حرفِ آغاز
حبیب الرحمن اعظمی
جامعہ امام انور دیوبند کے موٴسس، وقف دارالعلوم کے شیخ الحدیث و صدر المدرسین، دیوبند مکتب فکر کے ایک لائق و فائق عالم دین حضرت مولانا سیدانظر شاہ کشمیری تقریباً پانچ چھ ماہ کی علالت کے بعد دہلی کے ایک ہسپتال میں ۱۸/ربیع الثانی ۱۴۲۹ھ موافق ۲۸/اپرایل ۲۰۰۸/ بروز شنبہ بعمر ۸۲ سال اس دار فانی کو چھوڑ کر راہیٴ عالم جاودانی ہوگئے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون، اللّٰہم انزل علیہ شآبیب رحمتک، وارفع درجتہ، واجعلہ من عبادک المقربین.
شاہ صاحب رحمہ اللہ کی صحت وتوانائی قابل رشک تھی، اس پنج ماہی مرضِ وفات کے پیش آنے سے پہلے ان کے جسمانی قویٰ عمر کے لحاظ سے نہایت اچھے تھے، صبح و شام کی ہواخوری اور تفریح ان کا ایک قدیم معمول تھا جس میں شاید وباید ہی کبھی تخلف ہوتا تھا۔
حضرت شاہ صاحب مرحوم نہایت خوش اخلاق، نرم گفتار اور باغ وبہار طبیعت کے مالک تھے جس مجلس میں ہوتے اپنے لطائف و ظرائف سے اسے زعفران زار بنادیتے تھے، خردنوازی، بے تکلفی اور احباب پروری ان کی عادت ثانیہ تھی، وہ اگرچہ علمی و دینی طبقہ کے ایک فرد وحید تھے، لیکن ان کے وہ لوگ بھی گرویدہ تھے جو علم دین سے چنداں تعلق نہیں رکھتے، وہ عوامی حلقہ میں بھی ایسے ہی پیارے تھے جیسے طلبہ و علماء کی جماعت میں یہ ان کے وسیع حسن اخلاق کی ایک کرامت تھی۔ ذکاوت و ذہانت میں بلا استثناء اپنے ہم عصروں میں امتیازی شان رکھتے تھے، اور اپنے لئے آپ راستہ پیدا کرلینے کی حکمت عملی میں یدطولیٰ کے مالک تھے۔ وہ بیک وقت ایک کامیاب و مقبول مدرس، اعلیٰ درجہ کے خطیب و مقرر اور بلندپایہ صاحب قلم و مصنف تھے ان کی تحریں رواں دواں اور ادب کی چاشنی کا نمونہ ہوتی تھیں، اسلامیات میں تفسیر وحدیث ان کا محبوب موضوع تھا۔ اور ان میں وہ اپنی نمایاں پہچان رکھتے تھے، تعلیم وتدریس اور تالیف و تصنیف کے مشغلہ سے مضبوط ومستحکم وابستگی کے ساتھ ملکی سیاست سے بھی عملاً وابستہ تھے، اور سیاسی حلقوں میں ان کی مقبولیت اور پذیرائی علمی، دینی دائروں سے کم نہیں تھی۔
ایک ایسے وقت میں جبکہ فضلاء وفارغین کی تعداد میں کثیراضافہ کے باوجود کام کے افراد کی قلت اور کمی کا احساس عام ہے، افسوس کہ ملتِ اسلامیہ ہند اپنے ایک ایسے جامع فضل وکمال اور صاحب فکر و عمل سپوت سے محروم ہوگئی جس کی کمی زندگی کے مختلف شعبوں میں ایک عرصہ تک محسوس کی جاتی رہے گی۔
حضرت شاہ صاحب مرحوم و مغفور ۱۴/شعبان ۱۳۴۷ھ مطابق ۲۶/جنوری ۱۹۲۹/ کو محلہ خانقاہ دیوبند میں پیداہوئے، آپ حضرت محدث عصر علامہ انور شاہ کشمیری کی آخری اولاد تھے، والد بزرگوار کے سایہٴ عاطفت میں اس جہانِ بے ثبات کی ابھی چار بہاریں ہی دیکھی تھیں کہ ۳/صفر ۱۳۵۲ھ / ۲۸/مئی ۱۹۳۴/ کو وہ اپنے اس نونہال کو مالکِ کائنات کے حوالہ کرکے خود راہ گیرِ عالم آخرت ہوگئے، اس طرح بغیر کسی کسب و اختیار کے دربارالٰہی سے یتیمی کی سنت نصیب ہوگئی۔
والد ماجد کی وفات کے بعد والدہ اور بڑی بہن کی زیرنگرانی تعلیم و تحصیل کا آغاز کیا، قرآن مجید کی تعلیم مکمل کرلینے کے بعد دارالعلوم دیوبند سے فارسی کے پانچ سالہ نصاب کی تکمیل کی، بعد ازاں آپ کے خالہ زاد بھائی حکیم اختر نے آپ کا داخلہ پنجاب یونیورسٹی میں کرادیا، جہاں سے انھوں نے اردو ادیب، عالم، ادیب فاضل فارسی اور منشی فاضل کے امتحانات دئیے۔ اس کے بعد کرنال سینٹر سے انگریزی مضمون کے دوپرچوں کا امتحان دیا۔ یہ ہندوپاک کی تقسیم کا زمانہ تھا، ہرطرف فسادات اور قتل وخونریزی کا بازار گرم تھا، شاہ صاحب کرنال سے دہلی آگئے، لیکن دہلی میں بھی حالات ویسے نہیں تھے کہ وہاں قیام کیا جاسکے۔ اسلئے دہلی سے منتقل ہوکر دیوبند واپس آگئے۔
دیوبند کی مراجعت کے بعد شاہ صاحب کے سرپرستوں نے انھیں حضرت محدث عصر علامہ انور شاہ کشمیری کے تلمیذ اور حضرت شیخ الاسلام مولانا مدنی قدس سرہ کے خادم خاص قاری اصغر علی سہس پوری رحمہ اللہ کی تربیت میں دیدیا، قاری صاحب موصوف چھوٹے بچوں کی تعلیم و تربیت کا بڑا ستھرا سلیقہ رکھتے تھے، وہ پڑھاتے نہیں بلکہ گھول کر پلاتے تھے ساتھ ہی بچوں کے مزاج کی رعایت رکھتے ہوئے ان کی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دیتے تھے۔ قاری صاحب کی یہ تعلیم و تربیت شاہ صاحب مرحوم کے حق میں بڑی مفید ثابت ہوئی اور وہ ہر طرف سے یکسوہوکر پڑھنے لکھنے اور اپنے مستقبل کی تعمیر میں پوری طرح منہمک ہوگئے،اور چند ہی سالوں میں متوسطات تک کی کتابوں کی تکمیل کرکے دارالعلوم دیوبند میں باقاعدہ داخلہ لے لیا اورآگے کی کتابیں اس وقت کے اساتذہ مولانا معراج الحق دیوبندی، مولانا محمد حسین بہاری، مولانا عبدالفتاح وغیرہ سے پڑھ کر اس وقت کے صدرالمدرسین اور شیخ الحدیث حضرت شیخ الاسلام مولانا مدنی اور شیخ المعقولات علامہ محمد ابراہیم بلیاوی، شیخ الادب مولانا محمد اعزاز علی وغیرہ اکابر اساتذہ سے دورئہ حدیث کی تکمیل کرکے سند فراغت حاصل کی۔
حضرت شاہ صاحب کی علمی صلاحیتوں کو نکھارنے اور پروان چڑھانے میں حضرت شیخ الادب رحمہ اللہ کا کردار بہت اہم ہے، جس کے معترف شاہ صاحب زندگی بھر رہے اوراس سلسلے کے واقعات کو بڑی دلچسپی سے بیان کیاکرتے تھے۔
تعلیم و تحصیل سے فراغت کے بعد ۱۳۷۲ھ / ۱۹۵۳/ میں بحیثیت مدرس مادر علمی دارالعلوم میں آپ کا تقرر ہوگیا اور اپنے محسن اساتذہ بالخصوص حضرت شیخ الادب کی نگرانی ورہنمائی میں تدریس کا سلسلہ شروع کردیا جو مسلسل چوبیس سالوں تک جاری رہا، اس مدت میں شاہ صاحب نے نصاب میں شامل اکثر بلکہ بعض کتابوں کے علاوہ سبھی کتابوں کا درس دیا، شاہ صاحب کی قوت حافظہ اور یاد داشت نہایت قوی، ذہانت و ذکاوت میں بھی اپنے ہم عصروں میں ممتاز تھے، اسی کے ساتھ زبان و بیان پر انھیں پوری قدرت حاصل تھی۔ اس لئے ان کا درس طلبہ میں ہمیشہ مقبول اور وہ خود محبوب رہے۔ ۱۹۸۰/ میں دارالعلوم دیوبند سے رسمی تعلق منقطع ہوجانے کے بعد وقف دارالعلوم میں تدریس کا سلسلہ جاری رہا، درس و تدریس کاوہ سلسلہ جو آج سے چوبیس پچیس سال پہلے شروع کیا تھا، اگرچہ اس کی جگہ بدل گئی، لیکن وہ بغیر کسی انقطاع کے بدستور جاری رہا اس مدت میں دیگر کتابوں کے علاوہ صرف بخاری شریف کے طلبہ کی تعداد جنھوں نے دونوں جگہوں میں شاہ صاحب سے پڑھا سات ہزار سے اوپر ہے۔ ذلک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء تدریس کے ساتھ تصنیف وتالیف بھی شاہ صاحب کا محبوب ترین مشغلہ تھا، وہ اپنے پرہجوم اورمشغول و مصروف اوقات میں سے ایک وقت اپنے اس ذوق کی تسکین کے لئے ضرور فارغ کرلیا کرتے تھے، چنانچہ انھوں نے اپنے اس طویل علمی سفر میں تلامذہ کی کثیر جماعت کے ساتھ قرآن، حدیث، تذکرہ و سوانح وغیرہ مختلف موضوعات پر دو درجن سے زائد تصنیفی یادگار بھی چھوڑی ہیں۔
ان خالص علمی مشاغل کے ساتھ شاہ صاحب ملکی سیاست سے بھی دلچسپی رکھتے، اور عملی طور پر وہ ہمیشہ کانگریس سے وابستہ رہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ کانگریس اگر اپنی قدیم روایت پر عمل پیرا ہوجائے تو وہ اس ملک کو بہت کچھ دے سکتی ہے، کانگریس کا مقابلہ فرقہ پرستی اور علاقائیت سے ہے جس سے عہدہ برآہونے کے لئے کانگریس کو نئی طاقت کی ضرورت ہے۔ کانگریس سے ان کی یہ وابستگی، کانگریسیوں کے غلط کاموں پر تنقید و تبصرہ سے ان کے لئے کبھی مانع نہیں ہوئی۔
غرضیکہ شاہ صاحب کی شخصیت مجموعہ کمالات تھی، زندگی کے ہرمیدان میں ان کی خدمات اور جہدوعمل کے نقوش موجود ہیں جن سے آنے والی نسلیں اپنے ذوق و طبیعت کے مطابق روشنی حاصل کرتی رہیں گی۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اپنی مرضیات سے نوازے، اعلیٰ علیین میں انھیں مقام عطا فرمائے، اوراپنے مقربین بندوں کے زمرے میں انھیں شامل فرمائے، آمین یا رب العالمین۔
____________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 5، جلد: 92 ، جمادی الاولی 1429 ہجری مطابق مئی 2008ء