا (مسلمانوں کا نہیں بلکہ) ہندوستان کے یہود اور عجم کے مجوسیوں کا طریقہ ہے۔
اور شوافع کے مشہور عالم وفقیہہ علامہ احمد بن قاسم عبادی ”تحفہ المحتاج“ کے حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ امام شافعی رحمة الله عليه نے اپنی انتہائی اہم تصنیف کتاب الام میں صراحت سے تحریر کیا ہے کہ داڑھی کا مونڈنا حرام ہے، اسی طرح امام زرکشی، امام حلیمی، اور ان کے استاذ قفال شاشی وغیرہ فقہائے شوافع لکھتے ہیں کہ ”الصواب تحریم حلقہا جملة لغیر علة“ درست بات یہی ہے کہ پوری داڑھی کا بغیر کسی معتبر عذر کے مونڈنا حرام ہے۔
علامہ شیخ احمد النفراوی المالکی ”رسالہ امام ابن ابی زید“ کی شرح میں لکھتے ہیں ”وفی قص الشوارب واعفاء اللحی مخالفة الاعاجم فانہم کانوا یحلقون لحاہم ویعفون الشوارب، وآل کسری ایضاً کانت تحلق لحاہا وتبقی الشوارب، فما علیہ الجند فی زماننا من امر الخدم بحلق لحاہم دون شواربہم لاشک فی حرمتہ عند جمیع الائمة لمخالفتہ لسنة المصطفٰی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولموافقتہ لفعل الاعاجم والمجوس، والعوائد لایجوز العمل بہا الا عند عدم نص عن الشارع مخالف لہا، والا کانت فاسدة یحرم العمل بہا، الاثریٰ لو اعتاد الناس فعل الزنا او شرب الخمر لم یقل احد بجواز العمل بہا“ اھ .
یعنی مونچھوں کے تراشنے، اور داڑھی کے بڑھانے میں عجمیوں کے طریقہ کی مخالفت ہے، کیوں کہ یہ لوگ داڑھیوں کو مونڈتے اور مونچھوں کو بڑھاتے ہیں،اور ایران کے مجوس بھی داڑھیوں کو چھیلتے اور مونچھوں کو باقی چھوڑ دیتے تھے، لہٰذا ہمارے زمانہ میں سرکاری فوج میں بھرتی لوگوں کا یہ طریقہٴ عمل کہ وہ مونچھوں کی بجائے داڑھی کو مونڈتے ہیں، بغیر کسی شک وشبہ کے تمام ائمہ کے نزدیک ان کا یہ عمل حرام ہے، کیونکہ یہ محمد مصطفی صلى الله عليه وسلم کے طریقہ کی مخالفت اور عجمیوں اور مجوسیوں کے عمل کی موافقت ہے (جبکہ شرعی امور میں ان کی مشابہت و موافقت ممنوع ہے) رہا معاملہ لوگوں کی عمومی عادت و معمول کا تو اس پر عمل اسی وقت جائز ہوسکتا ہے جبکہ اس عادت و معمول کے خلاف شارع کی نص موجود نہ ہو،اس کے خلاف شارع کی نص ہوتے ہوئے یہ عادت از روئے شرع فاسد ہوگی اوراس پر عمل کرنا حرام ہوگا۔
یہ بات کسے نہیں معلوم ہے کہ اگر عام لوگ زنا یا شراب کے عادی ہوجائیں تو ان کی اس عادت کی بناء پر زنا یا شراب نوشی کو جائز نہیں کہا جاسکتا ہے۔
اور فقہ حنبلی کی معروف ومعتبر کتاب شرح مختصر المقنع میں ہے ”ویعفی لحیتہ ویحرم حلقہا ذکرہ الشیخ تقی الدین، ولا یکرہ اخد ما زاد علی القبضة، وماتحت حلقہ، ویحف شاربہ وہو اولیٰ من قصہ“ اور اپنی داڑھی کو بڑھاے، داڑھی کا مونڈنا حرام ہے اس مسئلہ کو شیخ تقی الدین رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے، اور ایک مٹھی سے زائد داڑھی کے بال کا کاٹنا مکروہ نہیں ہے، اسی طرح حلق کے نیچے کے بال تراشنا بھی مکروہ نہیں ہے، اور مونچھوں کو جڑسے صاف کردینا اس کے چھانٹنے سے بہتر ہے۔
رسول خدا صلى الله عليه وسلم کے قول وعمل اور فقہائے مجتہدین کی ان تصریحات کے ہوتے ہوئے کسی مسلمان شہری کو خواہ وہ محکمہ فوج و پولیس کا ملازم کیوں نہ ہو داڑھی نہ رکھنے پر مجبور کرنا نہ صرف آئین بھارت کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ حقوق انسانی کے بین الاقوامی قانون کی بھی صریح مخالفت ہے۔ اور اس پر طرّہ یہ ہے کہ بعینہ اسی معاملہ میں سکھ قوم کو اپنے مذہب کے مطابق داڑھی رکھنے کی حکومت اور اس کے ماتحت اداروں کی جانب سے مکمل آزادی ہے۔
داڑھی بہرحال داڑھی ہے چاہے وہ کسی مسلم کے چہرے پر ہو یا سکھ وغیرہ کے چہرے پر، اگر سکھ کی داڑھی اس کے لئے اپنی فوجی وغیرہ ملازمت کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے میں حارج اور مانع نہیں ہے تو پھریہی داڑھی ایک مسلم فوجی ملازم کے لئے اس کے فرائض کی ادائیگی میں کس طرح رکاوٹ بنے گی؟ ”اک بام دو ہواے“ اور من وتو کے اس واضح و بین فرق کو کیسے معقول اور درست مانا جاسکتا ہے۔ حکومت اور اس کے اہل کار اگر واقعی دستور ہند کو تسلیم کرتے ہیں، قانون و انصاف کی ان کی نگاہوں میں کوئی حیثیت ہے تو پھر انھیں اپنے اس رویہ پر نظرثانی کرنی چاہئے اور سکھوں کی طرح مسلم اقلیت کے اس دستوری مذہبی حق کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی بجائے پوری فراخ دلی کے ساتھ ان کی جانب سے ایسے مواقع فراہم کئے جائیں کہ مسلم اقلیت اپنے اس مذہبی حق کو آزادی کے ساتھ استعمال کرسکے، یہی آئین بھارت کا تقاضا ہے، قانون و انصاف یہی چاہتے ہیں، ملک کی سیکولر قدریں اسی صورت میں محفوظ رہ سکتی ہیں۔
پھر حکومت کا اپنے اس غیرمنصفانہ رویہ کو درست ٹھہرانے کے لئے یہ دعویٰ کہ ”داڑھی رکھنا مسلمانوں کے لئے مذہباً لازم نہیں ہے“ ”عذر گناہ بد تراز گناہ“ کا مصداق ہے، کون نہیں جانتا کہ کسی مذہب کے امور واحکام کی توضیح و تشریح ان کے درمیان مراتب ودرجات کی تعیین وترتیب کہ اس مذہب میں کونسا حکم فرض ولازم، اور کونسا سنت ومستحب یا مباح ہے، اس مذہب کے قابل اعتماد ماہرین ہی کرسکتے ہیں، اور فقہائے اسلام جن پر امت کا سواد اعظم مکمل اعتماد کرتا ہے اس ضروری خدمت کو صدیوں پہلے انجام دے چکے ہیں، اور عام مسلمان سلف صالحین اور اپنے بزرگوں کی اس خدمت کو بنظر استحسان دیکھتے ہیں، اب کسی اور کی تشریح و تفصیل کی انہیں ضرورت نہیں ہے۔ پھر ایک سیکولر ملک کی حکومت کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ مذہبی حدود میں مداخلت اور دراندازی سے اپنے آپ کو دور رکھے اور مذہبی معاملات و نظریات کے بارہ میں قطعاً غیرجانب دار رہے، حکومت کا یہی طرز عمل، ملک، قوم اور خود حکومت کے حق میں مناسب اور بہتر ہے بصورت دیگر ملک میں انتشار، بدامنی، افراتفری پھیلنے کا قوی اندیشہ ہے، جو سب کے لیے غیر مناسب اورنامبارک ہوگا۔
***
—————————-
ماهنامه دارالعلوم ، شماره 02 ، جلد: 93 صفر 1430 ھ مطابق فرورى 2009ء