از: (مولانا) شیر محمد امینی
جب سے انسان اس دنیا میںآ باد ہوا ہے اس وقت سے آج تک ہر دور میں کسی نہ کسی خطے میں کوئی انسان ایسا ضرور پیداہوتا رہا ہے جس نے انسانوں کو سیرت و کردار کی تعمیر کی دعوت دی اور اخلاق و اعمال کی درستگی کا درس دیا۔ ان اخلاقی رہنماؤں نے ہمیں بنیادی انسانی صفات پر قائم رہنے، حیوانوں سے ممتاز زندگی گزارنے اور بلند ترین اخلاقی صفات اپنے اندر پیدا کرنے کی تعلیم دی۔ ان ہی رہنماؤں میں سے ایک مقدس و پاک ذات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جزیرہ نمائے عرب میں اس وقت پیداہوئے جب پورا عرب شدید اخلاقی بحران کا شکار تھا اور دنیائے انسانیت میں عجیب ہیجان سا برپا تھا۔ اخلاقی اصول بے محابا توڑے جارہے تھے اور انسانیت کی برسرعام تذلیل کی جارہی تھی۔ انسان سیرت و کردار کی تعمیر سے غافل اور عزت و ناموس کی تخریب کاری میں مشغول تھا۔ وہ ساری انسانی صفات سے بے پرواہ اور بلند اخلاقی اصولوں سے نابلد تھے کھلے عام بدکاری کرنا ، دوسروں کے حقوق غصب کرنا، دوسروں کی عزت و جان پر حملہ آور ہونا۔ یہ عام سی بات تھی۔ ایسے میں اخلاق و کردار کی بات کرنا کچھ ایسا ہی تھا جیسے صحرا میں صدا لگانا، مگر اس نبی امّی نے اپنی ساری عمر اخلاقی اصولوں کی تبلیغ اور الٰہی قوانین کی اشاعت میں گزاردی اور ایک دن کے لئے بھی وہ اپنے ماحول کی تیرگی سے مایوس نہ ہوئے۔ آخر کار وہ دنیائے انسانیت سے اخلاقی باختگی کی انسانیت سوز فضا کو ختم کرنے میں پورے طور پر کامیاب ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محنت شاقہ نے ایک مردہ وافسردہ قوم میں زندگی کی روح پھونک دی۔ باہم برسرپرخاس قبیلوں کے مجموعہ متفرقات کو وحدت بخش کر ایک ایسی قوم بنادیا، جس کا محرک عمل حیات ابدی کی امید تھی۔ روشنی کی جو منتشر شعائیں اس وقت علیحدہ علیحدہ دل انسانی پر پڑی تھی انہیں لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نقطہ پر مرکوز کردیا۔ معاشرہ کو نہ صرف ایک مثالی معاشرہ میں تبدیل کیا، بلکہ اس معاشرہ کے افراد کو انسانیت کا علمبردار بناکر پیش کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں روحانی واخلاقی پاکیزگی، فرد کی آزادی، فرد اورمعاشرہ کے مابین ایک توازن قائم کیا جس کی مثال انسانی تاریخ میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔
عام طور پر دنیا کے دوسرے معلّمین اخلاق کے ساتھ یہ المیہ رہا ہے کہ وہ جن اخلاقی اصولوں کی تبلیغ کرتے ہیں اور جن ملکوتی صفات کو جذب کرنے پر زور دیتے ہیں خود ان کی اپنی زندگی میں ان تعلیمات کا اثر بہت کم ہوتا ہے، مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں آپ کو کہیں بھی یہ نقص نظر نہیں آئے گا جو شخص سیرت و کردار پاک کی جتنی زیادہ گہرائی میں جائے گا وہ اسی قدر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بلند اخلاق اور پاکیزہ کردار کا مدح سرا نظر آئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا سب سے بڑا اصول یہ تھا کہ نیکی کا کوئی کام اور ثواب کا کوئی عمل ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے اس پر عمل کرتے تھے۔ آپ جب کسی بات کا حکم دیتے تو پہلے آپ اس کو کرنے والے ہوتے۔
حضرت انس بن مالک رضي الله تعالى عنه رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی صحابی اور وفادار خادم تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو انھوں نے بہت قریب سے دیکھا تھا اور آپ کی سیرتِ مبارکہ کا بڑی گہرائی سے مشاہدہ کیا تھا۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے پورے دس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی مجھے اُف تک نہیں کہا اور میرے کسی کام پر یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کیوں کیا اور نہ کبھی یہ فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا۔ بلاشبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ محاسن اخلاق کے حامل تھے۔
حضرت انس رضي الله تعالى عنه سے زیادہ قریب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و کردار اور اخلاق واعمال کے مشاہدے کا موقع ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضي الله تعالى عنها کو میسر آیا تھا کیوں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفیقہٴ حیات تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ظاہری اور خانگی معمولات و عادات سے واقف تھیں۔ ایک مرتبہ چند صحابی رضي الله تعالى عنه حضرت عائشہ صدیقہ رضي الله تعالى عنها کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے امّ المومنین ! حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور معمولات بیان فرمائیے۔ تو عائشہ صدیقہ نے جواب دیا کہ کیا تم لوگوں نے قرآن نہیں پڑھا؟ کان خلق رسول القرآن ”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن تھا“ (ابوداؤد شریف) یعنی قرآنی تعلیمات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و کردار میں رچی اور بسی ہوئی تھی۔ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ذرا بھی منحرف نہ تھے۔ خود قرآن کریم میں آپ کے بلند اخلاق و کردار کی شہادت دی گئی ہے کہ ”بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق کے اعلیٰ پیمانہ پر ہیں“ (سورہ القلم آیت:۴)
رشتہ داروں میں حضرت علی رضي الله تعالى عنه جو بچپن سے جوانی تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہے تھے، وہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم طبیعت کے نرم اور اخلاق کے نیک تھے، طبیعت میں مہربانی تھی سخت مزاج نہ تھے۔ کسی کی دل شکنی نہ کرتے تھے، بلکہ دلوں پر مرہم رکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رؤف و رحیم تھے۔ (شمائل ترمذی) جب مکہ فتح ہوا تو حرم کے صحن میں قریش کے تمام سردار مفتوحانہ انداز میں کھڑے تھے۔ ان میں وہ بھی تھے جو اسلام کے مٹانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگاچکے تھے، وہ بھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایاکرتے تھے، وہ بھی تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برائی کیا کرتے تھے، وہ بھی تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتے تھے، وہ بھی تھے جو خود اس پیکر قدسی کے ساتھ گستاخیوں کا حوصلہ رکھتے تھے۔ وہ بھی تھے جنھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر پھینکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں کانٹے بچھائے تھے وہ بھی تھے جنھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تلواریں چلائی تھیں، وہ بھی تھے جو غریب اور بے کس مسلمانوں کو ستاتے تھے ان کو جلتی ریتوں پر لٹاتے تھے۔ دہکتے شعلوں سے ان کے جسم کو داغتے تھے۔ آج یہ سب مجرم سرنگوں سامنے تھے پیچھے دس ہزار خون آشام تلواریں محمد رسول اللہ کے ایک اشارے کی منتظر تھیں، مگر قربان جائیے محمد عربی پر کہ اس نے ان تمام جرائم سے قطع نظر، جانی دشمنوں پر ہر طرح سے غلبہ کے باوجود ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا اور اپنی بلند اخلاق کا کیسا دائمی اور عالمگیری نمونہ دنیا والوں کے لئے قائم کردیا؟ اس سلسلے میں مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمة الله عليه لکھتے ہیں کہ:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے قریشیو! تمہیں کیا توقع ہے کہ اس وقت میں تمہارے ساتھ کیا کروں گا؟ انھوں نے جواب دیا ہم اچھی ہی امید رکھتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کریم النفس اور شریف بھائی ہیں اور کریم و شریف بھائی کے بیٹے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں تم سے وہی کہتا ہوں جو حضرت یوسف عليه السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا ”لا تثریب علیکم الیوم اذہبوا فانتم الطلقاء“ آج تم پر کوئی الزام نہیں جاؤ تم سب آزاد ہو (نبی رحمت:۴۵۷)
ابوسفیان جو عزوئہ بدر، غزوئہ احد، غزوئہ خندق وغیرہ میں لڑائیوں کا سرغنہ تھا۔ جس نے نہ جانے کتنے مسلمانوں کو تہہ تیغ کرایا، کتنی دفعہ خود حضور صلى الله عليه وسلم کے قتل کا فیصلہ کیا، جو ہر ہر قدم پر اسلام کا سخت ترین دشمن ثابت ہوا، لیکن فتح مکہ کے موقع پر جب حضرت عباسرضى الله تعالى عنه کے ساتھ آپ صلى الله عليه وسلم کے سامنے آتاتھا تو اس کا ہرجرم اس کے قتل کا مشورہ دیتا ہے۔ مگر رحمت عالم صلى الله عليه وسلم کے اخلاق کریمانہ اور عفو عام ابوسفیان سے کہتے ہیں کہ ڈر کا مقام نہیں محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم انتقام کے جذبہ سے بالاتر ہیں پھر حضور صلى الله عليه وسلم نے نہ صرف اس کو معاف فرمادیا بلکہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ”من دخل دار أبی سفیان کان آمناً“ جو ابوسفیان کے گھر میں پناہ لے گا اس کو بھی امن ہے۔
بلند اخلاق کی ایسی جیتی جاگتی، دائمی اور عالم گیر مثال کیا کوئی پیش کرسکتا ہے یا دنیا نے اپنے معرض وجود کے دن سے اب تک ایسی نظیر دیکھی ہے؟ ہرگز نہیں! یہ فضل خاص ہے جو اللہ رب العزت نے آپ صلى الله عليه وسلم کو عطا کیاتھا رسالت محمدی صلى الله عليه وسلم کی بنیادی ذمہ داری قرآن کی تلاوت اوراس کی تعلیم تھی اور خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اس کا عملی نمونہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ قرآن کو راہِ راست کی ضمانت قرار دیتا ہے ”بیشک یہ قرآن سیدھے راستے پر گامزن کرتا ہے“ (سورہ بنی اسرائیل) اور دوسری طرف آنحضور صلى الله عليه وسلم کی سیرت مبارکہ کو نمونہٴ زندگی بنالینے کی تلقین کرتا ہے کہ تمہارے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے مگر اس شخص کے لئے جو اللہ اور قیامت پر یقین رکھتا ہے اور کثرت سے ذکر خدا کرتاہے۔ (سورہ احزاب)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس قرآن کی تعلیم فرماتے اپنی عملی زندگی میں اس کو قابل تقلید بناکر پیش کرتے قرآن کے بعد اگر کوئی چیز ہے تو وہ صاحب قرآن کی سیرت مبارکہ ہے پیغمبر اسلام کی سیرت واخلاق کی عظمت کے آگے بڑے بڑے حکماء اور معلّمین سرنگوں نظر آتے ہیں اور ان کے قول وعمل کی صداقت سے سند حاصل کیے بغیر دنیا کا کوئی انسان اخلاق کے اعتبار سے بڑا نہیں بن سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مثالی نمونہ بناکر دنیا میں بھیجا ہے اور لوگوں کو یہ ہدایت دی ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ، ہر دور، ہر حال میں اس نمونہ کے مطابق خود بھی بنیں اور دوسروں کو بنانے کی فکر کریں۔ گویا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق و سیرت ایک حیثیت سے عملی قرآن ہے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی دنیائے بشریت کے لئے اسوئہ حسنہ اور الٰہی فیوض و ہدایات و احکام کا ایسا مفید وگہرا چشمہ ہے جو کبھی خشک ہونے والا نہیں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی نورخداوندی کا ایسا مرکز ہے جہاں تاریکی کا گذر نہیں اور مکروفریب کی تاریکیوں سے بھری ہوئی اس دنیا میں زندگی بسر کرنے والے لوگ اگر سیرت نبوی کو اپنے لئے نمونہٴ عمل بنالیں تو ان کی زندگی بھی غیرمعمولی نور سے منور و مالامال ہوجائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں پاکیزہ زندگی کے تمام پہلوؤں کی مثالیں اور نمونے موجود ہیں امن وآشتی کی جھلکیاں ہوں تو صلح ومصالحت کی بھی، دفاعی حکمت عملی کی بھی اور معتدل حالات میں پرسکون کیفیات کی بھی، اپنوں کے واسطہ کی بھی اور بے گانوں سے تعلقات کی بھی معاشرت و معاملات کی بھی اور ریاضت و عبادات کی بھی۔ عفوو کرم کی بھی اور جودوسخا کی بھی تبلیغ و تقریر کی بھی اور زجر و تحدید کی بھی ان جھلکیوں میں جاں نثاروں کے حلقے بھی ہیں اور سازشوں کے نرغے بھی ، امیدیں بھی ہیں اور اندیشے بھی گویا انسانی زندگی کے گوشوں پر محیط ایک ایسی کامل اور جامع حیات طیبہ ہے جو رہتی دنیا تک پوری انسانیت کے لئے رہبر و رہنما ہے۔
اگر کوئی آپ کی مکمل زندگی کا مطالعہ کرکے عمل پیرا ہوجائے تو بلاشبہ زندگی میں چارچاند لگ سکتے ہیں اور عمل کرنے والے دنیا و آخرت میں قابل رشک بن سکتی ہے کاش ہم رسول اللہ کی سیرت مبارکہ پر عمل پیراہوجائیں۔
____________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 5، جلد: 92 ، جمادی الاولی 1429 ہجری مطابق مئی 2008ء